ملتان سے ایک خط خلیجی ملک سے ہوتا ہوا پہنچا ہے۔ ملتان کے جناب خادم علی ہاشمی براہِ راست ہمیں بھیج دیتے۔ بہرحال یہ عبدالمتین منیری، بھٹکل کے ذریعے ہم تک آیا ہے۔ عبدالمتین منیری نے اطلاع دی ہے کہ ملتان سے بزرگ محقق و مصنف خادم علی ہاشمی صاحب کا تبصرہ آپ کے کالم پر موصول ہوا، جسے آپ کی اطلاع کے لیے فارورڈ کیا جارہا ہے۔
خادم علی ہاشمی لکھتے ہیں:
’’اطہر ہاشمی صاحب کا کالم میرے جیسے بوڑھے طوطوں کے لیے بھی سبق آموز ہے۔ بہت سے الفاظ جنہیں یہ خاکسار استعمال کرتا آیا ہے، اُن کی اصلاح ہوجاتی رہی ہے۔ آپ کے زیر بحث کالم کے حوالے سے عرض ہے کہ ’’قمیص‘‘ کے لیے پنجابی، سرائیکی اور سندھی میں یہ لفظ ’’قمیض‘‘ ہی بول چال میں آتا ہے۔ اس لیے اگر کسی نے یہ کہہ دیا ہے کہ یہ لفظ شاید بعد میں لغت کا حصہ بن جائے تو ایسا ماضی میں بھی ہوتا آیا ہے اور اب جو پاکستان میں علاقائی زبانوں کے زیراثر اور ہندوستان میں ہندی کے اثر کے تحت نئے الفاظ اردو میں شامل ہوتے جارہے ہیں، ان کے مستقبل قریب میں لغت کا حصہ بننے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔‘‘
محترم، ہم خود بار بار لکھ چکے ہیں کہ زبان وہی زندہ رہتی ہے جس میں انجذاب کی صلاحیت ہو، یعنی وہ نئے نئے الفاظ کو قبول کرتی رہے اور اس میں توسیع ہوتی جائے۔ اردو تو یوں بھی کئی زبانوں سے مل کر بنی ہے، چناں چہ آئندہ بھی یہ سلسلہ بند نہیں ہوگا۔ لیکن ہر زبان میں دوسری زبان کے الفاظ کو اپنانے کا کوئی قاعدہ، کلیہ ضرور ہوتا ہے۔ عربی زبان بہت وسیع ہے، اس کے باوجود فارسی کے الفاظ شامل کیے گئے ہیں جیسے ’’لگام‘‘ کو عربی میں ’’لجام‘‘ کردیا گیا ہے، کشکول فارسی کا لفظ ہے (کجکول اورکچکول) لیکن عربی میں آگیا ہے مفہوم بدل کر۔ اب کشکول بیاض یا طالب علم کی نوٹ بُک کے معنوں میں آتا ہے جس میں مختلف نوعیت کی تحریریں ہوں، جیسے طالب علم کی نوٹ بُک میں کہیں تاریخ کے نوٹ ہوں، کہیں جغرافیہ یا ادب کے۔ کشکول میں بھی تو ایسا ہی ہوتا ہے کہ فقیر کو جس نے کچھ دیا وہ کشکول میں ڈال دیا۔ عربوں نے تو انگریزی الفاظ کو بھی معرِب کرلیا ہے جیسے موٹرز کو ’’مواتیر‘‘۔ جب عربی جیسی وسیع زبان میں یہ ہورہا ہے تو اردو تو سب سے کم سن زبان ہے۔ فارسی میں بھی نہ صرف عربی بلکہ انگریزی کے الفاظ شامل ہوگئے ہیں، مثلاً بینک، پوسٹ (ڈاک) کو پُست کرلیا گیا۔ اگر پوست کرتے تو پابندی لگ جاتی، ورنہ کھال کے معنوں میں (گوشت، پوست) لیا جاتا۔ اردو کو ابھی بہت وسعت درکار ہے، اس کے لیے ہم نے کئی بار تجویز پیش کی ہے کہ مقامی زبانوں کے الفاظ شامل کرلیے جائیں۔ ویسے ٹھیٹ پنجابی اور سرائیکی کے سمجھے جانے والے بہت سے الفاظ اپنی اصل میں ہندی ہیں، کیونکہ اس خطے میں زبانوں کی ماں سنسکرت ہے۔ اس کے الفاظ ہندی، اردو، پنجابی اور سندھی میں آکر انہی کے ہوگئے۔ مثالیں تو بہت سی ہیں جن کی تلاش میں لغات سے مدد لی جاسکتی ہے۔ اِس وقت ایک مثال ’’کھڑاگ‘‘ کی ذہن میں آئی ہے۔ یہ لفظ اصل میں ’’کھٹ راگ‘‘ ہے جو اپنے املا کی وجہ سے ’کھ۔ ڑاگ‘ پڑھا جانے لگا ہے۔ پنجابی کی ایک مشہور فلم تھی ’’جٹ دا کھڑاگ‘‘۔ سنسکرت میں ’کھٹ‘ چھے کو کہتے ہیں، یعنی ’’چھے راگ‘‘۔ ایسا راگ جس میں کئی راگنیوں کے سُر ملے ہوئے ہوں۔ ظفر کا شعر ہے:
مطرب ایسا کچھ سنا جس سے کہ ہو دل کو کشود
نیک سن کر ہی ترا کھڑاگ آئے ہم تو ہیں
(یہاں ’نیک‘ کا مطلب ہے خوب، اچھا وغیرہ، جیسے نیک بدعہدی کہ بے مامی روی) ویسے اردو میں اس کا مطلب ہے: بے ہودہ، جھوٹی باتیں، جھگڑے کی باتیں۔ کھٹ راگ پھیلانا: جھگڑا پھیلانا، جھنجھٹ کرنا۔ یہ شاید پہلے بھی لکھا ہے کہ جن الفاظ میں ’کھ‘، ’ڈھ‘، ’دھ‘ وغیرہ آئے، یا ’ڑ‘، ’ٹ‘، ’ڈ‘ ہو وہ عموماً سنسکرٹ یا ہندی کے ہوتے ہیں۔
بات کچھ لمبی ہوگئی اور ہم محترم خادم علی ہاشمی کا شکریہ ادا کرنا بھول گئے کہ وہ ہمارے کالم پڑھتے ہیں۔ ویسے بڈھے تو ہم بھی ہیں، تاہم اس بات سے اتفاق کرنے کو دل نہیں چاہتا کہ جو غلط لفظ بول چال میں آجائے اُس کی تصحیح نہ کی جائے کہ شاید بعد میں لغت کا حصہ بن جائے۔ ایسا کسی زبان میں نہیں ہوتا، اور غلط الفاظ اور املا کی تصحیح جاری رہتی ہے، انگریزی میں بھی۔ اگر اس کلیے کو مان لیا جائے کہ جو نئے الفاظ اردو میں شامل ہوتے جارہے ہیں اُن کے مستقبل قریب میں لغت کا حصہ بننے میں کسی شک کی گنجائش نہیں ہے۔ ایسا ہے تو لغات کی ضرورت ہی ختم ہوجاتی ہے۔ اب جیسے عوام بڑے زوروں سے مونث واحد ہوگئے ہیں، تو کیا یہ فصیح ہوچکا کہ جانے کب اہلِ لغت اس پر اتفاق کرلیں! ایک لفظ ’’غیظ و غضب‘‘ ہے، اور بہت سے لکھنے والے اسے ’’غیض‘‘ لکھتے ہیں۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ غیض بھی عربی کا لفظ ہے اور اردو لغات میں موجود ہے، لیکن اس کا مطلب وہ ہے جو غضب کے ساتھ لگّا نہیں کھاتا۔ کسی بھی زبان کے اُن الفاظ کو ضرور قبول کرلینا چاہیے جن کا متبادل اردو میں نہ ہو۔ ’’ٹارگٹ کلر‘‘ تو عام ہو ہی گیا ہے۔ سرائیکی کا ایک لفظ ’’بھاندا‘‘ ہے جو پنجاب میں بھی عام ہے۔ گزشتہ دنوں ایک اخبار کی سرخی میں یہ لفظ تھا اور اچھا لگا۔ بھاندا کا مطلب ہے: جو اچھا لگے۔ ایسے ہی ہندی کا ایک لفظ ’’بھانویں‘‘ بھی ہے۔ ایک کہاوت ہے: ’’بھانویں سارا پنڈ مرجائے، توں چودھری نہیں بن سکدا‘‘۔ یہ لفظ اردو میں بھی ہے، مثلاً انشا کا یہ شعر:
مرے بھانویں گلشن کو آتش لگی ہے
نظر کیا پڑے خاکِ گل ہائے تر پر
اہلِ پنجاب اسے خاص پنجابی کا لفظ سمجھتے ہیں، لیکن ہندی کا یہ لفظ نہ صرف اردو نثر میں بلکہ شاعری میں بھی موجود ہے۔ نثر میں استعمال دیکھیے ’’یہ دونوں چیزیں رکھی ہیں، بھانویں یہ لو، بھانویں وہ‘‘۔ بھانویں کا مطلب ہے: نزدیک، حسابوں، خواہ، چاہے۔ اس کا ایک مطلب پروا، دل پر اثر بھی ہے۔ قلندر بخش جرأت کا شعر ہے:
دردِ دل سن کے یہ بولا مرے بھانویں ہی نہیں
گر برا حال ہے تیرا تو بھلا مجھ کو کیا
نثر میں دیکھیے ’’ہم ہیں کہ پیار دم دلاسے سے کام نکال رہے ہیں اور وہاں بھانویں نہیں‘‘۔ اسی طرح پنجابی کا عام لفظ ہے بھانڈا یعنی برتن، یہ بھی ہندی سے آیا ہے اور اردو میں مستعمل ہے، لیکن صرف برتن کے معنوں میں نہیں۔ برتن، بھانڈا ساتھ آتے ہیں۔ اسی طرح ’’بھانڈا پھوٹ گیا‘‘ معروف ہے۔ لیکن بھانڈا اور بھانڈ میں کیا تعلق ہے؟
اب برقی ذرائع ابلاغ پر پیش آنے والے لطائف میں سے ایک پڑھ لیجیے۔ ایک بہت بڑے اور جید عالمِ دین جنہوں نے پنجاب سے نکل کر سہارنپور، یو پی کی بڑی درسگاہ مظاہرالعلوم سے تعلیم حاصل کی اور ’’مظاہری‘‘ کو اپنے نام کا حصہ بنایا، ان کے دونوں صاحب زادے دینی اور دنیاوی علوم سے بہرہ ور ہیں اور پی ایچ ڈی تک کرچکے ہیں، گزشتہ دنوں ایک ٹی وی پروگرام میں حکمرانوں کے بیانات پر تنقید کرتے ہوئے فرما رہے تھے ’’یہ نمک پاشی چھڑکنے کے مترادف ہے‘‘۔ نمک کے ’ن‘ کو بالکسر کہنا تو چلیے تلفظ کا مسئلہ ہے، حالانکہ علم کی جس معراج پر یہ فردِ فرید پہنچے ہوئے ہیں وہاں ان کو یہ چھوٹ نہیں دی جاسکتی۔ کچھ لوگ نماز کے ’ن‘ کو بھی زیر کرلیتے ہیں۔ لیکن ’’نمک پاشی چھڑکنا‘‘ کیا ہے؟ یہ تو تلفظ کا معاملہ نہیں۔ ممکن ہے چونکہ لوڈشیڈنگ اور اس پر حکمرانوں کے بیانات گرما گرمی پیدا کررہے ہیں اس لیے صرف نمک پاشی سے کام نہ چلا ہو تو چھڑکائو بھی ضروری سمجھا، تاکہ کوئی بچ کر نہ نکل سکے۔ ہم یہ بدگمانی تو نہیں کرسکتے کہ ایسے عالم فاضل کو پاشی کا مطلب نہیں معلوم ہوگا۔ وہ ’’آب پاشی چھڑکنا‘‘ بھی کہتے ہوں گے۔ چلیے، ہم ’’پاش‘‘ کا مطلب لغت میں دیکھ کر بتادیتے ہیں۔ یہ فارسی کا لفظ ہے اور پاشیدن کا حاصل مصدر ہے اور امر کا صیغہ ہے۔ مرکبات میں چھڑکنے والا جیسے آب پاش، گلاب پاش۔ اور پاشی کا مطلب ہے چھڑکنا۔ ہم نے اوپر کہیں ’’فردِ فرید‘‘ کا ذکر کیا ہے۔ ’فرید‘ فرد کی صفت ہے اور مطلب ہے: بے مثل، یکتا۔ قارئین کسی کا نام نہ سمجھ لیں۔ ویسے جن صاحب نے نمک پاشی چھڑکا ہے وہ یقینا یکتا ہیں۔
ایک ٹی وی پروگرام میں ایک صاحب، جن کی تصویر کے نیچے ماہرِ قانون لکھا ہوا تھا، حکومت کے ’’کار پروازوں‘‘ کا شکوہ کررہے تھے۔ ایسی خبریں نظر سے گزری ہے کہ بعض ممالک نے ایسی کاریں ایجاد کرلی ہیں جو پرواز کرتی ہیں، مگر پاکستان میں ابھی ایسی کوئی پیش رفت نظر نہیں آرہی کہ یہاں بھی کاریں اُڑیں۔ کچھ لوگ ہیں جو ازخود اونچی ہوائوں میں اُڑ رہے ہیں۔ ان ماہرِ قانون سے پینل میں موجود دیگر افراد نے بھی نہیں پوچھا کہ یہ ’’کارپرواز‘‘ کیا ہے؟ شاید وہ بھی اسے صحیح سمجھتے ہوں گے۔ لیکن ’کار پرداز‘ کہنے میں کیا قباحت تھی! اب کہیں کار پرواز، فتنہ پرواز، تفرقہ پرواز ہی صحیح نہ سمجھا جانے لگے۔