ایک زمانہ تھا کہ ذرائع ابلاغ آزاد تھے۔ انہیں غیر جانب دار اور معتبر بھی سمجھا جاتا تھا۔ یہ صفات ان سے چھن چکی ہیں۔ اب یہ نہ غیر جانب دار رہے، نہ آزاد اور نہ معتبر۔ چمک اور خوف نے انہیں ان خوبیوں سے محروم کردیا ہے۔ یہ تمغے اب ان کے سینے پر سجے نظر نہیں آتے۔ ٹی وی چینل ہوں یا اخبارات، سب چمک کا شکار ہوچکے ہیں۔ اس چمک نے قاری سے خبر چھین لی ہے اور اسے اشتہارات کے حوالے کردیا ہے۔ ذرائع ابلاغ کے تیزی سے چمک کے دام میں آنے کے باعث میڈیا میں قاری کو ہر قسم کے نظریات پڑھنے اور سننے کو مل رہے ہیں لیکن آئین، پاکستان اور نظریہ پاکستان کا کہیں کوئی ذکر نہیں ملتا۔ کچھ روز قبل پوری قوم نے یوم پاکستان منایا۔ پاکستان قائم ہوئے70 برس ہوچکے ہیں اور متفقہ آئین بنائے ہمیں 45 سال ہوچکے ہیں۔ قوموں کی زندگی میں یہ کوئی معمولی مدت نہیں، لیکن ستّر سال کی اس طویل مدت میں پاکستان نے ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق، پرویزمشرف کی صورت میں فوجی حکمراں… اور بھٹو، بے نظیر بھٹو اور نوازشریف کی صورت میں شخصی حکومتیں دیکھی، لیکن اسلامی جمہوریہ پاکستان میں اسلام، جمہوریت اور عوام کی فلاح کے نظریات اب تک نہیں دیکھی جاسکے۔ ملک کا متفقہ آئین اپنے ابتدائی آرٹیکلز میں کہتا ہے کہ ’’ اللہ تعالیٰ ہی پوری کائنات کا بلا شرکتِ غیرے حاکمِ مطلق ہے اور پاکستان کے جمہور کو جو اختیار و اقتدار اس کی مقرر کردہ حدود کے اندر استعمال کرنے کا حق ہوگا وہ ایک مقدس امانت ہے، مملکتِ پاکستان ایک وفاقی جمہوریہ ہوگی، جس کا نام اسلامی جمہوریہ پاکستان ہوگا، مملکت سے وفاداری ہر شہری کا بنیادی فرض ہوگا، جو شخص طاقت کے استعمال یا طاقت سے، یا دیگر غیر آئینی ذرائع سے دستور کی تنسیخ کرے یا تنسیخ کرنے کی سعی یا سازش کرے، تخریب کرے یا تخریب کرنے کی سعی کی سازش کرے سنگین غداری کا مجرم ہوگا۔
برصغیر کے مسلمانوں کی رائے عامہ اور ووٹ کی طاقت سے قائم ہونے والے اس ملک کے 35 سال فوجی حکمرانی کی نذر ہوئے۔ ’’نظریہ ضرورت‘‘ کے تحت فوجی حکمرانی کو جائز قرار دیتی رہی۔ یہاں تک کہ جسٹس ارشاد حسن خان نے آئین میں ترمیم کرنے کا اختیار بھی جنرل (ر) پرویزمشرف حکومت کو دیا۔ تین سال کے بعد جب پرویزمشرف نے ملک میں عام انتخابات کرائے تو طاقت کے استعمال اور تمام تر اختیارات بروئے کار لانے کے باوجود پارلیمنٹ میں ایک ووٹ کی برتری سے حکومت تشکیل دے سکے۔ جنرل پرویزمشرف تمام تر اختیارات اور منصوبہ بندی کے باوجود اپنی مرضی کی پارلیمنٹ نہیں لاسکے تھے۔ پھر پیپلزپارٹی سے پیٹریاٹ نکال کر21 ارکانِ قومی اسمبلی قاف لیگ کی جھولی میں ڈالے گئے۔ یوں میر ظفر اللہ جمالی وزیراعظم بنے۔
آج بھی ملک میں وہی حالات ہیں اور ماضی جیسی منصوبہ بندی کی جارہی ہے، عوامی مسلم لیگ کے صدر شیخ رشید احمد نے ملک میں جوڈیشل مارشل لا کا مطالبہ کیا ہے، آئین میں کسی ایسے اقدام کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اس کے باوجود شیخ رشید احمد نے یہ مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ ایک ایسی عدلیہ سے کیا گیا ہے جو آئین کی محافظ ہے، اور یہ عدلیہ سیاسی مقدمات کے باعث 30 لاکھ سے زائد زیرالتواء مقدمات کے بوجھ تلے دبی کراہ رہی ہے۔ سیاسی مقدمات میں جو ریمارکس دیے جارہے ہیں اس سے پاکستان کی بار کونسلیں عدلیہ کے دوبارہ شہ سرخیوں میں آنے پر صدمے سے دوچار ہیں۔ خیبر پختون خوا اور سندھ بار کی جانب سے اس کا اظہار بھی ہوچکا ہے۔ جوڈیشل ایکٹورمزم کا نتیجہ یہ ہے کہ رواں برس کے آغاز سے تقریباً 30 ازخود نوٹس (سوموٹو) لیے جاچکے ہیں۔یہ خیال پختہ ہورہا ہے کہ حزبِ اختلاف کا کردار پارلیمنٹ سے نکل کر شاہراہ دستور پر پارلیمنٹ سے متصل دوسری عمارت میں منتقل ہوگیا ہے۔ یہ تاثر اس قدر گہرا اور پختہ ہورہا ہے کہ چیف جسٹس کو یہ بات کہنا پڑی کہ وہ ٹیک اوور نہیں کرنا چاہتے۔ لیکن ملک کی عدلیہ آج جس دوراہے پر کھڑی ہے اس کی گنجائش خود اُن سیاست دانوں نے پیدا کی جو اس بات سے اچھی طرح آگاہ ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ اور عدلیہ کبھی ایک دوسرے کے مدمقابل نہیں رہے۔ یہ بات کسی حد تک درست بھی ہے کہ ماضی میں جسٹس(ر) افتخار محمد چودھری بھی پرویزمشرف کو نکالنے میں مددگار کے طور پر استعمال ہوئے، آج بھی عدلیہ حکمران مسلم لیگ کے لیے خوف کی علامت بنی ہوئی ہے۔ اس تمام پس منظر میں مستقبل کی خبر یہ ہے کہ آئندہ عام انتخابات میں پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور آزاد امیدواروں کی ٹرائیکا مل کر مسلم لیگ(ن) کا راستہ روکے گی، اور پلان بی یہ ہے کہ معاملات طے ہوجانے پر مسلم لیگ(ن) کے لیے سیاسی میدان آزادانہ طور پر موجود ہوگا۔ پیپلزپارٹی، تحریک انصاف اور آزاد امیدواروں کی ٹرائیکا، اور اس کے مقابل پلان بی کس ڈاکٹران کا حصہ ہے؟ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی چیف جسٹس سے ملاقات کسی بھی لحاظ سے بے مقصد نہیں تھی، اس ملاقات پر پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا لال پیلا ہوجانا فطری ردعمل ہے۔ ان کا خیال یہ ہے کہ ’’جن پہ تکیہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے‘‘ والا معاملہ ہونے جارہا ہے۔ ملک میں نگران سیٹ اَپ کے لیے مرکز میں قائدِ حزبِ اختلاف اور وزیراعظم، صوبوں میں اسی طرح قائدِ حزبِ اختلاف اور وزرائے اعلیٰ کے مابین مئی کے آخری ہفتے میں نگران حکومت کے لیے مشاورت ہوگی۔ آئینی اور پارلیمانی لحاظ سے یہ عمل آٹھ روز میں مکمل ہونا ہے۔ یہ معاملہ پارلیمانی کمیٹی میں طے ہوگا، یہاں طے نہ ہوا تو الیکشن کمیشن کے پاس چلا جائے گا۔ ماضی میں بھی نگران حکومت کا فیصلہ الیکشن کمیشن نے ہی کیا تھا اور اِس بار بھی معاملہ سپریم کورٹ میں جانے کا امکان ہے۔ بہرحال حالات سازگار رہے تو نگران سیٹ اپ کے لیے حتمی بات چیت مئی کے آخری ہفتے میں شروع ہوگی اور جون میں نگران سیٹ اَپ آجائے گا۔ توقع کی جارہی ہے کہ نگران وزیراعظم کے لیے سپریم کورٹ کے کسی ریٹائرڈ جج کا نام نگران وزیراعظم کے لیے فائنل ہوگا۔
ملک میں آئندہ عام انتخابات بروقت ہونے کے امکانات روشن ہیں۔ غیر معمولی صورتِ حال کے باوجود آئندہ انتخابات وقت پر ہوں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے حلقہ بندیاں 3 مئی تک مکمل کرلی جائیں گی، انتخابی فہرستوں کو 24 اپریل تک نمٹایا جائے گا۔ حلقہ بندیوں پر سپریم کورٹ میں غیر معمولی درخواست جانے کی صورت میں اگر حکم امتناعی آتے ہیں تو انتخابات تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ انتخابات کی تاریخ کا اعلان مئی کے آخری ہفتے، جبکہ شیڈول کا اعلان جون کے پہلے ہفتے میں متوقع ہے۔ اس سے قبل الیکشن کمیشن حلقہ بندیوں سے متعلق تمام تر اعتراضات اپنے مقررہ وقت میں نمٹاتے ہوئے 3 مئی تک حتمی فہرست مرتب کردے گا، جس کے بعد سپریم کورٹ ہی واحد فورم ہوگا جو حلقہ بندیوں پر مزید اعتراضات کی سماعت کرے گا۔ اگر سپریم کورٹ میں غیر معمولی تعداد میں اعتراضات داخل ہوئے اور ان کی سماعت بھی ہوئی تو انتخابات کسی حد تک تاخیر کا شکار ہوسکتے ہیں۔ اگر زیادہ تعداد میں اعتراضات پر سماعت جاری رہتی ہے تو الیکشن کمیشن کو ریٹرننگ افسران کی تعیناتی اور پولنگ اسکیموں کو حتمی شکل دینے میں مشکلات کا سامنا ہوگا۔ بیلٹ پیپرز کی چھپائی اور عملے کی تربیت کے حوالے سے الیکشن کمیشن پہلے ہی اپنی حکمت عملی مرتب کرچکا ہے۔ قومی اسمبلی اور پنجاب اسمبلی کی مدت 31 مئی، جبکہ خیبر پختون خوا، بلوچستان اور سندھ اسمبلیوں کی مدت 28 مئی کو ختم ہورہی ہے۔ وفاق اور پنجاب میں نگران حکومتیں آئینِ پاکستان کی روشنی میں آرٹیکل 224-A اور اسی آرٹیکل کی شق 1 اور 2 کے تحت قائم کی جائیں گی، اس آرٹیکل کے تحت رخصت ہونے والی قومی اسمبلی کے قائدِ ایوان اور قائدِ حزب اختلاف کو اسمبلی کی رخصت کے بعد تین دن کے اندر نگران وزیراعظم کا نام طے کرنا ہوگا۔ اگر فریقین اتفاقِ رائے میں کامیاب نہیں ہوپائے تو یہ ذمہ داری خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو تفویض ہوجائے گی۔ یہ کمیٹی جو آٹھ ارکان پر مشتمل ہوگی اسپیکر قومی اسمبلی تشکیل دیں گے، جس کے لیے نام قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف تجویز کریں گے۔ کمیٹی میں حکومت اور اپوزیشن کے چار چار ارکان شامل ہوں گے۔ کمیٹی کو قائدِ ایوان اور قائدِ حزبِ اختلاف کی جانب سے ایک ایک نام بھجوایا جائے گا جن میں سے کمیٹی کو کسی ایک نام کا انتخاب کرنا ہوگا۔ کمیٹی کا بھی تین دن کے اندر ان ناموں میں سے کسی ایک پر اتفاقِ رائے ضروری ہوگا۔ اتفاقِ رائے نہ ہونے کی صورت میں 7 جون کو ازخود نام الیکشن کمیشن کو منتقل ہوجائیں گے، جس پر الیکشن کمیشن کو دو دن میں فیصلہ کرنا ہوگا، یعنی الیکشن کمیشن نام منتقل ہونے کی صورت میں 8 جون تک حتمی طور پر نگران وزیراعظم کے نام کا اعلان کردے گا۔ یہی طریقہ کار نگران وزیراعلیٰ کے انتخاب کے لیے اپنایا جائے گا۔ جہاں پہلی مشاورت کی ذمہ داری وزیراعلیٰ اور صوبائی اسمبلی کے قائدِ اختلاف کی ہے، تاہم صوبائی سطح پر بننے والی کمیٹی اسی ترتیب سے 6 ارکان پر مشتمل ہوگی۔ آرٹیکل 224-A کی شق ایک اور دو کے تحت کمیٹی کو بھی نام موصول ہونے کے تین دن کے اندر نگران وزیراعظم یا نگران وزیراعلیٰ کے لیے کسی ایک نام کا انتخاب کرنا ہوگا۔ یعنی خیبر پختون خوا، بلوچستان اور سندھ میں وزرائے اعلیٰ اور قائد حزبِ اختلاف کے درمیان اتفاقِ رائے کی صورت میں 31 مئی تک نگران وزرائے اعلیٰ کا اعلان کردیا جائے گا، اتفاقِ رائے نہ ہونے کی صورت میں معاملہ صوبائی اسمبلیوں کی کمیٹیوں کو بھجوا دیا جائے گا۔ تینوں صوبوں میں 5 جون کو نگران وزرائے اعلیٰ کا اعلان کردیا جائے گا۔