قومی بحران اور اس کا حل

پروفیسر خورشید احمد
گزشتہ 70برسوں کی تاریخ، جمہوری قوتوں اور آمریت کے علَم برداروں کے درمیان کش مکش اور سمجھوتوں کی تاریخ ہے۔ لیکن اگر دْنیا کے دوسرے ترقی پذیر ملکوں اور خود مسلم دنیا کے حالات کو سامنے رکھا جائے، تو یہ حقیقت ناقابلِ انکار ہے کہ آمرانہ قوتیں یہاں اپنے غلبے کو دوام نہیں دے سکیں اور جمہوری قوتیں اپنی بے شمار کمزوریوں کے باوجود آمریت کی گرفت سے نکلنے میں کامیاب رہی ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ آمرانہ قوتیں گو بار بار پسپائی اختیار کرتی رہی ہیں، لیکن یکسر میدان سے باہر نہیں ہوئیں۔ یہی حال جمہوری قوتوں کا ہے کہ بار بار مواقع ملنے کے باوجود وہ کماحقہ اپنا کردار ادا نہیں کرسکیں۔
فوج اور عدلیہ، عوام کے لیے معتبر ترین ادارے ہونے کے باوجود اپنے اپنے دائرے میں بھی صرف جزوی طور پر کامیاب ہوسکے ہیں اور جب بھی دوسرے دائروں میں انہوں نے مداخلت کی ہے، تو کچھ جزوی مثبت نتائج کے ساتھ، واقعہ یہ ہے کہ کہیں زیادہ بڑے نقصانات کا وہ باعث ہوئے ہیں۔ سیاسی قوتوں نے بھی بار بار کے تجربات کے باوجود قوم کی توقعات کو پورا نہیں کیا اور اس کی بھی بنیادی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے بالعموم دستور، مقاصد اور عوام کی فلاح و بہبود کے تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کر، اپنے ذاتی اور گروہی مفادات کو اوّلیت دی ہے۔ ان تمام خرابیوں اور کمزوریوں کے باوجود جو بہت بڑی نعمت ہمیں حاصل رہی ہے، وہ قرارداد مقاصد اور 1973ء کا دستور ہے، جو ایک قومی اور اجتماعی معاہدے(National and Social Contract)کی شکل میں ملک و قوم کی کشتی کے لیے لنگر کی حیثیت رکھتے ہیں۔ یہ دستور وہ فریم ورک فراہم کرتا ہے، جس پر دیانت اور تدبر سے کام کرکے ان تمام چیلنجوں کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے جو آج درپیش ہیں۔
موجودہ انتشار اور تنائو کی صورتِ حال سے نکلنے کا مؤثر ترین راستہ دستور کو مضبوطی سے تھامنے اور اس کے تمام پہلوئوں کو سامنے رکھ کر ایک مناسب ترتیب سے اصلاحِ احوال کے لیے قومی سطح کی جدوجہد ہے، جسے باہم مشاورت سے انجام دینے کی ضرورت ہے۔ اس وقت پارلیمنٹ، عدلیہ اور قومی عساکر پر مشتمل اداروں کے درمیان تصادم کی جو فضا بنتی جارہی ہے، وہ ہماری نگاہ میں قومی نقطۂ نظر سے بہت پریشان کن بلکہ انتہا درجے کی خطرناک صورت ہے۔ اسے مزید ہوا دینا، جمہوریت کے مستقبل کے لیے بڑا نقصان دہ ثابت ہوسکتا ہے۔ اس سلسلے میں حکومت، ملک کی سیاسی اور دینی جماعتوں، فوجی قیادت ، اعلیٰ عدلیہ اور میڈیا، ہر ایک کا کردار بہت اہم ہے۔ دستور، جمہوریت کے آداب اور روایات اور تاریخ، سب کا سبق یہ ہے کہ تصادم کے راستے کو بند کیا جائے اور مل بیٹھ کر موجودہ تنائو کی صورتِ حال سے نکلا جائے۔
بدقسمتی سے سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف نے عدلیہ اور فوج دونوں کو جس طرح ہدف بنایا ہے، اس نے حالات کو بڑے خطرناک رْخ پر ڈال دیا ہے۔ عمل اور ردِعمل، حالات کو بگاڑ تو سکتے ہیں، انھیں سنوار نہیں سکتے ، جب کہ وقت کی ضرورت آگ پر تیل چھڑکنا نہیں، اسے بجھانا ہے۔ اَنا کی پرستش مزید تباہی کا راستہ ہے اور یہ ذمہ داری ہم سب کی ہے۔ سیاسی قیادت، تمام پارلیمانی جماعتیں، عدلیہ، وکلا برادری، سول سوسائٹی کے نمایندے، میڈیا اور فوج کے ذمہ داروں پر لازم ہے کہ حالات کی نزاکت کا پاس و لحاظ کرتے ہوئے تمام معاملات کو دستور میں دیے ہوئے خطوط کے اندر حل کرنے کی کوشش کریں۔ اس میں نہ کسی کی فتح ہے اور نہ کسی کی شکست۔ اس سے زیادہ تکلیف دہ اور کیا بات ہوگی کہ قومی اسمبلی کا اسپیکر بھی احتجاج میں واک آؤٹ کرے، اور ملک کے وزیراعظم صاحب سینیٹ کے چیئرمین کی تضحیک کریں۔ ’ن‘ لیگ کے ’تاحیات رہبر‘ کی صاحب زادی اور مشیر، عدالت عظمیٰ اور قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف روز اعلانِ جنگ کریں اور فوج کے سربراہ کو مجبوراً صحافیوں کو بریفنگ دینا پڑے اور ملک کا چیف جسٹس روز بیان دے اور وضاحتیں کرے۔
ہمیں افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ تینوں بڑی سیاسی جماعتوں: مسلم لیگ (ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک ِ انصاف نے جو انداز اختیار کیا ہے اور جو زبان وہ روزانہ استعمال کر رہے ہیں، وہ جلتی پر تیل کا کام تو انجام دے سکتی ہے اصلاحِ احوال کی کوئی صورت اس میں نظر نہیں آتی۔ جب تک دینی سیاسی جماعتوں کا اتحاد وجود میں نہیں آیا تھا، اس کے بارے میں دو آرا ہوسکتی تھیں لیکن اب اس کے قیام میں آجانے کے بعد فوری اور اہم چیلنج اس کے سامنے یہ ہے کہ وہ ملک کو فوری طور پر اس بحران سے نکالنے کے لیے کوئی اقدام کرے کہ ماحول ٹھنڈا ہو اور ملک و قوم انتخابات کے ذریعے صحت مند تبدیلی کے راستے پر گامزن ہوسکے۔
مسلم لیگ (ن) کا سانحہ یہ ہے کہ وہ ایک دستوری اور قانونی معاملے کو سیاسی رنگ دے کر اداروں اور سیاسی قوتوں کو تصادم کی طرف لے جارہی ہے۔ وہ بیک وقت حکومت اور حزبِ اختلاف کا کردار ادا کر رہی ہے اور اپنے پونے پانچ سالہ دورِاقتدار میں اپنی کارکردگی کی بنا پر انتخابات میں حصہ لینے کے بجاے غیرحقیقی مظلومیت کا لبادہ اوڑھ کر عدل اور سلامتی کے اداروں کے خلاف محاذ آرائی سے سیاسی فاصلے طے کرنا چاہتی ہے۔ یہ ان کی قیادت کی خام خیالی ہے کہ اس طرح وہ انتخاب میں ایسی دو تہائی اکثریت حاصل کرسکتی ہے کہ جس کے نتیجے میں وہ دستور کا تیاپانچا کرنے کی قوت حاصل کرپائے، اور شخصی آمریت کا وہ خواب جو محترم نواز شریف 23سال سے دیکھ رہے ہیں، وہ پورا ہوسکے۔
ہم صاف الفاظ میں انتباہ کرنا چاہتے ہیں کہ سیاست میں فوجی مداخلت نے نہ ماضی میں کوئی قومی خدمت انجام دی ہے، نہ آئندہ دے سکتی ہے۔ فوج کا کام ملک کا دفاع اور ملک کی سول حکومت کی تائید اور معاونت ہے۔ بلاشبہ قومی سلامتی، دفاع اور ملک کے مفادات کے سلسلے میں فوج کے نقطۂ نظر کو سمجھنا اور باہم مشاورت سے ایک دوسرے سے استفادہ کرنا ہی صحیح سیاسی اور دستوری طریق کار ہے۔
] اشارات: ترجمان القرآن۔ اپریل 2018 ء سے انتخاب[