بیسویں صدی میں، اسلام اور باطل نظاموں کی کشمکش

اسلامی جمہوریۂ پاکستان کے اردو اور انگریزی اخبارات کا مطالعہ ’’اعصاب شکن‘‘ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان اخبارات میں اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، اسلامی مفکرین اور اسلامی تحریکوں کے حوالے سے ایسی تحریریں تواتر کے ساتھ شائع ہوتی رہتی ہیں جن میں معلومات، علم، تفہیم اور تناظر کے ہولناک نقائص کا معاملہ تو خیر واضح ہی ہے، ان کی نظر میں اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ، اسلامی مفکرین اور اسلامی تحریکوں کی کوئی ’’وقعت‘‘ ہی نہیں۔ مگر بدقسمتی سے جو لوگ ’’مذہبی‘‘ سمجھے جاتے ہیں اُن کی تحریروں میں بھی اتنے ’’عیوب‘‘ ہوتے ہیں کہ ’’ہنر‘‘ تلاش کرنا ناممکن ہوجاتا ہے۔ چونکہ ایسے لوگ ’’مذہب پسند‘‘ مشہور ہوتے ہیں، اس لیے ان کی تحریروں میں موجود ’’زہر‘‘ سیکولر اور لبرل لوگوں کی تحریروں میں موجود زہر سے زیادہ ’’خطرناک‘‘ ہوتا ہے، اس کی تازہ ترین مثال جاوید چودھری اور خورشید ندیم کے ’’روزنامہ ایکسپریس‘‘ اور ’’روزنامہ دنیا‘‘ میں شائع ہونے والے حالیہ کالم ہیں۔ جاوید چودھری نے3 اپریل 2018ء کے ایکسپریس میں شائع ہونے والے کالم میں سعودی شہزادے اور امریکہ میں سعودی عرب کے سابق سفیر بندر بن سلطان کی کتاب ’’دی پرنس‘‘ کا حوالہ دیا ہے اور فرمایا ہے:
’’اس کتاب نے (سوویت یونین کے خلاف) افغان جنگ کے بارے میں پوری دنیا کے تصورات کو جڑوں سے ہلا دیا ہے۔ دنیا کو پہلی بار افغان جنگ اَنا اور مفادات کی جنگ محسوس ہوئی۔ شہزادے نے انکشاف کیا ہے کہ امریکہ نے یہ جنگ ڈالروں کے بل بوتے پر لڑی تھی اور ڈالروں کی مدد سے جیتی تھی۔ شہزادے نے یہ انکشاف بھی کیا کہ صدر ریگن اور شاہ فہد کے درمیان معاہدہ ہوا تھا کہ وہ یہ جنگ ہر قیمت پر جیتیں گے۔ شہزادے کے بقول اس جنگ میں امریکہ اور روس کا وہی کردار تھا جو مرغ لڑانے والے شکاریوں کا ہوتا ہے۔ شہزادے نے لکھا ہے کہ سعودی عرب اور امریکہ نے انہیں صدرگوربا چوف کو جنگ بندی پر آمادہ کرنے کا مشن سونپا تھا۔ شہزادہ بندر بن سلطان 1985ء میں ماسکو گئے اور انہوں نے صدر گوربا چوف سے ملاقات کی۔ شہزادے کے بقول طویل ملاقات کے بعد گوربا چوف نے کہا کہ اگر ہماری تذلیل نہ کی جائے تو ہم افغانستان سے نکلنے کے لیے تیار ہیں۔‘‘
جاوید چودھری مزید لکھتے ہیں:
’’شہزادہ بندر بن سلطان کی کتاب نے ڈیٹرجنٹ پائوڈر کا کام کیا اور افغان جنگ کے بارے میں میری نسل کے تمام تصورات دھوکر رکھ دیے… یہ کتاب پڑھ کر معلوم ہوا کہ افغان جنگ کفر اور اسلام کی جنگ نہیں تھی۔ وہ امریکہ اور سوویت یونین کی جنگ تھی۔‘‘
جاوید چودھری نے مزید فرمایا:
’’مجھے کل پرنس بندر بن سلطان کی کتاب 12 سال بعد اچانک یاد آگئی۔ یادداشت کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی وجہ سعودی عرب کے ولی عہد پرنس محمد بن سلطان کا تازہ ترین انٹرویو ہے جس میں انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ سرد جنگ کے دوران مغرب کو اسلامی دنیا میں وہابیت کی ضرورت تھی۔ ہم نے مغرب کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے وہاں مدارس اور مساجد کی تعمیر میں سرمایہ کاری کی۔ آپ اس انٹرویو کو پرنس بندر کی کتاب کے ساتھ ملا کر پڑھیں تو باقی ماندہ مغالطے بھی دور ہوجائیں گے۔ ہم جسے کفر اور اسلام کا معرکہ سمجھتے رہے وہ ایک ’’گلوبل گیم ‘‘ تھی۔‘‘
جاوید چودھری اس سلسلے میں اس حد تک گئے کہ انہوں نے جنرل حمیدگل مرحوم کی بیٹی اور بیٹے کے درمیان تنازعے کا ذکر کیا اور کہا کہ حمیدگل کی اولاد شاید اس لیے جائداد پر لڑ رہی ہے کہ اس جائداد میں افغان جنگ سے حاصل ہونے والے ڈالروں کا کوئی کردار ہوگا۔
(’’روزنامہ ایکسپریس‘‘ 3 اپریل 2018ء)
خورشید ندیم اس سلسلے میں جاوید چودھری سے چار قدم آگے گئے ہیں۔ انہوں نے ’’سرد جنگ میں اسلام کا کردار‘‘ کے عنوان سے 2 اپریل 2018ء کے روزنامہ ’دنیا‘ میں جو کچھ فرمایا اس کی تلخیص انہی کے الفاظ میں ملاحظہ کیجیے ۔ لکھتے ہیں:
’’مذہب اور سیاست کا ملن، تاریخ پر کس طرح اثرانداز ہوتا ہے؟ شہزادہ محمد بن سلمان کا تازہ ترین انکشاف اس سوال کا جواب فراہم کررہا ہے۔ ’واشنگٹن پوسٹ‘ کے ساتھ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ سرد جنگ کے دنوں میں، مغرب کے کہنے پر سعودی عرب نے تبلیغ ِاسلام کی مہم کو مہمیز دی تاکہ مسلم دنیا میں سوویت یونین کے اثرات کو پھیلنے سے روکا جا سکے۔ اس کے لیے مساجد اور مدارس تعمیر کیے گئے۔ ایک سخت گیر تعبیرِ دین کو فروغ دیا گیا، جس کے لیے ’وہابی ازم‘ کی اصطلاح مستعمل ہے۔ شہزادہ محمد اب اس تعبیر سے رجوع کرتے ہوئے، سعودی عرب کو’موڈریٹ اسلام‘ کا نمائندہ بنانا چاہتے ہیں۔‘‘
مزید فرماتے ہیں:
’’کیا یہ محض اتفاق تھا کہ پاکستان اور مشرقِ وسطیٰ میں برپا ہونے والی اسلامی اور اشتراکی تحریکیں ایک دوسرے سے برسرِ پیکار تھیں؟ مصر میں جمال عبدالناصر روس کے قریب تھے۔ اخوان المسلمون اور ناصر ایک دوسرے کے خلاف محاذ آرا تھے۔ شام کے حافظ الاسد نے بھی اخوان پر عرصۂ حیات تنگ کیے رکھا۔ وہ بھی سوویت یونین بلاک کا حصہ تھے۔ صدام حسین اور حافظ الاسد کا تعلق بعث پارٹی سے تھا جو اشتراکی تھی۔
سرد جنگ کے دنوں میں، مسلم دنیا میں جو نظریاتی جنگ لڑی گئی، وہ اسلامی تحریکوں اور اشتراکیوں کے مابین لڑی گئی۔ اس جنگ میں امریکہ کہیں دکھائی نہیں دیتا۔ کیا اس کی وجہ یہ تھی کہ اسلامی تحریکیں امریکہ ہی کے مفادات کی آبیاری کررہی تھیں؟ جہاں تک اس معرکہ آرائی کے نتائج کا تعلق ہے تو اس میں اشتراکیت اور سوویت یونین کو تو شکست ہوئی لیکن فتح اسلام پسندوں کے حصے میں بھی نہیں آئی۔ اس جنگ کا فاتح امریکہ تھا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اسلام پسند امریکہ کی جنگ لڑ رہے تھے؟
حسن البنا، سید قطب اور مولانا مودودی جیسے صاحبانِ عزیمت کے بارے میں کم از کم میں تو یہ گمان نہیں کرسکتا۔ حُسنِ سیرت کے ایسے نمونے چشمِ فلک نے کم کم دیکھے ہیں۔ مغرب اور سرمایہ داری پر سید قطب کی تنقید تاریخ کا حصہ ہے۔ مولانا کے تحریری سرمایے میں بھی دونوں پر نقد ہے۔ میرے لیے یہ باور کرنا آسان نہیں کہ وہ اشتراکیت کے خلاف کسی امریکی منصوبے کا حصہ تھے۔ تاہم تاریخی عمل کی شہادت یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کی قیادت عالمی قوتوں کے بڑے منصوبے کو سمجھنے سے قاصر رہی۔‘‘
شہزادہ محمد بن سلمان کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے لکھا:
’’اس انکشاف کے بعد، سوویت یونین کے خلاف سعودی عرب اور اسلامی تحریکوں کی قربت کے سامنے کئی سوالیہ نشان کھڑے ہوگئے ہیں۔ میں ان کی نیت کے بارے میں حُسنِ ظن رکھتا ہوں لیکن میرے لیے یہ ممکن نہیں کہ میں ان کی بصیرت کے بارے میں بھی کسی اچھے گمان کا اظہار کرسکوں۔ اسلام کو امریکہ نے جس طرح مسلسل اپنے مفادات کے لیے استعمال کیا ہے، وہ اسلامی تحریکوں کی بے بصیرتی کی دلیل ہے۔‘‘
اس سلسلے میں خورشید ندیم نے جو مزید ’’ہولناک نتائج‘‘ نکالے ہیں، انہیں بھی ملاحظہ کرلیجیے۔ کہتے ہیں:
’’میرے نزدیک یہ اسلام کو سیاسی بنانے کا ایک ناگزیر نتیجہ ہے۔ جب اسلام کو بھی ایک ’ازم‘ اور اقتدار کی کشمکش میں ایک فریق بناکر پیش کیا گیا تو اس کا یہی انجام ہونا تھا۔ اسلام کو داخلی اور خارجی قوتوں نے اقتدار کے لیے بطور ہتھیار استعمال کیا۔‘‘
خورشید ندیم نے کالم کا اختتام کرتے ہوئے کہا:
’’اسلام کا دنیا میں کوئی حریف نہیں۔ حریف تو انسانوں کے ہوتے ہیں۔ یہ روس ہو یا امریکہ، اسلام ساری دنیا کے لیے خیر کی دعوت ہے۔ جو قبول کرے گا، نجات پائے گا۔ اسلام دنیا کی فتح و شکست سے ماورا ہے۔ اگر اسلام کو سیاسی بنانے کا چلن باقی رہا تو کبھی اسے دوسروں کے اشارے پر جہادی بنایا جائے گا اور کبھی ماڈریٹ۔ ایسی کوششوں کا نتیجہ ایک ہی ہوگا۔ کبھی کوئی جہاد کے پردے میں چھپا ہوگا اور کبھی ماڈریشن کے پردے میں۔ ہزاروں جانیں لٹانے کے بعد کوئی شہزادہ محمد انکشاف کرے گا کہ اسلام کو تو استعمال کیا گیا۔
اسلام وہی ہے جسے اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سند کے ساتھ بطور دین رائج کیا۔ ہمیں اسلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے جاننا ہے، کسی خارجی قوت کے مطالبے پر اس کی تعبیر نہیں کرنی۔‘‘
ہم جاوید چودھری اور خورشید ندیم کے کالموں کے طویل اقتباسات پیش کرنے کے لیے معذرت چاہتے ہیں، مگر ان کے بغیر آپ کو معلوم نہیں ہوسکتا تھا کہ ’’اسلام20 ویں صدی میں‘‘، اسلام اور باطل نظاموں کی کشمکش‘‘، اسلامی مفکرین اور اسلامی تحریکوں کے حوالے سے ’’اسلام پرست‘‘ سمجھے جانے والے جاوید چودھری اور خورشید ندیم صاحب نے کیا ’’فرمایا‘‘ ہے؟ انہوں نے جو فرمایا ہے اس کا مفہوم کیا ہے؟ اور اس سلسلے میں ’’اصل حقیقت‘‘ کیا ہے؟
اصولی اعتبار سے ایک مسلمان کی فکری، ذہنی، نفسیاتی اور علمی زندگی ’’خدا مرکز‘‘ ہوتی ہے۔ اس لیے کہ خدا ہی ہمارا خالق ہے، خدا ہی ہمارا مالک ہے، اور خدا ہی اس پوری کائنات میں ’’فاعلِ حقیقی‘‘ ہے۔ خدا کی نسبت سے ایک مسلمان کی زندگی ’’قرآن مرکز‘‘ ہوتی ہے۔ سیرت مرکز ہوتی ہے۔ ایک مسلمان اپنی تہذیب اور تاریخ کی حرکیات یا Dynamics کو دیکھ رہا ہوتا ہے۔ مستند ’’اسلامی مفکرین‘‘ اور اسلامی تاریخ کے مرکزی دھارے میں موجود ’’اسلامی تحریکوں‘‘ کو حوالہ بنارہا ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے جاوید چودھری اور خورشید ندیم کے طویل کالموں میں نہ کہیں خدا موجود ہے، نہ قرآن موجود ہے، نہ سیرتِ طیبہ موجود ہے، نہ زندہ اسلامی تہذیب موجود ہے، نہ زندہ اسلامی تاریخ موجود ہے، نہ مسلم دنیا کو بدلنے والے ’’اسلامی مفکرین‘‘ موجود ہیں۔ جاوید چودھری اور خورشید ندیم کی پوری فکری، ذہنی، نفسیاتی اور علمی کائنات امریکہ سے “govern”رہی ہے۔ ’’امریکی ڈالر‘‘ سے ’’تحرک‘‘ حاصل کررہی ہے۔ ’’رونالڈ ریگن‘‘ سے ’’معنی‘‘ حاصل کررہی ہے۔ ’’شاہ فہد‘‘ سے ’’تقویت‘‘ پارہی ہے۔ شہزادہ بندر بن سلطان سے ’’روشنی‘‘ حاصل کررہی ہے۔ سعودی ولی عہد ’’محمد بن سلمان‘‘ اور ان کے ’’ایک بیان‘‘ سے ’’غذا‘‘ حاصل کررہی ہے۔ ان لوگوں کے نزدیک خدا، اسلام، سیرتِ طیبہؐ، اسلامی مجددین اور اسلام میں تجدیدکا ادارہ، اسلام کا تصورِ جہاد اور مسلمانوں کا جذبۂ شہادت تو کچھ نہیں کرسکتا، مگر ’’امریکہ‘‘، اس کا ’’ڈالر‘‘، امریکہ کا صدر ’’رونالڈ ریگن‘‘ اور سعودی عرب کے ’’شاہ فہد‘‘ سب کچھ کرسکتے ہیں۔ اقبال کا بے مثال شعر یاد آگیا:

’’بتوں‘‘ سے تجھ کو ’’امیدیں‘‘ خدا سے ’’نومیدی‘‘
مجھے بتا تو سہی اور ’’کافری‘‘ کیا ہے؟

جاوید چودھری، خورشید ندیم اور ان جیسے لوگوں کی فکر کو سمجھنے اور سمجھانے کے لیے اقبال کا ایک اور شعر:

کافر کی یہ پہچان کہ آفاق میں گم ہے
مومن کی یہ پہچان کہ گم اس میں ہے آفاق

اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ کچھ لوگ ’’دین‘‘ کو اصول بناکر دنیا کو سمجھتے ہیں، اور کچھ لوگ ’’دنیا‘‘ کو اصول بناکر دین کو سمجھنے کی حماقت کرتے ہیں۔
بت پرستی سے میرؔ کا ایک شعر یاد آگیا۔ دیکھیے اسلام کے لیے میر اور اقبال جیسے دو مختلف شاعر ’’ایک‘‘ ہوجاتے ہیں۔ میرؔ نے کہا ہے:

بت پرستی کو تو اسلام نہیں کہتے ہیں
معتقد کون ہے میرؔ ایسی ’’مسلمانی‘‘ کا

زیر بحث مسئلے کے حوالے سے ایک بنیادی بات یہ ہے کہ اسلام اللہ کا آخری دین ہے۔ چنانچہ یہ دین رہتی دنیا تک ’’فنا‘‘ ہونے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے ایک لاکھ 24 ہزار انبیاء مبعوث کیے، مگر ان میں سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے سوا کوئی خاتم النبیین نہیں تھا۔ چونکہ اسلام آخری دین اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اس لیے حق و باطل کی کشمکش میں مسلمان کمزور پڑسکتے ہیں، پسپا ہوسکتے ہیں، عارضی طور پر باطل کے غلام بھی بن سکتے ہیں، مگر اسلام تاقیامت زندہ رہے گا۔ چونکہ اسلام تاقیامت زندہ رہے گا اس لیے مسلمان بھی اگر اسلام سے چمٹے رہے تو وہ بھی زندہ رہیں گے۔ کوئی مسلم، کوئی اسلامی مفکر، کوئی جماعت، کوئی گروہ، کوئی قوم، یہاں تک کہ اگر موجودہ امتِ مسلمہ اللہ کے دین کی سربلندی اور اس کے غلبے کا کام نہیں کرے گی تو خدا کسی کا محتاج نہیں۔ خدا اس پر قادر ہے کہ وہ کافروں اور مشرکوں میں سے وہ لوگ پیدا کردے جو اس کے دین کو سربلند کرنے والے ہوں۔ چونکہ اسلام کو زندہ رہنا ہے اس لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ہمیشہ محفوظ رکھنے کی ذمے داری لی۔ یہ ذمے داری اس نے کسی بھی الہامی کتاب کے حوالے سے نہیں لی۔ چونکہ اسلام آخری دین ہے، قرآن آخری کتاب ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسلام کو ’’تجدیدی صلاحیت‘‘سے نوازا ہے۔ اسلام مسلمانوں کی غفلت سے کمزور پڑتا ہے، اسلام کی اصل تعلیمات دھندلی پڑجاتی ہیں۔ پھر خدا کسی مجدد کو بھیج کر اسلام کو ’’قوی‘‘،’’زندہ‘‘ اور انفرادی و اجتماعی زندگی کا ’’مرکزی حوالہ‘‘ بنادیتا ہے۔ غزالی نے 12 ویں صدی میں یہی کیا۔ مجدد الف ثانی نے 17 ویں صدی میں یہی کارنامہ انجام دیا۔ شاہ ولی اللہ نے 18 ویں صدی میں تجدیدی کوششوں سے یہی کام کیا۔ مولانا مودودی نے 20 ویں صدی میں اس روایت کی علَم برداری کی۔ چونکہ اسلام قیامت تک کے لیے آیا ہے، اس لیے نہ جانے ابھی کتنے مجددین کو آنا ہے۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میری امت کے بعض علماء بنی اسرائیل کے انبیاء جیسے ہوں گے۔ غزالی، مجدد الف ثانی، شاہ ولی اللہ اور مولانا مودودی یقینا ایسے ہی علماء میں سے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عنایت ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیضان ہے۔ ایسی امت میں جو کارنامہ انجام پا جائے وہ کم ہے۔ ایسی امت کو جاوید چودھری اور خورشید ندیم نے امریکہ، ڈالر، ریگن، شاہ فہد، بندر بن سلطان اور محمد بن سلطان جیسے لوگوں کے بیانات کے کھونٹے سے باندھ دیا ہے۔
اسلام اور کفر کی جنگ ’’کسی صدی‘‘ سے مخصوص نہیں۔ یہ جنگ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے زمانے میں بھی برپا تھی۔ حضرت نوح علیہ السلام کے زمانے میں بھی اس کا وجود تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں بھی حق و باطل کا معرکہ برپا تھا۔ خلافتِ راشدہ میں یہی کشمکش برپا تھی۔ حضرت مجدد الف ثانی، اکبر اور جہانگیر کے عہد کی مشرکانہ روش کے خلاف توحید کا پرچم بلند کیے ہوئے تھے۔ اس سے بہت پہلے امام غزالی یونانی فلسفے کے الحاد کے خلاف صف آرا تھے۔ مولانا مودودی نے 20 ویں صدی میں مغربی تہذیب اور سوشلزم کو چیلنج کیا۔ خورشید ندیم اور جاوید چودھری امام غزالی، مجدد الف ثانی اور شاہ ولی اللہ کے زمانے میں ہوتے تو شاید ان کے عہد میں بھی ’’امریکہ‘‘ اور ’’ڈالر‘‘ ایجاد کرتے، اسلام اور کفر کی جنگ کو امریکہ اور ڈالر کے نام کردیتے۔ ابلیسیت اور جہالت بری بلائیں ہیں۔ اسلامی مفکرین اور امتِ مسلمہ کی بساط ہی کیا ہے، اہلِ مغرب تو ایک ہزار سال سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو معاذ اللہ ’’جھوٹا نبی‘‘ قرار دے رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ ’’یہودیت‘‘ سے ’’لیا‘‘، کچھ عیسائیت سے ’’اڑایا‘‘، اور دونوں کو ملا کر اسلام کے نام سے ایک نیا دین ایجاد کرلیا۔ اس ضلالت اور رکاکت کو تسلیم کرلیا جائے تو خود رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارک میں اسلام اور کفر کی کوئی جنگ نہیں ہورہی تھی، بلکہ اہلِ مغرب کے لیے تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اقتدار پرست تھے۔
ہمیں حیرت ہے کہ جاوید چودھری اور خورشید ندیم پچاس سال سے زیادہ عمر کے ہونے کے باوجود ابھی تک اسلام، اسلامی تہذیب اور اسلامی تاریخ کی قوت، شوکت اور جمال سے آگاہ نہیں۔ اسلام کی قوت، شوکت اور جمال کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ اسلام 712 ءیا اس سے ذرا پہلے برصغیر میں آیا۔ اس وقت برصغیر میں چند سو یا چند ہزار مسلمان تھے۔ آج برصغیر میں 60 کروڑ مسلمان ہیں، حکومت، ریاست، سرمائے اور ابلاغی ذرائع کی قوت کے بغیر۔ برصغیر میں مغل سلطنت بکھر کر رہ گئی اور مسلمان کئی اعتبار سے زوال آمادہ ہوگئے، مگر اس کے باوجود ان کی ’’تخلیقی قوت‘‘ کا اندازہ اس بات سے کیجیے کہ انہوں نے صرف ڈھائی سو، تین سو سال میں اردو جیسی عظیم الشان زبان تخلیق کرکے دکھائی۔ اکبر الٰہ آبادی عسکری اعتبار سے شکست خوردہ ملت کے فرد تھے، مگر اس کے باوجود اُن کا تخلیقی جوہر اتنا بڑا تھا کہ ایک ملت نے جو جنگ عسکری میدان میں ہار دی تھی اکبر نے وہ جنگ اپنی شاعری میں جیت کر دکھا دی۔ یہ سارے کارنامے ’’امریکہ‘‘ اور ’’ڈالر‘‘ کی قوت کے بغیر انجام پائے۔
اقبال کی شاعری بیسویں صدی کے آغاز میں طلوع ہوچکی تھی۔ ان کی ایک نظم ہے1907ء۔ اس نظم کے چند شعر ملاحظہ کیجیے:

زمانہ آیا ہے بے حجابی کا، عام دیدارِ یار ہوگا
سکوت تھا پردہ دار جس کا وہ راز اب آشکار ہوگا
کبھی جو آمادۂ جنوں تھے وہ بستیوں میں پھر آبسیں گے
برہنہ پائی وہی رہے گی مگر نیا خارزار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نے روماکی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیرپھر ہوشیار ہوگا
سفینۂ برگ گُل بنا لے گا قافلہ مور ناتواں کا
ہزار موجوں کی ہو کشاکش مگر یہ دریا کے پار ہوگا
دیارِ مغرب کے رہنے والو خدا کی بستی دکاں نہیں ہے
کھرا جسے تم سمجھ رہے ہو وہ اب زر کم عیار ہوگا
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخِ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا

ان شعروں میں اسلام، اسلامی تہذیب اور امتِ مسلمہ کے احیاء، ابھار اور مغربی تہذیب کے زوال پر جو حیرت انگیز ’’یقین‘‘ موجود ہے وہ اسلام اور اس پر اعتبار کے سوا کہیں سے آہی نہیں سکتا۔ اہم بات یہ ہے کہ مسلمان اُس وقت غلام تھے، مگر اسلام نے اقبال کی روح اور اُن کے ذہن کو آزاد کردیا تھا، اور وہ ایک نئی دنیا کے ظہور کا خواب دیکھ بھی سکتے تھے اور دکھا بھی سکتے تھے۔ اہم بات یہ ہے کہ 1907ء میں نہ کہیں امریکہ موجود تھا نہ ڈالر۔ سلطنتِ برطانیہ اور اس کا پائونڈ موجود تھا، مگر یہ چیزیں اقبال اور ان کے اسلام کے لیے گردِ راہ سے بھی زیادہ حقیر تھیں۔
مولانا مودودی1903ء میں پیدا ہوئے اور انہوں نے 1918ء میں صحافت کا آغاز کردیا تھا۔ 1920ء میں وہ جبلپور میں ’تاج‘ کے مدیر ہوگئے تھے۔ انہوں نے 1925ء میں ’الجمعیت‘ کی ادارت سنبھالی۔ اس عمر میں بھی مولانا ’’انقلابی‘‘ تھے، بلکہ کہنے والے کہتے ہیں کہ بعد کے زمانے کی نسبت مولانا ابتدائی عہد میں زیادہ انقلابی تھے۔ اس منظرنامے میں نہ کہیں امریکہ تھا، نہ اس کا ڈالر تھا۔ جس طرح سلطنتِ برطانیہ اور اس کی شوکت اقبال کے لیے کچھ نہ تھی، مولانا کے لیے بھی ان چیزوں کی کوئی اہمیت نہ تھی۔ مولانا نے 1927ء میں’’الجہاد فی الاسلام‘‘ تحریر کی۔ یہ کتاب اسلیہ کتاب ایک ایسے وقت میں تحریر ہوئی تھی جب جہاد کو ’’ماضی کی یادگار‘‘ سمجھ لیا گیا تھا۔ مولانا نے1941ء میں جماعت اسلامی قائم کی۔ یہ غلبۂ اسلام کی انقلابی جدوجہد کا سنگِ میل اور اسلام کے شاندار مستقبل پر مولانا کے غیرمتزلزل یقین کا اظہار تھا۔ اس سے قبل مولانا کی اہم کتاب ’’تنقیحات‘‘ شائع ہوچکی تھی، اور تنقیحات میں مولانا نے مغربی تہذیب کو ’’جاہلیتِ خالصہ‘‘ اور ’’تخم خبیث‘‘ قرار دے کر اسے سو فیصد مسترد کردیا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ کام بھی امریکہ اور ڈالر، اور برطانیہ اور پائونڈ کے بغیر ہورہا تھا۔ ہمیں یاد آیا، حسن البنا نے 1928ء میں امریکہ سے پوچھے بغیر اور ڈالر کی اعانت سے قطع نظر اخوان المسلمون قائم کردی تھی۔ اخوان عالمِ عرب کی جماعت اسلامی تھی اور ہے، اور اس کا مقصد بھی غلبۂ اسلام کے لیے جدوجہد کرنا تھا۔ سوال یہ ہے کہ جب اتنے سارے اور اتنے بڑے کام امریکہ اور ڈالر کے بغیر ہوتے رہے ہیں تو افغانستان میں جہاد امریکہ اور ڈالر کے بغیر کیوں نہ ہوا ہوگا؟ میرؔ نے کہا ہے:

سرسری تم جہان سے گزرے
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا

اس شعر سے ’’استفادہ‘‘ کرتے ہوئے جاوید چودھری اور خورشید ندیم سے عرض ہے:

’’ڈالری تم جہان سے گزرے‘‘
ورنہ ہر جا جہانِ دیگر تھا
لیکن اس کا مطلب کیا ہے؟

بلاشبہ سرد جنگ امریکہ اور سوویت یونین کی کشمکش ہی سے عبارت تھی۔ اس کشمکش کے دوران سوویت یونین افغانستان میں در آیا۔ مگر تاریخی ریکارڈ یہ ہے کہ جہاد کے ابتدائی ڈیڑھ دو سال میں نہ کہیں امریکہ موجود تھا نہ اس کے ڈالر۔ سوویت یونین کی ابتدائی مزاحمت پاکستان مرکز تھی۔ اس عرصے میں امریکہ کے صدر جمی کارٹر نے پاکستان کو 800ملین ڈالر کی امداد دینے کا اعلان کیا، مگر جنرل ضیاء الحق نے اس امداد کو ’’مونگ پھلی کے دانے‘‘ قرار دے کر ان دانوں کو لینے سے انکار کردیا۔نتیجہ یہ ہوا کہ مونگ پھلی کے دانے دیکھتے ہی دیکھتے ’’بادام‘‘ بن گئے ۔یہاں سے امریکہ اور ڈالر جہاد میں شامل ہوئے۔ لیکن تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ جنگیں سرمائے سے نہیں… ایمان یا جذبے سے لڑی جاتی ہیں، اور یہ دونوں چیزیں نہ سرمائے سے پیدا ہوتی ہیں نہ سرمائے سے خریدی جاسکتی ہیں۔ سرمائے سے لڑنے والے فوجی کرائے کے فوجی کہلاتے ہیں اور دنیا کی کسی بڑی جنگ میں کرائے کے فوجیوں کا کوئی کردار نہیں رہا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کرائے کے فوجیوں کے پاس ’’کردار‘‘ نام کی شے ہوتی ہی نہیں۔ سوویت یونین کے خلاف جہاد کی ہمالیہ سے بھی بڑی حقیقت یہ ہے کہ اس جہاد میں صرف ’’15 لاکھ‘‘ مجاہدین شہید ہوئے اور صرف ’’15 لاکھ‘‘ افراد زخمی ہوئے۔ یہ اعدادوشمار بتارہے ہیں کہ افغانستان میں امریکہ اور ڈالر نہیں، ایمان اور جذبہ لڑرہا تھا۔ بلاشبہ امریکہ، سعودی عرب اور ان کے ڈالر اور ریال افغان جہاد میں موجود تھے، مگریہ تمام چیزیں جہاد کے ’’مضافات‘‘ میں تھیں، مرکز میں نہیں۔ مرکز میں مجاہدین تھے، اور مجاہدین کے دل میں جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت تھا، اور ان کی پشت پر اسلام اپنی تمام تر تعلیمات، اپنی تہذیب اور اپنی تاریخ کے ساتھ موجود تھا۔ جہاد میں امریکہ اور اس کے ڈالر، سعودی عرب یا اس کے ریال ’’فیصلہ کن‘‘ ہوتے تو جہاد میں 15لاکھ لوگ شہید اور 15لاکھ لوگ زخمی تھوڑی ہوتے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو جاوید چودھری اور خورشید ندیم نے افغان جہاد کو امریکہ، سعودی عرب اور ڈالر سے وابستہ کرکے اسلام، تصورِ جہاد، شوقِ شہادت، 15لاکھ شہداء اور جہاد کے 15 لاکھ زخمیوں کو گالی دی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کچھ جرنیلوں نے واقعتا ڈالر کمائے ہوں، مگر افغان جہاد میں جان دینے والے کسی ایک مجاہد نے بھی امریکہ یا ڈالر کے لیے نہ جہاد کیا، نہ جان دی۔ چنانچہ کچھ جرنیلوں کے حصے کی غلاظت کو اسلام، جہاد، شہداء اور زخمیوں پر اچھالنا ایک شرمناک، سفاکانہ اور شیطانی عمل ہے۔
اللہ کی مشیت یہ ہوئی کہ سوویت یونین کے بعد امریکہ نائن الیون کی آڑ میں افغانستان پر چڑھ دوڑا ۔ فرائیڈے اسپیشل کی فائلیں گواہ ہیں کہ اُس وقت ہم نے انہی کالموں میں عرض کیا تھا کہ پانچ فیصد لوگ بھی مزاحمت پر آمادہ ہوگئے تو افغانستان امریکہ کا قبرستان بن جائے گا۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ افغانستان واقعتا امریکہ کا قبرستان بن گیا۔ امریکہ اور مجاہدین کی سیاسی طاقت میں ایک اور ایک لاکھ کی نسبت ہے۔ امریکہ اور مجاہدین کی معاشی طاقت میں ایک اور ایک کروڑ کی نسبت ہے۔ امریکہ اور مجاہدین کی عسکری طاقت میں ایک اور ایک ارب کی نسبت ہے۔ مگر امریکہ 17 برسوں میں طالبان کا کچھ نہ بگاڑ سکا، حالانکہ وہ افغانستان میں ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کرچکا ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ اب نہ جہاد کی پشت پر امریکہ ہے، نہ روس… چین ہے نہ سعودی عرب… ڈالر ہیں نہ ریال… پھر جہاد کامیاب کیسے ہے؟ اس سوال کا صرف ایک ہی جواب ہے: اللہ کی مدد، اسلام کی قوت، جذبۂ جہاد اور شوق شہادت کے سوا مجاہدین کے پاس کچھ نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بی بی سی نے اپنی حالیہ رپورٹ میں کہا ہے کہ افغانستان کے 70 فیصد علاقے پر یا تو طالبان کا کنٹرول ہے یا یہ علاقے طالبان کے زیراثر ہیں۔ یہ 21 ویں صدی کا بہت ہی بڑا معجزہ ہے، مگر جاوید چودھری اور خورشید ندیم کو ’’معجزہ‘‘ نظر نہیں آتا۔ انہیں صرف امریکہ اور ڈالر نظر آتے ہیں۔ اصول ہے ’آدمی جس چیز پر ایمان رکھتا ہے اُسے ہر طرف وہی نظر آتی ہے‘۔ جن کا ایمان خدا اور اسلام پر ہے انہیں ہر طرف خدا اور اسلام نظر آتا ہے۔ جن کا ایمان امریکہ اور ڈالرز پر ہے انہیں ہر طرف امریکہ اور ڈالرز نظر آتے ہیں۔ شیخ محی الدین ابن عربی فرماگئے ہیں ’’پھول کا کیڑا پھول میں خوش، گُو کا کیڑا گُو میں خوش‘‘۔
خیر اسلام، اسلامی تہذیب، اسلامی تاریخ اور تصورِ جہاد تو بہت بڑی چیزیں ہیں، امریکہ اور اُس کے ڈالر ان کا کیا مقابلہ کریں گے۔ جاوید چودھری اور خورشید ندیم ذرا اپنے حافظے پر جمی گرد جھاڑیں تو انہیں یاد آئے گا کہ امریکہ اور اس کے ڈالر کہاں نہیں پٹے؟ امریکہ اور اس کے ڈالر ویت نام میں پٹے۔ امریکہ اور اس کے ڈالر 1979ء کے ایران میں پٹے۔ امریکہ اور اس کے ڈالر کیوبا جیسی چھوٹی سی ریاست اور اس کے رہنما فیڈل کاسترو کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔ یہاں جاوید چودھری اور خورشید ندیم سے یہ بھی پوچھنا ہے کہ اگر ڈالر واقعتا اہم ہیں تو سعودی عرب اب ڈالروں کے ذریعے شام اور یمن میں ’’مجاہدین‘‘ کیوں نہیں بھیج رہا؟ وہ کیوں ’’کرائے کے فوجیوں‘‘ کا جتھہ جمع کیے بیٹھا ہے؟ بلاشبہ ڈالروں سے کرائے کی فوج بنائی جاسکتی ہے، مگر جذبۂ جہاد اور شوقِ شہادت پیدا نہیں کیا جاسکتا۔ یہاں جاوید چودھری اور خورشید ندیم کو اسلام کا ایک اصول بھی یاد دلانا ہے۔ خدا نے خود قرآن مجید میں کہا ہے کہ وہ دنیا کی ایک طاقت کو دوسری طاقت سے ہٹاتا رہتا ہے۔ افغان جہاد میں امریکہ کی موجودگی کو اس تناظر میں بھی دیکھنے کی ضرورت ہے۔ بے شک سعودی عرب نے بہت سی مساجد اور مدارس بنائے ہوں گے، مگر اسلام حکومتوں اور ریاستوں کا محتاج نہیں۔ برصغیر میں اسلام کسی حکومت، کسی بادشاہ اور کسی ریاست کی وجہ سے نہیں پھیلا۔ چنانچہ اسلام کے سلسلے میں سعودی عرب اتنا ہی اہم ہے جتنا تین سو صفحے کی کتاب میں پانچ سطر کا ایک پیرا گراف ۔ بھارت کے سابق وزیر خارجہ جسونت سنگھ نے قائداعظم سے متعلق اپنی تصنیف Jinnah, India,Partition,Independence میں لکھا ہے کہ اسلامی معاشرے کی قوت یہ ہے کہ وہ تقریباً ریاست کی مدد کے بغیر اپنی تاریخ کے سہارے زندہ اور باقی رہا ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ ایک متعصب ہندو اسلام کے بارے میں اتنی اہم بات جانتا ہے مگر جاوید چودھری اور خورشید ندیم اپنے کالموں میں سعودی عرب، سعودی عرب کرتے نظر آتے ہیں۔
خورشید ندیم صاحب کی ’’جرأت‘‘ کا عالم یہ ہے کہ انہوں نے اپنے کالم میں فرمایا ہے کہ وہ یہ تو نہیں کہہ سکتے کہ مولانا مودودی اور سید قطب اشتراکیت کے خلاف کسی امریکی منصوبے کا حصہ تھے، مگر تاریخی عمل کی شہادت یہ ہے کہ اسلامی تحریکوں کی قیادت عالمی قوتوں کے منصوبے کو سمجھنے سے قاصر رہی۔ یہ چھوٹا منہ بڑی بات نہیں بلکہ بہت ہی چھوٹا منہ اور بہت ہی بڑی بات والا معاملہ ہے۔ سرمایہ دار مغرب اور اشراکیت کی آویزش 1917ء سے پوری طرح عیاں تھی۔ اس سلسلے میں مولانا مودودی کی بصیرت کا یہ عالم ہے کہ وہ عالم اسلام کے واحد مفکر ہیں جنہوں نے سوشلزم کو بھی جدید مغربی تہذیب کا ’’شاخسانہ‘‘ قرار دیا ہے۔ مسئلہ یہ تھا کہ اسلام، اسلامی معاشروں اور اسلامی تحریکوں کے لیے سوشلزم کا خطرہ زیادہ بڑا، فوری اور مقامی اعتبار سے زیادہ قریب تھا۔ چنانچہ اسلامی تحریکوں نے سوشلزم اور اس کے زیراثر گروہوں کی مزاحمت پر زیادہ توجہ دی۔ اس توجہ کا عالمی قوتوں کے منصوبے کو نہ سمجھنے سے کوئی تعلق ہی نہیں۔ اشتراکیت کے خلاف مغرب کے منصوبے کا کوئی حصہ کبھی راز نہیں تھا۔ اتفاق سے سوویت یونین 1979ء میں افغانستان آگیا، چنانچہ اس کے خلاف جدوجہد کا آہنگ اور بلند ہوگیا۔
خورشید ندیم نے یہ بھی فرمایا ہے کہ سوویت یونین کے خلاف مزاحمت میں سعودی عرب کے کردار کے انکشاف کے بعد سعودی عرب اور اسلامی تحریکوں کی قربت کے بارے میں کئی سوال پیدا ہوگئے ہیں۔ خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ وہ اسلامی تحریکوں کے بارے میں حُسنِ ظن رکھتے ہیں، مگر وہ ان تحریکوں کی بصیرت کے بارے میں کسی اچھے گمان کا اظہار نہیں کرسکتے۔ ان کے بقول: امریکہ نے اسلام کو اپنے مقاصد کے لیے جس طرح استعمال کیا ہے وہ اسلامی تحریکوں کی بے بصیرتی کی دلیل ہے۔ سعودی عرب اور اسلامی تحریکوں کی قربت شاہ فیصل کے زمانے کی چیز ہے۔ بلاشبہ شاہ فیصل بھی بادشاہ تھے، مگر اُن میں پان اسلامی جذبہبھی موجود تھا، امت کے تصور کے بھی وہ قائل تھے، اور تیل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرکے انہوں نے خود کو مغرب مخالف بھی ثابت کیا۔ اس صورت میں اسلامی تحریکیں سعودی عرب کے قریب نہ ہوتیں تو اورکیا کرتیں؟ امریکہ اپنے مفادات کے لیے ہی سہی، اسلام اور جہاد پر مہربان تھا تو اس میں کسی اسلامی تحریک کا کیا قصور؟ اسلامی تحریکیں ’’حکومت‘‘ یا ’’ریاست‘‘ تو نہیں تھیں کہ وہ امریکیوں سے کہتیں، اسلام اور جہاد کو ہم دیکھیں گے، تم اپنے گھر جائو۔ ویسے جہادِ افغانستان میں امریکہ اور اسلامی تحریکوں کے تعلق کو سمجھنا ہو تو رئیس فروغ کا یہ شعر پڑھ لینا چاہیے:

سب لوگ گھومنے کو نکلتے ہیں شام سے
’’جنات‘‘ اپنے کام سے ’’ہم‘‘ اپنے کام سے

خورشید ندیم صاحب نے یہ بھی لکھا ہے کہ جب اسلام کو سیاسی بنایا جائے گا تو یہی ہوگا۔ ارے بھئی، اسلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مبارکہ سے سیاسی ہے۔ کیا رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ قائم نہیں کی؟ یا اس کے سربراہ نہیں تھے؟ مولانا مودودی بھی یہی کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ کے تجربے کی جانب لوٹو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اسوہ اختیار کرو، اور جن اصولوں کے تحت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ریاست مدینہ کو چلایا تم بھی انہی اصولوں کے تحت جدید اسلامی ریاستوں کو چلائو۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو اسلام کو سیاسی بنانے کا الزام مولانا مودودی سے ہٹ کر سیرتِ طیبہؐ کی طرف چلا جاتا ہے اور یہ بہت ہی ہولناک بات ہے۔
خورشید ندیم نے اپنے ایک کالم میں ایک ایسی بات لکھ دی ہے جسے پڑھ کر کسی کو بھی خیال آسکتا ہے کہ کہیں ہم پاگل خانے میں تو نہیں کھڑے ہوئے! خورشید ندیم نے لکھا ہے کہ اسلام کا دنیا میں کوئی حریف نہیں، حریف تو انسانوں کے ہوتے ہیں۔ روس ہو یا امریکہ، اسلام ساری دنیا کے لیے خیر کی دعوت ہے، جو قبول کرے گا نجات پائے گا۔ اسلام دنیا کی فتح و شکست سے ماورا ہے۔ یہ بات کہہ کر خورشید ندیم نے کلمۂ طیبہ کیا پورے قرآن کا انکار کردیا ہے۔ اس لیے کہ اسلام حق ہے اور وہ رہتی دنیا تک باطل کی ہر صورت کو چیلنج کرنے کے لیے برپا ہوا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو حضرت ابراہیمؑ اور نمرود کے درمیان کوئی جھگڑا ہوتا، نہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کو آتشِ نمرود میں ڈالا جاتا۔ ایسا نہ ہوتا تو موسیٰ علیہ السلام اور فرعون کے مابین کوئی کشمکش برپا نہ ہوتی۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ یہ ہے کہ اسلام کا اعلان کرتے ہی سارا مکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن ہوگیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جان کے درپے ہوا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مدینہ ہجرت کرنی پڑی۔ اسلام کسی کے خلاف نہیں تھا تو غزوۂ بدر، غزوۂ احد، غزوۂ خندق، غزوۂ تبوک میں کیا ہوا؟ کیا ان غزوات میں مسلمانوں اور کفار کے درمیان پھولوں اور بوسوں کا تبادلہ ہورہا تھا، یا حریف ایک دوسرے کی جان کے درپے تھے؟ ہمیں تعداد یاد نہیں مگر قیاساً عرض ہے کہ اعلانِ نبوت کے بعد 23 برسوں میں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں تیس سے زیادہ جنگیں ہوئی ہیں۔ ان جنگوں میں غزوات بھی ہیں اور سرایا بھی، یعنی وہ جنگیں جو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں ہوئیں مگر بوجوہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں شرکت نہ فرمائی۔23 سال میں تیس سے زیادہ معرکہ آرائیاں کیا یہ بتارہی ہیں کہ اسلام کسی کا ’’حریف‘‘ نہیں؟ یا یہ بتارہی ہیں کہ اسلام ہر باطل کے سامنے ڈٹ جانے کا نام ہے۔ یہاں خورشید ندیم صاحب یہ بھی بتادیں کہ ان کے زیر بحث کالم کے بعد سے اہلِ ایمان قرآن مجید کی آیاتِ جہاد اور اُن سیکڑوں احادیثِ مبارکہ کا کیا کریں جو جہاد کی اہمیت، ضرورت اور عظمت سے متعلق ہیں؟ اس سے معلوم ہوا کہ خورشید ندیم صاحب جس اسلام کی بات کررہے ہیں وہ قرآن اور رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اسلام نہیں بلکہ امریکہ یا غامدی صاحب کا وہ اسلام ہے جس کا ایک ’’جلوہ‘‘ خورشید ندیم نے اپنے کالم میں دکھایا ہے۔ مزے کی بات یہ ہے کہ اسلام کو ’’مشرف بہ غامدی‘‘ یا ’’مشرف بہ امریکہ‘‘ کرکے خورشید ندیم صاحب نے یہ بھی فرمایا ہے کہ اسلام تو وہی ہے جو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی سند کے ساتھ بطور دین رائج کیا۔ خورشید ندیم کے بقول ’’ہمیں اسلام کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی سے جاننا ہے، کسی خارجی قوت کے مطالبے پر اس کی تعبیر نہیں کرنی‘‘۔ اسلام رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے سے ’’جہادی‘‘ ہے، چنانچہ جنہوں نے افغانستان میں سوویت یونین کے خلاف جہاد کیا انہوں نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہی اتباع کیا۔ یہ اور بات کہ امریکہ اور سعودی عرب بھی اپنے مفادات کے تحت اس ’’اتباع‘‘ کے حامی بن کر کھڑے ہوگئے۔ خدا کا شکر ہے کہ مجاہدین نے 16 سال تک افغانستان میں امریکہ کے خلاف جہاد کرکے ثابت کردیا کہ جہاد نہ کل امریکہ، ڈالر، سعودی عرب اور ریال کے لیے تھا، نہ آج امریکہ، ڈالر، سعودی عرب اور ریال کے لیے ہے۔ جاوید چودھری، خورشید ندیم اور ان جیسے لوگوں کو یہ بات بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ اسلام اور اس کے حقیقی پیروکار کبھی بھی کفر کے ساتھ پنجہ آزمائی کرتے ہوئے کفر کی طاقت سے خوفزدہ نہیں ہوئے۔ میرؔ نے اس سلسلے میں کیا خوب کہا ہے:

کفر کچھ چاہیے اسلام کی رونق کے لیے
حُسن زنار ہے تسبیحِ سلیمانی کا