سری نگر اور مظفرآباد کے درمیان جاری تجارت پر ہر آن خطرات کے بادل منڈلا رہے ہیں۔ دہلی اور اسلام آباد کے درمیان اعتماد سازی کی خاطر شروع ہونے والی تجارت اب دونوں کے درمیان بداعتمادی کی ایک اور وجہ بن کر رہ گئی ہے۔ دونوں فریق اب کنٹرول لائن عبور کرتے ٹرکوں کو ’’ساقی نے کچھ ملا نہ دیا ہو شراب میں‘‘ کے مشکوک انداز میں دیکھ رہے ہیں، جس کا ثبوت اس تجارت کے حوالے سے پاکستان اور بھارت کے بیک وقت ہونے والے کچھ اقدامات ہیں۔ پاکستان کسٹم کے حکام نے کہا ہے کہ کنٹرول لائن پر غیر قانونی تجارت کی اجازت نہیں دیں گے۔ مقبوضہ کشمیر سے کسٹم ڈیوٹی ادا کیے بغیر آنے والی اشیاء پاکستان کی منڈیوں تک پہنچتی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی بھارت کی قومی تحقیقاتی ایجنسی کی ایک ٹیم نے مقبوضہ کشمیر میں پونچھ میں کنٹرول لائن کے قریب قائم تجارتی سینٹر پر چھاپہ مارکر کچھ دستاویزات قبضے میں لے لیں۔ بھارتی تحقیقاتی ایجنسی کو شک ہے کہ کچھ افراد تجارت کا غلط استعمال کرکے رقوم کا تبادلہ کررہے ہیں۔
پاکستان کی طرف سے ہونے والی سرگرمی کو دیکھا جائے تو یہ تجارت اسمگلنگ کی شکل اختیار کرتی جا رہی ہے۔ کسٹم ڈیوٹی ادا کیے بغیر آنے والی اشیاء ملک کی مارکیٹوں میں پہنچ کر مہنگے داموں فروخت ہوتی ہیں۔ بھارت کی سرگرمی کو دیکھا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ تجارت کے ذریعے بڑی رقوم گردش کررہی ہیں۔ اس طرح دہلی بھی اس تجارت سے ناخوش اور اسلام آباد بھی نالاں دکھائی دے رہا ہے، جبکہ کشمیری تو اس تجارت کا بارہواں کھلاڑی بن کر رہ گئے ہیں، جو اس کے حقیقی فوائد سے یکسر محروم ہیں۔
کشمیر کی کنٹرول لائن پر محدود اور بغیر ویزا، پاسپورٹ کے سفر کی آزادی جنرل پرویزمشرف دور کے ’’پیس پروسیس‘‘ کی آخری نشانیوں میں شامل ہے۔ سفر کی محدود آزادی کچھ ہی عرصے بعد کنٹرول لائن پر محدود تجارت کی صورت میں ایک اور قدم آگے بڑھی تھی، جس کے تحت سری نگر اور مظفر آباد کی مقامی اشیاء کی محدود پیمانے پر تجارت ہونے لگی تھی۔ سفر کی طرح تجارت کی حیثیت بھی علامتی تھی۔ ان اقدامات کو اعتماد سازی کہا گیا تھا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کشمیر کے دو حصوں کے درمیان محدود تجارت پاکستان اور بھارت کے بڑے سرمایہ داروںکی نظروں میں آگئی اور انہوں نے اس محدود تجارت کو اپنے کنٹرول میں لے کر وسعت دینے کی کوشش کی۔ یہی نہیں بلکہ منشیات فروش مافیا نے بھی اس محدود سی آزادی کو ایک امکان کے طور پر استعمال کرنے کی منصوبہ بندی شروع کی، جس کے بعد ان بااثر قوتوں نے انٹرا کشمیر ٹریڈ جیسی محدود اور علامتی تجارت کو پاک بھارت تجارت میں بدل کر اسمگلنگ کے لیے استعمال کرنا شروع کیا۔ اسی طرح منشیات فروشوں کے بین الاقوامی گروہوں نے اس کھڑکی کو منشیات کی اسمگلنگ کے لیے ایک آسان اور محدودراستے کے طور پر دیکھنا شروع کیا۔ کئی بار مظفرآباد سے سری نگر کے لیے جانے والے تجارتی سامان سے لدے ٹرکوں میں منشیات پکڑی گئی، جس کے بعد سے کنٹرول لائن پر تجارت مقامی تاجروں کے ہاتھوں سے نکل کر گھاک کاروباری طبقات کے ہاتھوں میں چلی گئی۔ یہیں سے اس تجارت کے غلط استعمال کا آغاز ہوگیا۔ سری نگر سے بھارتی مصنوعات سے لدے تجارتی سامان لے کر آنے والے ٹرک مظفرآباد میں رکنے کے بجائے سیدھے راولپنڈی کی منڈیوں میں جاکر خالی ہوتے رہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس سامان کے لیے مظفرآباد میں منڈی کا قیام عمل میں لایا جاتا، اور یہاں سے ملک بھر کے تاجر اس سامان کو اپنے شہروں میں لے جاتے۔ منڈی نہ ہونے کے باعث سری نگر مظفرآباد تجارت کا عمل قطعی بے معنی ہوکر رہ گیا۔ اس کی حیثیت اور حقیقت واہگہ بارڈر کے ذریعے ہونے والی تجارت سے چنداں مختلف نہیں۔ جو کشمیری اس تجارت میں منظر پر موجود ہیں اُن کی حیثیت بھی نمائشی ہے۔ ان کے پیچھے بھی حقیقت میں لاہور اور دہلی کا کوئی بااثر تاجر گروہ ہوتا ہے۔
سری نگر مظفرآباد تجارت کا ’’مس یوز‘‘ اس کے مستقبل کے لیے حقیقی خطرہ ہے۔ اس تجارت کو بامعنی بنانے کے لیے اس کے حقیقی مقاصد کی تکمیل لازمی ہوگی۔ تجارت کشمیری تاجروں کے درمیان اور کشمیر کے دو منقسم خطوں تک محدود رہنی چاہیے۔ اس کا بے مقصد حجم بڑھانے سے بین الاقوامی تاجر مافیا کی خواہشات کی تکمیل تو ہوسکتی ہے، مگر اس کا عام کشمیری کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ جب کشمیریوں کو اس کا فائدہ ہی نہیں ہوگا تو وہ تجارت کو ختم کرنے کا مطالبہ کرنے پر مجبور ہوں گے۔