ہمارے ہاں سیاسی اور جمہوری اداروں کے ساتھ گزشتہ سات دہائیوں کے دوران جو کھلواڑ ہوتا رہا ہے عمومی طور پر اس کا ذمے دار جہاں مقتدر قوتوں کو گردانا جاتا ہے، وہیں اس کا الزام نظریۂ ضرورت کی سوچ کو بھی دیا جاتا رہا ہے، لیکن اگر اس معاملے کو بنظرِ غائر خوداحتسابی کی عینک سے دیکھا جائے اور اگر اس ضمن میں باقاعدہ حساب کتاب کیا جائے تو شاید اس کے اصل ذمے دار خود ہمارے سیاست دان اور ان کی پروردہ سیاسی جماعتیں نکلیں گی۔ پاکستان میں سیاسی کلچر کیوں مستحکم بنیادوں پر استوار نہیں ہوسکا ہے۔
اگر ہم اس حوالے سے صرف اپنے حال پر ہی نظر ڈال لیں تو یہ حقیقت آشکار ہونے میں دیر نہیں لگے گی کہ اس صورت حال کی مثال ’’پتّا پتّا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے…‘‘کے مصداق ہے۔ ہمارے ہاں سیاست اور جمہوریت میں لگنے والی نقب سے اور کوئی واقف ہو یا نہ ہو، کم از کم خود سیاست دان اس کی تلخ حقیقت سے بخوبی واقف ہیں۔ ہمیں یہ تمہید 2018ء کے عام انتخابات قریب آنے پر ملک کے طول و عرض میں بالعموم اور خیبر پختون خوا میں بالخصوص مختلف سیاسی جماعتوں اور خاص کر مختلف سیاست دانوں کی شعبدہ بازیوں اور ان کی اپنی اپنی روایتی جماعتوں سے بھرنے والی اڑانوں اور ان کو مختلف جماعتوں کی جانب سے ان کی حیثیت، وزن اور مستقبل میں ان کی جیت کے ممکنہ امکانات کو جانچتے اور پرکھتے ہوئے انہیں دانا ڈالنا ہے، کسی زمانے میں پارٹی بدلنے کو اتنا ہی معیوب سمجھا جاتا تھا جتنا بے غیرتی اور بے وفائی کو معاشرے میں بری نگاہ سے دیکھنے کی روایت تھی، لیکن آج کل یہ سلسلہ ایک منظم دھندے کی شکل اختیار کرچکا ہے ۔ اس ہماہمی میں ایسے کہنہ مشق سیاست دان بھی کسی سے پیچھے رہنے کے روادار نظر نہیں آتے جو صبح ایک اور شام کو دوسری جماعت میں ہوتے ہیں، جن میں بعض تو ایسے بھی ہیں جو بیک وقت دو دو اور تین تین جماعتوں سے رابطوں میں ہوتے ہیں اور اس دوران اچھی آفر یا اچھی پوزیشن کی حامل جماعت سے آفر ملنے کی آس میں کبھی ایک در اور کبھی دوسرے در پر دستک دیتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ خیبر پختون خوا میں ملک بھر کی طرح پارٹیاں بدلنے کی تاریخ ویسے تو خاصی پرانی ہے، لیکن اس ضمن میں جو تیزی ان دنوں دیکھنے میں آرہی ہے وہ یقینا ہم سب کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
پچھلے چند دنوں کے دوران پارٹیاں بدلنے کا اصل مقابلہ تو دو روایتی حریف جماعتوں مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی میں نظر آرہا ہے، لیکن اب اس دوڑ میں دیگر جماعتیں بھی شامل نظر آرہی ہیں۔ پارٹیاں بدلنے کے اس موسم میں زیادہ تر پنچھیوں کی اڑان پی ٹی آئی کی طرف ہے جس نے حال ہی میں پشاور سے مسلم لیگ (ن) کی دو اہم ترین وکٹیں گراکر جہاں اپنی پوزیشن خاصی بہتر کی ہے، وہیں اس پیش رفت سے پی ٹی آئی کم از کم خیبر پختون خوا میں مسلم لیگ (ن) پر نفسیاتی برتری حاصل کرنے میں بھی کامیاب نظر آتی ہے۔ پی ٹی آئی نے پشاور سے پے درپے ارباب عثمان خان، ناصر خان موسیٰ زئی اور ارباب وسیم کو اپنی صفوں میں شامل کرکے سیاسی حلقوں کو یقینا ایک بڑا سرپرائز دیا ہے۔ واضح رہے کہ ارباب عثمان خان نے جو اے این پی کے سابق صوبائی راہنما اور متعدد مرتبہ صوبائی وزیر رہنے والے مرحوم ارباب ایوب جان کے فرزند اور سیاسی جانشین ہیں، کچھ عرصہ قبل آصف علی زرداری سے ملاقات کرکے پیپلزپارٹی میں شمولیت اختیار کی تھی، لیکن انہوں نے پیپلزپارٹی میں ابھی اپنی سیاسی عدت بھی پوری نہیں کی تھی کہ وہ پی ٹی آئی کو سدھار گئے ہیں۔ اس طرح وہ ایک سال سے بھی کم عرصے میں پارٹیاں بدلنے کی ہیٹ ٹرک کرچکے ہیں۔ اسی طرح مسلم لیگ(ن) کے ساتھ بہت عرصے تک وفادار رہنے والے اور گزشتہ سال این اے 4 پشاور پر ہونے والے معرکہ آرا ضمنی الیکشن میں پی ٹی آئی کے امیدوار کو ٹف ٹائم دینے والے مسلم لیگ(ن) کے صوبائی سیکریٹری اطلاعات اور امیر مقام کے دستِ راست سمجھے جانے والے ناصر خان موسیٰ زئی اور پشاور سے مسلم لیگ(ن) کے اکلوتے رکن صوبائی اسمبلی ارباب وسیم کی بنی گالا میں عمران خان سے ملاقاتوں کے دوران مسلم لیگ (ن) کو خیرباد کہتے ہوئے پی ٹی آئی جوائن کرنے کے اعلانات نے بھی اگر ایک طرف بہت سوں کو حیران کردیا ہے تو دوسری جانب امیرمقام کا اس سیاسی جھٹکے پر اب تک کوئی ردعمل نہ آنے کے بارے میں بھی طرح طرح کی چہ میگوئیاں جاری ہیں کہ آیا مسلم لیگ(ن) کے ان دونوں دیرینہ راہنمائوں کو کس چیز نے اپنی وفاداریاں تبدیل کرنے پر مجبور کیا ہے۔ پی ٹی آئی کے بارے میں یہ اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں کہ اس کی جانب سے دیگر جماعتوں کے ایسے وابستگان کا شکار کیے جانے کے لیے جال پھیلائے جا رہے ہیں جن کی اپنے حلقوں میں سیاسی پوزیشن کے استحکام کے ساتھ ساتھ سیاسی ساکھ بھی بہتر ہے۔ اس ضمن میں ایسے پرانے کھلاڑیوں کو ترجیح دی جارہی ہے جو نسبتاً جوان، پڑھے لکھے اور کسی حد تک غیر متنازع ہیں۔ اس مہم کی قیادت وزیراعلیٰ پرویزخٹک کررہے ہیں جن کو نہ صرف وفاداریاں تبدیل کرنے اور کرانے کا وسیع تجربہ حاصل ہے ۔
سیاسی مبصرین کا دعویٰ ہے کہ پی ٹی آئی کی اس مہم کے پیچھے جہاں پرویزخٹک کی جانب سے پارٹی پر اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے زیادہ سے زیادہ ہم خیال افراد کو اسمبلی میں پہنچا کر مستقبل میں وزارتِ اعلیٰ کے لیے اپنی پوزیشن مستحکم کرنے کی سوچ کارفرما ہے، وہیں وہ اپنی اس کارکردگی کے ذریعے خود کو عمران خان کی نظروں میں بھی مزید معتبر بنانے کے متمنی ہیں۔
دوسری جانب مسلم لیگ(ن) جو پارٹی وفاداریاں تبدیل کرنے والوں کو اپنی صفوں میں جگہ دینے کے لیے پی ٹی آئی کے ساتھ مسابقت کی دوڑ میں شامل تھی اب اس کے چراغوں میں وہ روشنی نظر نہیں آتی جو کچھ عرصہ پہلے تک نظر آرہی تھی، البتہ پچھلے دنوں شہبازشریف کے بطور صدر مسلم لیگ(ن) پشاور کے پہلے دورے کے موقع پر پرویزخٹک کے آبائی ضلع نوشہرہ سے پی ٹی آئی کی ایک وکٹ گراتے ہوئے رکن قومی اسمبلی سراج محمد خان کا مسلم لیگ(ن) میں شامل کیا جانا اس امر کا ثبوت ہے کہ مسلم لیگ(ن) اس مقابلے سے ابھی پوری طرح آئوٹ نہیں ہوئی ہے۔ وفاداریاں تبدیل کرنے کے اس موسم میں اگر بحیثیتِ مجموعی کوئی جماعت زیادہ خسارے کا شکار نظر آتی ہے تو وہ قومی وطن پارٹی ہے، جس کے اب تک چار ارکانِ صوبائی اسمبلی اسے داغِ مفارقت دے چکے ہیں اور باقی ماندہ میں سے بھی اکثر گزشتہ ماہ ہونے والے سینیٹ کے الیکشن میں اپنی پارٹی سے غداری کے مرتکب ہوچکے ہیں جس کے باعث اب سینیٹ میں اس کی کوئی نمائندگی نہیں ہے۔
حرفِ آخر یہ کہ سیاسی وفاداریوں کی تبدیلی کا یہ عمل ویسے تو آئندہ انتخابات کا شیڈول جاری ہونے اور ٹکٹوں کی تقسیم کے مرحلے تک جاری رہے گا، لیکن اس سلسلے میں ایک بڑا ریلا پی ٹی آئی کے اُن ڈیڑھ درجن ارکانِ صوبائی اسمبلی کے پارٹی سے ممکنہ اخراج یا پھر انہیں آئندہ انتخابات میں ٹکٹ نہ ملنے کی صورت میں آنے کا امکان ہے جنہیں عمران خان نے سینیٹ کے حالیہ الیکشن میں پارٹی سے غداری کے نتیجے میں پارٹی سے نکالنے کا اعلان کیا ہے۔