بلوچستان کے آئینی حقوق اور تابناک مستقبل کا دعویٰ لے کر مقتدرہ کے زیرسایہ افراد نے’’بلوچستان عوامی پارٹی‘‘ کے نام سے نئی جماعت کی داغ بیل ڈال دی۔ دراصل یہ جماعت تحریک عدم اعتماد کی کامیابی، بعد ازاں 3 مارچ 2018ء کو سینیٹ انتخابات میں آزاد امیدواروں، اور پھر ایوانِ بالا کے لیے میر صادق سنجرانی کو چیئرمین منتخب کرنے کا تسلسل ہے۔ یہ تمام مشقیں ٹھیک ٹھاک کامیاب رہیں۔ چناں چہ حکمت عملی یہ ٹھیری کہ کیوں ناں ایسی گروہ بندی کرلی جائے کہ جس کے بعد فیصلوں اور اقدامات میں کسی کی تائید و منظوری کی حاجت نہ رہے۔ گویا اس مقصد کی خاطر بہتر لاٹ ملی ہے۔ قاف لیگ کے پورے اراکینِ اسمبلی اس میں شامل ہیں۔ شیخ جعفر خان مندوخیل اب تک ظاہر نہیں ہوئے ہیں، البتہ اُن کا ضمیر بھی اتنا قوی ہے کہ وہ جلد ہی اس نئی صف میں جلوہ گر ہوں گے۔ میں سمجھا تھا کہ مسلم لیگ (ن) میں بغاوت پھوٹنے کے بعد باقی رہ جانے والے چند ارکان ثابت قدم رہیں گے، مگر میں غلطی پر تھا۔ جس دن یعنی29 مارچ کو وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ کے سبزہ زار پر نئی جماعت کا مژدہ سنایا جارہا تھا تو اس قطار میں میاں نوازشریف یا ثناء اللہ زہری کے مقربین (اراکین اسمبلی) محمد خان لہڑی، میر اظہار کھوسہ، انیتا عرفان، سابق رکن اسمبلی عبدالغفور لہڑی بھی موجود تھے۔ باقی سارے منحرف ہونے والے ارکان اسمبلی موجود تھے جو نئی جماعت سے وابستہ ہوگئے۔ اس بار چند سیاسی بڑوں مگسی، بھوتانی، جمالی اور کھیتران نے اپنے جوان صاحبزادوں کو بھی متعارف کرایا تاکہ وہ اس نئی جماعت میں رہ کر پروازِ حکمرانی سیکھیں۔ شعیب نوشیروانی جو 2008ء کی اسمبلی میں وزیر داخلہ تھے، تب بہت کم عمر تھے، نواب اکبر بگٹی قتل میں نامزد کیے گئے۔ طویل عرصے بعد منظرعام پر آئے اور اس جماعت کے صوبائی ترجمان بنائے گئے۔ ان کے والد عبدالکریم نوشیروانی قاف لیگ سے ہیں اور ان کے پاس وزیراعلیٰ کے مشیر برائے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا قلمدان ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کے سردار عبدالرحمان کھیتران کا بیٹا اورنگزیب کھیتران بھی سیاسی میدان میں قدم رکھ چکا ہے۔ معلوم نہیں نواب ثناء اللہ زہری کیا فیصلہ کریں گے، کیونکہ وہ بھی حالیہ سینیٹ انتخابات میں تنقید کی زد میں آئے اور کہا گیا کہ انہوں نے اپنا ووٹ اتحادیوں کو نہیں دیا، یا شاید صرف پشتون خوا میپ کے امیدوار کو نہیں دیا۔ ویسے نواب زہری کو بھی نئی جماعت میں شمولیت کی دعوت دے دینی چاہیے تھی۔ سمجھ میں نہیں آرہا کہ ساری زندگی کنگز اور اسٹیبلشمنٹ کی سیاست کرنے والے یہ لوگ وفاق سے بلوچستان کے حقوق کی کون سی جنگ لڑیں گے! یہی جام، یہی جمالی، مگسی، بھوتانی اور دوسرے، تیسرے اس بدقسمت صوبے کے حکمران رہے ہیں، وفاقی اور صوبائی وزارتوں پر متمکن رہے ہیں۔ سچی بات یہ ہے کہ یار لوگوں نے بلوچستان کی محرومیوں پر مگرمچھ کے آنسو یا فریب کے آنسو بہاکر ایک بار پھر جتھہ بندی کرلی ہے، اور2018ء کے عام انتخابات میں اپنے لوگوں کو کامیاب کراکر حکومت بنالیں گے، یوں مقتدرہ کا کام آسان ہوگا۔ صوبہ اگر پسماندگی، غربت اور ناخواندگی کا شکار ہے تو انھی حضرات کی وجہ سے ہے۔ جب یہ دہائیوں میں یہاں کے عوام کی قسمت نہ بدل سکے تو آئندہ کیا تیر ماریں گے! موجودہ پانچ سالہ دور میں بھی تو حکومت انہی لوگوں کی تھی۔ ان چند برسوں میں محض کوئٹہ شہر پر اربوں روپے خرچ ہوئے ہیں۔ کوئی منصف شہر کا دورہ کرے اور بتائے کہ اس شہر میں کیا بہتری آئی ہے؟ یہ خطیر رقم یقینی طور پر اللوں تللوں یا پھر بدعنوانی اور بدانتظامی کی نذر ہوئی ہے۔ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ نے اپنی وزارتِ اعلیٰ میں تربت کے لیے پانچ ارب روپے منظور کرائے۔ ڈیڑھ ارب روپے خرچ ہوئے، باقی رقم ریلیز نہ ہوئی، لیکن یہ ڈیڑھ ارب روپے تربت میں دکھائی دیتے ہیں۔ اگر ڈیرہ بگٹی کے سرکاری اسپتال میں لیڈی ڈاکٹر نہ ہونے کی وجہ سے زچہ وبچہ موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں تو کیا اس کے لیے وفاق ذمے دار ہے؟ بلوچستان کے ان معزز سیاست دانوں اور قبائلی شخصیات نے ہمیشہ مقتدرہ کی خدمت کی ہے۔ یعنی رابرٹ سنڈیمن کی تربیت کا اثر ہنوز موجود ہے۔ سنڈیمن1868ء میں ڈیرہ غازی خان میں پولیٹکل آفیسر تعینات ہوا۔ اس نے وہاں کے قبائل کو مراعات دے دے کر وفادار بنایا۔ یہی پالیسی بلوچستان میں بھی کامیابی سے اپنائی۔ سرداروں کو رشوتیں اور مراعات دیں، انہیں طاقتور بنایا، کئی کاسہ لیسوں کو سردار و خوانین کا رتبہ دیا۔ انگریز کے یہ پروردہ، خان آف قلات کے مدمقابل کھڑے ہوگئے۔ مجبوراً خان نے انگریز کو ثالثی کا اختیار دیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ 8 دسمبر 1876ء کو وائسرائے لارڈ لٹن اور خان قلات کے درمیان معاہدے پر دستخط ہوئے اور خان بے دست و پاکردیئے گئے۔ سنڈیمن نے یہاں کے عوام کی رائے، آزادی کا احساس اور جذبات کچل دیئے۔ قوم کے ان معززین کو جاگیریں دیں، تنخواہیں ادا کرنے اور حفاظت کے لیے مسلح جتھے رکھنے کے لیے الگ رقوم دی جاتیں۔
زمان و مکان میں تغیر و تبدل توآچکا ہے مگر سنڈیمن کی پالیسیاں اب بھی کامیاب ہیں۔ میرے لیے بلوچستان عوامی پارٹی پر باریک بینی سے کچھ لکھنا ممکن نہیں۔ بات سادہ سی ہے کہ یہ طفیلی جماعت ہے جس کے قیام کے لیے بلوچستان کی محرومیوں کا کارڈ استعمال کیا گیا ہے۔ حیرت ہے کہ وہی پرانے سکے آگے پیچھے ہیں جن کی وجہ سے سیاست کا بھرم اور وقار مجروح ہوا۔ جنہوں نے ہمیشہ بادشاہ گروں کا کام آسان کیا، اور جن کی وجہ سے صوبہ محرومیوں کا شکار ہے، البتہ ان کے ٹھاٹھ باٹ اور مکر و فریب میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ حیرت ہے کہ اس غرض کے لیے وزیراعلیٰ ہائوس کا استعمال ہوا۔کیا ان کے لیے یہ روا ہے؟ کیا اس سے وزیراعلیٰ ہائوس کی بے توقیری نہیں ہوئی؟ بلوچستان میں قول کا پکا اور اصولوں پر قائم سیاست دان خان، سردار اور نواب شاید ہی کوئی رہا ہو۔
اس نئی پارٹی کا اعلان سابق سینیٹر سعید احمد ہاشمی اور سینیٹر انوارالحق کاکڑ نے وزیراعلیٰ بلوچستان میر عبدالقدوس بزنجو اور صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی سمیت دس سے زائد صوبائی وزراء اور ارکانِ اسمبلی کی موجودگی میں وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ میں منعقدہ پریس کانفرنس میں کیا۔ انوارالحق کو پارٹی کا مرکزی ترجمان بنایا گیا ہے۔ پریس کانفرنس میں نومنتخب آزاد سینیٹر کہدہ بابر، سینیٹر ثناء جمالی، سینیٹر نصیب اللہ بازئی، سینیٹر احمد خان خلجی، صوبائی وزراء پرنس احمد علی، امان اللہ نوتیزئی، طاہر محمود خان، ماجد ابڑو، وزیراعلیٰ کی مشیر برائے خزانہ رقیہ سعید ہاشمی، ایم پی اے خالد لانگو کے بھائی وزیراعلیٰ کے مشیر برائے خوراک میر ضیاء لانگو، ارکان صوبائی اسمبلی جان محمد جمالی، محمد خان لہڑی، اظہار حسین کھوسہ، انتیا عرفان، سابق صوبائی وزیر منظور احمد کاکڑ، سابق گورنر بلوچستان نواب ذوالفقار علی مگسی کی اہلیہ سابق رکن بلوچستان اسمبلی شمع پروین مگسی، سابق صوبائی وزراء میر فائق جمالی اورسلیم کھوسہ بھی موجود تھے، لیکن اس پریس کانفرنس میں انہوں نے جماعت میں باقاعدہ شمولیت کا اعلان نہیں کیا۔ انوارالحق کاکڑ کا کہنا تھا کہ ’’نومنتخب سینیٹرز نئی پارٹی کا حصہ بن گئے ہیں۔ وزیراعلیٰ اور ارکان اسمبلی کی پریس کانفرنس میں موجودگی کا مقصد ہی اس بات کا تاثر دینا ہے کہ یہ تمام لوگ جلد اس جماعت میں شمولیت کریں گے۔ اور یہ پارٹی بلوچستان کی سیاسی ایلیٹ اور عوام کا امتزاج ہے۔ یہ ایک ایسا سیاسی گلدستہ بننے جارہا ہے جس میں یوسف عزیزمگسی، میر غوث بخش بزنجو، خان آف قلات اور نواب خیر بخش مری سے جڑے ہوئے لوگ شامل ہوں گے۔ یہ جماعت بلوچستان میں وفاق کے لیے ایک حقیقی شراکت دار کے طور پر ابھر کر سامنے آئے گی‘‘۔ سعید احمد ہاشمی نے کہا کہ ہم اس فورم سے نہ صرف آئندہ کا الیکشن لڑیں گے بلکہ اسی فورم سے بلوچستان کے آئینی حقوق کے لیے جدوجہد کریں گے۔ ایک ماہ کے اندر پارٹی کی جنرل کونسل میں عہدیداروں کا انتخاب کرکے پارٹی کی الیکشن کمیشن سے رجسٹریشن کرائی جائے گی۔ انوارالحق کاکڑ نے مزید یہ بتایا کہ مسلم لیگ (ن) کے مرکزی نائب صدر نواب جنگیز مری کے صاحبزادے نواب زادہ پژیر مری، مسلم لیگ (ن) کے رکن بلوچستان اسمبلی سردار در محمد ناصر کے صاحبزادے سردار زادہ جمیل ناصر، سابق نگراں وزیراعلیٰ رکن اسمبلی سردار صالح بھوتانی کے صاحبزادے شہزاد بھوتانی، صوبائی وزیر سردار سرفراز چاکر خان ڈومکی کے صاحبزادے بجار خان ڈومکی، آصف خان سنجرانی کے صاحبزادے وزیراعلیٰ کے معاون اعجاز سنجرانی، جمعیت علمائے اسلام کے رکن بلوچستان اسمبلی سردار عبدالرحمان کھیتران کے صاحبزادے سردار زادہ اورنگزیب کھیتران، رکن بلوچستان اسمبلی رقیہ ہاشمی اور سعید ہاشمی کے بیٹے حسنین ہاشمی، میر عطاء اللہ بلیدی، محمد اشرف، دنیش کمار، ایس آر ناصر، میر شاکر حسین کھوسہ نئی پارٹی کا حصہ بن گئے ہیں۔