پانی انسان کی بنیادی ضرورت ہے۔ ہوا کے بعد پانی ایسی ناگزیر چیز ہے جس کے بغیر زندگی کا تصور محال ہے۔اس طرح خالق کائنات نے ہمیں پانی کی نہایت قیمتی نعمت بھی وافر مقدار میں عطا کی ہے مگر اپنی نا اہلی، کم ہمتی اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے ہم آج کل پانی کی بھی شدید قلت سے دو چار ہیں۔ ملک میں پانی کے وسائل کی ریگولیٹری اتھارٹی ’ارسا‘ نے اپنی تازہ رپورٹ میں خبر دار کیا ہے ملک میں پانی کی صورتحال خطرناک ہے سکردو میں درجہ حرارت اس برس 4 سنٹی گریڈ زیادہ ہے لیکن برف پگھلنے کا عمل تیز نہیں ہو رہا اور دریائوں میں پانی کا بہائو 78,600 کیوسک کم ہو گیا ہے۔ خریف کے پہلے روز پانی کی قلت 60 فیصد ہو گئی اور ارسا نے چشمہ کینال کو فوری طور پر بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ دریائوں میں پانی کا بہائو 44 ہزار کیوسک ہے۔ گزشتہ برس ہی عرصے کے دوران بہائو 123,000 کیوسک تھا۔ اپریل سے ٹی پی لنک کینال بھی بند کر دی جائے گی۔ حریف سیزن کے آغاز میں 31 فیصد پانی کی کمی ہو سکتی ہے۔ پنجاب کے حصے کا پانی 29 ہزار کیوسک سے کم کر کے 26 ہزار کیوسک کر دیا گیا ہے۔
اس صورت حال کو بھی یقینا پسندیدہ قرار نہیں دیا جا سکتا کہ کام جن ادارروں کے کرنے کے ہیں وہ انہیں انجام دینے پر تیار نہیں ہیں اور جب ملک کی عدالتیں خصوصاً عدالت ہائے عالیہ اور عدالت عظمیٰ ان معاملات میں از خود، کسی کے توجہ دلانے پر یا کسی مقدمہ کی سماعت کے دوران مداخلت کرتی اور کوکی حکم جاری کرتی ہیں تو ہمارے حکمران اور سیاستدان چیخ و پکار کرتے اور اپنے معاملات میں مداخلت بے جا قرار دیتے ہیں
ملکی معاملات کا یوں تو آوئے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے مگر دیگر معاملات کو ایک طرف رکھئے اور صرف اسی ایک پانی ہی کے مسئلہ کو لے لیجئے… کیا سیاست دان اپنا کام کر رہے ہیں؟ حقیقت پسندانہ جواب یہی ہے کہ ’’نہیں‘‘… ابھی چند ہفتے قبل جناب منصف اعلیٰ نے کراچی میں پینے کے پانی کی صورت حال کا جائزہ لیا تو حالات ناگفتہ بہ تھے۔ سندھ جہاں جناب بلال زرداری کی پارٹی کی حکمرانی ہے اس کے دارالحکومت کراچی، ہے شہری اول تو مناسب مقدار میں پانی کی فراہمی سے ہی محروم ہیں اور جو پانی فراہم کیا جاتا ہے وہ بھی انسانی جان کے لیے مضر اور ناقابل استعمال ہے جب سندھ حکومت نے اس صورتحال کی اصلاح کے لیے کوئی اقدام نہ کیا تو مجبوراً عدالت عظمی کو مداخلت کرنا پڑی اور ایک سابق جج صاحب کو سندھ واٹر بورڈ کی سربراہی سونپ کر انہیں شہریوں کو پینے کے لیے صاف پانی مناسب مقدار میں فراہم کرنے کی ہدایت کی گئی۔ اسی ضمن میں چار اپریل کے روزنامہ ’’جسارت‘‘ کراچی میں خبر شائع ہوئی ہے کہ ضلعی حکومت جامشورو واٹر کمیشن کے احکام پر عملدرآمد کرنے میں ناکام ہو گئی ہے اور دریائے سندھ سے متصل آبادیوں کو انسانی فضلہ اور گندگی ملا پانی پینے کے لیے فراہم کیا جا رہا ہے چنانچہ یہاں کے شہریوں نے عدالت عظمیٰ سے درخواست کی ہے کہ وہ انہیں صاف پانی کی فراہمی کے لیے احکام جاری کر ے…!!!
یہ تو کراچی اور سندھ کے اندرونی علاقوں میں پینے کے پانی کی صورت کا ذکر تھا ملک کے دیگر علاقوں اور صوبوں میں بھی حالات یقینا اس سے مختلف نہیں… لیکن آیئے دیکھیں ملک میں پانی کی شدید قلت جس کا ذکر ‘‘ارسا‘‘ کی رپورٹ میں کیا گیا ہے… اس ضمن میں بھی سیاست دانوں کا طرز عمل بہت زیادہ مختلف نہیں یہاں بھی عدالت عظمیٰ کی مداخلت ضروری قرار پائی ہے۔ جس نے کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بارے میں ریفرنڈم کرانے کے لیے کم و بیش پونے دو سال قبل 24 جون 2016 کو آئین کی دفعہ 184/3 کے تحت دائر کی گئی ایک درخواست کی سماعت دو اپریل کو شروع کی اور پندرہ یوم میں حکومت سے کالا باغ یا متبادل ڈیموں کی تعمیر کے لیے کئے گئے اقدامات کی رپورٹ طلب کی ہے۔عدالت نے حکومت سے کالا باغ ڈیم کے بارے میں مشترکہ مفادات کونسل کے فیصلے کی روشنی میں آگاہی مہم چلانے کے بارے میں کئے گئے اقدامات کی رپورٹ بھی طلب کی ہے۔ عدالت نے آبزرویشن دی آنے والے وقت میں پانی بہت بڑا ایشو ہو گا لیکن پانی کی فراہمی کے فیصلے حکومت نے کرنا ہیں۔ درخواست گزار بیرسٹر ظفر اللہ نے بتایا 2025 ء تک ذخیرہ شدہ پانی ڈیڈ لیول تک پہنچ جائے گا، اگر فوری طور پر مناسب انتظام نہ کیا گیا تو ملک میں پانی کا بہت بڑا بحران پیدا ہو جائے گا۔ ہر گزرتے دن کے ساتھ ملک میں پانی کی قلت پیدا ہو رہی ہے متبادل انتظام نہ ہونے کی وجہ سے حالات گھمبیر ہوتے جا رہے ہیں۔ جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا اس میں کوئی شک نہیں ملک میں ڈیم بننے چاہئیں لیکن کالا باغ ڈیم کے معاملے پر صوبوں میں اتفاق نہیں۔ فاضل جج نے کہا مشترکہ مفادات کونسل نے کالا باغ ڈیم سے متعلق عوامی سطح پر آگاہی پیدا کرنے پر زور دیا اور آگاہی مہم چلانے کا فیصلہ کیا لیکن فیصلے پر عمل نہیں ہوا، سابق چیئرمین واپڈا نے کالا باغ ڈیم پر آگاہی مہم شروع کی تو نکال دیا گیا۔ درخواست گزار بیرسٹر ظفر اللہ نے کہا اگر نام کا مسئلہ ہے تو کالاباغ کی جگہ بینظیر بھٹو ڈیم رکھ لیں لیکن یہ ڈیم پاکستان کا مستقبل ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مسئلہ نام کا نہیں مسئلہ گہرا ہے۔
پاکستان میں پانی کی قلت کی نازک صورت حال کے بارے میں دو رائے نہیں ’’ارسا‘‘ کی رپورٹ میں بھی اسی جانب اشارہ کیا گیا ہے… یہ نہیں کہ ہمارے خطے میں پانی کی قلت ہے بلکہ المیہ یہ ہے کہ ہم دستیاب آبی وسائل سے استفادہ کی درست منصوبہ بندی کرنے میں بحیثیت قوم قطعی نا اہل ثابت ہوئے ہیں۔ 1960ء کی دہائی میں بننے والے منگلا اور تربیلا کے بعد آج تک کوئی قابل ذکر ڈیم ہم نے نہیں بنایا… کالا باغ ڈیم کی منصوبہ بندی نصف صدی قبل کی گئی اور اس پر قومی خزانے سے بھاری رقم بھی خرچ ہوئی مگر دشمن کی سازش سے اسے متنازعہ بنا دیا گیا اور ہم اس کی ضرورت اور اہمیت کا اعتراف کرنے کے باوجود قومی اتفاق رائے نہ ہونے کے باعث اس کی تعمیر کی جانب ایک قدم بھی پیش قدمی نہیں کی جا سکی اور اب یہ معاملہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت میں زیر سماعت ہے…!!!
ہمارے حکمرانوں کے قومی مسائل پر غیر ذمہ دارانہ طرز عمل کا یہ نتیجہ ہے کہ ایک جانب ہم پانی کی شدید قلت سے دو چار ہیں اور دوسری جانب جب سیلاب آتا ہے تو اس کی تباہ کاریاں روکنا بھی ہمارے بس سے باہر ہوتا ہے ابھی 2010ء میں جب ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا اور تباہ کن سیلاب آیا تو آدھے سے زیادہ صوبہ خیبر اس میں ڈوب گیا اگر ہم نے اس سیلابی پانی کو بروقت ذخیرہ کرنے کا انتظام کالا باغ یا کسی دوسرے ڈیم کی شکل میں کیا ہوتا تو نہ صرف سیلاب کی تباہ کاریوں سے محفوظ رہا جا سکتا تھا بلکہ اس پانی کو ملک میں آب پاشی اور سستی ترین بجلی کی تیاری کے لیے استعمال کیا جا سکتا تھا اور لوڈشیڈنگ کے عذاب سے بآ سانی نجات حاصل کی جا سکتی تھی مگر ہمارے سیاست دانوں کو کون سمجھائے کہ موجودہ حکمران جو لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا جھوٹا اور بے بنیاد پروپیگنڈہ صبح شام کرتے نہیں تھکتے انہوں نے بھی گزشتہ پانچ برس کے دوران مہنگی بجلی کے تو کئی منصوبے ملک میں لگائے ہیں مگر سستی آبی بجلی اور آبپاشی کے لیے وافر پانی کی فراہمی کے لیے کوئی ایک بھی آبی ذخیرہ پورے ملک میں نہیں بنایا…!!!
اب بھی وقت ہے ہمارے حکمران اور سیاستدان ہوش کے ناخن لیں۔ عدالت عظمیٰ کے فیصلے کا انتظار کئے بغیر قومی مفاد میں مل بیٹھ کر ملک میں آبی ذخائر کی تعمیر کا فیصلہ کریں…کالا باغ ڈیم کی تعمیر متنازعہ ہونے کے سبب فی الحال مشکل ہو تو بہت سے دیگر آبی ذخائر بنانے کے مواقع بھی موجود ہیں… سیاست دان قومی مفاد میں اتفاق رائے سے اس جانب پیش رفت کریں اور اس حقیقت کو فراموش نہ کریں کہ ہمارے ازلی دشمن بھارت کا انتہا پسند وزیر اعظم نریندر مودی کسی شرم و حیاء کے بغیر یہ اعلان کر رہا ہے کہ وہ پاکستان جانے والے پانی کے آخری قطرے کو بھی روکے گا اور فی الحقیقت بھارت نہایت تندہی سے اس طرف بڑھ بھی رہا ہے سندھ طاس معاہدہ کے تحت راوی، ستلج اور بیاس کے دریائوں کا پانی اپنے استعمال میں لانے کے بعد وہ اب اس معاہدہ کے تحت پاکستان کے حصہ میں آنے والے تین دریائوں سندھ چناب اور جہلم کا پانی روکنے کے لیے بھی اپنے زیر قبضہ علاقہ میں ڈیم تعمیر کر چکا ہے اور نہایت تیزی سے پاکستان کے حصے کے ان تین دریائوںکا رخ موڑ کر ہمیں ان کے پانی سے محروم کرنے کے منصوبہ پر عمل پیرا ہے مگر ہمارے حکمران سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ٹھوس عملی اقدام سے گریزاں ہیں… نہ جانے کیوں ؟؟؟