مولانا جان محمد عباسی مرحوم کی یاد میں

ماہِ اپریل میں بچھڑ جانے والے ساتھیوں اور بزرگوں میں ہمارے عظیم مربی اور استاد جناب مولانا جان محمد عباسی کا اسم گرامی بہت نمایاں ہے۔ مولانا مرحوم جماعت اسلامی کی قیادت میں اپنی ذہانت و فراست اور جچی تلی رائے، علمی و سیاسی موضوعات پر فکرانگیز تجزیے اور عالمی حالات پر گہری نظر کی وجہ سے بہت نمایاں تھے۔ ایک طویل عرصہ مولانا کی سرپرستی اور شفقت حاصل رہی۔ مولانا جان محمد عباسی صاحب کو مرکزی مجلس شوریٰ و عاملہ میں بھی سننے کا اتفاق ہوا۔ تربیتی و تنظیمی پروگراموں میں بھی ان کے خطابات سنے۔ عوامی جلسوں میں بھی ان کے ساتھ شرکت کے مواقع ملے۔ مرحوم کے ساتھ سندھ کے مختلف علاقوں میں سندھی وڈیروں اور دیگر سیاسی جماعتوں کے قائدین سے ملاقات کے لیے جانے کا اتفاق بھی ہوا۔ اس کے علاوہ نہایت نازک ایشوز پر مرکزی ذمے داران کی مشاورتوں میں بھی ان کے ساتھ بارہا شرکت کی۔ موقع محل کے مطابق جچے تلے الفاظ میں بھرپور دلائل کے ساتھ اپنی بات پیش کرنے کا ایسا سلیقہ اور ملکہ مولانا کو حاصل تھا کہ ان پر رشک آتا تھا۔ مولانا جذبات میں آکر کبھی کوئی بات نہیں کہتے تھے۔ حالات کا بے لاگ تجزیہ کرتے۔ دلائل کے ساتھ اپنی بات کی وضاحت کرتے اور بیچ میں کبھی کبھار موقع کی مناسبت سے ہلکے پھلکے مزاحیہ انداز میں مجلس کو کشتِ زعفران بھی بنا دیتے۔
مولانا عباسی مرحوم کا یہ اعزاز بھی قابلِ رشک ہے کہ بانی جماعت اور ان کے جانشین ِاوّل میاں طفیل محمد صاحب کے ساتھ انھوں نے طویل عرصے تک صفِ اوّل میں کام کیا۔ دونوں بزرگ، عباسی صاحب کی بڑی قدر کرتے تھے۔ پھر عباسی صاحب نے کئی برسوں تک محترم قاضی حسین احمد صاحب کے ساتھ بھی بطور نائب امیر کام کیا۔ قاضی صاحب مولانا کا بے پناہ احترام کرتے تھے اور ان کی رائے کو بہت زیادہ وقعت دیتے تھے۔ مولانا بھی حقِ نصیحت و خیر خواہی ادا کرنے میں مثالی کردار ادا کرتے رہے اور کبھی کسی مداہنت سے کام نہ لیا۔
مولانا امیر صوبہ سندھ تھے اور راقم پر صوبہ پنجاب کی امارت کی ذمے داری تھی۔ مجالس میں اکٹھے بیٹھنے اور خاصی طویل نشستوں کا شرف حاصل ہوجاتا تھا۔ قبل ازیں مولانا کے ساتھ اس دور میں بھی طویل رفاقت اور اکٹھے سفر کے مواقع ملتے رہے جب میں مرکز میں نائب قیم تھا۔ اُس زمانے میں جماعت اسلامی صوبہ سندھ کا دفتر لطیف آباد، حیدرآباد میں کرائے کی عمارت میں ہوتا تھا۔ مولانا بذلہ سنج اور خوش مزاج بھی تھے مگر اپنے ساتھیوں کی اصلاح کے لیے کبھی کبھار سنجیدگی اور سخت لہجہ بھی اختیار کیا کرتے تھے۔ مولانا عباسی صاحب اور میاں طفیل محمد صاحب دونوں بزرگوں کو شوگر کا مرض لاحق ہوگیا تھا۔ دونوں کا اپنا اپنا مسلک تھا۔ میاں صاحب زیادہ پرہیز کے قائل نہ تھے مگر مولانا عباسی مرحوم بہت محتاط رہا کرتے تھے۔ میرے ساتھ عاملہ کے اجلاس میں بیٹھے ہوتے، اگر کوئی میٹھی چیز چائے کے دوران آجاتی تو اسے بالکل ہاتھ نہ لگاتے تھے۔
ایک مرتبہ آئس کریم آگئی تو میں نے کہا ’’حضرت بِسْمِ اللّٰہِ الَّذِیْ لَا یَضُرُّمَعَ اسْمِہٖ شَیْئٌ فِی الْاَرْضِ وَلَا فِی السَّمَآئِ وَھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْم‘‘ پڑھ کر کھا لیجیے۔ میں نے اگرچہ مذاق ہی میں کہا تھا، مگر مولانا نے سنجیدگی اور قدرے ناراضی سے مجھے ٹوکا اور کہا کہ شوگر کے مریض کو تو خود بہت زیادہ اشتیاق ہوتا ہے کہ میٹھا کھایا جائے، مگر اس کے احباب کی ذمے داری ہوتی ہے کہ اس معاملے میں حوصلہ افزائی کے بجائے اسے اجتناب کی تلقین کریں۔ نیز مسنون دعا کا یہ طریقۂ استعمال بھی محلِ نظر ہے۔ مجھے مولانا کی یہ بات بہت اچھی لگی کہ انھوںنے طبی اور دینی دونوں معاملات میں میری راہ نمائی فرما دی۔ میں نے ان کا شکریہ ادا کیا تو وہ اس پر بھی خوش ہوئے اور جلال نے پھر جمال کا روپ دھار لیا۔
مولانا کو بہت عرصے سے بلڈ پریشر اور شوگر کا مرض تھا۔ آخر میں گردوں نے بھی کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ آخری چند سال تو ہفتے میں دو دفعہ گردوں کی دھلائی کے لیے ہسپتال بھی جانا پڑتا تھا، پھر بدقسمتی سے فالج کا حملہ بھی ہوگیا۔ صحت کی کمزوری کے باوجود مولانا کی ذہانت و یادداشت بلکہ حسِ مزاح مکمل طور پر بحال رہی۔ ان کی علالت کے دوران جب بھی کبھی کراچی جانے کا اتفاق ہوتا میں لازماً ان کی خدمت میں حاضر ہوکر مزاج پرسی کرتا۔ وہ ملاقات پر بہت خوش ہوتے، رخصت کرتے وقت اصرار کے ساتھ سیٹرھیوں تک تشریف لاتے۔ ایک مرتبہ میں اور پروفیسر عبدالغفور احمد صاحب ان کی وفات سے کچھ عرصہ قبل عیادت کے لیے گئے۔ مولانا صاحب کے بیٹے قربان عباسی اور مولانا کے داماد منظور احمد عباسی صاحب جو ڈاکٹر ہیں، بھی موجود تھے۔
جب ہم نے مولانا کے سامنے بعض امور پر گفتگو کی اور ان کے عظیم الشان کارناموں کا ذکر کیا تو مولانا ہلکی مسکراہٹ کے ساتھ فرمانے لگے: آپ لوگوں کا شکریہ۔ آپ میری ہمت افزائی کررہے ہیں، لیکن آپ کو معلوم ہے کہ جماعت میں بہت عرصے سے میں ہمت بندھاؤ کمیٹی کا سربراہ رہا ہوں۔ مولانا کا اپنا زندگی بھر کا معمول یہ تھا کہ اپنے کمزور، بیمار، ضعیف العمر اور معذور ساتھیوں سے مسلسل ملاقات کرتے اور انھیں حوصلہ اور دعا دیتے۔ اب بھی ان کا مطلب یہ تھا کہ بیماری کے باوجود نہ ان کے حوصلے پست ہوئے ہیں، نہ انھوں نے ہمت ہاری ہے۔
مولانا کو اللہ نے اولاد میں پانچ بیٹے اور چھے بیٹیاں عطا فرمائیں۔ مولانا کا ایک بیٹا نجم الدین عباسی، جو اسلامی جمعیت طلبہ کا رکن تھا، جہادِ افغانستان میں شریک ہوا اور1989ء میں خوست کے محاذ پر رتبۂ شہادت پر فائز ہوا۔ مجھے بعد میں نجم الدین عباسی شہید کی جائے شہادت دیکھنے کا موقع ملا۔ مولانا کو افغانستان کے ساتھ خود بھی ایک خصوصی تعلق تھا۔ کئی مرتبہ افغانستان کے دورے پر تشریف لے گئے۔ تمام مجاہد راہ نما ان کا بڑا احترام کرتے تھے۔ نجم الدین عباسی کی شہادت کی صورت میں مولانا نے سرزمینِ افغانستان پر اپنا خونِ جگر پیش کرکے افغانستان کے ساتھ اپنے تعلق پر مہرِ تصدیق ثبت کردی۔ اپنے بیٹے کی شہادت اور پھر اس کے جنازے کے موقع پر مولانا نے جن جذبات کا اظہار کیا، اس نے بھی مولانا کی عظمت کو چار چاند لگا دیے۔
مولانا کے بڑے بیٹے قربان علی عباسی سیاسی ذہن رکھتے ہیں اور جوڑتوڑ کے ماہر سمجھے جاتے ہیں، وہ اپنی ’’کامیاب سیاست‘‘ کے لیے مختلف پارٹیوں کا بینر اٹھاتے رہتے ہیں، جبکہ مولانا جان محمد عباسی صاحب نے سوچ سمجھ کر ایک ہی بینر اُٹھایا اور زندگی بھر اسی کو سربلند کرنے کی کوشش کرتے رہے۔ مولانا کے دوسرے دو بیٹے بدرالدین اور قمرالدین کاروبار میں مصروف ہیں اور جماعت اسلامی کے ساتھ قلبی وابستگی رکھتے ہیں۔ مولانا کے آخری دو بیٹے شمس الدین عباسی اور نجم الدین عباسی جڑواں تھے۔ دونوں اسلامی جمعیت طلبہ میں سرگرم رہے۔ نجم نے تو جام شہادت نوش کیا، جبکہ شمس الدین تحریک اسلامی میں اپنے غازی والد کے نقش قدم پر چلتے ہوئے دعوت و جہاد اور تنظیم میں آگے بڑھ رہے ہیں۔ وہ 1992ء میں جماعت اسلامی کے رکن بنے، پھر مختلف ذمے داریوں سے ہوتے ہوئے 2001ء میں جماعت اسلامی لاڑکانہ شہر کے امیر مقرر ہوئے، اور2004ء میں لاڑکانہ کے ضلعی امیر بنائے گئے۔ 2007ء میں سندھ کی صوبائی مجلس شوریٰ کے رکن منتخب ہوئے۔ ضلعی امارت کی ذمے داری سنبھالنے کے بعد ایک مرتبہ ٹیلی فون پر عزیزم شمس الدین نے مجھے پروفیسرعبدالغفور احمد صاحب کے مکان پر منعقدہ تعزیتی ریفرنس کے حوالے سے اطلاع دی کہ انھوں نے میری نصیحت کے مطابق اپنے عظیم والد ِگرامی مرحوم کی روح کو تسکین پہنچانے کا اہتمام کیا ہے (یعنی جماعت کا رکن بن گیا ہوں) اور یہ خالصتاً اللہ کی توفیق سے ہوا ہے۔ میں نے عزیزم کوڈھیروں دعائیں دیں۔ اللہ انھیں مزید ہمت، حوصلہ اور استقامت بخشے۔
سندھ کے تمام وڈیرے، قطع نظر اس سے کہ وہ کس پارٹی سے ہیں، مولانا کا بے حد احترام کرتے تھے۔ عبدالسلام آرائیں مرحوم اور برادرم محمد ایوب انصاری ایک واقعہ کے راوی ہیں جسے سندھ کے اور بالخصوص لاڑکانہ کے اکثر لوگ جانتے ہیں کہ بھٹو مرحوم نے جب ایوب خان سے علیحدگی اختیارکی اور پہلی مرتبہ لاڑکانہ آئے تو مولانا عباسی کو پیغام بھیجا کہ وہ ان کے ساتھ ملاقات کریں اور نئی وجود میں آنے والی ان کی سیاسی جماعت کے قیام میں تعاون کریں، لیکن مولانا نے معذرت کی۔ کچھ عرصے بعد پھر بھٹو صاحب کا ایک ایسا ہی پیغام ملا تو بھی مولانا نے معذرت کردی، پھر بھٹو صاحب نے کہا کہ میں خود آپ کے پاس آنا چاہتا ہوں تو مولانا نے فرمایا کہ آپ نہ آئیں، میں ہی آپ کے پاس آجاؤں گا۔
جب بھٹو صاحب نے اپنا مدعا بیان کیا تو عباسی صاحب نے فرمایا: ’’سائیں، ہم ایک شہر اور ایک ملک کے رہنے والے ہیں۔ باہمی تعلقات جو سماج اور معاشرت کا لازمی حصہ ہیں، ضرور قائم رہنے چاہئیں مگر نظریاتی، فکری و سیاسی سوچ اور منزل و مقاصد لگّا نہ کھاتے ہوں توکبھی اشتراک نہیں ہوسکتا۔ میں ایک وادی میں ہوں اور آپ بالکل دوسری وادی میں۔ میں آپ کا ساتھ نہیں دے سکتا۔ میں نے سوچ سمجھ کر اپنا راستہ اور منزل متعین کی ہے۔ میری زندگی اور موت اب اسی راہ پر اور اسی منزل کے لیے وقف ہے۔‘‘
مرحوم کی یہ یک سوئی ان کے لیے بھی اورجماعت اسلامی کے لیے بھی عظیم سرمایہ ہے۔