جامعات علم پیدا کرنے اور شعور بانٹنے کے ادارے ہیں۔ ایک صحت مند معاشرے کی تشکیل میں جامعات کا کردار کلیدی ہے۔ جس معاشرے میں یہ کردار اپنے تقاضوں کے مطابق پورا ہوتا ہے وہاں علمی، سماجی، سیاسی اور شعوری طور پر ترقی کا سفر تیزی سے طے ہوتا ہے۔ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہمارے قومی شعور کی تشکیل اور انسانی ذہن کی تربیت ہوتی ہے۔ جامعات اعلیٰ تعلیم کے وہ ادارے ہیں جو کہ علمی آزادی کی بنا پر وجود میں آتے ہیں، اور اگر ان کی یہ آزادی ختم ہوجائے تو ان کا بنیادی کردار ختم ہوجاتا ہے۔ پھر یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جامعات کی خودمختاری کا خاتمہ دراصل تعلیم و تحقیق اور اظہارِ رائے پر قدغن ہے۔ اس پس منظر میں سندھ حکومت نے اٹھارویں ترمیم کی آڑ میں جامعات کو اپنے کنٹرول میں کرنے یا ان کے انتظامات کو براہِ راست سنبھالنے کا فیصلہ کیا ہے جس کے نتیجے میں ’’سندھ یونی ورسٹیز ترمیمی بل 2018ء‘‘ لے کر آئی ہے، جس کے خلاف جہاں جامعہ کراچی کے اساتذہ، طلبہ و ملازمین سراپا احتجاج ہیں، وہیں سیاسی جماعتیں بھی سخت ردعمل کا اظہار کررہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ حکومتِ سندھ کی تعلیم اور صحت کے حوالے سے کارکردگی پہلے ہی سوالیہ نشان ہے اور اگر اس متنازع بل کا اسے سہارا مل گیا تو رہی سہی کسر بھی پوری ہوجائے ہی۔ جبکہ حکومت کا کہنا ہے کہ یہ کوئی ایسا ترمیمی بل نہیں ہے کہ جس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، اس میں خامیاں ہیں تو وہ ختم کی جاسکتی ہیں۔ ہم نے یہ ضرورت محسوس کی کہ طلبہ، اساتذہ اور حکومت کے نمائندوں کو ایک فورم فراہم کردیا جائے تاکہ دونوں طرف کا مؤقف اور اٹھنے والے سوالات اور اُن کے جوابات سامنے آجائیں اور مستقبل میں جامعات کی خودمختاری اور آزادی کو یقینی بنایا جاسکے۔ اس حوالے سے گفتگو میں پیپلز پارٹی کے سینئر رہنما سینیٹر تاج حیدر، امیر جماعت اسلامی کراچی انجینئر حافظ نعیم الرحمن، جنرل سیکریٹری FAPUASA ڈاکٹر شکیل فاروقی، جامعہ کراچی سینیٹ کے رکن ڈاکٹر اسامہ شفیق، صدر انجمن اساتذہ این ای ڈی یونیورسٹی رضا علی خان، رکن اکیڈمک کونسل، چیئرمین شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری جامعہ کراچی ڈاکٹر ریاض احمد، ایکشن کمیٹی جامعہ کراچی کے حافظ عزیر علی خان نے شرکت کی۔ میزبانی کے فرائض جہانگیر سید نے ادا کیے۔ امید ہے فرائیڈے اسپیشل کے زیراہتمام ہونے والے اس پروگرام میں سامنے آنے والے نکات سے اس ایشو کو سمجھنے میں مدد ملے گی۔
وزیراعلیٰ نے مجھے یقین دلایا ہے کہ سندھ یونیورسٹیز ترمیمی بل 2018ء میں جو مطالبات ہیں انہیں تسلیم کرلیا جائے گا
سینیٹر تاج حید ر
رہنما پیپلز پارٹی، بزرگ سیاست دان
برسبیل تذکرہ آپ کو بتاتا چلوں کہ اس جامعہ کراچی نے 18 روپے کی عدم ادائیگی پر 32 سال میری ماسٹرز کی ڈگری روکے رکھی۔ بھلا ہو ہمارے سابق سٹی ناظم نعمت اللہ خان صاحب کا، ان کی وجہ سے مجھے ڈگری جاری ہوئی۔ گویا 32 سال بعد مجھے لگا کہ میں نے جامعہ کراچی سے ماسٹرز کرلیا ہے۔ بہرحال اب زیر بحث موضوع سندھ یونیورسٹیز ترمیمی بل 2018ء کی طرف آتے ہیں۔ گزشتہ روز میں نے وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ سے ملاقات میں اس معاملے پر بات کی تھی۔ انہوں نے کہا کہ بل میں معمولی نوعیت کی ترامیم کی گئی ہیں، اس وقت بل گورنر کے پاس ہے، جیسے ہی انہیں واپس ملے گا وہ اسے اسمبلی میں ڈال دیں گے۔ اب رہا تعلیم کا مسئلہ، تو میری رائے میں ہماری تعلیم کا معاملہ تھوڑا مختلف ہے۔ جس زمانے میں مَیں جامعہ کراچی میں پڑھتا تھا ہماری یونیورسٹی کے چانسلر پی ایچ ڈی نہیں تھے۔ ان سے پہلے کے وائس چانسلر بھی نان پی ایچ ڈی تھے۔ میرے مرحوم والد محترم جنہوں نے بلوچستان یونیورسٹی بنائی تھی وہ خود بھی پی ایچ ڈی نہیں تھے۔ میری نظر میں جامعات کا بنیادی مسئلہ اساتذہ کو پڑھانے پر مجبور کرنے کا ہے۔ ویسے ہماری جامعات میں بہت اچھے اساتذہ ہیں۔ اب آپ لوگوں کی رپورٹ یہ ہے کہ ہماری جامعات بہت اچھی طرح چلائی جارہی ہیں۔ میرے خیال میں جامعات کی حالت اتنی اچھی نہیں کہ اس پر فخر کیا جائے۔ ہماری جامعات میں لسانی سیاست اور دیگر طریقوں سے جو بگاڑ پیدا کیا گیا وہ جامعات کے لیے بالکل اچھا نہیں ہے۔ میں آپ کو دوبارہ بتادوں کہ کل وزیراعلیٰ سے جو میری بات ہوئی ہے اس میں انہوں نے مجھے یقین دلایا ہے کہ سندھ یونیورسٹیز ترمیمی بل 2018ء میں جو مطالبات ہیں انہیں تسلیم کرلیا جائے گا۔ بہرحال یہ معاملات ہوتے رہتے ہیں۔ قوانین بھی بنتے رہتے ہیں، یہ سلسلہ چلتا رہتا ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں استاد کے ہاتھ میں کتاب دیکھوں۔ استاد سے کسی موضوع پر بات ہو، وہ مجھے آکر کچھ بتائیں، کچھ سکھائیں، میرے علم میں اضافہ کریں۔ لیکن ایسا ہو نہیں رہا ہے۔
سندھ یونیورسٹیز ایکٹ میں 18 ویں ترمیم کے تحت صوبے کے اختیارات کا معاملہ ہے، اس لیے میں اسے ایک بڑا معاملہ سمجھتا ہوں۔ یہ ترمیم صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کے لیے ہی کی گئی تھی۔ اس ضمن میں یہاں واضح کردوں کہ قانون سازی ہوتی کس طرح ہے۔ اس لیے کہ میں قانون ساز ادارے کا رکن رہا ہوں۔ اس میں ایک کمیٹی سسٹم ہوتا ہے، جو بھی بل آتا ہے وہ کمیٹی کو جاتا ہے۔ اس پر کمیٹی کی رپورٹ آتی ہے۔ کمیٹی کے اندر ہر پارٹی موجود ہوتی ہے۔ عام طور پر کمیٹی جو سفارشات پیش کرتی ہے انہیں منظور کرلیا جاتا ہے، اور جو بل کے خلاف سفارشات ہوتی ہیں ان پر ایوان میں بحث کی جاتی ہے۔
قوانین اچھے یا برے بنتے رہتے ہیں، ان میں ترامیم کی گنجائش بھی ہوتی ہے۔ انہیں بہتر سے بہتر بنایا جاسکتا ہے۔ سیاست کے میدان میں تو یوں ہی ہوتا ہے، لیکن اگر تعلیم کی بات کریں تو اس کی حالت دگرگوں ہے۔ صرف جامعات نہیں، اسکولوں کی بھی یہی حالت ہے۔ تعلیم کے میدان میں بڑی رکاوٹ خود اساتذہ ہیں۔ اگر ہیڈ ماسٹر اسکول درست طریقے سے چلائے، اساتذہ کی حاضری کو یقینی بنائے، اساتذہ تدریسی فرائض درست طریقے سے انجام دیں تو صورتِ حال میں بہتری آسکتی ہے۔
اب آئیے ہائر ایجوکیشن کمیشن کی جانب۔ اٹھارویں ترمیم میں پہلا کردار ایچ ای سی کا ہے، وفاقی حکومت تو دوسرے نمبر پر آتی ہے جس کے ساتھ مشترکہ مفادات کونسل اور متعلقہ ادارے ہوتے ہیں۔ اس میں ایوالیوشن کمیٹی کا ممبر بھی تھا۔ ایچ ای سی کا کردار ایک نگراں ادارے کا ہے۔ اٹھارویں ترمیم تو بہت بعد میں آئی، این ایف سی یعنی قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ پہلے آگیا تھا۔ اٹھارویں ترمیم میں صوبوں کو تقسیم اختیارات کا فارمولا طے ہوگیا، لیکن اختیارات پوری طرح تقسیم نہیں ہوئے۔ چیئرمین سینیٹ نے بھی احکامات جاری کیے تھے کہ نیا این ایف سی ایوارڈ لایا جائے۔ ہم نے وزیراعظم سے کہا کہ ہمارا کام کمیشن بنانا تھا، ایوارڈ دینا نہیں تھا۔ اور جب تک نیا ایوارڈ نہیں دیتے صدرِ مملکت پرانے ایوارڈ کو ہی توسیع دیتے رہیں گے۔ بات اب تک اسی طرح سے چل رہی ہے، نیا مالیاتی کمیشن ایوارڈ نہیں آیا ہے۔ یہاں معاملہ یہ ہے کہ صوبائی ایچ ای سی کو وسائل تقسیم کیوں نہیں ہورہے ہیں۔ اب وفاق والے کہنے لگے ہیں کہ 60 فیصد وسائل جامعات کو جمع کرنے ہیں اور باقی 40 فیصد ہم دیں گے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ جامعات کو 60 فیصد وسائل جمع کرنے پڑے تو اسی طرح سے فیسیں بڑھتی رہیں گی، جامعات میں تعلیم کے دروازے بند ہوتے رہیں گے۔ ہمارا کہنا ہے کہ صوبے کی جامعات میں تعلیم مفت کی جائے یا برائے نام فیس لی جائے جیسا کہ صحت کے شعبے میں ہے۔ سندھ میں جگر کا ٹرانسپلانٹ اور کینسر کا علاج مفت کیا جاتا ہے، انہوں نے جامعات میں الٹا کردیا۔ ہم جامعات کو فیس فری یا ان میں سو پچاس روپے کی علامتی فیس رکھنا چاہتے ہیں تاکہ کسی کے لیے جامعات کے دروازے بند نہ ہوں۔ لیکن ان کی طرف سے جامعات کے دروازے بند کیے جارہے ہیں۔ ہم چاہتے ہیں کہ یہ تقسیمِ وسائل کا جو فارمولا ہے اس پر نظرثانی کی جائے۔ طالب علموں کی تعداد اور جامعات کے اخراجات دیکھتے ہوئے وسائل فراہم کیے جائیں۔ وسائل ان (وفاق) کے پاس ہیں، صوبے کے پاس نہیں ہیں۔ ان معاملات کو کسی نہ کسی طریقے سے ٹھیک کیا جانا چاہیے۔ میں نے جس طرف اشارہ کیا ہے اُس طرف سے تجاویز نہیں آرہی ہیں۔ جہاں تک طلبہ یونین کی بحالی کی بات ہے اس پر اتفاقِ رائے پایا جاتا ہے کہ یہ بحال ہونی چاہئیں۔ سینیٹ بھی اس کی منظوری دے چکی ہے۔ طلبہ یونین کو کام کی آزادی دینے کے لیے ایک بہتر ماحول ملنا چاہیے۔ تشدد سے گریز کرنا چاہیے۔ اب حالت یہ ہے کہ طلبہ کی یونین نہیں ہے، اساتذہ کی یونین بنی ہوئی ہے جو اپنے مفادات کا تحفظ کرتی ہے۔ یہ بات درست نہیں ہے۔ جامعات سے اس قسم کی اطلاعات ہیں کہ پی ایچ ڈی کرنے کے بعد بہت سے طلبہ کلاسیں نہیں لیتے۔ جو اپنے شعبہ جات کے صدر ہیں وہ بھی کلاس نہیں لیتے اور انتظامی معاملات تک اپنے آپ کو محدود کرلیتے ہیں۔
میں یہاںگورننگ کمیٹی کا رکن بھی ہوں۔ یہاں بی بی صاحبہ کے نام سے ایک چیئر قائم ہے۔ اس پر بھی جھگڑے چل رہے ہیں۔ میری سمجھ میں نہیں آتا یہ کیا ہورہا ہے! میں کہتا ہوں کہ چیئرہولڈرز کو پابند کیا جائے کہ وہ جھگڑوں کو ختم کریں۔
ہم یہ سمجھتے ہیں کہ 1972ء ایکٹ میں جو آزادی اور خودمختاری ہماری یونیورسٹیوں کو حاصل ہے وہ برقرار رہنی چاہیے
انجینئر حافظ نعیم الرحمن
امیر جماعت اسلامی کراچی
ایکشن کمیٹی، جامعہ کراچی مجلس میں سندھ یونیورسٹی ترمیمی بل 2018 کے موضوع پر گفتگو ہورہی ہے۔مسئلہ صرف یہ نہیں ہے کہ کوئی قانون پاس ہوگیا، قانون کے پاس ہونے میں کسی کا خیال ہے کہ تعلیم اور جامعات کی بہتری ہوگی اور کسی کا خیال ہے کہ بہتری نہیں ہوگی۔ اس کے بڑے تعلیمی، سیاسی، سماجی نوعیت کے اثرات ہیں۔ ہمارا ملک بالخصوص ہمارا صوبہ سندھ جس طرح کی صورت حال سے ماضی میں دوچار رہا ہے، اس طرح کے اقدامات اسے ایک مرتبہ پھر اسی طرح کی کیفیت سے دوچار کرسکتے ہیں۔ اور چیزیں شروع اسی طرح سے ہوتی ہیں کہ جس میں محرومیاں پروان چڑھتی ہیں اور پھر ان محرومیوں کو بنیاد بنا کر بعض منفی قسم کے لوگ سامنے آجاتے ہیں۔ بات بڑی جاندار ہوتی ہے، محرومیوں کا ذکر ہوتا ہے، کسی استحصال کا ذکر ہوتا ہے جو لوگوں پر کیا جارہا ہوتا ہے، اور اس کو بنیاد بنا کر وہ اپنی سیاست شروع کرتے ہیں، اس طرح صورت حال بد سے بدترین ہوجاتی ہے اور لوگ تقسیم ہوجاتے ہیں، لیکن نظام وہی رہتا ہے۔ ہماری جامعات، ہمارے کالجوں، ہمارے اسکولوں اور ہمارے شہر نے یہ سب کچھ دیکھا ہے۔ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ 1972ء ایکٹ میں جو آزادی اور خودمختاری ہماری یونیورسٹیوں کو حاصل ہے وہ برقرار رہنی چاہیے۔ اگر اس میں کوتاہیاں ہیں، غلطیاں ہیں اور یقینا ہیں، ہماری جامعات کوئی مثالی کام تو نہیں کررہی ہیں، یہ زیادہ اچھا ہوتا کہ اس میں کوئی بہتری پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی، سب سرجوڑ کر بیٹھتے اور جمہوری طریقے سے تعلیمی بہتری کے لیے کوئی حل تلاش کیا جاتا۔ تمام اسٹیک ہولڈرز کے ساتھ مشاورت ہوتی۔ اس کے بعد جاکر اسمبلی کا مرحلہ آتا۔ لیکن ہوا یہ کہ ایک دو دن کے اندر یہ بل پیش ہوا اور مُردہ باد، زندہ باد کے نعروں میں بھاری اکثریت سے منظور ہوگیا۔ اب یہ گورنر کے پاس جائے گا اور گورنر نے عندیہ دیا ہے کہ وہ اسے منظور نہیں کریں گے۔ یہ کسی سنجیدہ چیز کے لیے اچھا طریقہ نہیں ہے۔ مراد علی شاہ نے این ای ڈی یونیورسٹی اور باہر سے دو پوسٹ گریجویشن کیے ہیں، میں یہ سمجھتا ہوں کہ وہ اس پورے عمل کے حامی نہیں ہوں گے۔ بعض اوقات پارٹی پالیسی بھی آڑے آتی ہے۔ اگر مسئلہ یہ ہے کہ ہماری جامعات اچھی طرح سے کام نہیں کررہیں تو کن لوگوں کے ہاتھ میں ہم ان کو دے رہے ہیں؟ تیس سال سے ایم کیو ایم کراچی کے معاملات چلارہی تھی جب کہ حقیقت یہ ہے کہ ایم کیو ایم پیپلزپارٹی کے ساتھ مل کر تین چار مرتبہ حکومت میں شامل رہی ہے، لیکن چلیں آپ اُن کے اوپر ڈال دیجیے، باقی سندھ کے تعلیمی معاملات کون چلا رہا تھا؟ سندھ میں 1970ء سے پاکستان پیپلز پارٹی زیادہ تر دورِ حکومت پیپلز پارٹی کا رہا۔ اب تو گزشتہ 10 سال سے حکومت چلارہی ہے۔ اس دوران کوئی ایک اسکول ہمیں بتادیں کہ جس پر یہ دعویٰ کیا جائے کہ اس میں آصفہ، بلاول یا آصف زرداری صاحب کے پوتے پڑھیں، ارکان اسمبلی کو چھوڑیں کوئی بیوروکریٹ اپنے بچوں کو ان تعلیمی اداروں میں پڑھانے کے لیے تیار ہوجائے۔ خود ہمارے اساتذہ جو وہاں پر پڑھاتے ہیں وہ ان سرکاری اسکولوں میں اپنے بچوں کو پڑھانے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔ جب ان اسکولوں کا یہ حال کردیا گیا ہے، اس کے بعد جامعات بھی انہی لوگوں کے حوالے کردی جائیں تو پھر ہمارا کیا بنے گا؟ اس لیے اس پر جب بھی گفتگو ہو تو ایک سوال یہ بھی کیا جاتا ہے کہ آپ سندھی مہاجر کی بات کررہے ہیں؟ اس بل کے اندر تو یہ چیزیں پنہاں ہیں، اس کو کوئی بھی ایکسپلائٹ کرسکتا ہے۔ اس کو لسانیت کا رنگ دیا جاسکتا ہے، اور ہوسکتا ہے اس کے ذریعے بعض لوگوں کی سیاست بہتر ہوتی ہو۔ اگر اس بل میں یہ بات نہیں ہے تو سوال یہ ہے کہ کیا اندرون سندھ کے لوگوں کی تعلیمی حالت بہت اچھی ہوگئی ہے؟ ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔
دوسری بات یہ کہ ہر پارٹی کا، حکومت کرنے کا انداز ہوتا ہے، اس انداز میں بہت ساری چیزیں سامنے آتی ہیں۔ اس میں اختیارات کی جو منتقلی ہے اس کا کیا مطلب ہے؟ وفاق سے اختیارات لے کر صوبے میں جمع کرلو، اس کے بعد کسی کو کوئی اختیار نہ دو۔ اختیار کی منتقلی جسے جمہوری عمل کہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ نچلی سطح پر اختیارات منتقل کیے جائیں۔ جبکہ یہاں صورت حال یہ ہے کہ جو اختیارات شہر اور بلدیہ کے ہیں وہ بھی سندھ حکومت اپنے پاس رکھے ہوئے ہے۔ صفائی ستھرائی سے پانی تک، اور کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی سے سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی تک۔ اب تعلیم کے کچھ ادارے رہ گئے ہیں، ان میں بھی اگر براہِ راست ان کی مداخلت ہوئی اور براہِ راست وہ چیزوں کو دیکھیں تو پھر اختیارات کہاں منتقل ہورہے ہیں۔
تیسری بات یہ کہی جاتی ہے کہ اسمبلی بل پاس کررہی ہے۔ جمہوریت میں اسمبلی کی بات کو یقینا تسلیم کیا جائے گا لیکن یہ تو ایسی جمہوریت ہے کہ کوئی آمر بھی آجائے گا تو اندرون سندھ سے لوگ تو انہی خاندانوں سے آتے ہیں جو سندھ اسمبلی میں بیٹھے ہیں۔ یہ ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ آپ جائزہ لے لیں، ہر جگہ سے مخصوص خاندان ہیں۔ پیپلزپارٹی جو عوامی پارٹی تھی وہ وڈیروں کی پارٹی بن گئی ہے۔ جو نظریاتی لوگ تھے، ان کے راستے محدود ہوگئے ہیں۔ اب تو عملاً وڈیروں کی اجارہ داری ہے۔ اور وڈیرے پڑھ لکھ بھی جائیں تو مائنڈ سیٹ تو نہیں بدلتا۔ اگر کوئی چھوٹا وڈیرہ بھی ہو تو وہ اپنے علاقے میں نعوذباللہ خدا ہوتا ہے۔ وہ لڑواتا بھی ہے، ملواتا بھی ہے، وہ قید بھی کرواتا ہے، چھڑواتا بھی ہے۔ لوگ یہ سمجھتے ہیں اس کے بغیر ہماری زندگی نہیں چل سکتی۔ یہ ایک زبردست قسم نیکسز بنا ہوتا ہے کہ یہی لوگ جمہوریت کے علَم بردار ہوتے ہیں،، عددی اکثریت کی بنیاد پر بل پاس کرتے ہیں۔ یہ ایسا ذہنی سانچہ ہے جس نے شہری علاقوں میں بھی اپنے آپ کو منوا لیا ہے۔ ایم کیو ایم نے اپنی سیاست کا جو اسٹائل بنایا وہ بھی اربن فیوڈل ازم والا اسٹائل تھا۔ آپ لیاقت آباد، لانڈھی، کورنگی کے لوگوں کو دیکھیں، وہ آج بھی اس مائنڈ سیٹ سے باہر نہیں آرہے، وہ سوچتے ہیں کہ دوبارہ سے الطاف حسین نہ آجائے، اورکہتے ہیں کہ ابھی دیکھو اور انتظار کرو۔ یہ کون سی جمہوریت ہے؟ ان کی اسمبلی کی بنیاد پر ہم پوری تعلیم نہیں دے سکتے۔ ہم پورے کا پورا مستقبل نہیں دے سکتے۔ ہاں ہمارے اندر کوئی خرابی ہے، کمی کوتاہی ہے اس کو دور ہونا چاہیے۔ اس لیے جماعت اسلامی نے اس مسئلے کو اٹھایا ہے۔ ایک تو یہ کہ ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے صوبے اور ملک میں انہی بنیادوں پر سیاست ہوتی رہے کہ یہ سندھی اور میں مہاجر اور تم پختون… اس میں استیصال صرف عوام کا ہوتا ہے۔
جمہوریت اگر ہے اور اختیارات کی منتقلی جسے آپ کہتے ہیں اگر وہ ہے تو تعلیمی اداروں میں طلبہ یونین کے انتخابات 1979ء سے اندرون سندھ اور 1984ء سے کراچی کی جامعات میں نہیں ہوئے۔طلبہ یونین پر پابندی کے بعد زیادہ قتل و غارت ہوئی ہے اور نفرتیں پروان چڑھی ہیں۔ طلبہ یونین تھی تو اُس وقت بات چیت ہوجاتی تھی، ان کے نمائندے سامنے آجاتے تھے۔ میں ایک بار پھر کہنا چاہوں گا کہ جمہوریت نظر آنی چاہیے… مزدوروں اور کسانوں کی جمہوریت، طلبہ اور اساتذہ کی جمہوریت… اور تمام اختیارات نیچے منتقل کیے جائیں تو زیادہ اچھے طریقے سے کام ہوسکتا ہے۔
کراچی کے لوگ جب سندھ سیکریٹریٹ سے ہوکر آتے ہیں تو ان کے احساسات کچھ اور ہوتے ہیں۔ ہم نے کہا کہ ہم جامعات کو وڈیروںکی اوطاق نہیں بننے دیں گے، اس میں سندھ یونیورسٹی بھی شامل ہے، شاہ عبداللطیف یونیورسٹی بھی شامل ہے، اور کراچی یونیورسٹی اور این ای ڈی بھی شامل ہیں۔ ان کو اوطاق نہیں تعلیم گاہ ہونا چاہیے۔ تعلیم کی بہتری کے لیے ہائر ایجوکیشن کمیشن چل رہا تھا، اچھا تھا۔ 18 ویں ترمیم پر بہت بات ہوسکتی ہے۔ یہ اچھی تھی جس میں بہت سے اختیارات صوبوں کو منتقل ہوئے۔ لیکن تعلیم پر ہمارا اختلاف تھا کہ یہ ایسی چیز نہیں ہوتی کہ اس کو نیچے منتقل کردیا جائے۔ اس کی حیثیت فیڈریشن کی ہوتی ہے۔ اب جن لوگوں کے سپرد ہائر ایجوکیشن کمیشن کیا گیا ہے وہ کیا کررہے ہیں؟ پھر آپ جامعات کو پیسے ہی نہیں دیتے۔ اس نظام میں بھی صورت حال یہ ہوتی ہے کہ این ای ڈی یونیورسٹی میں ایسے ایسے شعبے بن رہے ہیں جن کا انجینئرنگ سے کوئی تعلق نہیں۔ کیوں کہ پیسے چاہئیں ان کو۔ جب ذہنیت تجارت کی ہوجائے اور وائس چانسلر میں اتنی ہمت ہی نہیں ہوتی کہ وہ اپنا حق بھی مانگ سکے، اس لیے کہ اُسے خدشہ ہوتا ہے کہ میں آگے پیچھے ہوجائوں گا۔ ایسی صورت حال میں جامعات کیسے ترقی کریں گی! یہ وہ مسائل ہیں جن پر تمام اساتذہ اور طلبہ سنجیدگی سے سوچیں۔ یہ بل واپس ہونا ہے، اور اگر یہ اس طرح واپس نہ ہوا تو ہمیں بہت جدوجہد کرنی ہوگی۔ ساتھ ہی صوبے کی تعلیم کو مجموعی طور پر اچھا کرنے کے لیے ہمیں سرجوڑ کر بیٹھنا ہوگا۔
حکومت نوکر شاہی پر اعتماد کرتی ر ہی ہم ملک کی تمام درس گاہوں کو تباہی کی طرف دھکیل دیں گے
ڈاکٹر شکیل فار وقی
جنرل سیکریٹری فواپسا پاکستان(FAPUASA)
ہوا یہ کہ جب میں نے سنا کہ تاج حیدر صاحب آرہے ہیں اور حکومت سے قریب بھی ہیں تو سچی بات یہ ہے کہ ایک لمحے کو میرے دل میں گمان پیدا ہوا کہ ضرور یہ جماعت اسلامی اور پی پی پی کی ملی بھگت ہے۔ کیوں کہ اگر موضوع کے ساتھ انصاف کرنا تھا تو نثار کھوڑو صاحب، یا کسی اور کو بلاتے، کیوں کہ تاج حیدر صاحب کے بارے میں مجھے یہ خوش گمانی ہے کہ جتنا میں یونی ورسٹی کو یا یونی ورسٹی کی روایت و اقدار کو جانتا ہوں اُس سے کہیں زیادہ یہ جانتے ہیں۔ میرے والد نے ان کے والد کی رہنمائی میں میرپورخاص میں اپنا کیریئر شروع کیا۔ میں اگر گفتگو میں کچھ ذاتی حوالے دوں تو اسے حذف کردیجیے گا مگر کچھ تذکرے آئیں گے جو آپ کو پس منظر بتانے میں معاون ثابت ہوں گے۔ یونی ورسٹیوں اور تعلیم کا یہ مسئلہ 1930ء سے چل رہا ہے۔ برصغیر میں تقسیم سے پہلے بھی یہ بحث چھڑی تھی کہ آیا شعبۂ تعلیم صوبوں کو دیا جائے یا نہ دیا جائے۔ تب بھی یہی فیصلہ ہوا تھا کہ اسے مرکز کے پاس رہنے دیا جائے۔ 2010ء میں 18ویں ترمیم آگئی۔ اکثر یہ ہوتا ہے کہ ہم اس ترمیم کا مطالعہ کیے بغیر اس بات کا فیصلہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ہمیں کیا اختیار حاصل ہوگئے۔ یہ بات سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ اختیار اگر حاصل ہوگئے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں کہ ہر اختیار کو ہر صورتِ حال میں استعمال بھی کیا جائے۔ 2008ء کی بات ہے، پیر مظہرالحق جو اُس وقت وزیر تعلیم تھے، اتفاق سے مجھے جہاز میں مل گئے، وہ مجھے اپنے ساتھ لے گئے اور فرمانے لگے کہ کوئی طریقہ بتائیں کہ ہماری صوبائی حکومت کے اختیارات جامعات تک پہنچیں۔ میں نے کہا کہ یہ تو آسان سی بات ہے، آپ جامعات کو گرانٹ دینا شروع کردیں، آپ کی مداخلت جامعات میں شروع ہوجائے گی۔ لیکن ایک مدت سے صوبائی حکومت اس فکر میں غلطاں تھی کہ کسی نہ کسی طریقے سے جامعات میں مداخلت کرے۔ میں بھی کہتا ہوں کہ اگر آپ کو اختیار مل گئے ہیں اور آپ جامعات کی ضروریات پوری کررہے ہیں تو آپ کا حق بنتا ہے۔
لیکن اس سے پہلے آپ یہ ضرور جان لیں کہ جامعات ہیں کیا چیز؟ کس شے کا نام جامعات ہوتا ہے؟ جس طرح میں نے مادرِ علمی جامعہ کراچی میں آنکھ کھولی، ویسے ہی تاج حیدر صاحب نے بھی اسی مادرِِ علمی میں آنکھ کھولی۔ آپ سے بہتر جامعات کو کوئی نہیں جانتا۔ تو جب آپ یہ فیصلہ کرچکے کہ کوئی بھی لیکچرار سے اسسٹنٹ پروفیسر بغیر پی ایچ ڈی کے نہیں ہوسکتا تو وائس چانسلر کے لیے بھی پی ایچ ڈی ہونا لازمی ہے۔ اے بی اے حلیم صاحب یا آپ کے والد صاحب معدودے چند لوگوں میں شامل تھے، یہ ایک دوسرے دور کے لوگ تھے، تاریخ ساز لوگ تھے۔ وہ دس دس پی ایچ ڈی پر بھاری تھے اور اس زمانے میں اتنے پی ایچ ڈی ہوا بھی نہیں کرتے تھے۔
اب جناب ایک اور معاملہ جو تشویش ناک ہے وہ جامعات کی علمی آزادی اور خودمختاری پر قدغن لگانا ہے۔ اس وقت ہم جس موضوع پر بات کرنے کے لیے یہاں جمع ہوئے ہیں، اس میں طلبہ یونین کا معاملہ سرفہرست نہیں ہے لیکن ایک دلیل کے طور پر یہ موجود ہے۔ آپ جو بات کررہے ہیں اور جو کام کررہے ہیں اس میں کھلا تضاد موجود ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ آپ کے پاس ایک قانون موجود ہے۔ آپ اس قانون میں کوئی تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو اس کی کوئی توجیح یا جواز پیش کریں۔ اگر حکومتِ سندھ یہ سمجھتی ہے کہ سندھ کی جامعات میں کسی تبدیلی کی ضرورت موجود ہے تو آج تک حکومت سندھ اور وزیراعلیٰ سے کئی ملاقاتیں ہوئیں، وہ کوئی توجیح اور کوئی جواز پیش کرنے میں کیوں ناکام رہے؟ کوئی چیز تحریراً موجود نہیں کہ آپ یہ تبدیلی کیوں کرنا چاہتے ہیں! اگر آپ ہمیں بتائیں کہ پورے قانون میں یہ خرابی ہے اس لیے ہم اسے تبدیل کرنا چاہ رہے ہیں تو ہم آپ سے بحث تھوڑی کریں گے۔ لیکن آج تک ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی۔ اب اگر ہم آپ کا ریکارڈ دیکھیں کہ 18ویں ترمیم کے بعد سے آپ نے کیا کیا تو جناب، محترمہ شہید بے نظیر بھٹو کے نام پر جامعات قائم کی گئیں، آپ جاکر ان جامعات کی حالت تو دیکھ لیں۔ شہید بے نظیر آباد میں آپ جو جامعہ قائم کرتے ہیں اُس میں ایک ایسا وائس چانسلر رکھتے ہیں جسے یونی ورسٹی میں نہ پڑھنے کا تجربہ ہے، نہ پڑھانے کا… نہ انتظام کا تجربہ ہے، نہ وہ پی ایچ ڈی ہے بلکہ کراچی کی ایک نجی جامعہ میں پی ایچ ڈی کے طالب علم کی حیثیت سے ان کا اندراج ہے اور ان کا پی ایچ ڈی مکمل نہیں ہورہا۔ اگر حکومتِ سندھ کو یہ اختیار دے دیے جائیں تو آپ سوچ سکتے ہیں کہ ایک عظیم رہنما کے نام پر بننے والی یونی ورسٹی جس کو ایک مثالی درس گاہ ہونا چاہیے تھا، اس کو ہم نے کس حال میں پہنچادیا ہے۔ وہ جامعہ جو اس صوبے کے نام کو لے کر چل رہی ہے، یعنی ’’جامعہ سندھ‘‘ کم از کم حکومتِ سندھ اسے تو ایک مثالی جامعہ بناکر دکھادے۔ لیکن آج ہم جامعہ سندھ کو کس حال میں دیکھتے ہیں، یہ بات سوچنے کی ہے۔ ابھی کسی نے فرمایا کہ سیاسی بھرتیوں نے جامعات کے نظام کو تلپٹ کردیا۔ یہ بات بالکل درست ہے، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ سیاسی بھرتیاں وفاق سے نہیں بلکہ صوبے سے کی گئیں۔ پھر ہم کیسے یہ توقع کرلیں کہ سندھ حکومت کچھ سدھار لے آئے گی؟ ہم پچھلے 10 سال سے کرپٹ نوکر شاہی کو روتے رہے جو گورنر ہائوس کی بلند و بالا عمارت میں ایجنسیوں کے ہاتھوں یرغمال اور مقید گورنر کی بیوروکریسی تھی۔ بہت ہی معذرت کے ساتھ وہی بیوروکریسی وزیراعلیٰ ہائوس میں بیٹھ کر پالیسیاں بنا رہی ہے۔ وہی قوانین میں ترمیم کا مسودہ تیار کررہی ہے۔ ہم اس سے کیا توقع کریں! ہم شور مچاتے تھے کہ یہ لوگ جامعات کی زمینوں پر قبضہ کرنا چاہتے ہیں، یونی ورسٹی میں جعلی بھرتیاں کروا رہے ہیں۔ یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے گورنر ہائوس میں بیٹھ کر سنڈیکیٹ کے لیے اپنی نامزدگیاں کروائیں، اب یہی لوگ وزیراعلیٰ ہائوس میں بیٹھ کر سنڈیکیٹ کی حیثیت بدلنا چاہتے ہیں اور یہ سارے سیکریٹریز سنڈیکیٹ میں ہوں گے۔ اور سنڈیکیٹ میں آکر انہوں کیا کیا؟ فلاں کا نام بھیج دیا کہ اس کو اعزازی ڈگری دے دیں۔ تاج حیدر کے والد صاحب کو جامعہ کراچی نے کبھی اس قابل نہیں سمجھا کہ ان کو اعزازی ڈگری سے نوازا جائے، لیکن حاجی حنیف طیب کو جامعہ کراچی اعزازی ڈگری دیتی ہے۔ اور دکھ اور افسوس کی بات یہ ہے کہ 18ویں ترمیم کے بعد جب گورنر اور وزیراعلیٰ ہائوس نے Eminment Citizen کی نشستیں آپس میں بانٹ لیں کہ 3ہماری اور 3 تمہاری۔ اس طرح انہوں نے اپنے اپنے لوگوں کو نوازا۔ پھر آپ نے شیری رحمن صاحبہ کو سنڈیکیٹ میں نامزد کردیا، اور ستم یہ کہ اپنے پورے دور میں انہوں نے جامعہ کراچی کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا، جبکہ قانون یہ ہے کہ اگر کوئی 2 دفعہ سے زیادہ نہ آئے تو تیسری دفعہ اس کی رکنیت ختم ہوجاتی ہے، لیکن جامعہ کراچی کے وائس چانسلر میں کبھی یہ ہمت پیدا نہ ہوسکی کہ وہ وزیراعلیٰ ہائوس کو یہ کہیں کہ جناب آپ نے غلط شخصیت کو یہاں بھیج دیا ہے، ذرا کوئی دوسرا نام بھیج دیں۔ اور آپ جب وزیراعلیٰ کو یہ اختیار دے دیں گے کہ وہ جب چاہے وائس چانسلر کو مقرر کردے اور جب چاہے ہٹادے تو پھر سمجھ لیں کہ اس وائس چانسلر کی حیثیت کیا ہوگی۔ میری رائے ہے کہ کیوں کہ حکومتِ سندھ کے پاس کوئی واضح جواز اور توجیح موجود نہیں، اس لیے اسے یہ ترمیم فوراً واپس لے لینی چاہیے۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ ایک بین الاقوامی ایجنسی نے یہ ڈیٹا جمع کیا ہے کہ یہ پہلا بل ہے جو سندھ اسمبلی نے صرف 2 دن میں پاس کیا ہے۔ مجھے لگتا ہے کہ ہم غلط سمت میں جارہے ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ ہمارے لیڈران اس بات کو نہیں سمجھ پا رہے۔ اگر حکومت نوکر شاہی پر اعتماد کرتی رہی اور اسی بدعنوان نوکر شاہی سے مسودہ بنواتی رہی تو یقین کریں ہم ملک کی تمام درس گاہوں کو تباہی کی طرف دھکیل دیں گے۔
وہ صورت حال پیدا نہ ہونے دی جائے کہ شہر کے اندر بڑی تعداد میں نوجوان ہوں اور ان کے لیے جامعات کے دروازے بند ہوں
ڈاکٹر ر یاض احمد
رکن اکیڈمک کونسل، چیئرمین شعبہ اپلائیڈ کیمسٹری جامعہ کراچی
دو تین باتوں کی میں نشاندہی کرنا چاہوں گا۔ ایک تنظیم ہے انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف یونی ورسٹیز کے نام سے۔ خاصی فعال بھی ہے۔ اس نے یونیسکو کی 1960ء کی ایک کانفرنس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو ان تین ناقابل تنسیخ اصول و ضوابط کے لیے کھڑا ہونا چاہئیے۔
1)اپنی مرضی سے علم وہنر اختیار کرنے کا حق اور سچ کی تلاش میں جس راستے پر بھی جانا پڑے اس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو۔
2)مختلف آراء اورسوچ کے لیے رواداری اور برداشت،سیاسی مداخلت سے آزادی۔
3)معلمی اور تحقیق کے ذریعے ایک ایسے سماجی ادارے کا فروغ جس میں انسانی وقار اوراتحاد کے لیے ،آزادی اور سماجی انصاف کے اصول موجود ہوں۔
میں نے اس بات کا حوالہ اس لیے دیا کہ ایک بنیادی چیز ہے علمی آزادی اوردوسری جامعات کی خودمختاری، ان دونوں چیزوں کو الگ الگ کرکے نہ دیکھا جائے۔ ایک بات یہ ہے کہ چاہے وہ سرکاری جامعات ہوں یا نجی جامعات، دونوں کو جہاں اختیارات ملتے ہیں اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو کوئی وسائل فراہم کرتا ہے اور کسی صورت میں اختیار ہاتھ میں دیتا ہے۔ ظاہر ہے سارے تعلیمی ادارے ان ہی لوگوں کے کنٹرول میں ہوتے تھے اور یہ کہ جامعات کو یہ کہا جاتا ہے کہ وہ انتظامی معاملات میں آزاد ہیں، ساتھ ہی ان سے پوچھا جاتا ہے، ان سے جواب بھی طلب کیا جاتا ہے۔ اُس وقت بھی وہی جدوجہد نظر آتی ہے جو آج کی گفتگو میں نظر آرہی ہے کہ آپ سے وسائل بھی لیتے ہیں اور آپ سے اختیارات بھی چھینتے ہیں۔ یہ چیز وقت کے ساتھ ایسا نہیں ہے کہ ایسی ہی رہی۔ جب دنیا جدید ہوگئی تو تین یا چار دہائیاں ایسی گزریں جن میں یہ بہت واضح تھا کہ جامعات نہ صرف خود ’’خود مختار‘‘ ہوتیں، بلکہ جامعات کو چلانے والے لوگ اور بیوروکریسی اس کا حصہ ہوتی ہے۔ یونیسکو نے یہ سروے کرایا تھا 1980ء میں، جس میں یہ بات جاننے کی کوشش کی تھی کہ جامعات کسی حد تک ’’خودمختار اور آزاد‘‘ ہیں۔ اس میں برطانیہ کی جامعات کو تو 100 نمبر مل گئے لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ سوئٹزرلینڈ کی جامعات کو صرف 20 نمبر ہی مل سکے۔ کیونکہ بڑے پیمانے پر ان کی جامعات میں بیوروکریسی فیصلے کرنے کا اختیار آج بھی اپنے پاس رکھتی ہے۔ پھر ایک تحقیق شائع ہوئی۔ اس میں تحقیق کار یہ کہتے ہیں کہ وقت اور حالات کے ساتھ ساتھ یہ ’’خودمختاری اور آزادی‘‘ تبدیل ہوجاتی ہے۔ کیسی سیاست ہے اور کس قسم کی سماج کی توقعات ہیں۔ آپ 1950ء اور 1960ء کی دہائیاں دیکھیں تو بڑے پیمانے پر ’’تبدیلیاں‘‘ ہوئی تھیں۔ اور جامعات کو پوری دنیا میں سرکار ایسے ادارے سمجھتی تھی جہاں سے بہت ہی فعال قسم کے نوجوان باہر نکلیں، اور انہیں ترقی کا بہت بڑا پیمانہ سمجھا جانے لگا تھا۔ ایک فیکٹری کے طور پر جامعات کو جانا جاتا تھا کہ یہاں سے مہارت رکھنے والے نوجوان نکلیں گے۔ ان کو آزادی دی گئی جو نیچے اسکولوں تک آگئی تھی۔ مسئلہ وڈیرے کا نہیں ہے۔ وڈیرے بھی بہت بڑے پیمانے پر تبدیل ہوچکے ہیں، وہ بھی کاروبار کرتے ہیں، اور ان میں بہت بڑا کاروبار تعلیم بھی ہے۔
گزشتہ 20 سال سے جب سے ورلڈ بینک نے پرویزمشرف کے دور میں HEC بنایا اور جن مقاصد کے لیے بنایا، اس کا ایک بنیادی مقصد یہ تھا کہ جامعات کو ’’تبدیل‘‘ کردیا جائے۔ جامعات کی بنیادی ہیئت کو بدلا جائے۔ فیسوں میں نجی جامعات میں اضافہ کیا جائے۔ جامعات کے اندر قواعد و ضوابط کو اس قدر بڑھایا جائے کہ یہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنا ناممکن ہوجائے۔ اور آپ دیکھیں کہ HEC نے پچھلے 16 برسوں میں تمام جامعات میں اعلیٰ تعلیم یعنی پی ایچ ڈی اور ایم فل کرنے کو تقریباً ناممکن بنادینے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ اور بہت بڑے پیمانے پر سرقہ ہے جو بغیر فنڈنگ کے تحقیق ہے۔ اس میں اضافہ اس وجہ سے ہوا ہے کہ ابھی HEC نے جامعہ کراچی میں 750 لوگوں میں سے 16 لوگوں کو گرانٹ دی ہے، اور ہوگا یہ کہ 750 کو اس پیمانے سے تولا جائے گا جو کہ شاید امریکا کی جامعات میں بھی اس طرح سے نافذ نہ ہوسکے۔ تو آپ یہ دیکھیں کہ انہوں نے یہ ’’تبدیلی‘‘ پچھلے 16 برسوں میں کرلی۔
ایک بڑی اہم بات میں یہ کہنا چاہوں گا کہ ایوب خان کے زمانے میں 1963ء کا جامعات کا ایکٹ لایا گیا تھا اور ایوب خان کا ایکٹ اور 2003ء کا ماڈل یونی ورسٹی ایکٹ ایک ہی چیز تھی جس میں تمام اختیارات گورنر کے نمائندوں کو دے دیئے گئے تھے۔ 1969ء کی طلبہ اور اساتذہ کی عالمگیر تحریک کے نتیجے میں ساری دنیا میں جامعات کو حقوق ملے۔ایوب خان کا ایکٹ واپس ہی نہیں ہوا بلکہ 1972ء کا اتنا شاندار ایکٹ آیا کہ جس میں کالج اور یونی ورسٹی کے طلبہ کو سنڈیکٹ میں نمائندگی حاصل ہوگئی۔ اس طرح سنڈیکیٹ میں منتخب نمائندوں کی تعداد 17 تھی۔ دو یا تین نمائندوں کے سوا تمام نمائندے کسی نہ کسی طرح جوابدہ تھے۔ جنرل ضیا نے ترمیم کی، انہوں نے 17 لوگوں کو گھٹا کر 7 کردیا اور نامزد لوگوں کی تعداد سنڈیکیٹ میں اب بڑھ کر 11 ہوگئی ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی جو ترامیم لے کر آئی ہے اُس میں سنڈیکیٹ کے ارکان کی تعداد 22 جبکہ نامزد لوگوں کی تعداد 16 ہوگئی ہے۔ اس سے اندازہ لگالیں کہ جامعات میں بیوروکریسی کی مداخلت بڑھتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ دراصل اس کا مقصد یہ ہے کہ جامعات کی سمت کو مزید تبدیل کیا جائے۔ جامعات کو اندر سے مزید پرائیویٹائز کردیا جائے۔ لیکن وہ جو 2003ء کی ماڈل یونی ورسٹی کی تحریک تھی اس کی وجہ سے ہم آج یہاں موجود ہیں۔ اگر وہ تحریک ناکام ہوتی اور سرکاری جامعات پر ماڈل یونی ورسٹی آرڈی ننس نافذ ہوجاتا تو آج یہ جو آزادی کے چھٹی والے دن ڈپارٹمنٹ کھلوا کر پروگرام کرلیتے ہیں، یا عام دنوں میں بھی حکومت سے اختلافی بنیادوں پر بات کرنے کی آزادی ہے یہ آپ کو IBA میں بھی نظر نہیں آئے گی۔ اس لیے یہ لڑائی جو آج لڑی جارہی ہے یہ دراصل آنے والے وقتوں ہمیں جو بھی مراعات یا حقوق ملیں گے اس کا دارومدار اس لڑائی پر ہے۔ یہ لڑائی کہ کیسے تعلیم کو مزید کاروبار سے بچایا جائے؟ کیسے وہ صورت حال پیدا نہ ہونے دی جائے کہ شہر کے اندر بڑی تعداد میں نوجوان ہوں اور ان کے لیے جامعات کے دروازے بند ہوں اور ان کو یہی جواز سمجھ میں آئے کہ لسانی بنیادوں پر ہمارے ساتھ تفریق کی جارہی ہے۔ تو تحریک کے لیے قربانیاں دینا پڑتی ہیں، اور جو نوجوان یہ سمجھتے ہیں کہ بنا قربانیوں کے یہ تحریک آگے بڑھ سکے گی وہ بہت بڑی غلط فہمی میں مبتلا ہیں۔
یونی ورسٹیز ایکٹ میں ترمیم کرکے سندھ کی جامعات کو حاصل خودمختاری کو ختم کردیا گیا
رضا علی خان
صدر انجمن اساتذہ، این ای ڈی یونیورسٹی
۔2010ء میں اٹھارویں ترمیم کی گئی۔ اس ترمیم کے تحت تعلیم و صحت کے شعبے صوبوں کو منتقل کردیے گئے۔ یہ ایک اچھا عمل تھا کہ صوبوں کو منتقلی اختیارات کے تحت تعلیم وصحت کے شعبے کام کریں۔ لیکن 2013ء یونی ورسٹیز ایکٹ میں ترمیم کرکے سندھ کی جامعات کو حاصل خودمختاری کو ختم کردیا گیا، حالانکہ دنیا بھر میں جامعات کو ہمیشہ سے ہی خودمختاری حاصل رہی ہے۔ دیکھیں، جامعات کے اپنے قانونی تنظیمی فورمز ہوتے ہیں۔ ان فورمز میں بورڈ آف اسٹڈیز، بورڈ آف فیکلٹی کے علاوہ سنڈیکیٹ اور سینیٹ شامل ہوتے ہیں۔ فورمز میں جامعات کے مفاد میں غیر جانب دارانہ سفارشات سامنے آتی ہیں، انھیں تطہیری مراحل سے گزار کر ان کی روشنی میں بہت شفاف انتظامی اور تعلیمی پالیسیاں مرتب کی جاتی ہیں، جس کے نتائج بلاشبہ بہت بہتر سامنے آتے ہیں۔ لیکن سندھ حکومت نے 2013ء میں یونیورسٹیز ایکٹ میں ترمیم کے ذریعے جو پہلا کام کیا وہ یہ تھا کہ جامعات سے داخلہ پالیسی کا اختیار لے کر اپنے پاس رکھ لیا۔ حکومت کے اس اقدام پر تنازع کھڑا ہوگیا۔ حکومتی فیصلے کے خلاف زبردست مہم چلی۔ اُس وقت کے وزیراعلیٰ قائم علی شاہ نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ یونیورسٹیز ایکٹ کو اس کی اصل صورت میں بحال کرکے ترامیم کو واپس لے لیا جائے گا۔ لیکن ہم سے وعدہ خلافی کرکے مذکورہ ایکٹ میں متنازع ترامیم کو برقرار رکھا گیا۔ واضح رہے کہ 1972ء میں اُس وقت کے صدر ذوالفقار علی بھٹو نے جو یونیورسٹیز ایکٹ بنایا تھا بہت سوچ سمجھ کر بنایا تھا۔ اُس وقت اس ایکٹ پر کسی بھی یونیورسٹی کو کوئی اعتراض نہیں تھا، لیکن 2013ء میں اس میں ترمیم کرکے اسے مسخ کردیا گیا۔ سندھ کی جامعات کو شہری اور دیہی میں تقسیم کردیا گیا۔ اندرونِ سندھ کی جامعات کو اپنی داخلہ پالیسی بنانے کا پورا پورا اختیار دے دیا گیا، لیکن دو بڑی شہری جامعات سے داخلہ پالیسی بنانے کا اختیار واپس لے لیا گیا۔ سندھ حکومت کا فیصلہ تھا کہ ان دو جامعات کی داخلہ پالیسی وہ خود بنائے گی۔ ہم شاید اس ناانصافی کو بھی من وعن مان لیتے، اگر سندھ حکومت اپنے اختیار میں پہلے سے موجود اسکولوں اور کالجوں کی کارکردگی بہتر بناکر ایک اچھی مثال قائم کردیتی۔ سندھ میں صوبائی اختیار میں صحت کا شعبہ بہتر ہوتا۔ آپ نے صوبے کے تحت چلنے والے شعبوں کو بہتر نہیں بنایا۔ اب آپ کس بنیاد پر سندھ کی جامعات میں بہتری لانا چاہتے ہیں؟ بہتری لانے کے لیے ضروری تو نہیں کہ جامعات کے بنیادی انتظامی اور تعلیمی ڈھانچے کو ہی تبدیل کردیا جائے۔
وائس چانسلر کے تقرر کا اختیار گورنر سے لے کر وزیراعلیٰ کو منتقل کردیا گیا، ہمیں اس پر بھی اعتراض نہ ہوتا اگر وائس چانسلر کی تقرری کا طریقہ وہی ہوتا جو گورنر کے دور میں تھا۔ اب اگر گورنر اس متنازع ترمیمی بل کو دستخط کے بغیر واپس کردیں اور یہ بل نظرثانی کے لیے سینیٹ میں آجائے تو دیکھیں گے کہ ہمیں اس ضمن میں کیا کرنا ہے۔ ہم نے بل پیش ہونے سے قبل ہی وزیراعلیٰ کو ایک ملاقات میں ترمیمی بل پر اپنے تحفظات سے آگاہ کردیا تھا، جس پر وزیراعلیٰ نے ہمیں یقین دہانی کرائی تھی کہ بل سندھ اسمبلی میں منظوری کے لیے پیش ہونے سے پہلے اساتذہ کی یونین فپواسا کے اراکین کو پیش کیا جائے گا، جو اپنے اجلاس میں بل کے مندرجات کا تفصیلی جائزہ لے کر اپنی سفارشات وزیراعلیٰ سندھ کو پیش کریں گے، جس کی بنیاد پر بل کو فپواسا کے لیے قابلِ قبول بنادیا جائے گا۔ لیکن ہم سے وعدہ شکنی کی گئی۔ ہمیں اسمبلی میں پیش کردہ بل کا مسودہ دکھایا گیا نہ بل میں کسی بھی معاملے کو شامل کیا گیا جن کو شامل کرنے کی ہمیں یقین دہانی کرائی گئی تھی۔ حکومت کی سوچ یہ ہے کہ ایک بہتر منتظمِ اعلیٰ ہی جامعہ کا وائس چانسلر بن سکتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ انتظامی اہلیت کو بنیاد بناکر یونیورسٹی کا وائس چانسلر کسی بی اے پاس کو بھی بنایا جاسکتا ہے۔ اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ سندھ حکومت اپنی پسند کے کسی بیوروکریٹ یا کسی بھی فرد کو وائس چانسلر لگا سکے گی۔ ہمارا پہلا اعتراض یہ ہے کہ جامعہ کے وائس چانسلر کی تقرری کا معیار ہائر ایجوکیشن کمیشن کے مقررہ معیار کے مطابق ہونا چاہیے۔ سینیٹ یا پہلے سنڈیکیٹ کی جو ہیئتِ ترکیبی تھی اس کے مطابق ان میں منتخب اراکین کی تعداد زیادہ رکھی جاتی تھی تاکہ سنڈیکیٹ میں فیصلے انصاف کے تقاضوں کے مطابق ہوں۔ اب ان میں منتخب اراکین کی تعداد کم کرکے نامزد اراکین کی تعداد بڑھادی گئی ہے، بلکہ ان میں سیکریٹریز کا عمل دخل بھی بہت بڑھادیا گیا ہے۔ بحث کے فورم یعنی سینیٹ میں سیکریٹریز اکثریت میں ہوں گے تو اس کے فیصلے بھی سیکریٹریز کے حق میں ہوں گے جو قطعی غیر منصفانہ ہوگا۔ دوسرا بڑا اعتراض یہ ہے کہ سنڈیکیٹ میں موجود بی اے پاس بیوروکریٹس جامعات کے پروفیسروں کو کس طرح چلا سکتے ہیں! یہ مسئلہ اکیڈمک کونسل میں بھی ہوگا۔ چونکہ اکیڈمک کونسل ایک ایسا قابلِ قدر فورم ہے جو جامعہ کی داخلہ پالیسی بناتا ہے، اس میں بھی پروفیسر بیٹھے ہوتے ہیں جو ان تمام امور کے ماہرین ہوتے ہیں، وہ داخلہ پالیسی کی نزاکتوں کو اچھی طرح سمجھتے ہیں۔ لیکن اب داخلہ پالیسی بنانے کا اختیار بھی وزیراعلیٰ نے اپنے ہاتھ میں لے لیا ہے۔ تیسرا اعتراض یہ ہے کہ یونیورسٹی کے بورڈ آف سیکریٹریز میں شامل سیکریٹریز شریک چیئر پرسنز کی حیثیت میں موجود ہوں گے، جبکہ اس میں جامعہ کے تمام ترکیبی اراکین پہلے سے موجود ہوتے ہیں، اس لیے بورڈ آف اسٹڈیز میں سیکریٹریز کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ اب تو جامعات کے بورڈ آف سلیکشن میں بھی سیکریٹریز کو شامل کرلیا گیا ہے جو سلیکشن پر اثرانداز ہوں گے۔
اس وقت قانونی صورتِ حال یہ ہے کہ یونیورسٹیز ترمیمی بل 2018ء اسمبلی سے پاس ہوچکا ہے، اب اس پر گورنر کو دستخط کرنے ہیں۔ اس مسئلے پر ہماری وزیراعلیٰ سے جو ملاقات ہوئی اُس میں وزیراعلیٰ نے اچھا اور مثبت جواب دیا ہے، لیکن مسئلہ یہ ہے کہ خود ان کے ہاتھ بھی بندھے ہوئے ہیں۔
پرائیویٹ جامعات کی بڑھتی ہوئی ترقی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سرکاری جامعات کو تباہ کرنے کا مکمل منصوبہ ہے
ڈاکٹر اسامہ شفیق
رکن سینیٹ، جامعہ کراچی
اٹھارویں آئینی ترمیم کے بعد تعلیم اور صحت دو بڑے شعبے وفاق سے صوبوں کو منتقل کیے گئے۔ 2013ء میں پہلی دفعہ سندھ یونیورسٹیز کا ترمیمی بِل پاس کیا گیا اور اس بِل سے یہ تنازع شروع ہوا۔ جامعہ کراچی جس ایکٹ کے تحت چل رہی ہے وہ 1972ء کا ایکٹ ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت میں ہی 28 دسمبر 1972ء کو منظور ہوا تھا، اور اسی کے تحت جامعہ کراچی اب تک چلتی رہی ہے۔ 1982ء میں ضیاء الحق نے اس میں پہلی دفعہ ترامیم کیں۔ یہ بنیادی ترامیم سنڈیکیٹ کے اندر ہی کی گئیں۔ سنڈیکیٹ کے اندر منتخب نمائندے ہوتے تھے، اس کے بجائے نامزد کردہ ’’مخصوص‘‘ لوگوں کو بھی شامل کردیا گیا۔ اسی طرح یونیورسٹیز کا اکیڈمک لیڈر ’ڈین‘ ووٹ کے ذریعے منتخب ہوتا تھا، اس کے بعد اُس کی بھی نامزدگی کردی گئی اور نامزدگی کے بعد اس کا تقرر بھی کردیا گیا۔ 2013ء میں کی جانے والی ترامیم میں بنیادی طور پر سندھ کی تمام جامعات کو ایک طرف چھوڑ کر کراچی کی جامعات کو زیادہ فریق بنایا گیا۔
پہلی بات یہ کی گئی کہ وفاق سے اگر صوبوں کو اختیارات منتقل ہونے تھے تو جو اختیارات وفاق کے پاس تھے وہ صوبے اپنے پاس لے لیتے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ کیا گیا کہ نہ صرف وفاق سے صوبوں کے اختیارات کے اندر ترمیم کی گئی بلکہ جو جامعات کے اندرونی ایکٹ تھے اُن میں بھی ترامیم کردی گئیں، جس کے تحت پہلے 2013ء کے اندر سندھ کی تمام جامعات کے رجسٹرار، ناظم امتحانات اور ٹریژرار کی براہ ِراست تقرری حکومتِ سندھ نے اپنے پاس لے لی جو کہ اس سے پہلے جامعات کا اندرونی معاملہ تھا۔ دوسرا مسئلہ یہ کیا گیا کہ سندھ کی جامعات کو چھوڑ کر کراچی کی دو جامعات جامعہ کراچی اور این ای ڈی کی داخلہ پالیسی کا اختیار حکومتِ سندھ نے لے لیا اور باقی پورے سندھ کی جامعات کی داخلہ پالیسی کا اختیار ان کی اکیڈمک کونسل کے پاس رہا۔ 2014ء میں ہماری تحریک شروع ہوئی اور اس بات پہ احتجاج کیا گیا۔ اس کے نتیجے میں اُس وقت کے وزیرِاعلیٰ سید قائم علی شاہ نے باقاعدہ تحریری طور پر یقین دہانی کروائی کہ وہ تمام ترامیم جو کہ غلط ہوئی ہیں ان کو واپس لے لیں گے اور نیا بِل پیش کریں گے، جس میں پیش کردہ مطالبات کو ایڈریس کریں گے۔ 2018ء کے اندر اسمبلی میں ایک اور بِل پیش ہوگیا جس کے اوپر اسمبلی میں دو دن تک ہنگامی آرائی جاری رہی اور بالآخر اس کو منظور کرلیا گیا۔ سینیٹ میں اپوزیشن نے اس کا بائیکاٹ کیا اور سندھ اسمبلی نے اس کو منظور کرلیا۔ اس بِل کے تحت اب پورے سندھ کی تمام جامعات کا اختیار حکومتِ سندھ کے پاس ہے۔
اس میں دوسرا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سنڈیکیٹ کے اندر 4 سیکریٹریز کو شامل کردیا گیا ہے، جس کے نتیجے میں سنڈیکیٹ کا توازن ِطاقت بگڑگیا ہے اور نامزد کیے گئے مخصوص لوگ سنڈیکیٹ کے اوپر اس وقت حاوی ہوچکے ہیں۔ ایک طرف اسی سندھ حکومت میں اسمبلی کے اندر ایک قرارداد منظور کی گئی جو متفقہ طور پر اختیار کی گئی، جس کے تحت طلبہ یونین پر سے پابندی ہٹانے کا مطالبہ کیا گیا۔ دوسری طرف 1972ء کے ایکٹ کے اندر طلبہ یونین کی نمائندگی جو کہ علامتی طور پر ہی تھی، کو یکسر ختم کردیا گیا۔ یاد رہے کہ طلبہ یونین پر پابندی 1984ء سے لگ چکی ہے۔ تیسرے بڑے اسٹیک ہولڈر جامعہ سے ملحق کالج، ان کے پرنسپل اوراساتذہ ہیں۔1972ء کے ایکٹ کے اندر ان کی تین نمائندگیاں تھیں۔ ایک کالج کے پرنسپل اور دو کالج کے ٹیچرز۔ ان کو بھی یکسر ختم کردیا گیا۔
یہ وہ تمام نکات ہیں جن کی بنیاد پر سنڈیکیٹ میں منتخب نمائندگی کو ختم کرکے نامزد نمائندگی کو بڑھا دیا گیا، جس کے تحت پہلی دفعہ بیوروکریسی کے نمائندے براہِ راست ان پوزیشنز پر آئیں گے۔ اس سے پہلے کہیں یہ نہیں لکھا ہوا تھا کہ کسی پوزیشن کی بنیاد پر بیوروکریسی کا نمائندہ سنڈیکیٹ کے اندر آکر بیٹھے گا۔ بلکہ نامزدگی گورنر کی طرف سے ہوتی تھی اور وہ مخصوص لوگ سنڈیکیٹ کے اندر آکر بیٹھتے تھے۔ ان کی تعداد کم تھی۔ ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ وائس چانسلر کی تقرری کا جو معیار 1972ء کے ایکٹ کے اندر موجود تھا اس کو بھی ترمیم کر کےEminent پروفیسر اور ایڈمنسٹریٹر لکھ دیا گیا ہے۔ یعنی کہ اب اگر کوئی پروفیسر نہیں بھی رہا تو ایڈمنسٹریٹر بھی وائس چانسلر بن سکتا ہے۔
ان تمام بنیادی نکات پر احتجاجی مہم جاری ہے اور ہم یہ سمجھتے ہیں کہ حکومتِ سندھ اختیارات بالکل وفاق سے لے جس طرح ہر صوبے نے لیے ہیں، لیکن جامعات کے اندرونی ایکٹ کو نہ چھیڑا جائے۔ یہ ہمارا مشاہدہ ہے کہ اس کے نتیجے میں نہ صرف سندھ کے اندر لسانی تقسیم دوبارہ پیدا ہوگی بلکہ میرٹ کی یہاں جو صورت حال ہے اس کا بھی قتلِ عام شروع ہوگا۔ سندھ چونکہ ایک حساس صوبہ ہے، یہاں پہلے بھی لسانی تقسیم موجود رہی ہے۔
جو فردِ واحد تمام جامعات کی پالیسی بنا رہا ہوگا یا بیوروکریسی داخلہ پالیسی بنا رہی ہوگی تو آپ کس شفاف پالیسی کا تقاضا ان سے کرسکتے ہیں؟سندھ کے کالجوں اوراسکولوں کا حال آپ کو معلوم ہے۔ آپ سب کے سامنے ہے کہ وہاں پر کیا کچھ ہورہا ہے۔ اگر سرکاری جامعات اس وقت بچی ہوئی ہیں تو اس کی وجہ internal monitoring policies,internal structure یا ادارے ہیں جن کی وجہ سے وہ ابھی تک قائم و دائم ہیں۔
گو کہ وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ صاحب نے یقین دہانی کروائی ہے کہ وہ اس کے اوپر نظرثانی کریں گے، میری گزارش یہی ہے کہ حکومتِ سندھ کو اس کے اوپر نظرثانی کرنی چاہیے اور 1972ء کے ایکٹ کو اپنی اصل حالت میں بحال کیا جائے جس کے اندر تمام لوگوں کی نمائندگی موجود ہو۔
میں یہ سمجھتا ہوں کہ ابھی تک تو بِل نافذ نہیں ہوا۔ ابھی تو کاغذوں کے اندر موجود ہے۔ اگر یہ بِل نافذ ہوجائے گا تو جامعات تباہ ہوجائیں گی۔ سرکاری جامعات ختم ہوجائیں گی۔ جو ماڈل یونیورسٹی آرڈی ننس 2001ء اور 2002ء میں پرویزمشرف کے دور میں نافذ کیا گیا تھا اُس وقت بھی ہمارا مشاہدہ تھا کہ سرکاری جامعات کو تباہ کرنے کی پالیسی ہے۔ 2003ء سے 2018ء تک آپ شہر کے اندر ہی دیکھ لیجیے کہ پرائیویٹ جامعات کی بڑھتی ہوئی ترقی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سرکاری جامعات کو تباہ کرنے کا مکمل منصوبہ ہے جس میں ہر حکومت اپنا کردار ادا کرتی چلی جا رہی ہے۔ جب اختیارات لے کر آپ ان کو بے اختیار بنادیں گے تو اسکولوں اور کالجوں کے پرنسپل اور جامعہ کے وائس چانسلر میں کوئی فرق نہیں رہے گا۔
اس بل کو فوری واپس لیا جائے، فوری طور پر طلبہ یونین کے انتخابات منعقد کروائے جائیں
حافظ عزیر علی خان
اسلامی جمعیت طلبہ جامعہ کراچی
سندھ یونیورسٹیز ترمیمی بل کے حوالے سے اس فورم کے انعقاد پر فرائیڈے اسپیشل کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔
دیکھیے جو بل سندھ اسمبلی میں پیش ہوا ہے، یہ محض اختیارات کی منتقلی کا معاملہ نہیں، بلکہ اس کے پیچھے جامعات کو کنٹرول کرنے کی سازش کارفرما ہے۔ سندھ حکومت جامعات کی داخلہ پالیسی اپنے ہاتھ میں لینا چاہتی ہے ،جس سے کراچی کے ہونہار طلبہ کے میرٹ کا قتلِ عام ہوگا اور ایک مرتبہ پھر شہری اور دیہی تعصب کو ہوا دی جائے گی جو اس ملک کے تعلیمی اداروں کے لیے زہرِ قاتل ہے، اور اس سے کراچی کے طلبہ میں محرومیاں پیدا ہوں گی۔ دوسرا اہم نقطہ یہ ہے کہ اس بل میں منتخب نمائندوں کی تعداد کم کردی گئی ہے جس سے سنڈیکیٹ کی کمپوزیشن بگڑکر رہ گئی ہے، اور سیکریٹریز کی تعداد میں اضافہ کرکے جمہوریت کے علَم برداروں نے خود جمہوریت کے منہ پر طمانچہ رسید کیا ہے۔ اس کے علاوہ سنڈیکیٹ سے طلبہ کی نمائندگی ختم کردی گئی ہے جو ہمیں کسی صورت قبول نہیں۔ تیسرا اہم نکتہ یہ ہے کہ جامعات کے وائس چانسلرز کے اختیارات کو ختم کردیا گیا ہے جس سے یہ خدشہ ہے کہ جامعات کا حال بھی سندھ کے سرکاری اسکولوں اور کالجوں کی طرح ہوجائے گا۔
لہٰذا ہمارا مطالبہ ہے کہ اس بل کو فوری واپس لیا جائے، سنڈیکیٹ میں طلبہ کو نمائندگی دی جائے اور فوری طور پر طلبہ یونین کے انتخابات منعقد کروائے جائیں۔
اس سلسلے میں ہم بھرپور تحریک کا آغاز کرچکے ہیں۔ 3 اپریل کو اس بل کے خلاف ریفرنڈم، 10اپریل کو جامعہ کراچی میں کنونشن اور 12اپریل کو سلور جوبلی گیٹ یونیوسٹی روڈ پر دھرنا دیں گے۔ وزیراعلیٰ سندھ اور سندھ حکومت ہوش کے ناخن لیں ورنہ پیپلز پارٹی کو پورے سندھ میں منہ چھپانے کی جگہ بھی نہیں ملے گی۔