۔ 3 مارچ کے سینیٹ انتخابات میں بلوچستان سے آنے والا نتیجہ غیر متوقع ہرگز نہ تھا، بلکہ طے شدہ اور یقینی تھا۔ یقینا چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں بلوچستان کے میر صادق سنجرانی کی کامیابی بھی سیاست کی بازی گری کا کمال تھا۔ اب اسے کوئی جمہوری عمل یا جمہوریت کا حُسن کہے تو یہ اُس کی مرضی اور ظرف پر ہی منحصر ہے۔ صادق سنجرانی کی کامیابی پر محمود خان اچکزئی نے اگلے روز یعنی 13 مارچ کو قومی اسمبلی کے فلور پر کہا:’’ہم زر اور زور کی وجہ سے ہار گئے اور جمہوریت کا جنازہ نکالا گیا‘‘۔ محمود خان اچکزئی کی جانب سے اسی طرح کے ردعمل کی توقع تھی۔ مگر اس انہونی کو دیکھ کر میر حاصل بزنجو جیسے قدرے دھیمے اور محتاط سیاست دان بھی طیش میں آگئے۔ چیئرمین کے انتخاب کے معاً بعد ایوانِ بالا میں اپنی تقریر میں انہوں نے کہا: ’’پارلیمنٹ مکمل طور پر ہار چکی ہے۔ آج ہاؤس کا منہ کالا ہوگیا ہے، مجھے اس ہاؤس میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے۔ بالادست طاقتیں پارلیمنٹ سے زیادہ طاقتور ہیں‘‘۔ جو کچھ حاصل بزنجو نے ایوانِ بالا میں کہا، وہ تاریخ کا حصہ بن چکا ہے۔ سینیٹ کے انتخاب کے بعد مسلم لیگ (ن) پر صدمہ طاری ہوا اور برابر صادق سنجرانی کا منتخب ہونا ان کے زیر موضوع ہے۔
24 مارچ کو وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے ننکانہ صاحب کے قریب دریائے راوی پر پل کی افتتاحی تقریب میں بھی چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کو اپنی تقریر کاحصہ بنایا۔ انہوں نے کہا: ’’پیسوں سے لوگوں کے ووٹ اور ضمیر خرید کر چیئرمین سینیٹ منتخب کرایا گیا، اس سے لوگوں کے دلوں میں اُن کی عزت نہیں ہوسکتی۔ آج سینیٹ کا چیئرمین خریدے گئے ووٹوں سے وہاں بیٹھا ہے جس کی عوام میں کوئی عزت نہیں‘‘۔ وزیراعظم کے ان ریمارکس پر وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور ان کے حکومتی ساتھیوں نے بہت برا منایا۔ حالاں کہ اُنہیں وزیراعظم کی بات کی پروا اس لیے نہیں کرنی چاہیے کہ اب اُن کے بولنے سے کیا ہوگا؟ جو مقصد کسی کو حاصل کرنا تھا وہ تو کر ہی لیا ہے۔ اب خاموش رہنے ہی میں مصلحت ہے۔ لیکن اگر قدوس بزنجو اور ان کے دوست عوام کو یہ باور کراتے رہیں گے کہ سینیٹ الیکشن میں سرے سے کچھ ہوا ہی نہیں، تو عوام اُن کے اس دعوے کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔ عوام یہ سمجھتے ہیں کہ بلوچستان میں جس انداز میں 6 آزاد سینیٹر منتخب ہوئے، ان کو ووٹ ارکانِ اسمبلی نے اُن کی عظیم سیاسی جدوجہد، قربانیوں، آئینی و قانونی امور پر بے پناہ گرفت رکھنے اور خدمات کے صلے میں نہیں دیے، اور بلوچستان اسمبلی کے اراکین نے یقینا ان حضرات کو اللہ کے نام پر بھی اپنے قیمتی ووٹ نہیں دیے۔ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں آصف علی زرداری کا ’’کرشمہ‘‘ روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ عبدالقدوس بزنجو کہتے ہیں کہ عمران خان، آصف علی زرداری اور بلاول زرداری نے بلوچستان کا ساتھ دیا اور ہم بھی ثابت کریں گے کہ بلوچستان کے عوام پاکستان کے ساتھ ہیں۔ اب قدوس بزنجو کو کون سمجھائے کہ بلوچستان کے عوام تو پاکستان کے ساتھ ہی ہیں، آپ مذکورہ حضرات کا ضرور ساتھ دیں، بے شک آپ پر کوئی پابندی نہیں ہے بلکہ اس کے لیے آپ پابند اور مقلد ہیں، اور ایسا بھی ہرگز نہیں کہ محض آصف علی زرداری اور عمران خان ہی پاکستان کے مفاد اور ترقی کے لیے کڑھتے ہیں۔ عبدالقدوس بزنجو نے 29 مارچ کو کوئٹہ کے پُرفضا وتفریحی مقام ہنہ اوڑک کے سرکاری ریسٹ ہاؤس میں کچھ وقت عمران خان کے ساتھ گزارا۔ دونوں حضرات نے وہیں میڈیا کے نمائندوں سے بات چیت بھی کی۔ عمران خان کے پہلو میں کھڑے ہوکر عبدالقدوس بزنجو نے شاہد خاقان عباسی کے چیئرمین سینیٹ کے حوالے سے ریمارکس کا ذکر چھیڑا کہ: ’’جو بیان صادق سنجرانی سے متعلق انہوں نے دیا ہے اس سے بلوچستان سمیت پورے ملک کے عوام کو دھچکا لگا ہے اور بلوچستان کے عوام کو دُکھ پہنچا ہے، اور بلوچستان کے عوام مسلسل یہ مطالبہ کررہے ہیں کہ وزیراعظم چیئرمین سینیٹ سے متعلق اپنا بیان واپس لے لیں ورنہ صوبے کے عوام اسلام آباد کی طرف لانگ مارچ کریں گے۔‘‘
دیکھا جائے تو ملک اور صوبے کے عوام کو دراصل صادق سنجرانی کے چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے پر دھچکا لگا ہے۔ عوام کو ان کا کامیاب ہونا ’’سامری جادوگر‘‘ کا جادو ہی لگا۔ یقینا اس طرح کے اَپ سیٹ سے لوگوں کو دھچکا ہی لگتا ہے۔ معلوم نہیں بلوچستان کے عوام نے اپنے غم و غصے کا اظہار کب اور کہاں کیا؟ البتہ اتنا ضرور ہے کہ دو درجن لوگ کوئٹہ پریس کلب کے باہر جمع ہوگئے تھے، ان کے پاس موجود پلے کارڈز پر ایسی تنظیموں کے نام درج تھے کہ اس شہر کوئٹہ کا باسی ہونے کے باوجود میں نے یہ نام آج تک نہیں سنے تھے۔ عبدالقدوس بزنجو نے بیان واپس نہ لینے کی صورت میں اسلام آباد لانگ مارچ کی دھمکی بھی دے دی، لیکن وزیراعظم نے اُس کے بعد پھر دہرایا کہ وہ اپنی بات پر قائم ہیں، اور سینیٹ انتخاب میں پیسا چلا اور ہارس ٹریڈنگ ہوئی۔ بلکہ انہوں نے یہ بھی کہہ ڈالا کہ صادق سنجرانی کی جگہ نیا چیئرمین سینیٹ منتخب کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے آصف علی زرداری اور عمران خان کو ان انتخابات کے دوران ہیرا پھیری میں ملوث قرار دیا۔
بہرکیف ہم منتظر ہیں کہ عبدالقدوس بزنجو کی معیت میں ہزاروں لاکھوں افراد پر مشتمل بلوچستان کے عوام کا احتجاجی قافلہ کب اسلام آباد کا رُخ کرے گا۔ ویسے ہونا یہ چاہیے کہ عبدالقدوس بزنجو اس مقصد کے لیے پہل اپنے آبائی ضلع آواران سے کریں۔ ایک عوامی رہنما اور سیاسی قائد کی حیثیت سے نہ صرف آواران شہر بلکہ دور دراز کے دیہاتوں اور قصبوں میں جاکر عوام کو بیدار کریں اور وہیں سے لانگ مارچ کا آغاز کردیں۔ یوں ژوب تک صوبے کے محبانِِ وطن ایک فقیدالمثال لانگ مارچ کا حصہ بن جائیں گے، بلکہ اس غرض کے لیے بلوچستان عوامی پارٹی بہترین پلیٹ فارم ثابت ہوسکتی ہے، اور اُن درجن بھر افراد کو جنہوں نے کوئٹہ پریس کلب کے سامنے احتجاج کیا تھا،اگر جیب خرچ دیا جائے تو وہ بھی ضرور اپنی شرکت یقینی بنائیں گے۔