وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا دورۂ کابل

کیا پاکستان اور افغانستان کے درمیان کوئی مفاہمتی فارمولا کامیاب ہوسکے گا؟ دونوں ملک اس وقت تعلقات کی خرابی کے تناظر میں نہ صرف بحران کا شکار ہیں بلکہ ان کے داخلی بحران بھی تعلقات کی اسی خرابی سے جڑے ہوئے ہیں۔ اگرچہ دونوں طرف سے کئی بار تعلقات کی بہتری اور امن کے حوالے سے مشترکہ کوششیں کی گئیں، لیکن بداعتمادی، الزام تراشی اور مداخلت پر مبنی ماحول نے قریب آنے کے بجائے فاصلے پیدا کیے ہیں۔
اس وقت امریکہ کی حمایت سے کابل میں موجود افغان حکومت اپنے داخلی مسائل اور وہاں ہونے والی دہشت گردی کو براہِ راست پاکستان کی مداخلت سے جوڑتی ہے۔ پاکستان کی ریاست پر براہِ راست یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ اپنے مخصوص مفادات کے لیے افغانستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہے اور دہشت گردوں کی حمایت کرتی ہے۔ جبکہ اس کے برعکس پاکستان کا مؤقف ہے کہ ہم تو خود اس وقت دہشت گردی کاشکار ہیں۔ کئی بار پاکستان نے افغان حکومت سمیت عالمی برادری کو افغانستان میں موجود دہشت گردوں کے حوالے سے ثبوت بھی فراہم کیے، پاکستان میں دہشت گردی کرکے خطے کے امن کو سبوتاژ کررہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود عالمی برادری بھارت کے خلاف ثبوت کے باوجود خاموش ہے۔ اس خاموشی کا نتیجہ یہ بھی نکل رہا ہے کہ بھارت کی ہٹ دھرمی میں شدت آرہی ہے۔ افغانستان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو بنیادی طور پر بھارت کے آلۂ کار بن کر پاکستان سے تعلقات کی خرابی کا ایجنڈا رکھتے ہیں۔
پاکستان کو افغان حکومت اور خود امریکہ سمیت بہت سے ممالک یہ الزام دیتے ہیں کہ افغان طالبان سے مذاکرات اور مفاہمت کے عمل میں پاکستان کا کردار مثبت نہیں۔ حالانکہ یہ بات پاکستان کئی بار باور کروا چکا ہے کہ افغان طالبان پاکستان کے کنٹرول میں نہیں۔ یہ بات بھی ریکارڈ پر موجود ہے کہ جب بھی پاکستان نے افغان حکومت اور افغان طالبان میں مذاکرات اور مفاہمت کا راستہ نکالنے کی کوشش کی تو اس میں رکاوٹیں اور مسائل بھی خود افغان حکومت اور اس کی حمایت یافتہ بھارتی حکومت نے پیدا کیے۔ افغان حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ اس کی اپنی عمل داری محض کابل تک محدود ہے۔ اس طرح افغان حکومت خود بھی داخلی بحران کا شکار ہے۔ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداللہ عبداللہ کے درمیان تعلقات کی نوعیت بھی مثالی نہیں۔ اسی طرح افغان انٹیلی جنس ایجنسی اور بھارت کی خفیہ ایجنسی ’را‘ کے درمیان موجود گٹھ جوڑ اور پاکستان مخالف ایجنڈا حکومتی بے بسی کو ظاہر کرتا ہے۔ اس معاملے میں افغان میڈیا بھی تعلقات کو خراب کرنے کے ایجنڈے کا حصہ ہے، جو افغان رائے عامہ کو پاکستان کے خلاف کررہا ہے اور یہ تاثر دے رہا ہے کہ افغانستان میں ہونے والی دہشت گردی میں پاکستان براہِ راست ملوث ہے۔
اصولی طور پر پاکستان اور افغانستان کے درمیان جہاں سے بھی امن کا راستہ نکلے، ہمیں اس کی حمایت کرنی چاہیے۔ کیونکہ امن کا براہِ راست تعلق مجموعی طور پر خطے کی سیاست سے جڑا ہوا ہے۔ حال ہی میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کابل کا دورہ کیا۔ اس دورے کا حتمی نتیجہ سات نکاتی ایجنڈے کی صورت میں سامنے آیا ہے:
(1) پاکستان اور افغانستان کی قیادت اور اُن کے زیر سایہ ہونے والے امن و مفاہمتی عمل کی حمایت کی جائے گی۔
(2) دونوں ملک اپنی سلامتی کے لیے خطرہ بننے والے مفرور دہشت گردوں کے خلاف مؤثر کارروائی کریں گے۔
(3) اپنی اپنی سرزمین کسی بھی قسم کی دہشت گردی کے لیے کسی نیٹ ورک، گروپ اورافراد کو نہیں دیں گے۔
(4) اس سات نکاتی پلان پر عملدرآمد کے لیے رابطہ افسروں کے لیے مشترکہ نگرانی، ہم آہنگی اور تصدیقی نظام قائم کیا جائے گا۔
(5) ایک دوسرے کی زمینی و فضائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی جائے گی۔
(6) دونوں ملک ایک دوسرے پر الزام تراشیوں سے گریز کریں گے۔
(7) اس پلان پر عملدرآمد کے لیے ورکنگ گروپس کا قیام عمل میں لایا جائے گا اور تعاون کے نظام کو مؤثر بنایا جائے گا۔
دونوں ملکوں نے اس بنیادی نکتے پر اتفاق کیا کہ مسئلے کا حل جنگ نہیں بلکہ مذاکرات سے جڑا ہوا ہے اور ہمیں کسی فوجی حل کے بجائے سیاسی حل تلاش کرنا چاہیے، کیونکہ دہشت گرد پاکستان اور افغانستان دونوں کے مشترکہ دشمن ہیں۔ اسی طرح دونوں ملکوں نے معاشی میدان میں تعاون کے امکانات کو بڑھانے پر اتفاق کیا جس میں تجارت اور ٹرانزٹ کے معاملات، چمن قندھار ریلوے لائن، پشاور کابل موٹر وے، گیس اور توانائی کے منصوبے، قیدیوں کے تبادلے، سوشل سیکٹر کو آگے بڑھانا شامل ہے۔ یہ ایک اہم پیش رفت ہے۔ اس سے قبل آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا دورۂ کابل اور وہاں کی سیاسی و عسکری قیادتوں سے باہمی رابطوں میں بھی ان تمام امور کا جائز لیا گیا کہ دونوں ملک دہشت گردی کے خاتمے اور امن کے حوالے سے کیسے تعاون کے امکانات کو آگے بڑھا سکتے ہیں۔ اسی طرح سے افغان مہاجرین کی واپسی اور ٹائم لائن کے میکنزم کو بھی حتمی شکل دینا ضروری ہوگا۔
اصل میں پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات کی بہتری اور دہشت گردی سے نمٹنے یا اعتماد کی بحالی میںایک رکاوٹ بھارت بھی ہے۔
گزشتہ کئی برسوں سے بھارت اور افغانستان نے مل کر بھی امن کے اس ایجنڈے کو نقصان پہنچایا ہے۔ یہ شواہد بھی موجود ہیں کہ پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے بیشتر واقعات میں بھارت نے افغانستان کی سرزمین کو استعمال کیا ہے، کیونکہ بھارت کسی بھی صورت میں افغانستان سمیت خطے کی سیاست میں پاکستان کے مؤثر کردار کو قبول نہیں کرے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ایک طرف پاکستان اور افغانستان ایک دوسرے سے مل کر کام کرنے کا ایجنڈا مرتب کررہے ہیں، تو دوسری طرف قندوز میں مدرسے کو ہدف بناکر جس بہیمانہ انداز میں معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا وہ بھی اس امن کو متاثر کرے گا۔ یہ عمل افغان طالبان میں بھی ردعمل پیدا کرے گا اور وہ کہیں گے کہ ایک طرف افغان حکومت ہم سے بات چیت چاہتی ہے اور دوسری طرف قندوز میں بچوں کو بے دردی سے نشانہ بنایا گیا ہے۔ اس لیے مذاکرات کی جو بات آگے بڑھ سکتی تھی اس میں بھی رکاوٹیں کھڑی کی جارہی ہیں۔
افغانستان کے داخلی بحران سے نمٹنے کے لیے افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان اعتماد سازی اور تعاون ناگزیر ہے، لیکن سوال یہ ہے کہ افغان حکومت کے پاس افغان طالبان کو دینے کے لیے کیا ہے؟ کیونکہ ایک کمزور حکومت جو بنیادی طور پر امریکہ کے سہارے کھڑی ہے، وہ کچھ دینے کی سکت ہی نہیں رکھتی۔ افغان طالبان یہ سمجھتے ہیں کہ افغان حکومت کی اپنی مجبوری بن گئی ہے کہ وہ ہم سے مل کر امن کا راستہ تلاش کرے، لیکن اس کے لیے جو شرائط افغان طالبان دیتے ہیں انہیں قبول کرنے کے لیے افغاحکومت تیار نہیں۔
وزیر اعظم پاکستان کے دورہ کابل کے بعد جو سات نکاتی ایجنڈا سامنے آیا ہے اس میں سے بیشتر نکات ایسے ہیں جو پہلے بھی پیش کیے جاچکے ہیں۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ بلی کے گلے میں گھنٹی باندھے گا! کیونکہ اگر ان سات نکات کو بھی محض نکات بناکر عملاً الزام تراشیاں کی جاتی ہیں اور ایک دوسرے پر مداخلت کے الزامات لگاکر اسے اپنی ناکامی کی وجہ قرار دیا جاتا ہے تو پھر یہ سات نکات بھی کچھ نہیں کرسکیں گے۔
حال ہی میں اسپیشل انسپکٹر جنرل برائے تعمیرنو افغانستان (SIGAR) سمیت بی بی سی کے کابل میں موجود نمائندوں کی تحقیقی رپورٹیں سامنے آئی ہیں جو افغان حکومت، آرمی، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور اداروں کی نااہلی اور ناکامی پر چارج شیٹ ہیں۔ یہ دونوں رپورٹیں ظاہر کرتی ہیں کہ افغان حکومت داخلی بحران کو حل کرنے کے بجائے اسے بڑھا رہی ہے اور اس وقت70 فیصد حصے پر افغان حکومت نہیں بلکہ طالبان کا کسی نہ کسی شکل میں قبضہ ہے۔ یہ حالات افغان آرمی کی کمزوری کو بھی ظاہر کرتے ہیں کہ وہ حالات کو کنٹرول کرنے میں ناکام رہی ہے اور خود مقابلہ کرنے کے بجائے عملاً خوف کا شکار ہے، اور اس کی عمل داری بھی کمزور نظر آتی ہے۔
بنیادی طور پر افغان حکومت کا حد سے زیادہ امریکہ پر انحصار اپنی جگہ، لیکن اسے خود بھی ثابت کرنا ہوگا کہ وہ ایک مؤثر حکومت ہے اورکچھ فیصلوں کی طاقت بھی رکھتی ہے۔ قندوز مدرسے میں ہونے والے واقعے کی مذمت کرنے کے بجائے افغان حکومت کا اس کی حمایت کرنا اسے طالبان سے دور بھی کرسکتا ہے۔