مقبوضہ کشمیر کے جنوبی علاقے میں فوج اور حریت پسندوں کے درمیان جھڑپوں میں 12 حریت پسند اور 5 عام شہری شہید ہوئے، جبکہ 3 بھارتی فوجیوں کی ہلاکت کی تصدیق فوجی ذرائع نے کی ہے۔ اس تصادم میں دو سو کے قریب افراد زخمی ہوئے، جن میں 30 افراد براہِ راست گولیوں اور 25 پیلٹ گن کے چھروں کا نشانہ بنے۔ جنوبی کشمیر کے ہسپتال زخمیوں سے اٹ گئے ہیں اور وادی میں جابجا احتجاج کا سلسلہ شروع ہوگیا ہے۔ مشترکہ مزاحمتی فورم کی اپیل پر وادی میں دو روزہ عام ہڑتال ہوئی۔ شہدا کے جنازوں میں ہزاروں افراد نے شرکت کی اور ایک تصویر میں زمین پر جگہ تنگ پڑنے کے باعث نوجوان بڑے درخت کی شاخوں پر کھڑے ہوکر نماز جنازہ ادا کررہے تھے۔ سری نگر سے شائع ہونے والے انگریزی اخبارات نے اسے ’’خونیں اتوار‘‘ اور ’’موت کا دن‘‘ لکھا۔ یہ ماضیٔ قریب میں ایک دن میں شہید ہونے والوں کی سب سے بڑی تعداد ہے۔
بھارتی فوج نے خانہ تلاشیوں کا سلسلہ رات کی تاریکی میں شروع کیا تھا تاکہ لوگ گھروں سے نکل کر حریت پسندوں کی مدد کے لیے نہ آئیں۔ اس کے باوجود عام شہری حریت پسندوں کی مدد کے لیے نکل آئے اور انہوں نے فوج پر پتھرائو کیا، جس کے جواب میں فوج نے اندھا دھند فائرنگ کی۔ بھارتی فوج نے جن بارہ حریت پسندوں کو تصادم کے مختلف واقعات میں شہید کیا، یہ سب وادی کے اپنے شہری اور اسی علاقے کے مختلف دیہاتوں سے تعلق رکھتے تھے۔ ان میں کوئی بھی درانداز، آزاد کشمیر یا افغانستان کا تربیت یافتہ یا اس جانب کا شہری نہیں تھا۔ یہ سب تیس سال سے کم عمر لڑکے تھے جن کے پاس اعلیٰ تعلیم کی ڈگریاں اور اسناد تھیں۔ یہ سب برہان وانی کی شہادت کے بعد چلنے والی تحریک کے دوران بندوق اُٹھانے پر مجبور ہوئے تھے۔ یہ اُس رجحان کی پیداوار تھے جس کے مطابق وادی کے اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان اپنی ڈگریاں پھینک کر بندوق اُٹھاتے ہیں۔ گائون اُتار کر کفن پہن لیتے ہیں۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا پی ایچ ڈی منان وانی اس کی ایک علامت ہے۔ چند ماہ قبل یہ نوجوان بندوق اُٹھاکر سوشل میڈیا میں سامنے آیا تھا۔ جس کے بعد تعلیم یافتہ نوجوانوں کے عسکریت میں شامل ہونے کے واقعات تیز ہوتے چلے گئے۔ اس میں ایک تازہ اضافہ سید علی گیلانی کے جانشین مقرر ہونے والے کشمیری راہنما محمد اشرف صحرائی کے اٹھائیس سالہ صاحبزادے جنید اشرف صحرائی کا اچانک گھر سے نکل کر سوشل میڈیا میں ایک یونیفارم پہنے اور بندوق تھامے تصویر کے ساتھ نمودار ہونا ہے۔ کشمیر یونیورسٹی سری نگر سے ایم بی اے کی ڈگری حاصل کرنے والے جنید صحرائی اپنے والد کے تحریک حریت کشمیر کے قائم مقام سربراہ بننے کے چوتھے روز ہی حریت پسندوں سے جاملے تھے۔ اس سے وادی میں اس مؤقف کو زک پہنچی تھی کہ حریت قیادت کے اپنے بچے معمول کی زندگی کے مزے لوٹ رہے ہیں جبکہ وہ عام آدمی کے بچوں کو تشدد کی راہ دکھا رہے ہیں۔ جنید صحرائی کی عسکریت میں شمولیت کے بعد فوجی حلقوں نے میڈیا کے ذریعے اشرف صحرائی سے اپیل کی کہ وہ اپنے بیٹے کو واپسی کا کہیں۔ مگر اشرف صحرائی نے یہ کہہ کر انکار کیا کہ جو لوگ وہاں پہلے سے موجود ہیں وہ بھی کسی کے بیٹے ہیں، میں اپنے بیٹے کو واپسی کا کیوں کہوں؟ یہ اس کا رضاکارانہ فیصلہ ہے۔
کشمیر کے انگریزی اخبار ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے ویب ٹی وی پر اشرف صحرائی کا کشمیری زبان میں ایک انٹرویو نشر ہوا جس میں انٹرویو نگار نے اشرف صحرائی سے سوال پوچھا کہ کیا وہ اپنے بیٹے کو عسکریت سے واپس آنے کا کہیں گے؟ اشرف صحرائی کا جواب کچھ یوں تھا ’’میرا لڑکا گھر سے نکل گیا، ہم نے اس کی پٹائی نہیں کی، نہ وہ بھوک کے ہاتھوں مجبور ہوکر گھر سے نکل پڑا۔ اس کو ایک جنون تھا، سو وہ نکل کھڑا ہوا مجھے ملے بغیر۔ میں نے کہیں نمازِ جمعہ ادا کی، اور وہ کسی دوسری مسجد میں تھا۔ اس نے مجھے پیغام دیا کہ ابا میں جا رہا ہوں۔ نہ مجھ سے مصافحہ کرکے رخصت لی۔ کشمیر کی صورتِ حال اس سے برداشت نہیں ہورہی تھی اور یہی حالات اس کے سر پر جنون کی طرح سوار تھے۔ ایک بار ایک بہاری غیر مسلم ریڑھی بان نے اس کی گاڑی کو ٹکر ماری۔ جنید نے گاڑی سے اُتر کر اس کو تھپڑ مار دیا۔ قریب کھڑے ہندو ڈی ایس پی نے جنید کو گرفتار کیا اور تھانے لے جاکر اسے تشدد کا نشانہ بنانے کے علاوہ ماں بہن کی گالیاں دیں۔ جنید نے ان سے کہا: تم نے صرف مسلمان ہونے کی بنا پر میرے ساتھ یہ سلوک کیا، جبکہ محض غیر مسلم ہونے کی وجہ سے ریڑھی بان کو غلطی کے باوجود کچھ نہیں کہا۔ بعد میں بھائیوں نے اسے تھانے سے چھڑایا تھا۔ یہ واقعہ اس کے ذہن پر گہرے اثرات چھوڑ گیا۔ وہ کشمیر میں ہونے والی ناانصافیوں سے تنگ تھا۔‘‘
یہ ایک ایسے باپ کے خیالات ہیں جس کا جوان بیٹا اعلیٰ تعلیم کی ڈگری پھینک کر جنگلوں اور پہاڑوں میں جا بسا ہے۔ کشمیر پولیس کے ذرائع کے مطابق گزشتہ بیس روز میں پانچ اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان معمول کی زندگی چھوڑ کر عسکریت کا حصہ بن گئے ہیں۔ جنوری سے مارچ تک ایسے نوجوانوں کی تعداد پچیس بتائی گئی ہے۔ گزشتہ برس ایک سو چھبیس مقامی اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان عسکریت میں شامل ہوئے تھے۔ پولیس ذرائع نے اسے ایک پریشان کن رجحان قرار دیا ہے۔ کشمیر کے سابق وزیراعلیٰ عمر عبداللہ نے اس بڑھتے ہوئے رجحان کو محبوبہ مفتی کی سب سے بڑی ناکامی قرار دیا ہے۔ بھارتی فوج نے اس رجحان کا مقابلہ کرنے کے لیے نوخیز حریت پسندوں کے والدین کے ذریعے انہیں واپسی پر آماد کرنے کی کوشش کی تھی، مگر ایک آدھ واقعے کے سوا یہ حکمت عملی کامیاب نہ ہوسکی۔
کشمیر میں بندوق کے دوبارہ رومنٹسائز اور بندوق برداروں کے دوبارہ مقبول ہونے کی وجوہات بھی زیر بحث ہیں، جن میں ایک اہم وجہ یہ بیان کی جارہی ہے کہ 1990ء کی دہائی کے برعکس جب وادی میں مسلح جدوجہد کا آغاز ہورہا تھا، آج مسلح نوجوان مقامی جھگڑوں سے دور رہتے ہیں۔ انتظامیہ پر اپنی دھاک بٹھانے سے گریز کرتے ہیں۔ سوسائٹی کے اندر گھل مل کر رہتے ہیں اور خود کو معاشرے کے لیے بے ضرر بنائے رکھتے ہیں، جس کی وجہ سے سوسائٹی انہیں عزت وتکریم اور مقبولیت دیتی ہے۔ وہ گھیرے میں آجائیں تو لوگ اپنی جانوں پر کھیل کر گھیرا توڑنے کی کوشش کرتے ہیں، اور اس میں لوگوں کی جانیں بھی چلی جاتی ہیں۔ بھارت اس ساری صورتِ حال کو طاقت کے زاویے سے دیکھتا اور طاقت سے حل کرنا چاہتا ہے۔ بھارت کشمیر کو سیاسی مسئلہ قرار دے کر صورتِ حال کو پچاس فیصد بہتر بنا سکتا ہے، مگر کشمیر کے سیاسی پہلو سے انحراف نے کشمیر کو حالات کی صلیب پر لٹکا رکھا ہے اور جنوبی ایشیا بھی اس آگ سے اپنا دامن بچانہیں سکا۔
خونیں اتوار کے واقعات کے خلاف پاکستان اور آزادکشمیر میں بھی حکومتی اور عوامی سطح پر ردعمل کا بھرپور اظہار کیا گیا۔ صدرِ پاکستان ممنون حسین، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، آرمی چیف جنرل قمرجاوید باجوہ، وزیر خارجہ خواجہ آصف، میاں شہباز شریف، عمران خان، بلاول بھٹو زرداری، سراج الحق سمیت تمام راہنمائوں نے اپنے بیانات اور ٹوئٹر پیغامات میں اس ظلم وجبر کی مذمت کی۔ آزاد کشمیر حکومت کی اپیل پر یوم مذمت منایا گیا، جبکہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی آزادکشمیر قانون ساز اسمبلی اور کونسل کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرنے مظفر آباد پہنچے۔ حکومتِ پاکستان کی اپیل پر ملک بھر میں 6 اپریل کو یوم یک جہتیٔ کشمیر بھی منایا جارہا ہے۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے اقوام متحدہ سے فیکٹ فائنڈنگ مشن کشمیر بھیجنے کا مطالبہ کیا ہے، جبکہ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے چین اور روس سے اس صورتِ حال میں اپنا کردار ادا کرنے کی اپیل کی ہے۔ کشمیر کا آتش فشاں ایک بار پھر لاوا اُگل کر برصغیر اور جنوبی ایشا کے امن وسلامتی اور خوش حال مستقبل کے آگے موٹا سا سوالیہ نشان چھوڑ رہا ہے۔
کشمیر میں بھارت کی ریاستی دہشت گردی اسلامی سربراہی اجلاس طلب کیا جائے
امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کا وزیراعظم پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف کے نام خط
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سینیٹر سراج الحق نے وزیراعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی اور چیف آف آرمی اسٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کو خط لکھا ہے جس میںکہا گیا ہے کہ کشمیر کی موجودہ صورتِ حال پر فوری طور پر درج ذیل اقدامات کا اہتمام کیا جانا چاہیے:
حکومتِ پاکستان ایک قومی کشمیر کانفرنس کا اہتمام کرے جس میں پاکستان اور آزاد کشمیر کی قیادت کے ساتھ حریت قائدین کو بھی مدعو کیا جائے، اور پارلیمنٹ کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا جائے جس میں بھارتی ریاستی دہشت گردی کی مذمت اور کشمیری عوام کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے ساتھ ساتھ آئندہ لائحہ عمل متفقہ قرارداد کی صورت میں پیش کیا جائے۔ عالمی سطح پر بھارت پر دباؤ بڑھانے کے لیے بھرپور سفارتی مہم چلائی جائے۔ اس مہم کے ایک حصے کے طور پر اہم دارالحکومتوں میں رابطوں کے علاوہ او آئی سی کا سربراہی اجلاس اسلام آباد میں طلب کیا جائے۔ نیز جنرل اسمبلی سلامتی کونسل کا اجلاس بلانے کے لیے لابنگ کی جائے۔ ارکانِ پارلیمنٹ اور ایسے اہلِ دانش جو مسئلہ کشمیر پر عبور رکھتے ہیں، کے وفود اہم دارالحکومتوں میں تشکیل دیے جائیں۔ مقبوضہ کشمیر میں قابض بھارتی افواج کے مظالم جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں، قانونی ماہرین کا پینل بناکر اُن کی مشاورت سے عالمی عدالتِ انصاف سے رجوع کیا جائے۔ آزاد کشمیر حکومت کے کردار کو تحریکِ آزادی کے حوالے سے مو¿ثر بنانے کا اہتمام کیا جائے۔ مقبوضہ کشمیر میں متاثرین اور شہدا کے خاندانوں کے لیے ریلیف رسانی کا بھی کوئی اہتمام کیا جائے۔
امیر جماعت اسلامی سینیٹر سراج الحق نے حکومت کی طرف سے 6 اپریل کو یوم یکجہتی کشمیر منانے کی حمایت کی اور کہا کہ پوری قوم کو یک آواز ہوکر مظلوم کشمیریوں کے ساتھ یکجہتی کا اظہار اور بھارتی مظالم کی مذمت کرنی چاہیے۔