(ترجمہ) ’’اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقے سے کھائو اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لیے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداً ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے۔ ‘‘(البقرۃ 2 :188)
اس آیت کا ایک مفہوم تو یہ ہے کہ حاکموں کو رشوت دے کر ناجائز فائدے اٹھانے کی کوشش نہ کرو۔ اور دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب تم خود جانتے ہو کہ مال دوسرے شخص کا ہے تو محض اس لیے کہ اُس کے پاس اپنی ملکیت کا کوئی ثبوت نہیں ہے، یا اس بنا پر کہ کسی اینچ پینچ سے تم اس کو کھاسکتے ہو، اس کا مقدمہ عدالت میں نہ لے جائو۔ ہوسکتا ہے کہ حاکمِ عدالت رودادِ مقدمہ کے لحاظ سے وہ مال تم کو دلوا دے۔ مگر حکام کا ایسا فیصلہ دراصل غلط بنائی ہوئی روداد سے دھوکا کھا جانے کا نتیجہ ہوگا۔ اس لیے عدالت سے اس کی ملکیت کا حق حاصل کرلینے کے باوجود حقیقت میں تم اس کے جائز مالک نہ بن جائو گے۔ عنداللہ وہ تمہارے لیے حرام ہی رہے گا۔ حدیث میں آتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’میں بہرحال ایک انسان ہی تو ہوں۔ ہوسکتا ہے کہ تم ایک مقدمہ میرے پاس لائو اور تم میں سے ایک فریق دوسرے کی بہ نسبت زیادہ چرب زبان ہو اور اس کے دلائل سن کر میں اس کے حق میں فیصلہ کردوں ۔ مگر یہ سمجھ لو کہ اگر اس طرح اپنے کسی بھائی کے حق میں سے کوئی چیز تم نے میرے فیصلے کے ذریعے سے حاصل کی، تو دراصل تم دوزخ کا ایک ٹکڑا حاصل کرو گے۔‘‘
(تفہیم القرآن، اوّل، ص 148، البقرہ، حاشیہ197)
حکومت کے ملازموں سے ناروا فائدے اٹھانے کے لیے اُن کو رشوت دینا قطعی حرام ہے۔ لیکن اگر اپنے جائز حقوق بھی آپ اُن کو رشوت دیے بغیر نہ حاصل کرسکیں، اور ان کا نقصان بھی آپ کے لیے قابلِ برداشت نہ ہو، نیز اس قسم کے رشوت خور ملازموں کی شکایت اُن کے افسروں سے کرنے کا بھی موقع نہ ہو، یا اس سے کوئی نتیجہ نکلنے کی توقع نہ ہو، تو مجبوراً اُن کو رشوت دیجیے اور ہمیشہ اُن کو نصیحت کرتے رہیے کہ یہ حرام خوری ہے جو تم کررہے ہو اور تمہارا اپنا بھلا اسی میں ہے کہ تم اس سے بچو!
(رسائل و مسائل، اوِل، اپریل 1981ء، ص 323)
رشوت کی تعریف:
رشوت کی تعریف یہ ہے کہ جو شخص کسی خدمت کا معاوضہ پاتا ہو وہ اسی خدمت کے سلسلے میں اُن لوگوں سے کسی نوعیت کا فائدہ حاصل کرے جن کے لیے یا جن کے ساتھ اس خدمت سے تعلق رکھنے والے معاملات انجام دینے کے لیے وہ مامور ہو، قطع نظر اس سے کہ وہ لوگ برضا و رغبت اسے وہ فائدہ پہنچائیں یا مجبوراً۔
(رسائل و مسائل، دوم، دسمبر 1987ء، ص 230)
رشوت اور اضطرار
اضطرار یہ ہے کہ آدمی کو شریعت کی مقرر کی ہوئی حدود سے کسی حد پر قائم رہنے میں ناقابلِ برداشت نقصان یا تکلیف لاحق ہو۔ اس معاملے میں آدمی اور آدمی کی قوتِ برداشت کے درمیان بھی فرق ہے اور حالات اور ماحول کے لحاظ سے بھی بہت کچھ فرق ہوسکتا ہے۔ اسی لیے اس امرکا فیصلہ کرنا کہ کون شخص کس وقت کن حالات میں مضطر ہے، خود اُس شخص کا کام ہے جو اس حالت میں مبتلا ہو۔ اسے خود ہی اللہ تعالیٰ سے ڈرتے ہوئے اور آخرت کی جواب دہی کا احساس کرتے ہوئے یہ رائے قائم کرنی چاہیے کہ آیا وہ واقعی اس درجہ مجبور ہوگیا ہے کہ خدا کی کوئی حد توڑ دے؟
موجودہ حالات ہوں یا کسی اور قسم کے حالات، رشوت لینا تو بہرحال حرام ہے۔ البتہ رشوت دینا صرف اس صورت میں بربنائے اضطرار جائز ہوسکتا ہے جبکہ کسی شخص کو کسی ظالم سے اپنا جائز حق حاصل نہ ہورہا ہو اور اس حق کو چھوڑ دینا اُس کو ناقابلِ برداشت نقصان پہنچاتا ہو اور اوپر کوئی بااختیار حاکم بھی ایسا نہ ہو جس سے شکایت کرکے اپنا حق وصول کرنا ممکن ہو۔
… جو عہدے دار یا سرکاری ملازمین تحفے تحائف کو اس تعریف سے خارج ٹھیرانے کی کوشش کرتے ہیں وہ غلطی پر ہیں۔ ہر وہ تحفہ ناجائز ہے جو کسی شخص کو ہرگز نہ ملتا، اگر وہ اس منصب پر نہ ہوتا۔ البتہ جو تحفے آدمی کو خالص شخصی روابط کی بنا پر ملیں، خواہ وہ اس منصب پر ہو یا نہ ہو، وہ بلاشبہ جائز ہیں۔
(رسائل و مسائل، دوم، دسمبر 1987ء، ص 229۔331)
ماں کی خدمت
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ماں کی خدمت کو جہاد سے بھی افضل قرار دیا ہے۔ معاویہ بن جاہمہ سے روایت ہے کہ میرے والد جاہمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا: ’’میرا ارادہ جہاد پر جانے کا ہے اور میں آپؐ سے اس بارے میں مشورہ لینے کے لیے حاضر ہوا ہوں‘‘۔ آپؐ نے ان سے پوچھا: ’’کیا تمہاری ماں ہیں؟‘‘ انہوں نے عرض کیا: ’’ہاں، ہیں‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’پھر انہی کے پاس جائو اور انہی کی خدمت میں رہو، ان کے قدموں میں تمہاری جنت ہے‘‘۔ (مسند احمد، نسائی)
حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ ’’یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میں نے ایک بہت بڑا گناہ کیا ہے، میری توبہ قبول ہوسکتی ہے؟‘‘ آپؐ نے پوچھا: ’’کیا تمہاری ماں زندہ ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: ’’ماں تو نہیں ہے‘‘۔ آپؐ نے پوچھا: ’’کیا تمہاری کوئی خالہ ہے؟‘‘ اس نے عرض کیا: ’’ہاں، خالہ موجود ہے‘‘۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تو اس کی خدمت اور اس کے ساتھ اچھا سلوک کرو‘‘۔ (یعنی اللہ تعالیٰ اس کی برکت سے تمہاری توبہ قبول کرلے گا) (جامع ترمذی)