فہم القرآن

ابوسعدی
فہمِ قرآن کی ساری تدبیروں کے باوجود آدمی قرآن کی روح سے پوری طرح آشنا نہیں ہونے پاتا جب تک عملاً وہ کام نہ کرے جس کے لیے قرآن آیا ہے۔ یہ محض نظریات اور خیالات کی کتاب نہیں ہے کہ آپ آرام کرسی پر بیٹھ کر اسے پڑھیں اور اس کی ساری باتیں سمجھ جائیں۔ یہ دنیا کے عام تصورِ مذہب کے مطابق ایک نری مذہبی کتاب بھی نہیں ہے کہ مدرسے اور خانقاہ میں اس کے سارے رموز حاصل کرلیے جائیں۔ یہ ایک دعوت اور تحریک کی کتاب ہے۔ اس نے آتے ہی ایک خاموش طبع اور نیک نہاد انسان کو گوشۂ عزلت سے نکال کر خدا سے پھری ہوئی دنیا کے مقابلے میں لاکھڑا کیا۔ باطل کے خلاف اس سے آواز اٹھوائی اور وقت کے علَم بردارانِ کفر و فسق سے اس کو لڑوادیا۔
(مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ)

فکریاتِ جمیل

ڈاکٹر جمیل جالبی

٭ جب الفاظ اپنے ’’معنی‘‘ کھو دیتے ہیں تو زندگی بھی ’’بے معنی‘‘ اور ’’بے مقصد‘‘ ہو جاتی ہے۔
٭ ’’خیال‘‘ انسان کی عظیم تخلیق ہے، اور ’’مہذب انسان‘‘ خود خیال کی تخلیق ہے۔
٭ ہمارے ہاں ’’خیال‘‘ کی آمد کا سوتا خشک ہورہا ہے۔ اوہام اور مُردہ روایت کی تقلید کے جذبے اتنے قوی ہوگئے ہیں کہ انہوں نے ہر نئے خیال کو ایک عفریت کی شکل دے دی ہے، اور جس طرح بچہ کسی نامعلوم عفریت کے خوف سے اندھیرے میں جاتے ہوئے ڈرتا ہے، اسی طرح ہمارا معاشرہ ’’نئے خیال‘‘ سے خوف زدہ ہوگیا ہے۔ خیال کے ارتقا کے رک جانے کے اسی عمل نے رومن کلچر کو صفحۂ ہستی سے مٹا دیا۔
٭ جب معاشرے میں معیار باقی نہیں رہتے یا بے جان ہوجاتے ہیں تو سارا معاشرہ ’’خود حفاظتی‘‘ میں لگ جاتا ہے۔
٭ ذہنی آزادی اتنا بڑا آدرش ہے کہ زندگی کو خطرے میں ڈال کر بھی اس کی حفاظت کرنی چاہیے، تاکہ فرد کو زندہ رکھا جا سکے۔
٭ جب انسان دوسروں کے لیے زندگی بسر کرتا ہے تو خیر کا عمل پیدا ہوتا ہے، اور جب انسان صرف اپنے لیے زندگی بسر کرتا ہے تو شر کا عمل پیدا ہوتا ہے۔ خیر کا عمل ذہنی آزادی کو آگے بڑھاتا ہے، اور شر کا عمل اسے دباتا اور زندگی کو محدود کرتا ہے۔
٭ یہ بات ذہن نشین رہے کہ نیا جغرافیہ ماضی کی تاریخ کو نہیں بدل سکتا، لیکن ماضی کی تاریخ کا شعور کسی قوم کا جغرافیہ ضرور بدل سکتا ہے۔
٭ ہم احترام کے جذبات کے بغیر ایک دوسرے پر ہنستے ہیں، جس میں محبت اور یگانگت سے زیادہ حقارت کا جذبہ شامل ہوتا ہے۔

اہم معلومات

٭مگرمچھ کی زبان نہیں ہوتی۔
٭افسردہ ہونے پر دریائی گھوڑے کے جسم سے نکلنے والا پسینہ لال رنگ میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
٭ بڑا کینگرو ایک چھلانگ میں 30 فٹ لمبار راستہ پورا کرلیتا ہے۔
٭مچھروں کی زندگی کا دورانیہ 2 ہفتے ہوتا ہے۔
٭ گھوڑا اور گائے کھڑے کھڑے بھی سو سکتے ہیں۔
٭ آنکھیں بند ہونے کے باوجود بھی سانپ اپنے پپوٹوں سے دیکھ سکتا ہے۔
٭ شارک کا انڈا دنیا کا سب سے بڑا انڈا مانا جاتا ہے۔
٭ چیونٹیاں کبھی نہیں سوتیں، نہ ہی ان کے پھیپھڑے ہوتے ہیں۔
٭ شتر مرغ کی آنکھ اس کے دماغ سے بڑی ہوتی ہے۔
٭ خلا میں بھیجا جانے والا سب سے پہلا جانور کتا تھا۔
٭ آکٹوپس کے تین دل ہوتے ہیں۔
٭ بلی کے کان میں 32 پٹھے پائے جاتے ہیں۔
٭ سمندر میں پائے جانے والے سانپ سب سے زہریلے مانے جاتے ہیں۔
(سمیہ آصف، شعبہ ابلاغیات، لاہور کالج برائے خواتین یونیورسٹی)

مجھے ان آتے جاتے موسموں سے ڈر نہیں لگتا

سلیم احمد

مجھے ان آتے جاتے موسموں سے ڈر نہیں لگتا
نئے اور پُر اذیت منظروں سے ڈر نہیں لگتا
خموشی کے ہیں آنگن اور سناٹے کی دیواریں
یہ کیسے لوگ ہیں جن کو گھروں سے ڈر نہیں لگتا
مجھے اس کاغذی کشتی پہ اک اندھا بھروسا ہے
کہ طوفاں میں بھی گہرے پانیوں سے ڈر نہیں لگتا
سمندر چیختا رہتا ہے پس منظر میں اور مجھ کو
اندھیرے میں اکیلے ساحلوں سے ڈر نہیں لگتا
یہ کیسے لوگ ہیں صدیوں کی ویرانی میں رہتے ہیں
انہیں کمروں کی بوسیدہ چھتوں سے ڈر نہیں لگتا
مجھے کچھ ایسی آنکھیں چاہئیں اپنے رفیقوں میں
جنہیں بیباک سچے آئنوں سے ڈر نہیں لگتا
مرے پیچھے کہاں آئے ہو نامعلوم کی دھن میں
تمہیں کیا ان اندھیرے راستوں سے ڈر نہیں لگتا
یہ ممکن ہے وہ ان کو موت کی سرحد پہ لے جائیں
پرندوں کو مگر اپنے پروں سے ڈر نہیں لگتا

 

امام غزالیؒ نے فرمایا

لوگ سوئے پڑے ہیں، فقط علم والے بیدار ہیں۔
علم والے خسارے میں ہیں، فقط عمل والے فائدے میں ہیں۔
عمل والے خطرے میں ہیں، فقط اہلِ اخلاص نجات پاتے ہیں۔
اہلِ اخلاص پھسل جاتے ہیں، صرف اہلِ انکسار ہی محفوظ رہتے ہیں۔