لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے تصدیق کی ہے کہ سابق فوجی آمر جنرل (ر) پرویز مشرف اور ان کی حکومت کے وزیر داخلہ آفتاب شیر پائو نے پاکستانی شہریوں کو امریکہ اور دیگر غیر ممالک کے حوالے کرنے کے عوض ڈالر میں رقوم وصول کی تھیں۔ مطلوب پاکستانیوں کو خفیہ طریقے سے امریکہ اور دیگر غیر ملکوں کو حوالے کیا گیا جب کہ اس حوالے سے پاکستان اور غیر ممالک کے درمیان کوئی معاہدہ بھی موجود نہیں تھا۔ ڈالر کے عوض پاکستانیوں کو امریکہ اور غیر ممالک کے حوالے کرنے کے خبر اگرچہ اہلِ پاکستان کے لیے کوئی انشاف نہیں ہے لیکن یہ خبر اس ظالمانہ عمل کی باضابطہ تصدیق ضرور ہے۔ خود جنرل (ر) پرویز مشرف بھی اپنی کتاب میں اس ’’جرم‘‘ کا اعتراف کر چکے ہیں۔ لاپتا افراد کمیشن کے سربراہ جسٹس (ر) جاوید اقبال نے یہ انکشاف قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے انسانی حقوق کے اجلاس میں بریفنگ دیتے ہوئے کیا۔ انہوں نے اپنی بریفنگ میں بتایا کہ سابق وزیر داخلہ اور رکن قومی اسمبلی آفتاب احمد خان شیر پائو کی جانب سے چار ہزار پاکستانیوں کو غیر ملکیوں کے حوالے کیا گیا جب کہ سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف نے بھی پاکستانیوں کو غیر ملکوں کے حوالے کرنے کا اعتراف کیا۔ جسٹس (ر) جاوید اقبال کے مطابق جنرل (ر) پرویز مشرف اور آفتاب شیر پائو کے اقدامات کی تحقیقات کروانی چاہیے تھی اور پوچھنا چاہیے تھا کہ آخر کس قانون کے تحت پاکستانیوں کو غی رملکیوں کے حوالے کیا گیا؟ لیکن انکے خلاف پارلیمان میں آواز نہیں اٹھائی گئی۔ جسٹس جاوید اقبال نے کہا کہ ایک پاکستانی کو کسی غیر ملک کے حوالے کیسے کیا جاسکتا ہے۔ ملک میں پارلیمان‘ آئین اور عدالتیں ہونے کے باوجود کیسے کسی پاکستانی کو دوسرے ملک کو دیا گیا؟
لاپتا افراد کا مسئلہ پاکستان کی تاریخ کا ایک بہت بڑا المیہ ہے۔ اس مسئلے کا تعلق نائن الیون کے پراسرار واقعے کے بعد افغانستان پر امریکی حملے سے جڑا ہوا ہے۔ امریکہ نے بغیر کسی شواہد کے نیویارک کی جڑواںعمارتوں پر ہوائی جہازوں کے ٹکرانے کا ذمے دار افغانستان میں پناہ گزیں اسامہ بن لادن اور الاقاعدہ کو قرار یا۔ افغان حکومت یعنی امارات اسلامیہ افغانستان (طالبان) کو دہشت گردوں کو پناہ دینے کا مجرم قرار دے کر افغانستان پر حملے کا فیصلہ کیا۔ ایک دھمکی پر جوہری طاقت کے حامل ملک کی سیاسی قیادت ڈھیر ہوگئی‘ اس لیے کہ اس وقت ایک بزدل اور ضمیر فروش جنرل پرویز مشرف حکمران تھا۔ اس نے کسی سے مشورہ نہیں کیا اور پورے پاکستان کو امریکی حکومت‘ پینٹا گون‘ سی آئی اے‘ ایف بی آئی اور متعدد خفیہ ایجنسیوں کے حوالے کر دیا گیا۔ قوم کی بیٹی عافیہ صدیقی کا المیہ بھی اسی فیصلے سے جڑا ہوا ہے۔ امریکہ نے اسی وقت اس جنگ کو دہشت گردی کے خاتم کی عالمی جنگ کا نام دیا تھا۔ ہ اسی وقت سے یہ کہہ رہے ہیں کہ یہ جنگ امریکی استعماریت‘ سامراجیت کی وہ جنگ ہے جس کا ہدف پاکستان کی جوہری طاقت‘ اس کی پشت پر نظریہ پاکستان یعنی نظریہ اسلام ہے امریکہ اور مغرب نے پاکستان کے جوہری بم کو بلاوجہ ’’اسلامی بم‘‘ کا نام نہیں دیا تھا۔ اس دن کے بعد سے دہشت گردی کے خاتمے کی جنگ عملاً پاکستان میں دہشت گردی کے فروغ کا سبب بن گئی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ امریکہ کو لاجسٹک سپورٹ کے نام پر پاکستان کی خود مختاری سے دست برداری اختیار کر لی گئی اور امریکی خفیہ ایجنسیوں کو کھلی چھوٹ دے دی گئی۔ ہم اس تناظر میں اس بات کو نظر انداز نہیں کرسکتے کہ عالمی سطح پر بھارت اور اسرائیل امریکہ کے خصوصی اتحادی ہیں۔ امریکی پردے میں بھارت اور اسرائیل کی خفیہ ایجنسیوں کی بھی مداخلت بڑھ گئی اور کہیں فرقہ واریت کی بنیاد پر‘ کہیں لسانیت اور علاقائی بنیادوں پر دہشت گردی‘ تخریب کاری اور ٹارگٹ ملنگ کا بازار گرم ہوا‘ اسی کے بع سے شہریوں کو پراسرار طور پرغائب کرنے کا سلسلہ گرم ہوا۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ پاکستان میں دہشت گردی بہت بڑا مسئلہ بن چکا تھا اس وجہ سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے قوم نے انسانی حقوق کی پامالی کے واقعات سی آنکھیں بند کیں لیکن کیا پاکستان کو سلامتی اور تحفظ کی ضمانت حاصل ہوئی؟ ایبٹ آباد اور سلالہ پر امریکی حملے اور میمو گیٹ جیسے سانحات کے پس پشت جنرل (ر) پرویز مشرف کے فیصلے کے بد اثرات و نتئاج کو دیکھا جاسکتا ہے۔ نقیب اللہ محسود کی ماورائے عدالت قتل نے بھی اس حقیقت کا انکشاف کیا ہے کہ ہماری ملکی ایجسنیوں نے بھی سینکڑوں بے گناہ افراد کو بغیر کسی تفتیش کے زیر حراست بھی رکھا اور جعلی مقابلوں میں قتل کردیا۔ ظاہر سی بات ہے کہ ظلم سے عدل قائم نہیں ہوسکتا۔ اس معاملے پر سب کا متفقہ مؤقف یہ ہے کہ جس نے جرم کیا اسے عدالتوں کے سامنے پیش کیا جانا چاہیے اور قرار واقعی سزا دینی چاہیے لیکن اس صورت حال نے قومی المیے کی شکل اختیار کرلی ہے۔ اس المناک صورتِ حال کی وجہ سے عدالت عظمیٰ نے اس کا نوٹس لیا تھا اور ایک کمیشن مقرر کیا اور جسٹس جاوید اقبال کو اس کا سربراہ مقرر کیا۔ اس کمیشن نے قابل قدر کام کیا ہے لیکن یہ مسئلہ کلی طور پر حل نہیں ہوسکا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کی پوری تفصیلات بھی قوم کے سامنے نہیں ہیں۔ ایک طرف انسانی حقوق کی خلاف ورزی کے واقعات کو غی رملکی قوتیں پاکستان کے خلاف استعمال کر رہی ہیں جس سے مزید انتشار پیدا ہو رہا ہے۔ انسدادِ دہشت گردی کے نام پر ریاستی اداروں کو ’’لائسنس ٹو کِل‘‘ نہیں دیا جاسکتا۔ یہ تصور امریکہ‘ یورپ اور مغرب سفید فام نسل پرستوں کی بہمیت و درندگی کا دیا ہوا ہے۔ جنرل (ر) پرویز مشرف کی پالیسی کا یہ نتیجہ نکلا ہے کہ امریکہ نے خود پاکستان‘ اس کی فوج اور اس کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کو دہشت گردوں کا سرپرست قرار دیا ہے۔ ایف اے ٹی ایف میں پاکستان کو واچ لسٹ میں ڈال دیا گیا ہے۔ اس پس منظر میں بھی یہ امر ضروری ہے کہ جو افراد لاپتا ہیں‘ ان کے بارے میں مکمل تحقیق کی جائے‘ بے گناہ افراد کو رہا کیا جائے‘ مجرموں کو پورے ثبوت و شواہد کے ساتھ سزا دی جائے۔ اسی طرح ملکی سلامتی‘ یک جہتی اور تحفظ کی ضمانت قائم ہوسکتی ہے۔