ہائے بے چارہ ایک روپیہ

جتنا میں نے ہوش میں دیکھا اُتنا میں یقینِ کامل کے ساتھ، اور جتنا اجداد سے سنا وہ اگر یقینِ کامل سے نہیں تو یقین سے ضرور بیان کرسکتا ہوں۔
جب میں نے ہوش سنبھالا تو روپے پیسے اور ناپ تول کا نظام بدل رہا تھا۔ اس نظام سے قبل ناپ تول میں ’’رتی، ماشہ، تولہ، چھٹانک، پاؤ، سیر اور من‘‘ من پسند ہوا کرتے تھے، جبکہ لین دین میں سب سے چھوٹی اکائی ’’پائی‘‘ ہوا کرتی تھی۔ اس کے بعد پیسہ آتا تھا جو ایک روپے کا 64 واں حصہ ہوتا تھا۔ اسی کی نسبت سے ’’اکنی‘‘ یعنی ایک آنہ، ’’دوانی‘‘ یعنی 2 آنے، ’’چونی‘‘ یعنی 4 آنے اور ’’اٹھنی‘‘ یعنی 8 آنے کی اصطلاح استعمال ہوا کرتی تھی، جبکہ ’’1 آنہ‘‘ کا مطلب تھا ’’4 پیسے‘‘۔
روپیہ کتنی قدر اور وزن رکھتا تھا، اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ ’’1 پیسہ‘‘ جو خود ’’ایک روپے‘‘ کا 64 واں حصہ تھا وہ بھی 3 پائیوں پر مشتمل ہوا کرتا تھا۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ عملاً ایک روپیے کو بھی 192 حصوں میں تقسیم کیا گیا تھا۔ اس کے باوجود بھی اکثر اشیا دیگر سامان کے ساتھ یونہی مفت پکڑا کر دکاندار ’’پائی‘‘ سے مزید چھوٹی اکائیاں نہ ہونے کی وجہ سے حساب برابر کردیا کرتے تھے۔ یہ ہیں میرے ہوش کی باتیں۔ جبکہ میرے والدین کے زمانے میں اس ایک پائی میں بھی 6 عدد ’’کوڑیاں‘‘ ہوا کرتی تھیں تب کہیں جاکر روزمرہ کی خریداری ممکن ہوا کرتی تھی۔ کیونکہ یہ بات میرے والدین کے زمانے کی ہے اس لیے میں ایک روپے کے 1152 ویں حصے کی جانب سے صرفِ نظر کرتے ہوئے اور لین دین یا حساب کتاب کے دم توڑتے ہوئے نظام سے ہٹ کر ایوبی دورِ حکومت کے اعشاری نظام کی جانب لوٹ کر آئوں گا جو جاری تو آج بھی ہے لیکن اس میں روپے کے پیسے تو کب کے غائب ہوچکے ہیں، اور اب تو وہ روپیہ بھی اتنا ناتواں، ضعیف اور لاغر ہوچکا ہے کہ اس نے اپنی شکل چھپا لینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ہوئی ہے، اور اب یہ عالم ہوگیا ہے کہ کبھی سکے ’’2پیسوں، 5 پیسوں، 10پیسوں، 25 پیسوں اور 50 پیسوں‘‘ کی صورت میں جاری ہوا کرتے تھے… اب 1 روپیہ، 5 روپوں اور 10 روپوں کی صورت میں ملاقات کیا کرتے ہیں۔ نیز ان کی قدر کا بھی یہ عالم ہے کہ لوگ واپس ملنے والے 5 روپے کے سکوں کو ’’1 پیسے‘‘ کے برابر بھی اہمیت نہیں دیتے۔
میری عمر کے لوگ جو میرے ہی دور میں بسوں میں سفر کرتے رہے ہوں گے انھیں یہ بات اچھی طرح یاد ہوگی کہ بسوں کے اندر لکھا ہوتا تھا کہ ’’ایک روپے سے زیادہ ریزگاری نہیں ملے گی‘‘۔ ہوٹلوں پر یہی ہدایت 5 اور 10 کے نوٹ رکھنے والوں کے لیے ہوا کرتی تھی۔
جس اعشاری نظام کے ’’1 پیسے‘‘ کی میں بات کررہا ہوں اُس کو ایک طویل دور تک پرانے برٹش سسٹم کے ساتھ ملاکر چلایا گیا۔ مثلاً 2 آنے برابر ہیں 12 پیسوں کے، اور 4 آنے برابر ہیں 25 پیسوں کے وغیرہ وغیرہ۔ اب ہم جیسے، جو چھوٹے ہوا کرتے تھے، اکثر کسی دکان سے 4 آنے کی خریداری کرنے کے لیے ایک مرتبہ 12 پیسے کی خریداری کرتے تھے، اور پھر کچھ دیر بعد دوبارہ 12 پیسے کی خریداری کرکے ’’1 پیسہ‘‘ بچالیا کرتے تھے۔
یہ 1 پیسہ بھی بہت وزنی ہوا کرتا تھا، اس لیے کہ اس ایک پیسے کی وہ ٹافی یا چاکلیٹ آجایا کرتی تھی جو آج کل 5 روپے میں بھی نہیں آتی۔ اس لیے دکاندار دوبارہ 12 پیسوں کی کوئی شے دینے پر ہاتھ روک لیا کرتا تھا اور ’’تیرھویں‘‘ پیسے کا مطالبہ کیا کرتا تھا۔ ایک پیسے کی ادائیگی یا وصولیابی اکثر خاصی بحث و تکرار اور لڑائی جھگڑے کا سبب بن جایا کرتی تھی جو اس بات کی دلیل ہے کہ ایک پیسے میں بھی بہت وزن ہوا کرتا تھا۔
میری باتیں یقینا بہت سارے نوجوانوں کو مذاق محسوس ہورہی ہوں، لیکن مجھے اس کا بالکل بھی برا نہیں لگے گا، اس لیے کہ جب میری والدہ مجھ سے یہ کہا کرتی تھیں کہ ان کے زمانے میں بکرا یا بکری ’’3 روپے‘‘ میں ملا کرتی تھی تو میں بھی زیر لب مسکرا دیا کرتا تھا۔ لیکن جب میں نے کتابوں میں یہ پڑھا کہ ’’اکبر الٰہ آبادی‘‘ جو اپنے وقت میں ’’سیشن کورٹ کے جج‘‘ بھی رہے ہیں اور جج ہونے کے باوجود اُن کی تنخواہ صرف 15 روپے تھی تو 3 روپے کی بکری مجھے 30 ہزار کے برابر لگنے لگی۔
اگر کوئی نوجوان قاری اس تحریر کو پڑھ کریہ سمجھ رہا ہو کہ یہ ساری باتیں سو ڈیڑھ سو برس پرانی ہیں تو عرض ہے کہ ایسا ہرگز نہیں۔ اس لیے کہ جب میں 1971ء میں کالج میں داخل ہوا تو اپنی 4 پتلونیں کپڑا خرید کر درزی سے سلوائی تھیں، تو وہ سلائی کے بعد 14 روپے فی کس کے حساب سے پڑی تھیں۔
1965ء کی پاک بھارت جنگ سے پہلے گائے کا گوشت ’’سواروپے‘‘ کلو آتا تھا، آٹا 18 روپے من اور ایک چائے مَلائی کے ساتھ 10 پیسے کی ملا کرتی تھی۔ مناسب اور اچھا کھانا ایک وقت میں 19 پیسے، اور زیادہ سے زیادہ 25 پیسے میں مل جایا کرتا تھا۔
میرے ایک رشتے کے بھائی بھارت سے آئے تو اُن کی زبانی میں یہ سن کر محاورتاً نہیں حقیقتاً اچھل گیا تھا کہ وہاں چائے کا ایک کپ ایک روپے میں ملتا ہے، کیونکہ میں ایک روپے میں اپنی پوری کرکٹ ٹیم کو چائے پلادیا کرتا تھا۔ میں نے اُن کی بات سن کر حیرت سے کہا کہ آپ لوگ پھر بھی چائے پیتے ہیں؟ جس پر انھوں نے کہا ’’میاں اگر چائے 5 روپے کی بھی ملے گی تو تم چائے پیو گے۔‘‘
اب تو اس غریب روپے کا یہ حال ہوگیا ہے کہ دو، پانچ، دس، بیس، پچاس اور سو کے نوٹوں کی جگہ 500 اور 1000 روپے کے نوٹوں نے سنبھال لی ہے، جبکہ ان کی جگہ لینے کے لیے 5000 کا نوٹ پہلے ہی بازار میں آچکا ہے۔ یہی نہیں اب تو 10000 روپے کا نوٹ بھی میدان میں کود چکا ہے۔
اب خود ایک روپے کی زبوں حالی کا اندازہ لگائیں جس کا 1152 واں حصہ (کوڑی) بھی اشیا کو گھور گھور کر دیکھا کرتا تھا، پھر 192 واں حصہ (پائی) بھی آنکھیں دکھاتا رہا۔ 100 واں حصہ (پیسہ) بھی کچھ کم مغرور نہیں تھا… لیکن اب تو یہ عالم ہوگیا ہے کہ وہی روپیہ شکل دکھانے کے قابل نہیں رہا۔
ریڈیو پاکستان تک کی کہانی تو مجھے یاد ہے، جب سربراہِ مملکت یا حکومت، ریڈیو پاکستان کے ذریعے عوام سے مخاطب ہوا کرتا تھا تو ریڈیو پاکستان ایک روپے کا ’’چیک‘‘ سربراہ کو پیش کیا کرتا تھا جو کہ ایک اعزاز تھا۔ اب کیا پیش کیا جاتا ہے، مجھے اس بات کا علم نہیں۔ لیکن کم از کم ایک روپے کا چیک پیش کیا جانا تو ایسا ہی ہے جیسے کوئی حاتم طائی کی قبر پر لات رسید کردے۔