نئے صوبے کی بحث اور جنوبی پنجاب

پاکستان میں نئے صوبوں کی بحث ہمیشہ سے رہی ہے، لیکن یہ بحث عمومی طور پر تقسیم کا سبب بھی بنی ہے،اس کا ایک سبب یہ ہے کہ طاقتور اشرافیہ اور حکمران طبقات نئے صوبوں کی بحث کو اپنی سیاسی کمزوری کا سبب سمجھتے ہیں۔ جب بھی نئے صوبوں کی بحث سامنے آتی ہے، طاقتور حکمران طبقہ اس پر ٹال مٹول یا جذباتی طرز کی پالیسی اختیار کرکے معاملات کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ جو لوگ نئے صوبوں کے قیام کے حامی ہیں اُن میں بھی زیادہ تر وہ سیاست دان شامل ہیں جو پہلے ہی بڑی سیاسی جماعتوں سمیت اقتدار میں شامل جماعتوں کی سیاست میں حصہ دار رہے ہیں۔ آج بھی ان میں سے بیشتر لوگ انھی بڑی جماعتوں کی سیاست کے قریب سمجھے جاتے ہیں۔ نئے صوبوں کے حامی افراد یہ سمجھتے ہیں کہ وہ لوگ جو بڑی سیاسی جماعتوں کا حصہ بن کر نئے صوبوں کی بحث کو بھول گئے ہیں وہی ہمارے اصل دشمن بھی ہیں۔ لیکن اس کے باوجود نئے صوبوں کی بحث انھی لوگوں کے گرد گھومتی نظر آتی ہے جو روایتی اور مقبول جماعتوں کا حصہ رہے ہیں۔
2018ء کے انتخابات کے تناظر میں ملک میں نئی سیاست، نئی صف بندی، نئے اتحاد اور پرانے مسائل کو نئے رنگ اور نئے نعروں کی بنیاد پر سامنے لانے کی کوشش کی جارہی ہے۔ سیاسی جماعتیں اگر ملک میں منظم اور ایک واضح منصوبہ بندی کے فقدان کا شکار ہوں تو ان کو عوامی سطح پر اپنی سیاسی بقا اور ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے کچھ جذباتی فیصلے کرنے پڑتے ہیں۔ اس طرز کے فیصلے عمومی طور پر انتخابی مہم تک ہی محدود رہتے ہیں، اور انتخابات کے بعد یہ فیصلے سیاسی جماعتوں کی ترجیحات سے غائب ہوجاتے ہیں۔ اس میں ایک مسئلہ جنوبی کا بھی ہے۔ جنوبی پنجاب کی سیاست میں کئی دہائیوں سے نیا صوبہ بنانے کی بحث جاری تھی، اب پھر اس بحث میں نئے رنگ بھرنے کی کوشش کی جارہی ہے، تاکہ اس نعرے کو بنیاد بناکر ووٹروں کو اپنی طرف متوجہ کیا جاسکے اور انتخابی سیاست میں اس نعرے کا کوئی سیاسی فائدہ بھی اٹھایا جاسکے۔
کچھ برسوں سے مقامی جماعتوں کے ساتھ ساتھ قومی جماعتیں پیپلز پارٹی، مسلم لیگ(ن)، مسلم لیگ(ق)، تحریک انصاف اور جماعت اسلامی بھی اس بحث کا حصہ بن گئی ہیں۔ پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومت کے دور میں نئے صوبے کی اس بحث میں خاصی شدت آئی، لیکن عدم اتفاق کی بنا پر اس معاملے میں کوئی بڑی پیش رفت ممکن نہ ہوسکی۔ جنوبی پنجاب کے سیاست دان عمومی طور پر اپنی سیاسی ناکامیوں، مقامی محرومیوں، عدم ترقی و خوشحالی، وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم، سیاسی، سماجی اور معاشی عدم انصاف جیسے مسائل کو ’’تختِ لاہور‘‘ کی سیاست سے جوڑتے ہیں۔ مقامی سیاست دان جو حکومتوں میں وزیراعظم، وزیراعلیٰ اور دوسری اہم وزارتوں پر بھی رہے، اپنی ذاتی اور داخلی ناکامی کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں۔ حالانکہ جو وسائل جنوبی پنجاب کے لیے مختص کیے گئے، چاہے وہ کم ہی کیوں نہ ہوں، وہ کہاں گئے، اور کیوں مقامی ترقی کے لیے استعمال نہ ہوسکے؟ اس کی بازپرس بھی ہونی چاہیے۔ حالات کا تجزیہ سیاسی تنہائی میں نہیں ہونا چاہیے بلکہ مقامی قیادت کی خامیوں، غلطیوں اور داخلی کمزوریوں سمیت کرپشن اور بدعنوانی کی سیاست پر بھی غور و فکر کیا جانا چاہیے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ بڑی جماعتوں اور ان سے منسلک سیاست دانوں کو محض انتخابی سیاست کے دوران ہی نئے صوبوں کی کیوں یاد آتی ہے؟ جب یہ لوگ اقتدار میں حصہ دار ہوتے ہیں اُس وقت یہ بحث کیوں پسِ پشت ڈال دی جاتی ہے!
اس میں کوئی شبہ نہیں کہ جنوبی پنجاب کی سیاسی، سماجی، معاشی اور انتظامی محرومیوں میں خاصی حقیقت ہے۔ اس حقیقت کو جانچنے کے لیے ان علاقوں کے سرکاری اعداد و شمار ہی کافی ہیں۔ لیکن یہ تسلیم کیا جانا چاہیے کہ مقامی عوامی نمائندے اور اہم عہدوں پر فائز بڑے سیاست دان بھی جنوبی پنجاب کی محرومی کو ختم کرنے کے بجائے اس میں اضافہ کرنے میں زیادہ حصہ دار رہے ہیں۔ یہ لوگ اپنی ناکامی کو قبول کرنے کے بجائے عملاً الزام تختِ لاہور پر لگاکر اپنا دامن بچانا چاہتے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ تختِ لاہور بھی جنوبی پنجاب کی محرومی کا براہِ راست ذمے دار ہے، لیکن یہ ذمے داری دو طرفہ ہے، اور اس کو ہر سطح پر قبول بھی کیا جانا چاہیے تاکہ حالات کا بہتر تجزیہ ہوسکے۔ کیونکہ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے لوگ بھی وافر ترقیاتی بحٹ کے باوجود اپنے علاقے کو ترقی کی راہ پر گامزن نہیں کرسکے ہیں۔
اب انتخابات کے تناظر میں جنوبی پنجاب کی سیاست میں ایک بار پھر نیا صوبہ یعنی جنوبی صوبے کا پنجاب کا نعرہ لگاکر نئی صف بندی سامنے آئی ہے۔ وہاں سے تعلق رکھنے والے دس سے زیادہ ارکان قومی اور صوبائی اسمبلی نے ’’جنوبی پنجاب صوبہ محاذ‘‘ کے نام سے ایک نیا اتحاد تشکیل دیا ہے۔ اس اتحاد کے سربراہ خسرو بختیار اور سیکرٹری طاہر بشیر چیمہ ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ آنے والے دنوں میں دیگر جماعتوں سے تعلق رکھنے والے ارکان بھی اس اتحاد کا حصہ بنیں گے، اور یہ اتحاد کسی جماعت کے بجائے اسی پلیٹ فارم سے انتخابی عمل کا حصہ بنے گا۔ بہت سے سیاسی تجزیہ نگار اس اتحاد کو بڑی سیاسی جماعتوں کے خلاف سازش اوراسٹیبلشمنٹ کی سیاست سے جوڑ رہے ہیں۔ خود سابق وزیراعظم نوازشریف نے بھی اس کھیل کو اپنی جماعت کی حکومت اور انتخابات کے نتائج پر اثرانداز ہونے کا کھیل قرار دیا ہے۔ اس حوالے سے بہت سے لوگ سوال اٹھا رہے ہیں کہ اچانک ان ارکانِ اسمبلی کو نیا صوبہ بنانے کا خیال کیوں آگیا، اور یہ سب لوگ کس کے اشارے پر اس نئی بحث کو چھیڑ رہے ہیں؟
جنوبی پنجاب میں نئے صوبے کی حالیہ بحث میں کس حد تک سنجیدگی ہے، اس کا اندازہ اس امر سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ جو لوگ اس اتحاد کے نام پر سامنے آئے ہیں انہوں نے پچھلے پانچ سال اسمبلی میں اس پر کوئی مؤثر آواز نہیں اٹھائی۔ انتخابی مہم کے تناظر میں اب دیگر بڑی جماعتوں کو بھی یہ نعرہ لگانا پڑے گا اور یہ ممکن نہیں ہوگا کہ کوئی جماعت انتخابی مہم میں اس نعرے سے صرفِ نظر کرسکے۔ یہی وجہ ہے کہ فوری طور پر مسلم لیگ(ن) سمیت سب جماعتوں نے اس کی حمایت کی ہے، مگر یہ سب کچھ کیسے ممکن ہوسکے گا؟ کیوں کہ اس کا کوئی ہوم ورک کسی کے پاس موجود نہیں۔ سیاسی جماعتوں کا المیہ یہ ہے کہ ان کے پاس کوئی ٹھوس منصوبہ نہیں ہوتا، اور نہ ہی اس طرز کے حساس معاملات پر سنجیدہ نوعیت کی کوئی کوشش نظر آتی ہے جس کا مقصد مسئلے کا حل تلاش کرنا ہو۔
ہماری انتخابی سیاست کا المیہ یہ ہے اس میں عقل وفہم کے مقابلے میں جذباتیت کو بہت زیادہ فوقیت حاصل ہے۔ سیاسی جماعتیں عمومی طور پر جذباتی نعروں کی بنیاد پر ووٹروں کا سیاسی استحصال کرتی ہیں۔ اس لیے لگتا یہ ہے کہ اس نعرے کا مستقبل بھی ماضی کے تجربات سے مختلف نہیں ہوگا۔ اصولی طور پر نئے صوبے بنانے کی بحث بے معنی نہیں، نئے صوبوں کا قیام وقت کی ضرورت ہے، اور اس بحث کو فکری اور علمی بنیادوں پر آگے بڑھاکر مثبت پیش رفت کی جانی چاہیے۔ اس اہم اور حساس معاملے کو محض ووٹ کے حصول اور کسی کو نیچا دکھانے تک محدود نہیں ہونا چاہیے، وگرنہ کوئی بڑا اتفاقِ رائے سامنے نہیںآسکے گا۔
یقینی طور پر مقامی لوگ اپنی محرومیوں کا خاتمہ چاہتے ہیں اور ان کو بنیادی حقوق اور بہتر سہولیات ملنی چاہئیں۔ اگر ہماری جمہوریت مقامی لوگوں کے مسائل حل نہیں کرسکے گی تو پھر جمہوری اور سیاسی نظام کی ساکھ بھی عوام میں اپنی افادیت اور اہمیت کھو دے گی۔ آج دنیا میں مقامی ترقی کو یقینی بنانے کے لیے مرکزیت کے نظام کو ختم کرکے عدم مرکزیت کے نظام یعنی اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کو یقینی بنانے کے لیے بحث ومباحثہ جاری ہے۔ پیپلز پارٹی کے سابقہ دورِ حکومت میں تمام جماعتوں کے اتفاقِ رائے سے 18 ترمیم منظور ہوئی۔ اس ترمیم کا مقصد وفاق سے صوبوں اور صوبوں سے مقامی سطح پر سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کی منتقلی تھی۔لیکن بدقسمتی سے سابقہ اور موجودہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اس ترمیم کی روشنی میں وہ اقدامات نہیں کیے جو کیے جانے چاہیے تھے۔
یہی وجہ ہے کہ مقامی حکومتوں کے قیام کے باوجود لوگوں کے مسائل مقامی طور پر حل نہیں ہوسکے۔ بات یہ ہے کہ آپ جتنے چاہے صوبے بنالیں، لیکن اگر ہمارا حکمرانی کا نظام مرکزیت کی بنیاد پر کھڑا رہے گا اور ہم مقامی حکومتوں کو آئین کی شق 140-Aکے تحت سیاسی، انتظامی اورمالی اختیارات نہیں دیں گے تو مقامی ترقی کسی بھی صورت میں منصفانہ اور شفاف نہیں ہوسکے گی۔ جنوبی پنجاب کے لوگ مقامی مسائل کو بنیاد بناکر اپنا مقدمہ پیش کرتے ہیں اس کا بھی براہِ راست تعلق مضبوط مقامی حکومتوں کے نظام سے جڑا ہوا ہے۔ جنوبی پنجاب میں عام لوگوں کے سیاسی، سماجی، انتظامی، مالی اور بنیادی سہولتوں پر مبنی مایوس کن اعداد و شمار ہیں اس کی وجہ ہمارا حکمرانی کا نظام ہے جو عملی طور پر مرکزیت کے نظام پر کھڑا ہے۔ نئے صوبوں کی بحث کو اگر روکنا ہے تو اس کا حل مضبوط مقامی نظام ہے جو لوگوں کی ضروریات کو پورا کرسکے۔
میں ذاتی طور پر نئے صوبوں کی بحث کو کسی سازش سے نہیں جوڑتا، کیونکہ یہ ایک حقیقی مسئلہ ہے، اور اگر ہم نے لوگوں کے بنیادی مسائل کو بنیاد بناکر اپنے نظام حکمرانی میں مؤثر تبدیلیاں نہ کیں تو نظام سے لوگ بغاوت یا لاتعلقی اختیار کرلیں گے۔ جو لوگ نئے صوبوں کی بحث کو کسی غداری سے جوڑتے ہیں اُن کو بھی اپنی اصلاح کرنی چاہیے۔ دنیا میں ہر ملک اپنی ضرورت کے تحت نئے صوبے بناتا ہے اور انتظامی امور میں آبادی کے پھیلائو کی بنیاد پر فیصلے بھی کرتا ہے۔ اس لیے اس بحث کو مثبت انداز میں لینا چاہیے، لیکن اس بحث کو محض انتخابی سیاست میں الجھاکر خراب نہ کیا جائے۔ اس پر سنجیدگی سے توجہ دی جانی چاہیے۔ مسئلہ تختِ لاہور یا تختِ ملتان کا نہیں ہونا چاہیے، ہمیں سب علاقوں پر اور بالخصوص اُن علاقوں پر زیادہ توجہ دینی چاہیے جو محرومی کا شکار ہیں۔ کیونکہ جس انداز سے ملک کا سیاسی، سماجی اور انتظامی ڈھانچہ بدل رہا ہے اُسی انداز میں ہمیں اپنے حکمرانی کے انداز کو بھی بدلنا ہوگا، اور وہ تمام جدید طریقے اختیارکرنے ہوں گے جو آج دنیا کی سیاست میں حکمرانی کے تناظر میں اپنی اہمیت اور ساکھ سمیت عوام کی ضرورتوں کو پورا کرنے میں کلیدی کردار ادا کررہے ہیں۔ یہی ہماری ترجیحات کا اہم حصہ ہونا چاہیے۔