انتخابات 2018ء کے قریب آنے اور انتخابی سرگرمیوں کے تیز ہونے کے ساتھ ہی ملک میں سیاسی توڑ پھوڑ کا آغاز ہوچکا ہے اور سیاسی پرندوں کی ڈاروں کی ڈاریں نئے سیاسی گھونسلوں میں پناہ تلاش کررہی ہیں۔ بلوچستان کے بعد جنوبی پنجاب میں دوسرا بڑا سیاسی ٹھکانہ بن رہا ہے۔ جنوبی پنجاب کے 8 ارکان اسمبلی نے پیر کے روز پارٹی اور اسمبلی سے استعفیٰ دے کر ایک ایسا دھماکا کردیا ہے جس کی خود حکمران جماعت کو بھی توقع نہیں تھی۔ جنوبی پنجاب کے 6 ارکانِ قومی اسمبلی اور 2 ارکانِ پنجاب اسمبلی نے نہ صرف حکمران مسلم لیگ (ن) سے علیحدگی اختیار کرلی ہے بلکہ اپنی اسمبلی کی نشستیں بھی چھوڑ دی ہیں۔ چونکہ مسلم لیگ (ن) ذہنی طور پر اس صدمے کے لیے تیار نہیں تھی اس لیے وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اورنگ زیب نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ پارٹی چھوڑنے والے ان ارکان کا کبھی مسلم لیگ (ن) سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ یہ بات نہ صرف حقائق کے منافی ہے بلکہ سیاسی نابالغ پن کا بھی شاہکار ہے۔ مریم اورنگزیب کی طرح ازخود پارٹی کے ترجمان بنے ہوئے طلال چودھری نے اس معاملے میں ایک ٹاک شو میں کہا ہے کہ ہمیں علم تھا کہ یہ ارکان ہمیں چھوڑنے والے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ان ارکان کی کُل تعداد 16 ہے، انہوں نے سینیٹ کے الیکشن میں بھی پارٹی فیصلوں کے خلاف ووٹ دیے۔ گویا ان کے مطابق مزید 8 ارکانِ قومی اسمبلی جلد ہی پارٹی چھوڑ جائیں گے۔ دوسری جانب حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر شہبازشریف نے پارٹی رہنمائوں اور کارکنوں کو ہدایت کی ہے کہ وہ پارٹی چھوڑ کر جانے والے ارکان اسمبلی کے خلاف بیان بازی سے گریز کریں۔ مسلم لیگ (ن) کے ان 8 ارکان اسمبلی کے ساتھ آزاد رکن پنجاب اسمبلی نصراللہ خان دریشک نے بھی اسمبلی رکنیت سے استعفیٰ دے دیا ہے۔ دوسری جانب مسلم لیگ ضیاء کے سربراہ اعجازالحق نے بھی مسلم لیگ(ن) کے ساتھ الحاق ختم کرنے کا اعلان کردیا ہے۔ انہوں نے آئندہ انتخاب جنوبی پنجاب اور آزاد لیگیوں کے ساتھ مل کر لڑنے کا اعلان کیا ہے۔ اعجازالحق 1998ء میں بھی ہم خیال گروپ بنانے والے 8 ارکان میں شامل تھے۔ ادھر حاصل پور سے مسلم لیگ (ق) کے دو سابق ایم پی ایز چودھری ریاض اور احمد نوازمسلم لیگ (ن) میں شامل ہوگئے ہیں۔ ادھر لاہور میں مسلم لیگ (ق) پنجاب کے سیکریٹری جنرل اور سابق سینئر صوبائی وزیر چودھری ظہیرالدین کے بارے میں بھی یہ افواہیں گشت کررہی ہیں کہ وہ بھی مشاہد حسین سید کی طرح پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ تاہم اس وقت جبکہ انتخابی فضا تیار ہورہی ہے دیگر پارٹیوں کے ارکان اور رہنمائوں کا اِدھر اُدھر جانا اتنا اہم نہیں ہے، تاہم مسلم لیگ (ن) کے ارکان کا پارٹی چھوڑنا بہت اہمیت کا حامل ہے، اور کہا جارہا ہے کہ یہ مقتدر قوتوں کے اشارے پر پارٹی چھوڑ رہے ہیں۔ یہ لوگ مزاحمت بھی نہیں کرسکتے اور ان کی تمام تر امیدیں بھی عوامی مقبولیت سے نہیں بلکہ مقتدر قوتوں سے وابستہ ہیں۔ اس حوالے سے شیخوپورہ سے دو ارکان پنجاب اسمبلی علی اختر منڈا اور طارق سلیم باجوہ نے بھی مسلم لیگ (ن) سے علیحدہ ہونے اور اگلا انتخاب مسلم لیگ (ن) کے مقابلے میں آزاد حیثیت سے لڑنے کا اعلان کیا ہے، جس سے لگتا ہے کہ مسلم لیگ (ن) کے چھابے سے ’’بیر‘‘ گرنا شروع ہوگئے ہیں۔ ایک طرف مسلم لیگ (ن) کے کابک سے سیاسی پنچھی اڑنے لگے ہیں تو دوسری جانب انہیں ایک نئے پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا جارہا ہے۔ گویا اِس بار اسٹیبلشمنٹ ایک نئی حکمت عملی کے ساتھ آئی ہے۔ چھوٹے صوبے کے نام پر اور بلوچستان کی محرومی کا ڈھنڈورا پیٹ کر اسٹیبلشمنٹ نے ایک طرف مسلم لیگ (ن) کو سینیٹ کے چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین کے مقابلے میں چاروں شانے چت کردیا، تو دوسری طرف پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف جیسی متحارب جماعتوں کو اکٹھا بھی کرکے دکھادیا۔ اِس بار محروم علاقوں کے نام پر اسٹیبلشمنٹ سیاست کرتی نظر آرہی ہے۔ بلوچستان میں ایک کنگز پارٹی کھڑی کردی گئی ہے، اور اب پاکستان کے بزرگ ترین سیاست دان اور سابق نگران وزیراعظم بلخ شیر مزاری کی سربراہی میں ’’جنوبی پنجاب محاذ‘‘ قائم کردیا گیا ہے جس کے صدر خسرو بختیار اور سیکریٹری جنرل طاہر بشیر چیمہ ہوں گے۔ اس محاذ میں یقینا مزید اہم لوگ شامل ہوں گے جس کا اظہار خسرو بختیار نے اپنی پریس کانفرنس میں بھی کیا ہے۔ یہ نئی صورتِ حال خود نوازشریف اور خصوصاً شہبازشریف کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ شہبازشریف یہ سمجھتے تھے کہ اگر اسٹیبلشمنٹ بہت زیادہ ناراض بھی ہوئی تو وفاق مسلم لیگ (ن) سے چھین لے گی اور پنجاب شہبازشریف کے پاس رہنے دے گی، لیکن نئی صورتِ حال خود شہبازشریف کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔ پارٹی چھوڑنے کا یہ کام اب رکے گا نہیں۔ جنوبی پنجاب کے مزید ارکان پارٹی چھوڑ دیں گے۔ یہ لوگ ازل سے سیاسی لوٹے ہیں، یہ اور اِن کے آباو اجداد ہر چڑھتے سورج کے پجاری ہیں، ان میں سے بیشتر یونینسٹ پارٹی سے مسلم لیگ، وہاں سے کنونشن مسلم لیگ، پھر پیپلزپارٹی، پھر جونیجو لیگ، وہاں سے نون لیگ، پھر قاف لیگ، اور ایک بار پھر مسلم لیگ (ن) سے ہوتے ہوئے اب اسٹیبلشمنٹ کے اشارے پر نئے سیاسی ٹھکانے پر جابیٹھیں گے۔ نوازشریف کو ان سے شکایت نہیں ہونی چاہیے کہ ان لوگوں کو مختلف کابکوں سے نکال کر اسٹیبلشمنٹ ہی نوازشریف کے سیاسی پنجرے میں لائی تھی۔ لیکن نوازشریف اس صورتِ حال سے خاصے مشتعل نظر آتے ہیں۔ انہوں نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ چیف جسٹس، عمران خان اور آصف زرداری کی زبان بول رہے ہیں، اس طرح پارٹی بننا قبول نہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ جو ہورہا ہے اُس کے بعد شفاف الیکشن بھول جائیں۔ نیب عدالت میں پیشی کے بعد انہوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ کچھ کے لیے کھلا میدان، تو کسی کو بند گلی میں دھکیلا جارہا ہے، یہ قبل از انتخاب دھاندلی ہے۔ ہم غیرشفاف الیکشن کی طرف جارہے ہیں، ان انتخابات کے نتائج کو کوئی تسلیم نہیں کرے گا۔ گویا نوازشریف کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اُن کے ساتھ وہی ہونے جارہا ہے جو وہ ماضی میں اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ مل کر دوسروں کے ساتھ کرتے رہے ہیں۔ نوازشریف کو یہ بھی اندازہ ہوگیا ہے کہ مضبوط لوگ انہیں انتخاب سے قبل چھوڑ جائیں گے، جبکہ ذرا کمزور لوگ انتخاب جیتنے کے بعد یہی کام کریں گے۔ جنوبی محاذ تحریک کے پیچھے طارق بشیر چیمہ گئے ہیں جو رکن قومی اسمبلی کے علاوہ ضلع کونسل کے چیئرمین بھی رہے ہیں۔ وہ پیپلزپارٹی چھوڑ کر قاف لیگ میں آئے تھے تو اپنے ساتھ 2 ایم این ایز بھی لائے تھے اور ان تینوں نے کسی مطالبے کے بغیر اپنی قومی اسمبلی کی نشستوں سے استعفیٰ دیا تھا اور بعد میں قاف لیگ کے ٹکٹ پر ضمنی انتخاب جیت کر قومی اسمبلی میں واپس آئے تھے۔ وہ چودھری شجاعت حسین کے قریبی ساتھی اور اس علاقے کے مؤثر سیاست دان ہیں۔ سردست وہ قاف لیگ میں ہی ہیں لیکن اپنا کام مکمل کرکے نئی جماعت ’’جنوبی پنجاب محاذ‘‘ میں ہی شامل ہوجائیں گے۔اس دوران وہ چودھری شجاعت اور چودھری پرویزالٰہی سے بھرپور رابطے میں ہیں۔ اسی طرح بلوچستان میں بزنجو سنجرانی نیکسز کے بعد سرائیکی بیلٹ میں اسٹیبلشمنٹ جو کچھ کرنے جارہی ہے اُس میں براہِ راست یا بالواسطہ طور پر چودھری شجاعت وغیرہ بھی شریک رہیں گے۔ اس طرح مسلم لیگ (ن) کے خلاف ایک بڑا محاذ کھڑا کرلیا جائے گا جسے سینیٹ چیئرمین کی طرح پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کی بھی حمایت مل جائے گی۔ دوسری جانب اس کے توڑ کے لیے مسلم لیگ (ن) بھی سرگرم عمل ہے۔ پہلے مرحلے پر شہبازشریف کی خواہش پر مسلم لیگ (ن) کے اندرونی حلقوں میں موجود بے چینی کو دور کیا جارہا ہے۔ منگل کے روز اس سلسلے میں جنوبی پنجاب کے ارکان اسمبلی سے تختِ لاہورکے تاجدار شہبازشریف نے ملاقات کی، جو اس سے پہلے ان ارکان سے ان کی کوششوں کے باوجود ملاقات نہیں کرتے تھے۔ ساتھ ہی دو ایڈیٹر نما سیاست دان یا مسلم لیگ (ن) کے دو ایلچی صحافی شہبازشریف کا پیغام لے کر چودھری نثار علی خان کے پاس پہنچے ہیں۔ مجیب الرحمن شامی اور سلمان غنی پہلے یہ کام چھوٹی سطح پر کرتے تھے، اب ذرا بڑی سطح پر کرنے لگے ہیں۔ شنید ہے کہ چودھری صاحب نے انہیں مسلم لیگ (ن) نہ چھوڑنے کا دلاسہ دے کر واپس بھیج دیا ہے۔ کیونکہ وہ نوازشریف کے اپنے ساتھ حالیہ رویّے اور جاوید ہاشمی کے ساتھ ماضی کے رویّے کو بھی سامنے رکھے ہوئے ہیں اور حتمی فیصلہ بعد میں کریں گے۔ شامی یا غنی کے مشوروں پر وہ اپنا سیاسی کیریئر دائو پر نہیں لگا سکتے۔ اور شاید کسی چھوٹی آفر کو قبول کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ نئی صورتِ حال میں شہبازشریف کی مشکلات بڑھ گئی ہیں۔ اُن کے سر پر اسٹیبلشمنٹ نے جنوبی پنجاب محاذ کی تیز دھار تلوار لٹکادی ہے۔ وہ ایک طرف اسٹیبلشمنٹ کے سامنے نوازشریف کی مزاحمتی پالیسی کا کمزور دفاع کررہے ہیں اور دوسری جانب اسٹیبلشمنٹ کو اپنی وفاداری دکھا کر مستقبل کی حمایت چاہتے ہیں۔ لیکن لگتا یہ ہے کہ اسٹیبلشمنٹ نے اِس بار چھوٹے صوبوں کی محرومی کے نام پر سنجرانی، مزاری کھیل شروع کردیا ہے جس میں 9 منتخب ارکان شامل ہوچکے ہیں، کچھ اگلے چند روز میں شامل ہوجائیں گے، اور زیادہ بڑی تعداد نون لیگ کے ٹکٹ پر انتخاب جیتنے کے بعد دغا دے گی اور نوازشریف کو سزا ہونے کی صورت میں یہ کام انتخاب سے قبل بھی تیزی پکڑسکتا ہے۔