قبائلی عوام پچھلے دس بارہ برسوں کے دوران تاریخ کے جس تلخ ترین دور سے گزرے ہیں اور اس عرصے میں انہیں قتل وغارت گری، گھروں سے انخلاء، کسمپرسی کی حالت میں دربدر کی ٹھوکریں کھانے، اور سب سے بڑھ کر عزتِ نفس تار تار کیے جانے کے جن اذیت ناک لمحات سے دوچار ہونا پڑا ہے اس حوالے سے عام تاثر یہ تھا کہ جب وطنِ عزیز میں دہشت گردی کا اٹھنے والا گرد و غبار بیٹھے گا اور معاملات درست سمت میں چلنے لگیں گے تو اس کے واضح اثرات قبائلی علاقوں میں بھی ایک بڑی سماجی، سیاسی اور انتظامی تبدیلی کی صورت میں نظر آنے لگیں گے۔ اس حوالے سے یہ امیدیں اُس وقت یقین میں بدلنا شروع ہونے لگی تھیں جب وفاقی حکومت نے فاٹا میں اصلاحات کا اعلان کرتے ہوئے سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں یہاں آئینی ترمیم کے ذریعے اصلاحات کے ایک جامع پیکیج کا اعلان کیا اور اس ضمن میں مسلسل تاخیر اور اعتراضات کے باوجود قومی اسمبلی سے اصلاحات کے اس بل کو نیم دلی سے منظور بھی کرا لیا، لیکن وہ دن اور آج کا دن، یہ بل سینیٹ کی منظوری کی راہ تک رہا ہے جس کے بعد اس قانون کو باقاعدہ توثیق کے لیے صدر مملکت کے دستخطوں کے لیے بھیجا جائے گا۔ اس عرصے میں سینیٹ کے انتخابات کے باعث اس بل کی سینیٹ سے منظوری کا معاملہ التوا کا شکار رہا، لیکن اب جب سینیٹ انتخابات کے تمام مراحل طے پا چکے ہیں اور تمام تر اعتراضات اور تکنیکی نکات کی بحث کے باوجود چیئرمین اور ڈپٹی چیئرمین اپنے اپنے عہدوں کا حلف اٹھاکر کام شروع کرچکے ہیں ایسے میں قبائلی علاقوں کے عوام، محروم سمجھے جانے والے صوبہ بلوچستان سے تعلق رکھنے والے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی اور پیپلزپارٹی کے سلیم مانڈوی والا سے بجا طور پر یہ توقع رکھ سکتے ہیں کہ وہ سینیٹ میں فاٹا اصلاحات بل کی بلا تاخیر اور فی الفور منظوری میں مزید کسی تاخیر اور لیت و لعل سے کام نہیں لیں گے۔
دریں اثناء فاٹا اصلاحات اور خاص کر فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کی حامی قوتوں نے نہ صرف اس سارے عمل پر اچانک خاموشی اختیار کرلی ہے بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک اس حوالے سے جو جوش و خروش اور سرگرمی نظر آرہی تھی وہ بھی انتخابات کے دن قریب آنے کے ساتھ ساتھ ماند پڑ رہی ہے۔ واضح رہے کہ اے این پی، جماعت اسلامی، پی ٹی آئی اور پیپلز پارٹی فاٹا اصلاحات فی الفور کرنے اور قبائلی عوام کو اگلے عام انتخابات کے موقع پر خیبر پختون خوا اسمبلی میں نمائندگی دینے کی نہ صرف پُرجوش حامی رہی ہیں بلکہ اس ضمن میں حکومت پر مسلسل دبائو بھی ڈالے ہوئے تھیں، لیکن سینیٹ انتخابات اور خاص کر حلقہ بندیوں میں ہونے والی اچانک تبدیلیوں، اور سب سے بڑھ کر چیئرمین سینیٹ کے الیکشن کے سامنے آنے والے نتائج نے تمام جمہوری قوتوں کو سکتے کی حالت سے دوچار کردیا ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ فاٹا اصلاحات اور قبائلی عوام کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی دینے اور فاٹا کے خیبر پختون خوا میں انضمام کا مطالبہ اور ایشو پس منظر میں چلا گیا ہے جس کا تمام تر خمیازہ بیچارے قبائلی عوام کو بھگتنا پڑرہا ہے۔
فاٹا انضمام کے حوالے سے یہ بات خوش آئند ہے کہ اس پر ملک کی تقریباً تمام قابلِ ذکر جماعتیں نہ صرف متفق ہیں بلکہ عملاً اس حوالے سے وقتاً فوقتاً آواز بھی اٹھاتی رہی ہیں۔ جماعت اسلامی جو پہلے روز سے فاٹا انضمام کے سلسلے میں سب جماعتوں سے زیادہ متحرک ہے اور اس ضمن میں اس کی قیادت اور کارکنان کو قیدوبند کی سخت سزائیں بھی برداشت کرنا پڑی ہیں، کی جانب سے پچھلے دنوں فاٹا انضمام کے لیے ایسے موقع پر آواز اٹھانے کا موقع ملا ہے جب انضمام کے حوالے سے باقی جماعتوں پر سکوت کی کیفیت طاری ہے اور یہ تمام جماعتیں عملاً دیکھو اور انتظار کرو کی پالیسی پر عمل پیرا نظر آتی ہیں جن میں پی ٹی آئی، پیپلز پارٹی، قومی وطن پارٹی اور اے این پی قابل ذکر ہیں۔
فاٹا انضمام کا پس منظر میں جانے والا قبائل کے لیے زندگی اور موت کا حامل یہ دیرینہ ایشو چند دنوں سے اُس وقت دوبارہ تازہ ہوگیا تھا جب پشاور ہائی کورٹ میں انضمام کے خلاف فاٹا کا مستقبل ریفرنڈم کے ذریعے طے کرنے کے لیے دائر رٹ کو عدالتِ عالیہ نے یہ کہتے ہوئے نمٹا دیا تھا کہ ریفرنڈم کرانا عدلیہ کا نہیں بلکہ حکومت کا کام ہے اور اس ضمن میں حکومت ہی کوئی فیصلہ کرنے کی مجاز ہے۔ ہائی کورٹ کا یہ فیصلہ آتے ہی انضمام مخالف اور انضمام کی حامی قوتیں ایک بار پھر ایک دوسرے کے خلاف نہ صر ف ذرائع ابلاغ میں بیانات اور جوابی بیانات کے ذریعے صف آرا ہوگئی تھیں بلکہ سوشل میڈیا پر بھی پچھلے کئی دنوں سے یہ ایشو موضوع بحث بنا ہوا ہے۔ اس ضمن میں حسبِ سابق اگر کسی جماعت کی جانب سے پہل نظر آئی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے، جس کے صوبائی امیر سینیٹر مشتاق احمد خان نے پچھلے دنوں جماعت اسلامی فاٹا کے امیر حاجی سردار خان کے ہمراہ نہ صرف گورنر خیبر پختون خوا اقبال ظفر جھگڑا سے گورنر ہائوس پشاور میں ملاقات کی ہے بلکہ ملاقات کے اگلے روز باڑہ خیبر ایجنسی میں منعقدہ ایک بڑے قبائلی یوتھ کنونشن سے خطاب کے دوران لگی لپٹی رکھے بغیر حکومت کو دوٹوک انداز میں 15 اپریل تک فاٹا انضمام اور اگلے عام انتخابات میں قبائلی علاقوں کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی نہ ملنے کی صورت میں بھرپور اور فیصلہ کن احتجاج کا اعلان بھی کیا ہے۔ مشتاق احمد خان کا کہنا تھا کہ اگر حکومت نے وعدے کے مطابق سینیٹ میں زیر التواء فاٹا اصلاحات بل کو فی الفور سینیٹ سے منظور نہ کرایا اور صدرِ مملکت نے حاصل آئینی اختیارات کے تحت فاٹا کو صوبائی اسمبلی میں نمائندگی نہ دی تو جماعت اسلامی اس حوالے سے دیگر جماعتوں کے ہمراہ مشترکہ لائحہ عمل طے کرنے پر مجبور ہوگی جس کا دائرۂ عمل پورے فاٹا تک پھیل سکتا ہے۔ مشتاق احمد خان کا مزید کہنا تھا کہ وہ قبائل جنھوں نے ہمیشہ پاکستان کے بلا تنخواہ سپاہیوں کا کردار ادا کیا ہے اور جنھوں نے ہر مشکل گھڑی میں وطنِ عزیز کے دفاع اور ترقی کے لیے بے مثال قربانیاں دی ہیں ان کو تمام حکومتوں نے ہمیشہ دیوار سے لگانے کی کوشش کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ قبائل کے ساتھ حکومت کا رویہ ظلم اور جبر پر مشتمل ہے، پورے ملک کے لیے سی پیک، میٹرو، اورنج ٹرینوں، موٹر ویز اور اقتصادی ترقی کے منصوبے ہیں جب کہ قبائل کے لیے ایف سی آر اور فوجی آپریشنوں کے تحفے ہیں۔ باقی پاکستان کے لیے سڑکوں کے جال، بجلی، صحت اور تعلیم کے منصوبے بنائے جارہے ہیں جب کہ قبائلی علاقوں کے لیے چیک پوسٹیں، تلاشیاں، بے عزتی اور تذلیل ہے۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا کی ترقی کا راستہ اس کے خیبر پختون خوا میں فوری انضمام کے راستے سے ہوکر گزرتا ہے۔ قبائلی عوام کو صحت، تعلیم، روزگار اور تحفظ کے ساتھ ساتھ آئینِ پاکستان کے تحت بنیادی انسانی حقوق اور شہری آزادیوں سے مزید محروم رکھنا سنگین اخلاقی اور آئینی جرم ہے جس کے خلاف جماعت اسلامی پارلیمنٹ سمیت ہر فورم پر آواز اٹھاتی رہے گی۔ یہ فاٹا کے ساتھ پچھلے ستّر برسوں سے روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک ہی کا نتیجہ ہے کہ یہاں اگر ایک طرف ملکی اور غیر ملکی دہشت گردوں کو ماضی میں پائوں جمانے کا موقع ملتا رہا تو دوسری جانب قبائل بنیادی سہولیات نہ ہونے کے باعث باقی ماندہ پاکستان سے ترقی کی دوڑ میں اتنے پیچھے رہ گئے کہ یہاں آج اکیسویں صدی میں بھی بعض گھرانے جہاں غاروں میں رہنے پر مجبور ہیں وہیں ان علاقوں میں صحت، تعلیم، بجلی اور سڑکیں بھی نہ ہونے کے باعث ایک بہت بڑی آبادی زندگی کی بنیادی سہولیات کو ترس رہی ہے۔ افسوس اور حسرت اس بات پر ہے کہ قبائل جو جغرافیائی لحاظ سے انتہائی حساس علاقے میں رہائش پذیر ہیں اور جنہیں ورغلانے اور پاکستان کے خلاف صف آراء کرنے کی سازشیں نہ صرف ماضی میں ہوتی رہی ہیں بلکہ ان دنوں بھی قبائل کے احساسِ محرومی اور ان کے ساتھ روا رکھے جانے والے امتیازی سلوک کے تناظر میں ان کی وفاداریاں تبدیل کرنے اور انہیں پاکستان سے بے زار کرنے کے تمام منفی ہتھکنڈے آزمائے جارہے ہیں، لہٰذا ان نازک حالات کا تقاضا ہے کہ حکومت کے ساتھ ساتھ تمام مقتدر اداروں کو کسی بڑے حادثے اور خدانخواستہ کسی بڑے نقصان کا انتظار کرنے کے بجائے جتنا جلدی ہوسکے لگ بھگ ایک کروڑ قبائل کو قومی دھارے میں لانے کے لیے فی الفور وہ تمام ضروری آئینی، انتظامی اور قانونی اقدامات اٹھانے چاہئیں جو اس ضمن میں ناگزیر ہیں۔ امید ہے اس سلسلے میں مزید کسی تاخیر اور تساہل سے کام نہیں لیا جائے گا۔