نبیلہ کامرانی
کوئی لاعلم شخص ہی ہوگا جو مسلمان ہوتے ہوئے کسی دوسرے مذہب کی متبرک علامتوں اور شخصیات کا مذاق اڑائے۔ ایسی حرکت مسلمانوں کے عمومی مزاج کا حصہ نہیں۔ اس کی کئی وجوہات ہیں۔ اول یہ کہ قرآن پاک ایسا کرنے سے منع کرتا ہے۔ ایک آیت میں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ تم کافروں کے جھوٹے خدائوں کو بھی برا نہ کہو، مبادا وہ تمہارے سچے خدا کو برا بھلا کہنے لگیں۔ مذاہب اور مذہبی شخصیات کی تضحیک نہ کرنے کی دوسری وجہ خود اسلام کے تصورِ رسالت میں پوشیدہ ہے۔ مسلمانوں کا ماننا ہے کہ خدا نے اپنا پیغام دنیا کے ہر ہر حصے اور قریے میں بھیجا، اور اس پیغام کو پہنچانے کے لیے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء مبعوث فرمائے۔ مسلمان سمجھتے ہیں کہ پچھلے انبیاء کا لایا یہ پیغام بعد میں تحریف کا شکار ہوکر مسخ ہوا۔ مگر اس کے باوجود مسلمانوں پر پرانی کتابوں پر ایمان لانا اور ان کی تعظیم کرنا لازم ہے۔
یہی وجہ ہے کہ مسلمان نہ صرف انبیائے بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰؑ پر ایمان رکھتے ہیں بلکہ ان میں سے کسی کے بھی انکار کو کفر جانتے ہیں۔ یہی نہیں علما اور صوفیائے ہندوستان کی تحریروں میں ہندو مت کی متبرک ہستیوں بالخصوص رام اورکرشن کے لیے توصیفی کلمات ملتے ہیں۔ ہندوستان کے ایک مشہور صوفی کا مرید جب اپنا خواب بیان کرتا ہے کہ اس نے آگ کے ایک دریا میں رام کو آدھا اور کرشن کو پورا ڈوبا ہوا دیکھا تو مرشد نے فرمایا کہ یہ دریا عشقِ الٰہی کا دریا ہے۔ موجودہ عہد کے صوفی مظہر بقا ایک خواب کا ذکر کرتے ہیں جس میں وہ رام اور کرشن کو رقص کرتا دیکھتے ہیں اور خواب کی تعبیر یوں کرتے ہیں کہ یہ دونوں ہستیاں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا جشن منارہی ہیں۔ ہندو مت کی متبرک شخصیات کے ساتھ ساتھ مسلم علماء نے گوتم بدھ کا ذکر بھی احترام سے کیا ہے اور ابوالکلام آزاد رائے دیتے ہیں کہ گوتم بدھ وہی نیک ہستی ہیں جن کو قرآن پاک نے ’’ذوالکفل‘‘ کے نام سے یاد کیا ہے۔
تاہم ستم ظریفی یہ ہے کہ مسلمانوں کی اس وسیع المشربی کا جواب دیگر اقوام خاص طور پر مغرب نے پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی صورت میں دیا ہے۔ یوں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات پر رکیک حملے صلیبی جنگوں بلکہ ان سے پہلے سے جاری ہیں، تاہم نائن الیون کے بعد مغرب نے شانِ رسالت میں گستاخی کی واردات کو باقاعدہ مہم کی صورت دے دی ہے۔ گزشتہ پندرہ سولہ برسوں میں مغرب میں تواتر کے ساتھ گستاخی پر مبنی کارٹونوں کی اشاعت کی گئی ہے، گستاخانہ فلمیں تخلیق کی گئی ہیں اور ایسے مواد پر کسی بھی قسم کی قدغن لگانے سے انکار کیا گیا ہے۔ اس دوران روم میں پوپ بینی ڈکٹ شش دہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق ایک عیسائی حکمران کا گستاخانہ جملہ دہرانے کی جسارت کی، اور ملکہ برطانیہ نے بدنام زمانہ سلمان رشدی کو ’’سر‘‘ کے خطاب سے نوازا۔
مگر مغرب کی توہینِ رسالت کی یہ ’’مہم‘‘ یہیں تک محدود نہیں۔ مغرب مسلم دنیا میں توہینِ رسالت کا ارتکاب کرنے والے مجرموں اور ایسی وارداتوں کے الزام میں پکڑے گئے ملزموں کے ساتھ کھڑا ہے اور ان مجرموں اور ملزموں کی ننگی حمایت کرتے ہوئے مسلم دنیا اور بالخصوص پاکستان میں توہینِ رسالت کے قانون کے خلاف کھلی سازش میں مصروف ہے۔ حال ہی میں (24 فروری) روم میں ہونے والی دعائیہ تقریب جس میں توہینِ رسالت کی مجرمہ آسیہ بی بی کے خاندان والوں نے بھی شرکت کی، اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔ اس موقع پر کیتھولک آرچ بشپ نزیو گالانٹینو نے فرمایا: ’’(پاکستان میں) توہینِ رسالت کے قانون کا مقصد اُن لوگوں کو کچلنا ہے جو کوئی مختلف عقیدہ رکھتے ہیں۔‘‘
اب ظاہر ہے جب مغرب توہینِ رسالت کے مجرموں تک کی کھلی حمایت کررہا ہے تو اس کے لیے توہینِ رسالت کے ملزموں کی حمایت اور بھی آسان ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب دو سال قبل پانچ بلاگزر کی مبینہ گمشدگی کا واقعہ پیش آیا تو ہم نے ان بظاہر غیر معروف لکھاریوں کے حق میں امریکی صدر بارک اوباما تک کو بولتا ہوا پایا۔ ہوسکتا ہے ان بلاگرز (جن میں ایک پر ’بھینسا‘ جیسی توہین آمیز ویب سائٹ چلانے کا الزام بھی لگایا گیا) نے کوئی گستاخی نہ کی ہو، مگر ’’دنیا کے سب سے طاقتور‘‘ آدمی کا ان گمشدگیوں کا نوٹس لینا ایک حیرت انگیز امر ہے جو بتاتا ہے کہ مغرب توہینِ رسالت کے الزام کا شکار ہونے والوں کو بھی کس طرح ’’گود لینے‘‘ کے لیے بے چین ہے۔
ابھی حال ہی میں مغربی میڈیا کی مشال خان قتل کیس میں غیرمعمولی دلچسپی بھی مغرب کی اسی ’’بے تابی‘‘کو ظاہر کرتی ہے۔
خیر مغرب تو ہے ہی ہمارا دشمن، مگر افسوس کہ ہمارے درمیان سے اُسے اس مذموم مہم کو چلانے کے لیے ہرکارے بھی میسر ہیں۔ مغرب کے یہ ہرکارے انسانی حقوق کی وہ نام نہاد این جی اوز ہیں جو ہماری مغرب زدہ کلاس کے فساد زدہ بطن سے پیدا ہوئی ہیں۔ سابق وزیر داخلہ چودھری نثار اور اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج شوکت عزیز صدیقی نے بھی بعض این جی اوز کے ملک دشمن اور اسلام دشمن ایجنڈے کی ایک سے زائد بار نشاندہی کی ہے۔
ان این جی اوز کی تازہ ترین ’’پھرتی‘‘ حال ہی میں رپورٹ کی گئی جب ایک درجن سے زائد ایسی تنظیموں نے جن میں نگہت داد کی ’’ڈیجیٹل رائٹس فائونڈیشن‘‘ اور فریحہ عزیز کی ’’بولو بھی‘‘ شامل تھیں، لاہور میں دو ’’ملزموں‘‘ کے حق میں احتجاج کیا۔ ان افراد کو ایف آئی اے سائبر کرائم سیل نے مبینہ طور پر سوشل میڈیا سائٹ پر توہین آمیز مواد ’’اَپ لوڈ‘‘ کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا، اور ان میں سے ایک ملزم کو اس کے دعوے کے مطابق تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
تو کیا ’’ڈیجیٹل رائٹس‘‘ کے یہ علم بردار سائبر کرائم کے قانون کا شکار ہونے والے تمام افراد کی حمایت کرتے ہیں؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ یہ این جی اوز سائبر کرائم کے قانون کا شکار ہونے والے کسی فرد کی مدد کو نہیں آتیں۔ تاہم توہینِ رسالت کے ملزموں کا معاملہ ہو تو یہی ’’بولو بھی‘‘ اور اس جیسی ضمیر فروش تنظیمیں ’’مدعی‘‘ کے بجائے ’’ملزموں‘‘ کے ساتھ کھڑی ہوجاتی ہیں۔ یہ کیا منافقت ہے؟ یہ کس درجے کی گراوٹ ہے کہ آپ ایک عام شہری کی مبینہ توہین پر تو ملزم کی زندگی برباد کرنے کے درپے ہوجائیں مگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کے ملزموں کے حق میں پلے کارڈ لے کر کھڑے ہوجانے کا موقع ڈھونڈتے ہیں!
توہینِ رسالت مسلمانوں کی ’’ریڈ لائن‘‘ ہے، یہ وہ سرحد ہے جس کو عبور کرنے والا اسلام کے دل پر حملہ کرتا ہے۔ مگر مغرب ہمارے درمیان موجود اپنے گماشتوں کے ذریعے مستقل اس مذموم حملے میں مصروف ہے، لیکن ان رکیک حملوں پر ہماری خاموشی پورے معاشرے یا ملک کے لیے ہی نہیں، پوری امت کے لیے ڈوب مرنے کا مقام ہے۔