نظریاتی سیاست کا دعویٰ

کیا واقعی سابق وزیراعظم میاں نوازشریف نظریاتی سیاست دان بن گئے ہیں؟ یا اس کے پیچھے ماضی کی طرح کی ایک سیاسی چال ہے جس میں وہ خود کو جمہوریت پسند، قانون کی حکمرانی کے دعوے دار، انصاف پسند، پارلیمنٹ کی بالادستی اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف مزاحم کے طور پر پیش کرتے رہے ہیں، جبکہ عملی طور پر نہ تو وہ کبھی جمہوریت پسند رہے ہیں اور نہ اب ہیں۔ وہ جمہوریت کو ایک ڈھال کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں اور آج بھی جب وہ مزاحمت اور جمہوریت کی بات کرتے ہیں تو اس کا مطلب اسٹیبلشمنٹ پر دبائو ڈال کر اپنے لیے محفوظ راستہ تلاش کرنا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نظریاتی نوازشریف کے بھائی شہبازشریف پسِ پردہ آرمی چیف سے ملاقاتیں کرتے ہیں، اور نوازشریف کے نامزد وزیراعظم چیف جسٹس سے ملاقا ت کرکے اُن کے لیے محفوظ راستہ تلاش کرتے ہیں۔
ہمارے سیاست دانوں اور حکمران طبقے کا ایک بنیادی مسئلہ تضادات پر مبنی سیاست ہے۔ تضادات پر مبنی سیاست کا عملی نتیجہ دو صورتو ں میں نکل رہا ہے۔ اول: جمہوری سیاست مضبوط ہونے کے بجائے مسلسل کمزوری کی جانب بڑھ رہی ہے۔ دوئم: جمہوریت پر مبنی سیاست کے تناظر میں جمہوریت، حکمرانوں اور عوام کے درمیان خلیج بڑھ رہی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے اہلِ سیاست اور بالخصوص حکمران طبقات بنیادی نوعیت کے مسائل کو سمجھنے اور اس کے نتیجے میں مؤثر اور مضبوط حکمت عملی بنانے کے بجائے اپنی طاقت غیر ضروری مباحث اور مسائل میں استعمال کرتے ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ یہ لوگ جان بوجھ کر ملکی سیاست کو اہم مسائل سے نکال کر غیر اہم مسائل میں الجھا دیتے ہیں تاکہ عوام حقیقی مسائل کی طرف دیکھ ہی نہ سکیں۔
پاکستان سیاسی تاریخ میں ماضی کی سیاست پر نظر ڈالیں تو نظریاتی کش مکش کے نام پر دائیں اور بائیں بازو کی سیاست کا غلبہ نظر آتا ہے۔ معاشرے میں اہلِ سیاست اور اہلِ دانش کی سطح پر نظریاتی تقسیم واضح تھی۔ پاکستان میںجو طویل سیاسی جدوجہد ہوئی اُس میں نظریاتی فکر اور سوچ کا غلبہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کا مجموعی مزاج اُس وقت سیاسی بھی تھا اور معاشرے کو اپنے مخصوص نظریات کی بنیاد پر تبدیل کرنے کی جستجو، خواہش، لگن اور شوق بھی تھا۔ لیکن فوجی حکمرانی نے جس منظم انداز میں معاشرے کے مجموعی مزاج کو سیاسی سے غیر سیاسی میں بدلا اُس نے ہماری سیاست کے چہرے کو بدنما بنادیا۔ اس کے بعد جو بھی حکمران آئے انہوں نے جمہوریت کے نام پر وہی کام کیے جو آمرانہ نظام سے جڑے ہوئے تھے۔ آج کی سیاست میں وہی لوگ بالادست ہیں جو بنیادی طور پر جنرل ضیا کےغیر جماعتی اور غیر سیاسی انتخابات کے ذریعے سیاست میں آئے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان لوگوں کی مجموعی تعداد نظریاتی کم اور مفادات پر مبنی سیاست کو ترجیح دینے والی زیادہ ہے۔
ان سیاست دانوں کی وجہ سے کرپشن، بدعنوانی، اقربا پروری، ذاتی اورکاروباری مفادات کو اصل طاقت حاصل ہوچکی ہے۔ یہ جو نظریاتی سیاست کے نعرے ہیں ان کا مقصد محض جذباتیت کی بنیاد پر عوام کو سیاسی طور پر گمراہ کرنا ہے۔ وگرنہ جو موجودہ طرزِ سیاست ہے اس میں جمہوریت، قانون کی حکمرانی، منصفانہ اور شفاف نظام، عوامی مفادات، معاشرے کی ترقی اور خوشحالی سمیت فکری اساس کے نعرے سیاسی میدان میں ہتھیار کی صورت میں استعمال ہوکر عوام کا اور زیادہ استحصال کرنے کا سبب بنتے ہیں۔ کیونکہ اہلِ سیاست سمجھتے ہیں کہ ہماری قوم جذباتی نعروں میں زیادہ مگن ہوتی ہے، اس لیے ہماری سیاست میں جذباتی رنگ بھی نمایاں ہے۔
اس لیے سابق وزیراعظم نوازشریف کا عدالتی فیصلے کے نتیجے میں اپنی نااہلی کے بعد یہ دعویٰ کرنا کہ وہ اب نظریاتی ہوگئے ہیں، کسی سیاسی لطیفے سے کم نہیں۔ اگر ایک سیاست دان 1979ء سے شروع کیے جانے والے اپنے سیاسی سفر میں 2018ء میں یہ کہے کہ اب وہ سیاست میں نظریاتی ہوگیا ہے تو عجیب لگتا ہے۔ کیا آج سے قبل نوازشریف عملی سیاست میں غیر نظریاتی تھے؟ اور جو سیاست انہوں نے نظریاتی بننے سے قبل کی، وہ کیا تھی؟ یہ مسئلہ محض نوازشریف تک ہی محدود نہیں، بلکہ پیپلز پارٹی، تحریک انصاف، جے یو آئی، ایم کیو ایم سمیت دیگر جماعتیں بھی سیاست میں نظریات کو بطور ہتھیار استعمال کرتی ہیں۔
مسئلہ یہ ہے کہ آج جب اہلِ دانش اور سیاست میں کچھ سرپھرے لوگ نظریاتی سیاست کی بحالی کی بات کرتے ہیں یا اس کو اپنی ترجیحات سے جوڑتے ہیں تو اُن کا مذاق اڑایا جاتا ہے اوران کو یہ دلیل دی جاتی ہے کہ نظریاتی سیاست کا دور ختم ہوگیا ہے، اب جو سیاست ہے جو محض اقتدار کے حصول اور ذاتی مفادات تک محدود ہے، اسی میں رہ کر ہمیں اپنے سیاسی معاملات کو آگے بڑھانا ہوگا۔ سوال یہ ہے کہ نظریاتی سیاست سے کیا مراد ہے؟
(1) ایک مخصوص سوچ اور فکر کو بنیاد بناکر سیاست کرنا اور اس کے مطابق معاشرے کی تشکیل کرنا۔
(2) سیاست میں اعلیٰ اخلاقیات، جوابدہی، شفافیت کے نظام کو تقویت دینا۔
(3) ذاتی مفادات کے مقابلے میں اجتماعی مفاد کو مضبوط بنانا اور حکمرانی کے نظام کو عام آدمی سے جوڑنا۔
نوازشریف سمیت وہ لوگ جو نظریاتی سیاست کا نعرہ لگاتے ہیں انہیں چند بنیادی باتوں پر ضرور غور کرنا چاہیے۔ کیا وجہ ہے کہ جب اہلِ سیاست مشکلات میں ہوں تو ان کو نظریاتی سیاست یاد آجاتی ہے ، جب اقتدار میں ہوں تو یہی لوگ نظریات کی بنیاد پر نظریاتی لوگوں کا مذاق اڑاتے ہیں۔ جب سیاسی جماعتیں داخلی جمہوریت کو مضبوط بنانے کے بجائے اپنا نظام خاندانی بادشاہت اور آمرانہ فیصلوں کی بنیاد پر چلائیں تو نظریاتی سیاست بہت پیچھے چلی جاتی ہے۔ کیونکہ نظریاتی سیاست میں افراد سے زیادہ ایک منظم سیاسی اور فکری تحریک کی ضرورت ہوتی ہے۔ جبکہ ہماری سیاسی جماعتیں داخلی سیاست میں بہت پیچھے کھڑی ہیں۔ اسی طرح سے اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے اقتدار کے حصول کی سیاست نظریاتی نہیں بلکہ کچھ لو اورکچھ دو کی بنیاد پر مفاہمتی سیاست سے جڑ جاتی ہے۔ ویسے نوازشریف کی ساری سیاست ہی اسٹیبلشمنٹ کی حمایت سے جڑی ہوئی ہے اور وہ ہمیشہ سے اسٹیبلشمنٹ کے لاڈلے کے طور پر سیاست کرتے رہے ہیں۔
اہلِ سیاست نے سیاسی اور مذہبی سیاست کے نام پر جو کھیل تماشا پچھلی چند دہائیوں سے لگایا ہوا ہے اس نے قومی سطح پر سیاست کو کئی طرح کے سیاسی، سماجی، معاشی، قانونی، انتظامی اور اخلاقی مسائل میں الجھا کر رکھ دیا ہے۔ اس مفاداتی سیاست کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ اہلِ دانش کی سطح پر رائے عامہ بنانے والے افراد اور ادارے بھی نظریات کو عملاً پسِ پشت ڈال کر خود بھی مفاداتی سیاست کا حصہ بن کر حکمرانوں اور ریاستی اداروں کے آلۂ کار بن گئے ہیں۔ یہی وہ طبقہ ہے جوجمہوریت، قانون کی حکمرانی اور نظریاتی سیاست کا نام استعمال کرکے ایسے لوگوں کو ہم پر مسلط کرتا ہے جن کا کام فریب اور مکاری کے سوا کچھ نہیں۔
نظریاتی سیاست میں سیاسی جماعتوں اور قیادت کے سامنے افراد نہیں بلکہ اپنے پیغام، فکر اور سوچ کو بالادستی حاصل ہوتی ہے، اور اسی کی بنیاد پر ان کے سیاسی فیصلے بھی ہوتے ہیں۔ لیکن اب اگر ہم سیاسی جماعتوں میں لوگوں کے آنے جانے کے کھیل کو دیکھیں تو وہ نظریاتی کم اور مفاداتی کھیل زیادہ لگتا ہے۔ نوازشریف، عمران خان اور آصف زرداری سمیت سب کی نظر میں ایسے لوگ اہم ہیں جو انتخابی جیت میں کردار ادا کرسکیں۔ اس کھیل میں نظریات، کردار، شفافیت اور جمہوری وابستگی اہم نہیں، بلکہ دیکھا جاتا ہے کہ طاقت کے کھیل میں کون ہماری مدد کرسکتا ہے۔ ماضی میں جو نظریاتی سیاسی اور مذہبی جماعتیں تھیں وہ آج اپنے داخلی اور خارجی بحران کے تناظر میں کہاں کھڑی ہیں اور اس میں اُن کی اپنی داخلی سیاست کا کتنا حصہ ہے، اس پر بھی غور کیا جانا چاہیے۔
ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جب سیاست دان بار بار خود کو نظریاتی کے طور پر پیش کرے تو محسوس ہوتا ہے کہ اُسے یقین نہیں کہ لوگ اس کو اس کردار میں قبول کرتے ہیں۔ حالانکہ جو نظریاتی سیاست کے قائل ہوتے ہیں ان کو لوگوں میں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ نظریاتی سیاست جدوجہد کے ساتھ جڑی ہوتی ہے، جبکہ موجودہ سیاست نظریاتی جدوجہد سے زیادہ طاقت کے مراکز سے جوڑ توڑ کرکے اقتدار کی سیاست ہے۔ سیاسی جماعتوں کی سطح پر کوئی ایسے تھنک ٹینک موجود نہیں جو پالیسی سازی میں ان کی مدد کرسکیں، کیونکہ اہلِ علم کو عملی طور پر سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت نے دیوار سے لگا دیا ہے۔ ان کے مقابلے میں اہلِ دولت اور مجرمانہ ذہنیت کے لوگ سیاسی جماعتوں میں پیش پیش ہیں۔
اس لیے آج نوازشریف سمیت جو بھی سیاست دان نظریاتی سیاست کی بات کرتا ہے اُس کی ہر فورم پر جواب دہی ہونی چاہیے۔ یہ بات درست ہے کہ سیاست دان کبھی بھی اپنی اصلاح کرسکتا ہے۔ مگر اِس کے لیے پہلے اُسے یہ تسلیم کرنا چاہیے کہ وہ سیاست میں کی جانے والی غلطیوں اور مجرمانہ مسائل کا ذمہ دار بھی ہے اور معافی کا طلب گار بھی۔ محض ردعمل کی بنیاد پر نظریاتی سیاست کا نعرہ اپنی سیاست کو بچانے کے حربے کے سوا کچھ نہیں۔ ہمارے ان نئے نظریاتی سیاست دانوں کو پہلے نظریاتی سیاست کے خدوخال سمجھنے چاہئیں کہ نظریاتی سیاست کیا ہوتی ہے اور وہ اس میں خود کیسے بڑی رکاوٹ ہیں۔ اس لیے ہمیں جذبات کے بجائے ہوش اور عقل و فہم سے ان نئے نظریاتی نعروں کا تجزیہ کرنا چاہیے، اور سمجھنا چاہیے کہ مفاداتی اور ذاتی سیاست میں نظریاتی سیاست کی ترجیحات بہت پیچھے رہ جاتی ہیں، اور اس کا مقصد سیاسی گمراہی کے سوا کچھ نہیں۔