اپریل 2018ء کے ابتدائی دنوں میں بہ یک وقت کشمیر سے قندوز، اورغزہ سے غوطہ تک پیش آنے والے انسانیت سوز مظالم نے یہ کلیہ مستحکم کیا کہ مغرب اسلام سے جنونی تصادم میں مبتلا ہے۔ بلکہ مغرب کی جگہ اگر ہم جاہلیت کی اسلام سے عالمی دہشت ناک جنگ کہیں تو زیادہ مناسب لگے گا۔ اس ضمن میں متحارب دلائل محض رذائل ہیں۔
قابلِ توجہ باتیں دو ہیں: اس المناک صورتِ حال کے داخلی اور خارجی اسباب اور اس کے داخلی اور خارجی سدباب۔ پہلے ان المناک واقعات کا دلخراش تذکرہ ضروری ہوگا، تاکہ صورتِ حال کی سنگینی کا تھوڑا سا اندازہ ہوسکے۔ کشمیر اور فلسطین میں جو کچھ ہورہا ہے، اسے دوخطوں کی ایک کہانی میں سمجھا جاسکتا ہے۔ دونوں وہ سلگتے خطے ہیں، جہاں مسلمان آبادیوں پر زمین تنگ کردی گئی ہے۔ یہود وہنود کی فوجیں نہتے اور نیم مسلح مزاحمت کاروں سے ’’نمٹ‘‘ رہی ہیں۔ ظاہر ہے ہندوستان اور اسرائیل دونوں قابض ہیں، غاصب ہیں… اس لیے مسلمانوں کی جان، عزت اور املاک تینوں کا آئے دن استیصال کرتے ہیں۔ دونوں مقامات پر مقامی آبادیاں آزادی کی تحریکیں چلارہی ہیں، جوگوریلا یا انفرادی نیم مسلح مزاحمت سے زیادہ آگے نہیں جاسکتیں۔ پتھروں اورنعروں سے احتجاج کیا جاتا ہے، جس کا جواب اندھا دھند فائرنگ سے دیا جاتا ہے۔ یوں بہت سے نوجوان شہید ہوجاتے ہیں، بہت سارے زخمی ہوجاتے ہیں۔ یہی حالیہ دنوں میں ہوا۔ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج نے شوپیاں اور اسلام آباد کا محاصرہ کیا، گھروں میں گھسے، جس نوجوان کو چاہا گھسیٹتے ہوئے باہر لائے، فائرنگ سے شہید کردیا۔ ظلم اور اشتعال انگیزی کو’پبلک‘ کیا گیا، تاکہ دیکھنے والے مشتعل افراد ردعمل ظاہر کریں۔ جب یہ جذباتی اور احتجاجی ردعمل رونما ہوا، تو مجمع پرگولیاں چلا دیں۔ یوں قتل، زخم، غصب، استیصال اورجبرکے اہداف پورے کیے۔ پیلٹ گنوں کے ذریعے دھات کے ہزاروں چھرّے مارے گئے۔ یہ بظاہر ہلکا اسلحہ صرف 2016ء میں 1314 افراد کو نابینا بناچکا ہے۔
قریب قریب یہی صورتِ حال غزہ کی ہے۔ چھوٹی سی ساحلی پٹی کی سرحد پر یوم ارضِ فلسطین کے سلسلے میں مارچ ہوا، جس پر اسرائیلی فوجیوں نے گولیوں کی بوچھاڑکردی۔ درجنوں شہید ہوئے، سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اس موقع کی رپورٹنگ پر موجود فلسطینی صحافی یاسر مرتضیٰ بھی شہید ہوئے۔ یہ سب طویل عرصے سے ہورہا ہے۔
ایک المناک واقعہ قندوز افغانستان میں پیش آیا۔ امریکی اور افغان فورسز نے مسجد اور مدرسے میں منعقد حفاظِ کرام کی تقریب پر حملہ کیا۔ معصوم جگر گوشے شہید ہوئے۔ یہ بہت ہی دلسوزواقعہ تھا۔ عینی شاہدین نے بتایا کہ نہتے طلبہ پرگن شپ ہیلی کاپٹروں سے شیلنگ کی گئی۔
دوسرا قتلِ عام شام کے علاقے مشرقی غوطہ میں جاری ہوا۔ کیمیائی ہتھیاروں کے ذریعے معصوم بچوں اور خواتین کو نشانہ بنایا گیا۔ اسرائیل، بشار فورسز، روس، امریکہ، داعش اورکردوں کے اتحاد نے عراق وشام میں انسانی تہذیب تباہ کردی۔ یہ سب حسبِ توفیق مسلمان آبادیوں کا قتلِ عام کرتے رہے ہیں۔ انسانی حقوق کی ہاہاکار مچتی ہے تو ایک دوسرے پر الزام دھرکر نوراکشتی کا ڈراما کرتے ہیں، حالانکہ یہ سب ایک ہیں۔ عراق و شام وہی زمین ہے، جہاں سے عظیم انسانی تہذیبوں نے زندگی کی ابتدا کی تھی۔ افغانستان اور کشمیر میں بھی طویل عرصے سے یہ سب ہورہا ہے۔ مذکورہ ساری صورتِ حال پر بے شمارصفحات سیاہ کیے جاچکے ہیں۔ مگراسباب وسدباب پر سادہ سی نگاہ کا تناسب نہ ہونے کا سا ہے۔ سارا زور تنقیہ جذبات (Catharsis) پر رہا ہے۔
درپیش المناک صورتِ حال کے داخلی اسباب سمجھنے کے لیے یہ یقین کرنا لازم ہے کہ تمام مذکورہ مظلومین مسلمان ہیں اور یہی ’مسلمان‘ ظالموں کا واحد ہدف ہے۔ اس لیے اس ظلم کے خاتمے کی داخلی ذمے داری صرف مسلمان حکمرانوں، علماء و زعماء اورمعاشرے پرعائد ہوتی ہے۔ ان کا حال جاننے کے لیے علامہ ابن خلدون سے رجوع کرتے ہیں۔ ’’مقدمہ ابن خلدون‘‘ میں وہ زوالِ امم کی بابت لکھتے ہیں:
’’جمود کی حالت کے ایک استیلاء کے بعد دو نئے خطرے معاشرے (تہذیب) کے وجود کو دھمکاتے رہتے ہیں: اندرونی اور بیرونی خطرات۔ اندرونی خطرہ یہ ہے کہ قوم کا مذہبی اور اخلاقی نظام متزلزل ہوجائے۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ قوم کی قوتِ حیات گھٹنے لگتی ہے۔ اگر باہر سے حملہ نہ بھی ہو تو یقینا اس کے دل و دماغ بیکار رہتے رہتے ختم ہوجاتے ہیں۔ معاشرتی (تہذیبی) تنزل افراد کے انحطاط اور اخلاق و ایمان کی پستی سے شروع ہوتا ہے۔ ان کا قلب خوفِ خدا سے بے نیاز اور موت کے خوف سے بھرپور ہوجاتا ہے۔ اس صورتِ حال کا نتیجہ سفاکی اور خودغرضی، بلکہ زیادہ صحیح یہ ہے کہ انانیت کے روپ میں سامنے آتا ہے، وہ اجتماعی جدوجہد میں اپنے فرائض ادا کرنے سے قاصر رہ جاتے ہیں۔ ان کی یہ انانیت نظم اجتماعی درہم برہم کرکے رکھ دیتی ہے۔ یہاں تک کہ اجتماعی احساس، اجتماعی ارادہ، اجتماعی قوتِ عمل اور اجتماعی توافق و خیالات مفقود ہوجاتے ہیں۔‘‘
مسلمان معاشروں کی مجموعی صورتِ حال یہی ہے۔ مستثنیٰ وہ ہیں جو براہِ راست ظلم کا سامنا کررہے ہیں، یا وہ جو بالواسطہ دبا لیے گئے ہیں۔
اب خارجی اسباب کی طرف چلتے ہیں اور چند سوالات سے رہنمائی لیتے ہیں۔ دنیا بھرمیں ’مسلمان‘ کیوں مظلوم بنائے جارہے ہیں؟ اگر اس لیے کہ وہ اسلام کے نام لیوا ہیں، تو اسلام سے ظالموں کوکیا خطرہ ہے؟ اور یہ کہ کمزور و بے عمل مسلمان اور خال خال اسلام کس طرح طاقتور ظالموں کے لیے خطرہ ہوسکتے ہیں؟ یا صرف اسلام کس طرح ترقی یافتہ اور ٹیکنالوجی سے لیس جدید مغرب کے لیے دعوتِ مقابلہ ہوسکتا ہے؟ صلیبی جنگوں میں تو اسلام اور مسیحی دنیا کا تصادم قابلِ فہم تھا، اور طاقت کا جسمانی اور روحانی توازن بہت معقول تھا۔ مغرب بہت حد تک مسیحی تھا۔ مگر آج تو بقول برطانوی دانشور ٹوائن بی ’’مسلم دنیا مغرب کا اس طرح سامنا کررہی ہے کہ پشت دیوار سے لگی ہے۔ مگر آج حالات اسلام کے لیے بہت دشوار ہیں، اتنے دشوار حالات صلیبی جنگوں کے انتہائی کٹھن دور میں بھی پیش نہ آئے تھے۔ اِس بار مغرب نہ صرف جنگی قوت میں بہت آگے ہے بلکہ معاشی زندگی کے طریقوں میں بھی غالب ہے۔‘‘ (Islam, The West, and the future)
جواب کی طرف جانے سے پہلے یہ وضاحت برمحل ہوگی کہ مسیحیت اور یہودیت کی اسلام سے کشمکش مسلسل ہے۔ مسلمانوں کے جمود اور مغرب کی ملحدانہ مہم جوئی سے کشمکش میں قدرے کمی آگئی تھی۔ ٹوائن بی کا یہ کہنا درست ہے کہ اسلام کے خلاف موجودہ صلیبی جنگ شدید ترین ہے، جبکہ مسلمانوں کی حالت کمزور ترین ہے۔
اب آتے ہیں جواب کی جانب۔ جس دور میں خلافتِ عثمانیہ ختم ہورہی تھی، مشرق میں اسلامی احیائی تحریکیں پیدا ہورہی تھیں، اور مغرب میں الحاد اور قوم پرستی زوال پذیر ہورہی تھی۔ علامہ اقبالؒ نے مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کا مشاہدہ کیا۔ ہندوستان میں سید مودودیؒ تجدید و احیائے دین کا درس دے رہے تھے۔ مصر میں امام حسن البناؒ شہید اخوان المسلمون کے شب وروز رقم کررہے تھے۔ دوسری جانب ملحد مغرب مذہب سے رجوع کررہا تھا، مگر مذہب کے نام پر مغرب کی متاع مسخ شدہ تعلیمات کے سوا کچھ نہ تھی، جن کی انسان کے مستقبل سے مطابقت محال تھی۔ مذہبِ کامل صرف اسلام ہی رہ گیا تھا۔ برطانوی مدبر جارج برنارڈ شا نے 1936ء میں کہا کہ ’’سو سال کے اندر اسلام یورپ کا غالب مذہب بن جائے گا‘‘۔ یہ وہی دور تھا جب مؤرخ آرنلڈ ٹوائن بی نے لکھا کہ اسلام میں نسلی مساوات اور شراب کی حرمت دو ایسے اوصاف ہیں جوانسانی تہذیب میں روحانیت اور مساوات کی کمی پوری کرسکتے ہیں۔ اسلام میں بیداری کی بھرپور صلاحیت ہے، خواہ نیند اصحابِ کہف جیسی ہی کیوں نہ ہو۔ تاریخ میں دوبار ایسا ہوچکا ہے۔ پہلی بار جب مسلمانوں نے شام اور مصر پر ہزار سال سے قائم ہیلنک دور (یونانی عہد) کا خاتمہ کیا تھا، اور دوسری بار جب نورالدین زنگی اور سلطان صلاح الدین ایوبی کی قیادت میں صلیبیوں اور منگولوں کو شکست سے دوچارکیا تھا۔ اگر انسانی معاشروں کی موجودہ صورتِ حال نسل پرستانہ جنگ کی طرف گئی، تو اسلام پھر تاریخی کردار ادا کرسکتا ہے۔ ایک طرف اسلامی تحریکیں اور دوسری جانب مغرب کے سنجیدہ مفکرین کا دوررس مشاہدہ اور بصیرت… علمی و تحقیقی حلقوں میں بے چینی پیدا ہوئی۔ پروفیسر ہن ٹنگٹن نے جہادِ افغانستان کی عظیم الشان فتح پر زمینی حقائق کا ادراک کیا اور اسلام کو مغرب کے لیے خطرہ قراردیا۔ یہ 1990ء کی دہائی تھی۔ مسلمانوں کے قتل عام کی باقاعدہ عالمی مہم شروع ہوئی۔ بوسنیا میں وحشت و دہشت کا بدترین مظاہرہ کیا گیا۔ الجزائر میں دیہات کے دیہات خون میں نہلا دیے گئے۔ عراق میں بچوں کا قتلِ عام ہوا۔ افغانستان کا رخ کیا گیا اور پھر قتلِ عام کیا گیا۔ عراق کا پھر رخ کیا گیا اور بم برسائے گئے۔ شام تباہ کردیا گیا۔ میانمر میں روہنگیا مسلمانوں کی نسلیں مٹا دی گئیں۔ کشمیر و فلسطین میں مسلمانوں کے قتل عام کی شدت بہت بڑھ گئی۔ مغرب اور اُس کے فطری اتحادیوں نے حسبِ توفیق مسلمانوں کے قتل عام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ مسلمانوں کے عالمی قتل عام پر تحقیقات ہوں تولاشوں کا شمار دشوار ہوجائے۔ بچوں اور عورتوں پر دہشت ناک حملوں کے حوالے سے شاید یہ تاریخ کا بدترین دور ہے۔ اس سب کے باوجود یہ جنونی مہم ہرگزرتے لمحے تیز ہورہی ہے۔ عالمی ذرائع ابلاغ اور حکومتیں اسلام دشمن پالیسیوں پر متفق ومتحد ہیں۔ یہ سب نہ کوئی راز ہے اور نہ ہی انکشاف ہے۔ تفصیل سے تحقیقات ہوجائے توکتب خانہ بن جائے۔
داخلی اور خارجی سدباب کیا ہوسکتے ہیں۔ مجددِ اسلام سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ نے ’’شہادتِ حق‘‘ کے عنوان سے چند الفاظ میں نہ صرف یہ سدباب بیان کردئیے ہیں بلکہ تاریخ ساز پیش گوئیاں کی ہیں۔ سید صاحب فرماتے ہیں:
’’میرے علم میں آپ کا حال اور آپ کا مستقبل معلق ہیں، اس سوال پر کہ آپ اس ہدایت کے ساتھ کیا معاملہ کرتے ہیں جو آپ کو خدا کے رسولؐ کی معرفت پہنچی ہے، جس کی نسبت سے آپ کو مسلمان کہا جاتا ہے، اور جس کے تعلق سے آپ… خواہ چاہیں نہ چاہیں… بہرحال دنیا میں اسلام کے نمائندے قرار پاتے ہیں۔ اگر آپ اس کی صحیح پیروی کریں اور اپنے قول اور عمل سے اس کی سچی شہادت دیں، اور آپ کے اجتماعی کردار میں پورے اسلام کا ٹھیک ٹھیک مظاہرہ ہونے لگے تو آپ دنیا میں سربلند اورآخرت میں سرخ رو ہوکر رہیں گے۔ خوف اور حزن، ذلت اور مسکنت، مغلوبی اور محکومی کے یہ سیاہ بادل جو آپ پر چھائے ہوئے ہیں چند سال کے اندر چھٹ جائیں گے۔ آپ کی دھاک اور ساکھ دنیا پر بیٹھتی چلی جائے گی۔ انصاف کی امیدیں آپ سے وابستہ کی جائیں گی۔ ائمہ کفرکی کوئی ساکھ آپ کے مقابلے میں باقی نہ رہ جائے گی۔ ان کے تمام فلسفے اور سیاسی ومعاشی نظریے آپ کی سچائی اور راست روی کے مقابلے میں جھوٹے ملمع ثابت ہوں گے۔ جو طاقتیں آج ان کے کیمپ میں نظر آرہی ہیں، ٹوٹ ٹوٹ کر اسلام کے کیمپ میں آتی چلی جائیں گی۔ حتیٰ کے ایک وقت وہ آئے گا جب کمیونزم خود ماسکو میں اپنے بچاؤ کے لیے پریشان ہوگا۔ سرمایہ دارانہ ڈیموکریسی خود واشنگٹن اور نیویارک میں اپنے تحفظ کے لیے لرزہ براندام ہوگی۔ مادہ پرستانہ الحاد خود لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں جگہ پانے سے عاجز ہوگا۔ نسل پرستی اور قوم پرستی خود برہمنوں اور جرمنوں میں اپنے معتقد نہ پاسکے گی۔ اور یہ آج کا دور صرف تاریخ میں ایک داستانِ عبرت کی حیثیت سے باقی رہ جائے گا کہ اسلام جیسی عالمگیر و جہاں کشا طاقت کے نام لیوا کبھی اتنے بے وقوف ہوگئے تھے کہ عصائے موسیٰ بغل میں تھا اور لاٹھیوں اور رسیوں کو دیکھ کر کانپ رہے تھے۔ یہ مستقبل توآپ کا اس صورت میں ہے جب کہ آپ اسلام کے مخلص پیرو اور سچے گواہ ہوں۔‘‘
اس مذکورہ اقتباس میں مسئلہ امم، سدباب، اور اسلام کے مستقبل پر تفہیم کا سمندر سمودیا گیا ہے۔ یہ ساری صورتِ حال کا جواب ہے۔ جہاں زوال ہے وہ کیوں ہے، بتادیا۔ جہاں احیاء ہے کیوں ہے، بتادیا۔ کمیونزم ماسکو میں کس طرح پریشان ہوا، یہ سب دیکھ چکے۔ مادہ پرستانہ الحاد لندن اور پیرس کی یونیورسٹیوں میں دعوتِ مقابلہ سے دوچار ہے۔ برصغیر سے ترکی اور یورپ تک نگاہ دوڑائیے، مسلمانوں پر عالمی ظلم کے اسباب سے سدباب اور روشن مستقبل تک سب عیاں ہوجائے گا۔ یہ اسباب اور سدباب سمجھنا اور اُن کے مطابق معاشروں کو ڈھالنا ہی واحد راہِ نجات ہے۔