کشمیر جنت نظیر خطہ ہے، لیکن گزشتہ چار عشروں سے سری نگر، وادی اور جموں میں تحریک آزادیٔ کشمیر کے دوران آگ اور خون کی ہولی کھیلی جارہی ہے، زعفران کے قیمتی کھیت اجاڑے گئے ہیں، سیب کے باغات تباہ کیے گئے ہیں، مساجد، گھر اور تعلیمی ادارے مسمار کیے گئے ہیں۔ اس تباہی کے نتیجے میں مقبوضہ وادی میں صرف حراستی مراکز اور قبرستان ہی آباد ہوئے ہیں، جہاں ہر روز ظلم و سفاکی کی نئی کہانیاں جنم لیتی ہیں اور قبرستانوں میں نئی قبریں تیار ہوتی ہیں۔ کشمیر میں قبرستانوں کے لیے زمین کم پڑنا شروع ہوگئی ہے۔ ان چار عشروں میں تحریک آزادی کے دوران ایک لاکھ کشمیری بھارتی فوج کے ہاتھوں ظلم کا شکار ہوکر شہید ہوچکے ہیں۔ اقوام متحدہ، سلامتی کونسل اور انسانی حقوق کے علَم بردار عالمی ادارے خاموش ہیں اور بھارت کے سامنے بے بس نظر آتے ہیں۔ وادیٔ لولاب سے اٹھنے والی آزادی کی تحریک لاکھوں جانوں کی قربانیاں دے کر بھی مسلسل آگے بڑھ رہی ہے اور حریت پسندکشمیری قوم اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق دنیا کے منصفوں سے اپنے لیے انصاف مانگ رہی ہے، اور شہدا کے لہو میں رنگے ہوئے کفن کی مہک پکار رہی ہے کہ عالمی برادری کشمیر میں بہتے ہوئے لہو کا شور سنے۔
اگر تحریک آزادی کے گزشتہ چار عشروں کا ایک عمومی جائزہ لیا جائے تو حقائق کچھ یوں ہیں کہ جنوری1989ء سے مارچ 2018ء تک مقبوضہ وادی میں 94952 کشمیریوں کی شہادتیں ہوئی ہیں، جن میں بچے، بوڑھے، جوان سب شامل ہیں۔ جب کہ7104 شہادتیں تھانوں اور حراستی مراکز میں حراست کے دوران ہوئی ہیں۔143481 شہری گرفتار ہوئے ہیں، اور یہ دنیا کے کسی بھی خطے میں انسانی حقوق اور اپنے سیاسی حق کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں گرفتاریوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔ بھارتی قابض فوج کے ہاتھوں 108709 گھر، دکانیں، اسکول، مساجد، مدارس تباہ ہوچکے ہیں۔ کشمیر کی جدوجہدِ آزادی کے دوران اب تک 22867 کشمیری خواتین بیوہ ہوچکی ہیں، 107701 بچے یتیم ہوچکے ہیں، اور11058 خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی ہیں۔ صرف مارچ2018ء میں مقبوضہ وادی میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں 29 کشمیری شہید ہوئے ہیں، 198 گرفتار کیے گئے ہیں، جبکہ 15 خواتین اجتماعی زیادتی کا شکار ہوئی ہیں۔ شوپیاں اور پلوامہ میں مسلسل نویں روز بھارتی فورسز کے مظالم اور انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں پر کاروبارِ زندگی معطل ہے اور مسلسل ہڑتال رہی ہے۔ یہی صورتِ حال بڈگام، جموں، ڈوڈہ، اسلام آباد، اننت ناگ، بارہ مولا، بانڈی پورہ، کپواڑہ اور دیگر شہروں، دیہاتوں اور قصبوں میں رہی۔ کشمیری لیڈرشپ مسلسل وقفے وقفے سے گھروں اور جیلوں میں نظربند کی جارہی ہے اور انہیں کسی بھی قسم کی طبی سہولتیں بھی فراہم نہیں کی گئی ہیں۔ عید اور جمعہ کی نماز کی ادائیگی کے لیے بھی مسجد جانے کی اجازت نہیں دی جاتی۔ بھارتی مظالم کے جواب میں کشمیری قوم کے نوجوان مظفر برہان وانی بن رہے ہیں، وہ پاکستان کا ترانہ گاتے ہیں اور بھارت کے خلاف پاکستانی کرکٹ ٹیم کی کامیابی پر خوشیاں مناتے ہیں۔ سری نگر کی گلیوں، بازاروں اور وادی میں ہر جگہ پاکستانی پرچم لہرائے جاتے ہیں۔
ابھی حال ہی میں تشدد کے تازہ ترین واقعات میں جنوبی کشمیر کے سیبوں کی پیداوار اور وادی کو بھارت سے ملانے والی تاریخی شاہراہ پر واقع اس ضلع کو حریت پسند نوجوانوں سے پاک کرنے کے نام پر تین مختلف مقامات پر فوجی آپریشن علی الصبح شروع ہوئے۔ ان آپریشنز نے مقامی آبادی کو مشتعل کردیا۔ عورتوں اور بچوں سمیت تمام لوگ اپنے گھروں سے باہر نکل کر قابض افواج کے خلاف نعرے بازی میں مصروف ہوگئے۔ نمازِ جنازہ کے بعد مشتعل ہجوم کو ایک بار پھر اسرائیل سے خریدی گئی ایسی گولیوں کے استعمال سے منتشر کرنے کی کوششیں ہوئیں جن سے نکلنے والے چھرے بینائی چھین لیتے ہیں۔ شوپیاں کے ڈسٹرکٹ ہسپتال میں تعینات ایک ڈاکٹر کے مطابق اس کے زیرِ نگرانی کم از کم 60 افراد کی آنکھوں کے آپریشن ہوئے ہیں، کامیابی کی مگر کوئی اُمید نظر نہیں آرہی۔ یکم اپریل 2018ء کا دن مقبوضہ کشمیر کا ایک اور سیاہ دن ثابت ہوا۔
بھارت طاقت کے زور پر کشمیر کو جلارہا ہے، بھارت کشمیریوں کی تحریک آزادی کو دبانے کے لیے کوشش کررہا ہے، بھارت مسئلہ کشمیر پر مزاکرات کے لیے تیار نہیں ہے، وزیر اعظم مودی انتہاء پسند تنظیموں کے ایجنڈے کے مطابق کشمیر کو ہندو کلچر کا حصہ بنانا چاہتے ہیں اس میں انہیں کامیابی نہیں ملے گی وانی شہید کی شہادت کشمیر کو ہند کلچر بنانے کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ بن گئی ہے اس شہادت کے بعد کشمیر کی پوری قیادت ایک بار پھر سے متحد ہوگئی ہے اور کشمیر مزاحمتی قیادت کے طور پر سامنے آگئی ہے سید علی گیلانی، میر واعظ عمر فاروق اور یسین ملک تینوں ایک پلیٹ فارم پر ہیں اور مل کر فیصلے کر رہے ہیں اور عوام کی سیاسی اور آزادی کی تحریک میں مکمل رہنمائی کر رہے ہیں ۔