مقدمہ، بغاوت، کوئٹہ جیل اور ہنگامی قیدی

ایوب خان کے خلاف تحریک شروع ہوچکی تھی۔ طلبہ جلوس نکالتے تھے اور طالب علم رہنما تقریریں کرتے تھے۔ اس جدوجہد میں شرکت کی وجہ سے میں مقرر اور طالب علم لیڈر بھی بن گیا تھا۔ مجھے اندازہ تھا کہ اس کے نتیجے میں جیل بھی ہوسکتی ہے۔ میرے خلاف 3 دفعہ قاتلانہ حملے کا منصوبہ بنایا گیا لیکن اس پر عمل درآمد نہیں ہوسکا۔ اس کا انکشاف بعد میں ہوا۔ حکومت کے نقطہ نظر سے میری تقریریں اشتعال انگیز ہوتی تھیں۔ اس لیے مجھے اندازہ تھا کہ یہ خطابت ایک دن بڑے گھر پہنچاکر رہے گی۔ ایوب خان کے زوال کے بعد جنرل یحییٰ خان کے مارشل لا کے تحت انتخابات ہوئے، سقوطِ مشرقی پاکستان کا سانحہ پیش آیا، باقی ماندہ مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت قائم ہوئی، صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) اور بلوچستان میں جمعیت علمائے اسلام اور نیپ کی مخلوط حکومتیں قائم ہوئیں۔ فروری 1973ء میں بھٹو نے بلوچستان میں نیپ اور جمعیت علمائے اسلام کی مخلوط حکومت ختم کردی اور نیپ پر غداری کے مقدمات قائم کیے۔ بھٹو نے بلوچستان میں گورنر راج نافذ کیا۔ اس اقدام سے پہلے بھٹو، نواب اکبر خان بگٹی کو روس کے دورے پر ساتھ لے گئے، واپسی پر نواب بگٹی لندن میں قیام پذیر ہوگئے اور میر نبی بخش زہری کے مہمان بن گئے، اور نیپ کے خلاف منصوبہ بن گیا۔ نواب بگٹی لندن سے لاہور پہنچے، وہاں انہوں نے حکومتی منصوبے کے تحت موچی دروازے میں خطاب کیا اور نیپ پر الزام لگایا۔ اس کے بعد بھٹو کے عزائم واضح ہوگئے تھے کہ بلوچستان سے روس نواز حکومت کا بوریا بستر لپیٹ دیا جائے گا۔ پاکستان کے پڑوس افغانستان میں روس نواز حکومت قائم تھی اور بلوچستان میں بھی روس نواز حکومت قائم ہوگئی تھی۔ ایران میں امریکہ نواز شہنشاہیت قائم تھی۔ امریکہ اور ایران کو بلوچستان میں یہ حکومت قبول نہ تھی اور امریکہ شہنشاہ ایران کو خوش رکھنا چاہتا تھا، اور وہ خود بھی بلوچستان اور سابقہ صوبہ سرحد میں روس نواز حکومت کو پسند نہیں کرتا تھا۔ شاہ ایران زیادہ پریشان تھا کہ پاک ایران سرحد پر بلوچ قبائل آباد تھے، اس لیے وہ اپنے لیے اس تبدیلی کو خطرناک سمجھتا تھا۔ یوں بھٹو نے امریکی ایما اور شاہ ایران کی خوشنودی کے لیے نیپ کی مخلوط حکومت کا دھڑن تختہ کردیا اور نیپ کے قائدین کے لیے جیل کے دروازے کھول دیے۔
یہاں ایک اور سیاسی پہلو کی نشاندہی کرنا چاہتا ہوں جو بہت اہم ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کی سیاسی روش اور اس کے دلچسپ تضادات اب تاریخ کا حصہ ہیں، اور ماضی کی اس سیاسی داستان کو ذہن میں تازہ رکھنا چاہیے۔ 1970ء کے انتخابات میں جمعیت علمائے اسلام نے نیپ کے خلاف ایک بھرپور مہم چلائی تھی، اس نے نیپ کو روس کا ایجنٹ قرار دیا تھا اور روس نواز قوم پرستوں کے خلاف کفر کے فتوے جاری کیے تھے، اور انہیں ووٹ دینے والوں کو میاں بیوی کے تعلقات کو ختم کرنے کے درجے پر رکھا، اور یہاں تک کہا کہ ان کو ووٹ دینے والوں کے نکاح ختم ہوجائیں گے۔ لیکن 1972ء میں صوبہ بلوچستان اور صوبہ سرحد میں نیپ کے ساتھ جمعیت نے مخلوط حکومت قائم کی، مفتی محمود صوبہ سرحد (موجودہ خیبر پختون خوا) کے وزیراعلیٰ اور ارباب سکندر خان خلیل گورنر بنے۔ بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل وزیراعلیٰ بنے، گورنر کا عہدہ غوث بخش بزنجو کو دیا گیا، جبکہ مولوی شمس الدین ڈپٹی اسپیکر بنائے گئے جو بعد میں قتل کردیے گئے۔
نیپ کو حکومت دینے کے بعد شاہ ایران سے بھٹو نے دورۂ ایران کے دوران بزنجو کو ایران بلانے کی دعوت کا کہا، اور شاہ ایران کی دعوت پر غوث بخش بزنجو نے ایران کا دو ہفتوں کا دورہ کیا۔ نیپ اور بی ایس او کے نوجوان شاہ ایران کے خلاف جلوس نکالتے تھے اور نعرے لگاتے تھے، اس پس منظر میں بھٹو نے درپردہ گورنر بلوچستان کے دورے کا انتظام کیا۔ اس دورے کا انتظام ساواک کے چیف نے کیا۔ ایرانی جنرل نے اپنی خودنوشت میں اس دورے کا ذکر کیا ہے۔ یہ کتاب فارسی میں شائع ہوئی ہے۔ ساواک کے جنرل کے تعلقات شاہ ایران سے ابتدا سے تھے۔ دونوں کلاس فیلو بھی رہیتھے۔ انہوں نے اپنی کتاب میں ہوش ربا داستانیں رقم کی ہیں اور اپنی کتاب میں لکھا کہ پاکستان میں کون کون ساواک کے پے رول پر تھے۔ میں اس کتاب کو پڑھ چکا ہوں۔ بعض انکشافات خوفناک ہیں اور پڑھنے والا حیرت زدہ رہ جاتا ہے۔ گورنر غوث بخش بزنجو کے اس دورے کا مقصد شاہ ایران اور بھٹو کے ذہن میں موجود تھا۔ بزنجو نے دورۂ ایران کے بعد کوئٹہ میں پریس کانفرنس کی اور اہلِ بلوچستان کو بتلایا کہ بلوچ ایران میں زیادہ خوشحال ہیں اور ان میں کوئی اضطراب نہیں ہے۔ اس کے بعد مرحوم گورنر نے شاہ ایران کی بہن اشرف پہلوی کے دورۂ کوئٹہ کا بہترین انتظام کیا۔ اشرف پہلوی کی موجودگی میں بھٹو نے خطاب کیا۔ نیپ امریکہ اور شہنشاہ مخالف تھی اور اسٹیج پر یہ نقشہ نظر آرہا تھا۔ بھٹو درمیان میں تھے، ان کے دائیں طرف اشرف پہلوی اور اشرف پہلوی کی سہیلی، بائیں طرف گورنر بلوچستان غوث بخش بزنجو، ان کے ساتھ وزیراعلیٰ بلوچستان سردار عطاء اللہ مینگل، ان کے ساتھ میراحمد نواز بگٹی، گل خان نصیر، نواب حیدر بخش خان مری موجود تھے۔ لیاقت پارک میں نیپ کے ورکرز اور بی ایس او کے نوجوان اور عام لوگ تھے۔ بھٹو نے تقریر کی اور پاک ایران دوستی کے حوالے دیتے رہے۔ انہوں نے تقریر کرتے ہوئے انتہائی جذباتی ماحول بنایا اور کہا کہ اگر اس جلسے میں ایک شخص نے بھی ایران کے خلاف جذبات کا اظہار کیا تو میں اسی وقت وزارتِ عظمیٰ سے مستعفی ہوجائوں گا۔ کوئی بھی شاہ ایران اور ان کی حکومت کے خلاف نہیں ہے۔ یوں انہوں نے تقریر کا اختتام کیا اور اسٹیج سے اتر گئے۔
اس کے بعد کیا ہوا، اب وہ تاریخ کا حصہ اور ایک خونچکاں باب ہے جس کو فراموش نہیں کیا جاسکے گا۔ اس تاریخی داستان کو قلمبند کرنے کا مقصد ماضی سے آشنائی ہے۔ یہ ہماری سیاست کا ایک المناک باب ہے، جس کو ہمارے حکمرانوں نے تحریر کیا۔ جب فروری 1973ء میں نیپ کی مخلوط حکومت ختم ہوئی تو اس کا ردعمل شدید تھا، اور ہم سراپا احتجاج تھے۔ جناح روڈ پر بھٹو کے اس اقدام کے خلاف تقریر کی۔ اُس وقت نواب بگٹی گورنر تھے اور اُن کے خلاف بولنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ جب نیپ کی حکومت ختم کردی گئی، گورنر راج نافذ کردیا گیا اور ہنگامی حالات نافذ ہوگئے تو نیپ کی لیڈرشپ زیر زمین چلی گئی، کچھ سندھ کی طرف چلے گئے، کچھ افغانستان کی طرف۔
ایک افراتفری کا ماحول تھا، اس ماحول میں ہم چند دوست بھٹو کے اس غلط فیصلے کے خلاف سراپا احتجاج تھے۔ تقریریں ہوئیں اور ہمیں بغاوت کے جرم میں گرفتار کرلیا گیا۔ علی احمد کرد میرے ہمراہ تھے۔ ہمیں ابتدا میں کوئٹہ جیل پہنچا دیا گیا۔ یہ مارچ کا مہینہ تھا، احتجاج ہورہا تھا، اس لیے جیل کے دروازے کھل گئے تھے۔ طالب علم اور سیاسی کارکن جیل میں لائے جارہے تھے۔ جون کا مہینہ تھا، ہمارے دوستوں کو کوئٹہ جیل کے پھانسی گھاٹ کے کمروں میں منتقل کردیا گیا۔ اس حصے میں کوئی 6 یا 8 کمرے تھے، ان تمام کمروں میں جمعیت کے کارکن تھے۔ وقت آہستہ آہستہ گزر رہا تھا۔ ایک دن صبح سویرے کچھ بنگالی قیدیوں کو دیکھا کہ وہ پورے جیل کے احاطے میں جھاڑو لگا رہے تھے۔ انہیں دیکھ کر اندازہ ہوا کہ یہ تو آفیسر ہیں، اور کچھ ان میں چھوٹے درجے کے ملازمین تھے۔ ان کے قریب گیا اور پوچھا کہ آپ لوگوں کو کب گرفتار کیا گیا؟ تو انہوں نے بتلایا کہ ایک ہفتہ ہوا۔ ان سے معذرت کی کہ آپ لوگوں کو تکلیف دی جارہی ہے، آپ سب ہمارے مسلمان بھائی ہیں، آپ کے ساتھ یہ بڑی زیادتی ہورہی ہے۔ انہوں نے بتلایا کہ ہم سب کو پوری جیل میں جھاڑو لگانے کا کہتے ہیں اور ہم قیدی ہیں اور مجبور ہیں۔ یہ سن کر بہت افسوس ہوا اور طے کیا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ سے مل کر اس مسئلے کو حل کریں گے۔
اتفاق سے چند دن بعد جیل کے عملے نے اعلان کیا کہ ڈی سی کوئٹہ جیل میں آئیں گے، وہ بنگالی قیدیوں سے ملاقات کریں گے اور حالات کے متعلق پوچھ گچھ کریں گے۔ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ میں تو جیل سپرنٹنڈنٹ کے اس وحشیانہ رویّے کے خلاف احتجاج کروں گا۔
میرے ساتھ پشتون زلمے کے کمانڈر سید حسام الدین تھے، انہیں جب اس کا علم ہوا تو وہ پریشان ہوگئے، انہوں نے مجھ سے کہا کہ تم جیل میں احتجاج کرو گے تو ہمیں کوئٹہ جیل سے کسی دوسری جیل میں بھیج دیں گے۔ کوئٹہ کا موسم بڑا خوشگوار ہے، تمہاری وجہ سے ہمیں کسی گرم علاقے کی جیل میں ڈال دیا جائے گا، اور ہوسکتا ہے تم پر کوئی اور مقدمہ بھی قائم کردیں۔ ان سے کہا کہ ہم پر -124ایف کا مقدمہ ہے جس میں عمر قید اور پھانسی ہوسکتی ہے، اس سے بڑی اور کون سی دفعہ ہے جو مجھ پر لگائیں گے! دوسرے دن جیل میں تمام بنگالی قیدیوں کو ایک حصے میں جمع کیا گیا اور انہیں بتلایا گیا کہ ڈی سی کوئٹہ، ایس پی اور جیل سپرنٹنڈنٹ آپ سے ملاقات کے لیے آئیں گے، آپ ان کو جو بتلائیں گے وہ سنیں گے۔ کوئی 10بجے یہ حضرات آئے، ان کے آنے سے پہلے میں بنگالی قیدیوں کی قطار میں جا کر کھڑا ہوگیا۔ جیل کے میرے ساتھی یہ منظر دیکھ رہے تھے، ان کو خدشہ تھا کہ شادیزئی ہنگامہ کرے گا۔
جیل سپرنٹنڈنٹ نے میری طرف دیکھا تو اُن کے چہرے پر ایک رنگ آرہا تھا اور ایک جا رہا تھا، وہ حیران تھے کہ یہ ان کے درمیان کیسے پہنچ گیا! کچھ دیر بعد ڈی سی کوئٹہ نے اپنی تقریر کا آغاز کیا اور کہا کہ آپ ہمارے مسلمان بھائی ہیں، آپ کو بھارت نے اکسایا ہے اور پاکستان کو توڑا ہے۔ بھارت مسلمانوں کا دشمن ہے، وہ آپ کا بھی دشمن ہے، آپ ہمارے بھائی ہیں اور ہمارے مہمان ہیں۔
جب وہ تقریر ختم کرچکے تو کسی بھی بنگالی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ چند لمحے خاموشی کے تھے اور ڈی سی منتظر تھے کہ کوئی تو لب کشائی کرے۔ جب کوئی نہیں بولا تو اب مجھے بولنا تھا۔ تقریر کا آغاز کیا اور کہا کہ جناب ڈی سی صاحب آپ کی تقریر بڑی زبردست تھی، آپ کی تقریر سے بہت متاثر ہوا ہوں۔ ان جملوں پر جیل سپرنٹنڈنٹ کے لبوں پر مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ مطمئن ہوگئے کہ حالات قابو میں ہیں۔ اس کے بعد ڈی سی صاحب سے کہا کہ آپ نے ان بنگالی بھائیوں کو اپنا مسلمان بھائی کہا ہے اور بھارت کو مجرم گردانا ہے، میرا آپ سے یہ سوال ہے کہ کیا آپ کو علم ہے کہ ان قیدیوں میں کئی اعلیٰ عہدوں کے آفیسر ہیں اور یہ سب مسلمان ہیں اور ہمارے بھائی ہیں۔ اور آپ مسلمان ہوکر ان بنگالی بھائیوں سے روزانہ پوری جیل میں جھاڑو لگواتے ہیں، یہ کون سا اسلام اور کون سا بھائی چارہ ہے جو آپ نے روا رکھا ہے؟ میرے اس گستاخانہ خطاب کے بعد سب پر ایک سناٹا چھا گیا، وہ حیران تھے کہ یہ درمیان میں کہاں سے آگیا ہے جو بول رہا ہے! میری اس گستاخانہ لب کشائی کے بعد ڈی سی کی تو سٹی گم ہوگئی تھی۔ ان کے منہ سے ایک لفظ نہیں نکلا۔ ایس پی نے پوچھا کہ آپ کون ہیں؟ ان کو بتلایا کہ میں سیاسی قیدی ہوں، مجھ پر بغاوت کا مقدمہ ہے اور اس جیل میں ہوں۔ ایس پی صاحب غصے سے آگ بگولہ ہورہے تھے۔ مجھ سے کہا کہ آپ ابھی تک کوئٹہ جیل میں ہیں؟ ان سے کہا، جی ہاں۔ اس کے بعد تمام معزز حضرات چلے گئے۔ بعد میں ساتھیوں نے کہا کہ آپ کی وجہ سے ہمیں اب مشکلات دیکھنا پڑیں گی۔ لیکن میرا ضمیر مطمئن تھا کہ میں نے بنگالی قیدیوں کا حق ادا کردیا۔ اور اس کے دوسرے دن مقدمۂ بغاوت میں قیدیوں کو کوئٹہ جیل سے دوسرے شہر کی جیلوں میں منتقل کردیا گیا۔ مجھے اور حسام الدین کو کوئٹہ جیل سے مچھ کی تاریخی جیل روانہ کردیا گیا۔
( جاری ہے)