گیارہ برس کے طویل انتظار کے بعد اسلام آباد کا نیا ہوائی اڈہ مکمل ہوچکا ہے۔ اس ہوائی اڈے کا سنگِ بنیاد اُس وقت کے صدر پرویزمشرف اور وزیراعظم شوکت عزیز نے7 اپریل 2007ء کو رکھا تھا۔ اگر اس کی منصوبہ بندی سے افتتاح تک کا اندازہ لگائیں تو اس کی تکمیل میں تین دہائیوں کا عرصہ لگا۔ اسلام آباد کا نیا ہوائی اڈہ ہر لحاظ سے ملک میں موجود باقی تمام ہوائی اڈوں سے نہ صرف بڑا ہے بلکہ جدید ترین بھی ہے۔ نئے ہوائی اڈے میں پندرہ ایئر برجز ہیں جن کی مدد سے مسافر طیاروں پر سوار یا اتر سکیں گے۔ چار منزلہ ٹرمینل کی عمارت میں نچلی منزل پر آمد، جبکہ اوپر والی منزل پر روانگی ہے۔ درمیانی منزل پر فوڈ کورٹ، سنیما اور دوسری سہولیات موجود ہیں۔ یہ پاکستان کا پہلا گرین فیلڈ ہوائی اڈہ ہے جو کہ خالی زمین پر ازسرِنو تعمیر کیا جانے والا ہوائی اڈہ ہوتا ہے۔ پاکستان میں اس سے قبل کوئی بھی بین الاقوامی ہوائی اڈہ نئے سرے سے تعمیر نہیں کیا گیا، اور نہ ہی ایک بین الاقومی ہوائی اڈے کو ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل کیا گیا۔ اس ہوائی اڈے میں 90 لاکھ مسافروں کو ہینڈل کرنے کی سہولت موجود ہے۔ ہوائی اڈے کی عمارت کی سب سے نچلی سطح پر مسافروں کی آمد کا انتظام ہے اور فضائی کمپنیوں کے دفاتر بھی اسی منزل پر ہیں، مگر باقی ہوائی اڈوں کے برعکس پہلے بین الاقوامی آمد ہے اور پھر اندرونِ ملک آمد کا راستہ ہے۔ اسی منزل پر سامان کے حصول کے آٹھ بیلٹ بنائے گئے ہیں جن سے مسافر آمد کے بعد سامان وصول کرسکیں گے۔ یہ بیلٹ بین الاقوامی آمد اور اندورنِ ملک آمد کے درمیان تقسیم ہوں گے۔ اسی طرح تیسری منزل پر بین الاقوامی روانگی اور اندرونِ ملک روانگی ہے جسے کار پارکنگ سے سیڑھیوں کے ذریعے اور براہِ راست ڈراپ لین سے پہنچ سکتے ہیں۔ ان دونوں منزلوں کے درمیان میں ایک منزل ہے جہاں مسافروں کے لیے مختلف سہولیات مہیا کی گئی ہیں۔
مسافروں کے لیے دوسری منزل پر کھانے پینے کے مختلف ریستوران اور دکانیں بھی شامل ہوں گی جن سے مسافر استفادہ کر سکتے ہیں۔ فون چارج کرنا مسافروں کے لیے بہت اہم ہوتا ہے، اس مقصد کے لیے بائیو میٹرک موبائل چارجنگ کیبنٹ بنائے گئے ہیں۔ اس کے علاوہ بچوں کے لیے کھیلنے کی جگہ، مسجد اور عبادت کی جگہ اور ایک وزیٹر گیلری بھی بنائی جائے گی۔ اس ہوائی اڈے کی ٹرمینل کی عمارت میں ایک فور اسٹار ہوٹل بھی قائم کیا جارہا ہے جو ٹرانزٹ کے مسافروں کی سہولت کے لیے بنایا گیا ہے جہاں رکنے والے مسافر آرام کرسکیں گے۔ اسی طرح ایئرلائنز کے لیے لاؤنج بھی بنائے گئے ہیں جہاں مسافر اپنی پرواز سے پہلے بیٹھ سکیں گے۔
نوبیل اکیڈمی، بحران کا شکار
نوبیل انعام برائے ادب کے تین جج صاحبان اپنے عہدوں سے مستعفی ہوگئے ہیں۔ انھوں نے یہ اقدام سویڈن میں قائم نوبیل اکیڈمی سے وابستہ ایک سرکردہ شخصیت کے خلاف جنسی ہراسمنٹ اور حملوں کے الزامات منظرعام پر آنے کے بعد کیا ہے۔ نوبیل ادب کمیٹی کے ان تینوں منصفین کلاس اوسٹرگرین، جیل ایسپمارک اور پیٹر اینگلنڈ نے جمعہ کو ایک مشترکہ بیان جاری کیا تھا اور یہ کہا تھا کہ وہ سویڈش اکیڈمی کو خیرباد کہہ رہے ہیں۔ سویڈش اخبار ڈیجینز نائی ہیٹر کی ایک رپورٹ کے مطابق 18 عورتوں نے اسٹاک ہوم کے ایک کلچرل سینٹر کے سربراہ ژاں کلاڈ آرنالٹ کے خلاف جنسی حملے اور ہراسمنٹ کے الزامات عائد کیے ہیں۔ یہ صاحب ایک معروف ثقافتی شخصیت ہیں اور ان کے نوبیل اکیڈمی کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔ ایک قانونی فرم کو ان صاحب کے اکیڈمی پر اثر رسوخ کی تحقیقات کے لیے کہا گیا ہے۔
مسٹر پیٹر اینگلنڈ نے اپنے استعفے میں لکھا ہے کہ انھوں نے اس بحران سے نمٹنے کے طریق کار پر اختلاف کے بعد اکیڈمی کو چھوڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔
منصف اوسٹرگرین نے اخبار سیونسکا داگ بلادٹ کو بھیجے گئے ایک تحریری بیان میں کہا ہے ’’اکیڈمی ایک طویل عرصے سے سنگین مسائل سے دوچار ہے اور اب وہ ان کو ایسے انداز میں حل کرنے کی کوشش کررہی ہے جو اس کے مرتبے کے منافی ہے۔ چنانچہ میں نے اس کی سرگرمیوں میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا ہے اور میں اس کھیل سے باہر ہورہا ہوں۔‘‘
واضح رہے کہ 18 ارکان پر مشتمل نوبیل کمیٹی میں شامل جج صاحبان کا تاحیات تقرر کیا جاتا ہے اور فنی طور پر انھیں کمیٹی کو خیرباد کہنے کی اجازت نہیں ہوتی۔1989ء میں تین منصفین نے اکیڈمی سے مستعفی ہونے کا اعلان کردیا تھا، انھوں نے یہ فیصلہ اکیڈمی کی جانب سے ایران کے رہبرِ انقلاب آیت اللہ روح اللہ خمینی کی مذمت میں بیان جاری نہ کرنے پر کیا تھا، لیکن اکیڈمی نے ان کا استعفا منظور نہیں کیا تھا۔آیت اللہ خمینی نے تب توہین آمیز ’’شیطانی آیات‘‘ کے مصنف سلمان رشدی کے خلاف قتل کا فتویٰ جاری کیا تھا۔
شام میں وحشت و درندگی
شام میں مارچ 2011ء سے شروع ہونے والی خونریزی میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ مشرق وسطیٰ کے اس چھوٹے سے ملک میں امریکہ، یورپی یونین، ترکی، ایران اور روس کی فوجوں کے باقاعدہ اڈے ہیں، جبکہ سعودی عرب اور خلیجی ممالک نے اپنے گماشتے پال رکھے ہیں۔ کئی مہینوں سے دمشق کے مضافاتی علاقے مشرقی غوطہ پر روس اور شام کے بمبار دن رات آگ برسا رہے ہیں۔ سارا شہر ملبے کا ڈھیر بن گیا ہے لیکن بشارالاسد کی ہوسِ اقتدار کسی طور آسودہ ہونے کا نام نہیں لے رہی۔ ہفتے کے دن شامی فضائیہ نے دوما شہر پر زہریلی گیس سے بھرے بیرل بم برسا دیئے۔ ان بموں کے پھٹنے سے ایک طرف تو کلورین گیس خارج ہوتی ہے تو دوسری طرف اس سے نکلنے والا کیماوی مواد فضا کی آکسیجن جذب کرلیتا ہے۔ کلورین کی وجہ سے جلد پر جلن کا احساس ہوتا ہے تو آکسیجن کی کمی سے دم گھٹنے لگتا ہے۔ کئی متاثرین نے بتایا کہ پھیپھڑے حلق تک آتے محسوس ہوتے ہیں۔ دوما پر حملے میں 100 افراد کی موت واقع ہوئی جن میں بچوں کی اکثریت ہے۔ اس کے ساتھ اسرائیلی طیاروں نے وسطی شام میں تدمر کے فوجی اڈے پر میزائلوں سے حملہ کرکے تباہی پھیلائی ہے۔ شامیوں کا خیال تھا کہ دوما پر کیمیاوی حملے کے جواب میں یہ امریکہ کی کارروائی ہے، لیکن روس کا کہنا ہے کہ اسرائیلی طیاروں نے لبنان کی فضائی حدود سے شامی فضائیہ کے اڈوں پر میزائل برسائے۔
علاماتِ قیامت
عمارت کا نقشہ بنانے کا لائسنس صرف آرکیٹکٹ کے پاس ہوتا ہے، حسابات کو آڈٹ کرنے کا لائسنس صرف چارٹرڈ اکائونٹنٹ یا اُس کے مساوی حسابیات کی ڈگری رکھنے والے کے پاس ہوتا ہے، آپریشن کرنے اور انسانی بدن کی چیر پھاڑ اور قطع و برید کرنے اور پیوندکاری کرنے کا لائسنس صرف سرجن کے پاس ہوتا ہے، لیکن مذہب پر حتمی رائے دینے اور ماہرانہ گفتگو کرنے کے لیے کوئی شرط نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دینی موضوعات پر ہر کوئی مشقِ ناز کرسکتا اور ستم ڈھا سکتا ہے۔
احادیثِ مبارکہ میں ’’کتاب الفِتَن‘‘ کے عنوان سے قیامت سے پہلے وقوع پذیر ہونے والے فتنوں کا ذکر یقینا آیا ہے، اسی طرح ’’اَشرَاط السَّاعَہَ‘‘ کے عنوان سے علاماتِ قیامت کا بیان بھی آیا ہے، منجملہ علاماتِ قیامت میں سے دجال کا خروج بھی ہے، لیکن اِن فتنوں اور علاماتِ قیامت کا قطعی مصداق متعیّن کرلینا نہایت مشکل امر ہے۔ آج کوئی صاحبِ علم جس چیز کو قطعی اور حتمی مصداق قرار دے رہا ہے، اگر اس کے ظہور کے باوجود صبحِ قیامت طلوع نہ ہوئی، تو لوگ دین کے بارے میں شکوک وشبہات میں مبتلا ہوجائیں گے، لہٰذا اہلِ علم و دانش سے گزارش ہے کہ ازراہِ کرم اس مشقِ ناز سے گریز فرمائیں تو بہتر ہے۔ ہمارا کام فقط اتنا ہے کہ قیامت سے پہلے ظہور میں آنے والے فتنوں اور علاماتِ قیامت کے بارے میں جو کچھ قرآنِ کریم کی آیاتِ کریمہ اور احادیثِ مبارکہ میں بیان ہوا ہے، مفسرینِ کرام، محدثین کرام اور اکابرِ امت کے علمی فیوض سے استفادہ کرکے مناسب تشریح کے ساتھ ان امور کو بیان کردیں، حقیقی اور قطعی مصداق کے تعیّن کا اپنے آپ کو مکلف نہ بنائیں۔ نیز یہ بھی کہ ان اخبارِ احاد کا فنی اعتبار سے جو مقام ہے، وہ بھی بیان کردیں۔
مثلاً :سورۃ القمر میں ہے:’’قیامت قریب آگئی اور چاند دو ٹکڑے ہوگیا۔‘‘ (القمر:1)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگشتِ شہادت اور درمیانی انگلی کو بطورِ مثال دکھاتے ہوئے فرمایا: ’’قیامت میری بعثت کے اتنے ہی قریب ہے، جیسے (ہاتھ کی) دو انگلیاں‘‘ (صحیح البخاری:6505)۔ یعنی جس طرح یہ دونوں انگلیاں قریب ہیں، اسی طرح میری بعثت قربِ قیامت کی دلیل ہے۔ اس کا ایک معنی یہ ہے: میں خاتم النبیین ہوں اور میرے اور قیامت کے درمیان اب کوئی نبی اور رسول نہیں آئے گا۔ نیز یہ کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دو مبارک انگلیوں کے اشارے سے زمان ومکان کے اعتبار سے کتنی صدیوں یا ہزاریوں کو تعبیر فرمایا ہے، اور نہ ہی ہمیں یہ حق ہے کہ ہم کہہ دیں کہ قربِ قیامت کی آخری علامت ظاہر ہوچکی ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے بعض اسکالرز، انتہائی پڑھے لکھے کالم نگار یا علمائے کرام کبھی غزوۂ ہند،کبھی غزوۂ شام (جس میں غُوطہ بھی شامل ہے) اور کبھی دیگر آثار کی طرف اشارہ کرکے یہ بتاتے رہے ہیں کہ قیامت کی ساری نشانیاں ظاہر ہوچکیں اورگویا اب قیامت آیا ہی چاہتی ہے۔ بعض حضرات غُوطہ کو آثارِ قیامت کے حوالے دے کر ناقابلِ تسخیر قرار دیتے رہے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ یہ کبھی تسخیر نہ ہو، لیکن کوئی حتمی دعویٰ کرنا مشکل ہے۔ ایسی تعبیرات کو سن کر اور پڑھ کر بہت سے ناپختہ ذہن فرموداتِ نبویؐ کے بارے میں تشکیک میں مبتلا ہوجاتے ہیں۔
(مفتی منیب الرحمن۔ دنیا، 9اپریل 2018ء)
امریکی ریاستی دہشت گردی اور مسلمان میڈیا
نائن الیون کے بعد اس ریاستی دہشت گردی کو کھلی چھوٹ دے دی گئی جس کے لیے شرط صرف ایک ہی رہی، اور وہ یہ کہ ریاستی دہشت گردی کا نشانہ صرف مسلمانوں کو ہی ہونا چاہیے۔ مغرب یا اُن کے میڈیا سے کوئی کیا گلہ کرے، دکھ تو اس بات کا ہے کہ ہم مسلمان، ہماری حکومتیں اور ہمارا میڈیا بھی وہی کرتا ہے جو امریکہ کی پالیسی ہے۔ ہمارے ٹی وی چینلز کو ہی دیکھ لیجیے جنہوں نے بھارتی فلمی اداکارہ سری دیوی کی موت پر دن رات کوریج کرکے گھنٹوں سوگ منایا اور ایک وقت تو یہ ڈر پیدا ہوگیا کہ ہمارا میڈیا کہیں سری دیوی کو شہید کا درجہ ہی نہ دے دے۔ گزشتہ ہفتے ایک اور بھارتی اداکار سلمان خان کو پانچ سال سزا ملنے پر ہمارے چینلز نے اسے پاکستانیوں کا بہت بڑا مسئلہ بنا کر پیش کیا، لیکن افسوس کہ انہی چینلز کو قندوز مدرسے میں شہید کیے جانے والے معصوم بچوں کے نہ توچہرے نظر آئے، نہ ہی اُنہیں ان بچوں کے والدین پر جو گزری اُس کی فکر تھی۔ سوشل میڈیا اور ٹیوٹر پر بھی میڈیا سے تعلق رکھنے والے اور دوسرے وہ سیکولر اور لبرل جو فرانس میں حملے میں 12 افراد کی ہلاکت پر کئی روز افسوس کا اظہار کرتے رہے، کی اکثریت کے پاس بھی ان ڈیڑھ سو سے زائد حفاظ کرام کی شہادت پر افسوس اور اس ظلم کی مذمت کے لیے کچھ بھی کہنے کا وقت نہیں تھا۔ کسی نے سوال نہیں اٹھایا کہ ان معصوم بچوں کا آخر قصور کیا تھا؟ یہ بچے تو حافظِ قرآن تھے جو ایک بہت بڑی سعادت کی بات تھی، لیکن ایسے معصوموں کی شہادت پر ماسوائے پاکستان کے مذہبی رہنمائوں کے، صفِ اوّل کے کسی سیاسی رہنما کو بھی توفیق نہ ہوئی کہ اس معاملے پر بات کرے اور اس انسان دشمن عمل کی مذمت کرے۔ کیا داڑھی والوں اور مدرسے میں پڑھنے والوں کی زندگی کی کوئی حیثیت نہیں؟
(انصار عباسی۔ جنگ، 9اپریل2018ء)
دہشت گردی اور مسلمان۔۔۔ ایک جرمن نومسلم کا خطاب
پوری دنیا میں مسلمانوں کو دہشت گرد سمجھا اور کہا جاتا ہے، اور تمام مغربی ذرائع ابلاغ نے یہ پیشہ بنا لیا ہے کہ اسلام اور مسلمانوں کو بُرا بھلا کہو۔ ایسی ہی ایک کانفرنس میں جہاں دہشت گردی پر تقریریں ہورہی تھیں اور مسلمانوں پر اور اسلام پر تیر و تلوار کے وار کیے جارہے تھے، ایک نومسلم جرمن اسکالر نے اپنی تقریر میں پوچھا ’’کس نے پہلی جنگ عظیم شروع کی؟ مسلمانوں نے نہیں! کس نے دوسری جنگ عظیم شروع کی؟ مسلمانوں نے نہیں! کس نے 6ملین یہودیوں کو قتل کیا؟ مسلمانوں نے نہیں! کس نے 20 ملین مقامی لوگوں کو آسٹریلیا میں قتل کیا؟ مسلمانوں نے نہیں! کس نے ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹم بم برسائے؟ مسلمانوں نے نہیں! کس نے شمالی امریکہ میں 100 ملین مقامی ریڈانڈینز کو قتل کیا؟ مسلمانوں نے نہیں! کس نے جنوبی امریکہ میں 50 ملین مقامی لوگوں کا قتل عام کیا؟ مسلمانوں نے نہیں! کون 180ملین افریقن لوگوں کو پکڑ کر سمندری جہازوں میں اغوا کرکے لے گیا اور ان میں سے 88فیصد راستے میں ہلاک ہوگئے جن کو سمندر میں پھینک دیا گیا؟ مسلمانوں نے نہیں! میری آپ سے درخواست ہے کہ سب سے پہلے دہشت گردی کی صحیح تعریف، صحیح مفہوم بیان کریں۔ اگر ایک غیر مسلم کوئی جرم کرتا ہے تو وہ غیر قانونی کام کہلاتا ہے، مگر کسی مسلمان سے اگر کوئی غیرقانونی عمل ظہور پذیر ہوجاتا ہے تو وہ دہشت گرد ی ہے اور وہ دہشت گرد ہے۔ اس لیے آپ نے جو یہ دہرا رویہ اپنا رکھا ہے پہلے اُسے ٹھیک کریں۔ مجھے فخر ہے کہ میں ایک مسلمان ہوں۔ کیا آپ بھی ہیں؟ اسلامی اصولوں پر عمل کریں اور اپنی دنیا اور آخرت سنواریں۔‘‘
(ڈاکٹرعبدالقدیر خان۔ جنگ9اپریل،2018ء)