سیف اللہ قاضی
بلوچستان تعلیم کے حوالے سے زیادہ پسماندہ صوبہ ہے۔ دوسرے صوبوں کی بہ نسبت یہاں شرح خواندگی انتہائی کم ہے۔ تعلیم کی کمی اور جہالت کے اس طوفان کی اہم وجہ یہاں کے بپھرے نواب اور سردار ہیں، جن کی خواہش ہے کہ عوام ان کے غلام ہی بن کر رہیں۔ اس وجہ سے یہاں تعلیم پر بہت کم پیسہ خرچ کیا جاتا ہے، اور بجٹ بناتے وقت اسکالرشپ سمیت نئے اسکول اور کالج کھولنے کے لیے مناسب پیسہ مختص نہیں کیا جاتا۔ جس کی وجہ سے کھنڈر بنے اسکولوں کے اساتذہ گھر بیٹھے تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔
بلوچستان میں تعلیمی اداروں کی حالتِ زار قابلِ رحم ہے، مگر دلچسپ امر یہ بھی ہے کہ یہاں مدرسے بڑی تعداد میں قائم ہیں۔ یہ مدرسے سرداروں کے تسلط سے بالکل آزاد ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ان کا نتیجہ ہمیشہ اچھا رہا ہے۔ یہاں کے تعلیم دوست اور دین دار طبقے کی یہی کوشش رہتی ہے کہ نئے تعلیمی ادارے قائم کرکے قوم کو لکھے پڑھے افراد فراہم کیے جائیں، تاکہ نئی نسل اپنا اچھا اور برا خود سمجھ سکے۔
یہاں تقریباً 6 ماہ قبل ایک رپورٹ چھپی تھی جس کے مطابق شعبۂ پولیس میں ڈی ایس پی سے ڈی آئی جی سطح تک کم ازکم 30 اسامیاں خالی ہیں۔ اس سے کہیں بڑھ کر ضلعی عدالتوں میں ججوں کی اسامیاں خالی ہیں، جب کہ دیگر محکموں میں ایک ہی افسر کئی دیگر اضافی چارج بھی سنبھالے ہوتا ہے۔ ان اسامیوں کے خالی ہونے کی سب سے بڑی وجہ تعلیم کا فقدان اور نوجوانوں میں اہلیت کی کمی ہے۔
بلوچستان میں گریڈ 16سے اوپر بہت کم ایسے افسران پائے جاتے ہیں جنہوں نے بلوچستان ہی سے تعلیم حاصل کی ہے۔ ان کی تعداد پورے صوبے میں انگلیوں پر بآسانی گنی جاسکتی ہے۔ اس وجہ سے مقامی زبان بولنے والوں کے بجائے اکثر دوسرے صوبوں کے افسران یہاں کے اہم مناصب اور عہدوں پر تعینات ہوتے ہیں۔
بلوچستان میں ہمیشہ سے اس کمی کو محسوس کیا جاتا رہا ہے۔ اس کے ازالے کے لیے ہر علم دوست فرد نے اپنی بساط کی حد تک کوششیں کی ہیں، مگر حکومت کا ساتھ نہ ہونے اور سرداروں، وڈیروں کی جانب سے روڑے اٹکانے، دھمکانے اور تعاون نہ کرنے کی وجہ سے خلا اب تک پُر نہیں کیا جاسکا۔ یہاں سیکڑوں ایسے ادارے موجود ہیں جو وسائل کی کمی کے باوجود نئی نسل کی آبیاری میں مصروفِ عمل ہیں اور قوم کو ایسی نسل دینا چاہتے ہیں جو آگے چل کر ان کی درست قیادت کرسکے اور حقیقی رہنمائی کا حق ادا کردے۔
ان تاروں میں ایک چمکتا دمکتا تارہ بلوچستان کے صنعتی شہر حب میں واقع وہ ادارہ بھی ہے جسے آج سے 26 سال قبل حافظ محمد اسماعیل اور اُن کی ٹیم نے جامعہ اسلامیہ کے نام سے قائم کیا تھا۔ جامعہ اسلامیہ کا شمار صوبے کے یونیورسٹی سطح کے تعلیمی اداروں میں ہوتا ہے۔ اس کی بلند و بالا عمارتیں دیگر صوبوں سے آنے والے عمائدین کو خوشگوار حیرت کا احساس دلاتی ہیں۔
اس ادارے کی پہلی اینٹ 1992ء میں جنگل کے بیچ رکھی گئی تھی۔ تب اس کے آس پاس کا علاقہ ویران تھا۔ اس کی حیثیت بیج سے نکلے ایک ننھے پودے جیسی تھی۔ حافظ محمد اسماعیل اور اُن کی ٹیم کی بھرپور کاوشوں کے نتیجے میں جلد یہ ادارہ ایک تناور درخت بن گیا اور 26سال کے مختصر عرصے میں ترقی کی منازل طے کرتا گیا۔
جامعہ میں اس وقت شعبہ حفظ و ناظرہ، درسِ نظامی، اسکول، اسپیکر فورم، تربیت گاہ، کھیل، تحریری مقابلہ جات اور شفا خانہ سمیت کئی دیگر شعبے قائم ہیں۔ اس جامعہ نے اپنے چراغ سے آس پاس کے علاقے کو روشن کر رکھا ہے اور پورے ملک سے آنے والے امیر، غریب اور یتیم سمیت تمام طالب علموں کو یکساں تعلیم دے رہا ہے۔
بلوچستان میں چند ہی ایسے تعلیمی ادارے ہیں جو دینی و عصری تعلیم یکساں طور پر دے رہے ہیں۔ جامعہ کے منتظمین نے روزِ اوّل سے اس امر کو ملحوظ رکھا کہ یہاں سے دونوں علوم کے چشمے پھوٹیں جس کے نتیجے میں ایک طالب علم یہاں سے تیار ہوکر اس حال میں فارغ ہو کہ وہ دینی و عصری دونوں علوم میں یکساں مہارت رکھتا ہو۔ وہ جہاں ایک مدرسے میں ایک مولوی کی حیثیت سے درس و تدریس سے منسلک رہنا چاہے گا تو وہ اس طبقے کے لیے قابلِ قبول ہوگا اور اپنی خواہش کے مطابق اس میدان میں دین کی خدمت کرے گا۔ یا اگر وہ ایک ذمہ دار فردکی حیثیت سے آئینی اداروں میں جاکر بطور ایک کمیشنڈ آفیسر یا ایڈمنسٹریٹر اپنا مثبت کردار ادا کرنا چاہے گا اور کرپشن،کمیشن اور لوٹ مار کی آماج گاہ بنے ان اداروں کو ٹھیک کرنے کی کوشش کرے گا تو اس میدان میں بھی وہ ان کے لیے قابلِ قبول ہوگا۔
الحمدللہ جامعہ اپنے اس عظیم مشن کو لے کر کامیابی کی جانب گامزن ہے۔ سیکڑوں ایسے خوش نصیب افراد ہیں جو اس چشمے سے فیض یاب ہوئے ہیں اور مایوسی کا شکار معاشرے کو امید و یقین دلا رہے ہیں، اور ایک اسلامی فلاحی ریاست کی تشکیل میں اپنے اپنے حصے کا کام کررہے ہیں۔
ملک بھر سے آنے والے عمائدین جہاں بلوچستان میں تعلیم کی حالتِ زار کو دیکھ کر ایک سرد آہ بھرتے ہیں، وہیں یہ ادارہ اُن کے لیے ایک روشن کرن ثابت ہوتا ہے اور ان کی دم توڑتی امیدوں کو نیا عزم، حوصلہ اور لگن عطا کرتا ہے۔ جامعہ کی سالانہ تقریبات میں آنے والے عمائدین یہاں سے ایک خوشگوار احساس اور مسکراہٹیں لے کر جاتے ہیں۔ حالیہ دنوں’’تکمیل بخاری شریف‘‘کی سالانہ تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے بڑی تعداد میںشرکت کی۔ مہمانانِ گرامی میں جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق، نائب امیر اسد اللہ بھٹو، صوبائی امیر ڈاکٹر معراج الہدیٰ صدیقی سمیت بلوچ و براہوی قبائل کے عمائدین بڑی تعداد میں شریک ہوئے۔ مری قبیلے کی جانب سے سراج الحق کو بلوچی دستار پہنائی گئی۔ اس کے علاوہ جماعت اسلامی اور جمعیت طلبہ عربیہ کے صوبائی رہنما اور ضلعی امراء اپنے ارکان اور کارکنان کے ساتھ شریک ہوئے۔ جماعت اسلامی کے صوبائی امیر مولانا عبدالحق ہاشمی نے بخاری شریف کی آخری حدیث کا درس دیا۔ پروگرام میں خصوصی دعوت پر اقلیتی رہنما سینیٹر اشوک کمار، ضلعی چیئرمین رجب علی رند، سینئر سول جج قاضی نور محمد اور صحافی برادری شریک ہوئی۔ سب سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تقریب میں تمام طبقات کی نمائندگی موجود تھی، اور صوبے کے کونے کونے سے سیکڑوں افراد شریک ہوئے، جس نے تقریب کی رنگینیوں میں مزید چار چاند لگا دیئے۔ مہمانوں سمیت دیگر شرکاء نے اس پروگرام کو ایک منظم ٹیم کی کاوشوں کا نتیجہ قرار دیتے ہوئے اسے نہایت کامیاب پروگرام قرار دیا۔ پروگرام میں شرکاء کی تعداد دو ہزار کے لگ بھگ تھی۔ شرکت سے محروم رہ جانے والوں نے بذریعہ فون شریک نہ ہونے پر معذرت کی۔ جماعت اسلامی کے مرکزی امیر سینیٹر سراج الحق جامعہ کے انتظام، طلبہ کے ذوق و شوق اور ان کی آنکھوں سے پھوٹنے والی ایک نئی صبح کی امیدکی کرنوں کو دیکھ کر متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے جس کا اظہار انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ سراج الحق صاحب پہلی مرتبہ اس ادارے میں تشریف لائے مگر باوجود تھکاوٹ کے، خوشی سے ان کا چہرہ کھل اٹھا تھا۔ جاتے جاتے انہوں نے ناظم جامعہ سے یہاں تک کہہ دیا کہ جب بھی بلائیں گے میںضرور آئوں گا۔ اگر دیکھا جائے تو یہ یقین دہانی جامعہ، اس کی انتظامیہ اور خود اس کے طلبہ کے لیے کسی اعزاز سے کم نہیں۔ صوبے کے غریب عوام اور علم دوست طبقے کو اس جامعہ سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ یہ ان کے لیے آس ہے، روشنی کا مینار ہے اور منزل کی جانب رہنمائی کرنے والا ایک عظیم رہنما۔