ملک کی عسکری قیادت اور عدلیہ کا اعتماد حاصل کرنے کے بعد وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ملکی و غیر ملکی کالا دھن سفید کرنے اور غیر قانونی اثاثے قانونی بنانے کے لیے ایمنسٹی اسکیم کا اعلان کردیا ہے۔ اس اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں سے نیب پوچھ گچھ نہ کرسکے گا، اور ٹیکس ایمنسٹی اسکیم الگ بل کے طور پر وفاقی بجٹ کے ساتھ پارلیمنٹ سے منظور کرائی جائے گی۔ صدر ممنون حسین نے آرڈی نینس جاری کرکے اسے قانونی تحفظ بھی فراہم کردیا ہے۔ یہ اسکیم 30 جون تک جاری رہے گی۔ اس اسکیم کا بنیادی نکتہ یہ ہے کہ بیرونِ ملک اثاثے 2 فی صد جرمانہ ادا کرکے وطن واپس لائے جاسکتے ہیں، اور جو پاکستانی اپنے اثاثے واپس نہیں لانا چاہتے وہ 5 فی صد جرمانہ ادا کرکے اپنے اثاثے ڈکلیئر کرسکتے ہیں۔ حکومت نے تخمینہ لگایا ہے کہ ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے 20 ارب ڈالر قومی خزانے میں آسکتے ہیں۔
ایمنسٹی اسکیم کے حوالے سے بنیادی سوال یہ ہیں کہ یہ اسکیم کیوں لائی گئی؟ سرکاری ملازمین اور سیاست دانوں کو اس کے دائرۂ کار سے باہر کیوں رکھا گیا؟ برآمد کنندگان کا ڈالر کی قیمت میں اضافے سے متعلق مطالبہ کیوں تسلیم کیا گیا؟ اور سب سے اہم سوال یہ کہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھانے والوں کے لیے مستقبل میں حکومت اور نیب کی پالیسی کیا ہوگی؟ اگرچہ حکومت ایمنسٹی اسکیم کو اپنی ضرورت قرار دے رہی ہے، لیکن یہ دراصل امریکی مطالبہ پورا کرنے کا وہی مؤقف ہے جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہوتے ہوئے اپنایا گیا تھا کہ یہ ہماری اپنی جنگ ہے۔ امریکی انتظامیہ دنیا بھر میں چند ممالک کی معیشت کو کنٹرول کرنا چاہتی ہے، اسے گمان ہے کہ دنیا بھر کے بینکوں میں پڑا ہوا پیسہ دہشت گردی کے لیے استعمال ہورہا ہے، اسے کنٹرول میں لایا جائے۔ لہٰذا پہلا وار پاکستان پر کیا گیا کہ حکومتِ پاکستان یہ تمام پیسہ ریگولر کرنے کے لیے جال کے طور پر ایمنسٹی اسکیم لائے تاکہ مکمل نہ سہی، کم از کم حد تک اس پیسے سے متعلق کوئی ایک خاکہ سامنے آسکے۔ اسی لیے یہ اسکیم لائی گئی ہے، اور اگلے مرحلے میں ہماری معیشت دنیا کے 104 ممالک کے ساتھ بھی لنک کی جاسکتی ہے۔
اس اسکیم کے بارے میں سب سے پہلی بات یہ کہ کہنے کو تو یہ اسکیم ہے لیکن حقیقت میں یہ بجٹ ہے۔ جو مراعات اس اسکیم میں دی گئی ہیں وہ بجٹ میں ہی دی جاتی ہیں، اور ہر حکومت مراعات دیتے ہوئے ترقیاتی اور غیر ترقیاتی سالانہ اخراجات کا کُل تخمینہ ذہن میں رکھتی ہے۔ جب کہ یہ اسکیم محض اندازوں پر مبنی ہے اور حکومت کے پاس کوئی ایسے قابلِ بھروسااعداد و شمار نہیں ہیں جس سے اندازہ ہوتا ہو کہ بیرونِ ملک پاکستانیوں کے پاس کتنی دولت اور کس قدر اثاثے موجود ہیں۔ دو سال قبل اُس وقت کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے پارلیمنٹ میں دعویٰ کیا تھا کہ حکومت بیرونِ ملک بینکوں میں پڑے ہوئے پاکستانیوں کے دو سو ارب ڈالر وطن واپس لائے گی۔ یہ دعویٰ آج تک پورا نہیں ہوسکا۔ دو سو ارب ڈالر کے مقابلے میں ایمنسٹی اسکیم کے ذریعے حاصل کی جانے والی یہ بیس ارب ڈالر کی رقم اونٹ کے منہ میں زیرے کے برابر بھی نہیں ہے۔ اب یہ اسکیم نافذ ہوچکی ہے اور ہمیں اس کے نتائج کا انتظار کرنا ہوگا۔ اس کا سیاسی فائدہ یہ ہوگا کہ مسلم لیگ (ن) انتخابی مہم کے دوران کاروباری طبقے کو دی جانے والی ان مراعات کا سیاسی ثمر حاصل کرنے کی کوشش کرسکتی ہے، اور سرکاری ملازمین کے علاوہ سیاست دانوں کو اس اسکیم سے باہر رکھنے کا مقصد انہیں اگلی حکومت کے دوران نیب کے شکنجے سے محفوظ رکھنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیں۔ چیف جسٹس جو مفادِ عامہ سے متعلق ہر اہم معاملے میں ازخود نوٹس لے رہے ہیں، اس معاملے میں ان کا رویہ کیا ہوگا یہ اسکیم سے بڑھ کر بڑا سوال ہے۔ وزیراعظم نے جس اسکیم کا اعلان کیا ہے وہ صدارتی آرڈی نینس کے اجراء کے ساتھ ہی نافذالعمل ہوچکی ہے اور 30 جون تک جاری رہے گی۔ ایمنسٹی اسکیم میں یکم جولائی2018ء سے انکم ٹیکس کی مختلف شرحوں میں غیر معمولی کمی کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ اس اسکیم کا جہاں جہاں مالی اثر پڑنا تھا ان سب کو قانونی چھتری فراہم کرنے کے لیے صدر نے چار مختلف آرڈی نینس جاری کیے ہیں۔ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ انکم ٹیکس کے لیے اب چھ لاکھ سالانہ آمدنی کی حد بڑھاکر بارہ لاکھ کردی گئی ہے۔ یوں اس فیصلے سے حکومت کو مجموعی طور پر 90 ارب روپے خسارے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ یہ خسارہ کہاں سے پورا ہوگا؟ امکان ہے کہ آئندہ بجٹ میں جادو دکھا کر ضرور کسی نئے ٹیکس کے ذریعے اسے پورا کیا جائے گا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اعلان کیا کہ کمپیوٹرائزڈ شناختی کارڈ ہی ٹیکس دہندہ کا نیشنل ٹیکس نمبر ہوگا، اس کے ذریعے ہر تنخواہ دار شخص اور بینکوں کے ذریعے کاروبار کرنے والے افراد ٹیکس نیٹ میں آجائیں گے۔ ایمنسٹی اسکیم میں یہ سہولت بھی دی گئی ہے کہ ملک کے اندر موجود اثاثے 5 فیصد جرمانہ ادا کرکے قانونی بنائے جا سکتے ہیں۔ ملک کے اندر جو اثاثے ظاہر نہیں کیے گئے جن میں سونا، انعامی بانڈز اور پراپرٹی شامل ہے، ان پر 30 جون 2017ء تک جو آمدنی ہوئی ہے اسے پانچ فیصد جرمانہ ادا کرکے باقاعدہ بنایا جا سکتا ہے، اور یہ اعلان بھی کیا گیا ہے کہ ایف بی آر اراضی کی خریدو فروخت کے طے شدہ ریٹس ختم کردے گا، لیکن اب لازم ہوگا کہ خریدار وہی رقم درج کرائے جس میں اراضی خریدی گئی ہے، اور حکومت نے قانون بنادیا ہے کہ وہ کسی بھی اراضی کو اس کی ادا کردہ رقم کے مطابق خود خرید سکے گی۔ نئے قانون کے مطابق نان فائلرز یکم جولائی سے40لاکھ روپے سے زائد مالیت کی پراپرٹی نہیں خرید سکیں گے، اور صوبے پراپرٹی کی رجسٹریشن کے لیے صوبائی یا مقامی نوعیت کے ٹیکسوں کا حجم محض ایک فیصد رکھیں گے۔ وفاقی حکومت کو آئندہ مالی سال سے پاکستان میں رجسٹرڈ کرائی جانے والی پراپرٹی خریدنے کا اختیار حاصل ہوگا جس کے لیے تین درجات رکھے گئے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق ملک کی 20کروڑ 70 لاکھ آبادی میں سے صرف 12لاکھ شہری انکم ٹیکس ریٹرن فائل کرتے ہیں، اور ان میں بھی پانچ لاکھ افراد کی زیرو ریٹرن ہوتی ہے۔ اس طرح صرف سات لاکھ افراد ٹیکس ادا کرتے ہیں جن میں اکثریت تنخواہ دار طبقے کی ہے۔ ان سے حکومت تنخواہ اور دی جانے والی مراعات کے ساتھ ہی ٹیکس کاٹ لیتی ہے۔
وزارتِ عظمیٰ کا منصب سنبھالتے ہوئے قومی اسمبلی میں اپنی پہلی تقریر میں ہی وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے معاشی اصلاحات لانے کا اعلان کیا تھا۔ حالیہ معاشی اصلاحات اور ایمنسٹی اسکیم بھی اسی اعلان کا حصہ ہے۔ حکومت ایک جانب ٹیکس کلچر لانا چاہتی ہے، دوسری جانب 12لاکھ روپے تک سالانہ آمدنی کو ٹیکس سے مستثنیٰ قرار دے دیا ہے، جبکہ 12سے 24 لاکھ تک سالانہ آمدنی پر 5 فیصد ٹیکس ہوگا۔ اسی طرح 48 لاکھ روپے تک آمدنی پر 10 فیصد اور اس سے زائد آمدنی پر 15فیصد ٹیکس لاگو ہوگا، اور اب آف شور کمپنیاں اثاثوں میں شمار ہوں گی۔ یہ اعلان کرکے حکومت نے موقع دیا ہے کہ اگر کسی نے آف شور کمپنی میں اثاثے رکھے ہیں تو انہیں ڈکلیئر کرنے کا یہی مناسب وقت ہے۔
اس اسکیم سے جڑے ہوئے دوسرے مسائل برآمد کنندگان کے ہیں جنہیں یہ گلہ رہا کہ بیرونِ ملک مہنگی اشیاء خریدکر ملک میں لاتے ہیں اور پھر انہیں فروخت کرتے ہوئے ڈالر کی شرح کے باعث خسارہ ہوجاتا ہے۔ اس وقت ملک میں ڈالر کی شرح 115 روپے ہے، جب کہ برآمد کنندگان کا مؤقف اور مطالبہ ہے کہ عالمی مارکیٹ کے حساب سے یہ شرح 129 روپے ہونی چاہیے۔ حکومت نے آئندہ مالی سال 2018-19ء کے لیے ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں مزید ساڑھے گیارہ روپے کی کمی کردی ہے اور بجٹ میں ڈالر کی سرکاری قیمت 117 روپے مقرر کی جارہی ہے، جس کے بعد بغیر کسی قسم کا مزید قرضہ لیے پاکستان کے ذمے واجب الادا قرضے میں مزید10023 ارب روپے کے لگ بھگ اضافہ ہوجائے گا۔ حکومت نے ڈالر کی شرح روک کر ملک میں مہنگائی کو بڑھنے سے روکا ہوا تھا، لیکن اب ڈالر کی شرح میں اضافہ کرنے کے باوجود بھی برآمد کنندگان حکومت سے خوش نہیں ہیں۔
عین ممکن ہے کہ کاروباری طبقہ ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ اٹھاکر ملکی نہ سہی، اپنی ذاتی معیشت ضرور سنبھال پائے گا۔ کاروباری طبقے کے لیے یہ فائدہ سیاسی لحاظ سے مسلم لیگ(ن) کو فائدہ پہنچائے گا۔ حکومت نے یہ بھی فیصلہ کیا ہے کہ وہ تمام لوگ جن کے خلاف ایف بی آر میں مقدمات چل رہے ہیں وہ ٹیکس ایمنسٹی اسکیم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے، تاہم جنہیں ریونیو بورڈ کی جانب سے نوٹس موصول ہوئے ہیں وہ اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ جن افراد کے مقدمات عدالت میں ہیں حکومت ان کے لیے کوئی راستہ نکالنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ وہ بھی اس اسکیم سے فائدہ اٹھا سکیں۔ ان سے متعلق حکومت عدالت سے ہدایات لے سکتی ہے۔ یہی وہ پہلو تھا جس کے لیے وزیراعظم نے چیف جسٹس سے ملاقات کی تھی۔ حکومت سمجھتی ہے کہ جو 2 لاکھ روپے ماہانہ کمارہے ہیں وہ بآسانی اپنی سالانہ آمدنی کا 5 فیصد ادا کرسکتے ہیں۔ اس طبقے کو ٹیکس نیٹ میں شامل کرنا حکومت اپنی ایک بڑی کامیابی سمجھتی ہے۔
وزیراعظم کی اعلان کردہ نئی ایمنسٹی اسکیم کو تحریک انصاف نے مسترد کردیا ہے، جماعت اسلامی اور اپوزیشن کی دیگر جماعتیں بھی تنقید کررہی ہیں۔ عمران خان نے تو اسے عدالت میں چیلنج کرنے کا عندیہ دیا ہے، جب کہ ملک کے کاروباری طبقے کا مؤقف ہے کہ قومی معیشت پر اس اسکیم کے مثبت اثرات کو نظراندازنہیں کیا جا سکتا، اس سے زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھیں گے۔ اس طبقے کی رائے ہے کہ نئی ایمنسٹی اسکیم کا اجرا ملکی معیشت کو اپنے پائوں پر کھڑا کرنے کے لیے ایک درست قدم ہے۔ دوسری جانب ایمنسٹی اسکیم کے اعلان کے ساتھ ہی اسٹاک مارکیٹ میں جس طرح مندی کے رجحان کو بریک لگا اور مختلف حصص پر منافع کی شرح تیز رفتاری سے بڑھتی ہوئی نظر آئی۔ اسے بھی نظرانداز نہیں کیا جاسکتا کہ ماضی میں جاری ہونے والی ایسی اسکیموں کا ملک کو خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا، کیونکہ کالا دھن سفید کرانے کی ترغیبات کے باوجود لوگ ٹیکسوں سے بچنے کے لیے بیرونِ ملک موجود اپنی رقوم ملک واپس لانے سے گریز کرتے رہے ہیں۔ تاہم نئی ایمنسٹی اسکیم کے تحت ٹیکسوں میں بھی غیر معمولی چھوٹ دی جا رہی ہے جس سے کالا دھن واپس لانے کے لیے کسی جانچ پڑتال سے قانونی تحفظ حاصل ہونے کے ساتھ ساتھ ٹیکسوں کی ادائیگی میں بھی رعایت مل رہی ہے، اس لیے اس اسکیم سے زیادہ سے زیادہ لوگ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔ جو لوگ سرمایہ ملک سے باہر لے گئے اور وہاں انہوں نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے یا دوسرے ذرائع سے سرمایہ کاری کر رکھی ہے وہ سرمایہ ملک میں واپس لاکر قومی معیشت بہتر بنانے میں ممدو معاون ہو سکتے ہیں۔ حال ہی میں آئی ایم ایف نے اپنی رپورٹ میں پاکستانی معیشت کی زبوں حالی کی جو روداد بیان کی وہ باعثِ شرم ہے۔ اس وقت معاشی حقائق یہ ہیں کہ زر مبادلہ کے ذخائر صرف 12ارب ڈالر تک رہ جانے کے باعث ملکی معیشت کو جھٹکا لگا ہوا ہے۔ بیرونِ ملک سے پاکستانیوں کا سرمایہ ملک میں منتقل ہونے کی صورت میں زر مبادلہ کے ذخائر پر چھائی غیر یقینی کی صورت ِحال بھی چھٹ سکتی ہے۔ اس اسکیم کا سیاسی فائدہ یہ ہوسکتا ہے کہ مثبت نتائج حاصل ہونے کی صورت میں بے شک آئندہ انتخابات میں مسلم لیگ(ن) کو پوائنٹ اسکورنگ کا موقع مل جائے گا،ضرورت ہے کہ اپوزیشن اس اسکیم کا حقیقی تجزیہ کرے اور اس کی روشنی میں رائے عامہ تشکیل دے، کیونکہ پیسہ باہر سے آجانے کی صورت میں اگلی حکومت کے لیے معیشت کو سنبھالنا اور ملکی نظم و نسق چلانا آسان ہو جائے گا چاہے وہ جماعت اس وقت اپوزیشن میں ہی کیوں نہ ہو۔