منصورہ لاہور سے محترم محمد انور علوی نے ہماری خبر لی ہے، لیکن اس کا تذکرہ بعد میں۔ سہ ماہی ’’بیلاگ‘‘ جناب عزیز جبران انصاری بڑی محنت سے شائع کرتے ہیں۔ اس میں ہم سب سے پہلے صحتِ الفاظ سے متعلق مضمون ضرور پڑھتے اور اپنی اصلاح کرتے ہیں۔ تازہ شمارے (جنوری تا مارچ) میں اس بار نواب شاہ کی لیکچرار ثمرین ملک نے قلم اٹھایا ہے لیکن حیرت ہے کہ انہوں نے ’’مخمور‘‘ کو ہندی۔ صفت قرار دیا ہے۔ (صفحہ :95)
اس لفظ کی تو بناوٹ ہی بتارہی ہے کہ یہ عربی کا لفظ ہے، ہندی سے اس کا کیا تعلق! یوں بھی ہندی میں ’خ‘ کا استعمال بہت کم ہے اور اس کا تلفظ ’’کھ‘‘ کیا جاتا ہے۔ خوبصورت بھی اب ’’کھوب صورت‘‘ ہوگیا ہے۔ بہرحال، ثمرین ملک نے مخمور کا مطلب تو صحیح دیا ہے۔ موصوفہ نے ’’مے‘‘ (م ء ے) کو مذکر قرار دیا ہے۔ جانے کس لغت سے استفادہ کیا ہے۔ یعنی مئے پیا جاتا ہے۔ مخمور عربی کا لفظ ہے، یعنی صاحبِ خمار، نشے میں چُور، مست، متوالا۔ بعض فصحا بمعنی سنت متروک قرار دیتے ہیں، ان کی مرضی۔ مے فارسی کا لفظ اور مونث ہے۔ ایک شعر دیکھیے:
انگور میں تھی یہ مے پانی کی چار بوندیں
جس دن سے کھنچ گئی ہے تلوار ہو گئی ہے
خَمر (’خ‘ بالفتح) شراب کو کہتے ہیں۔ اسی سے خُمار بھی ہے، (یہاں ’خ‘ پر پیش ہے)۔ یہ نشہ اترنے کے بعد کی کیفیت ہے۔ خمار ٹوٹتا ہے تو سر میں درد ہوتا اور بدن ٹوٹتا ہے۔ اس کیفیت کو دور کرنے کے لیے تھوڑی سی اور پی جاتی ہے۔ ناسخ کا شعر ہے:
توڑوں بھلا میں فرقت ساقی میں کیا خمار
سر پھوڑوں آج طاق سے بوتل اتار کے
ناسخ نے سر پھوڑا یا نہیں، اس کے بارے میں تمام تذکرے خاموش ہیں۔ شاعروں میں ریاض خیر آبادی شاعرِ خمریات کہلاتے تھے لیکن حضرت نے کبھی پینا تو کیا شراب خانے کے پاس سے گزرنا بھی پسند نہ کیا، تاہم یہ ضرور کہہ گئے:
کمر سیدھی کرنے ذرا میکدے میں
عصا ٹیکتے کیا ریاض آ رہے ہیں
’خ‘ کے ہندی میں ’کھ‘ ہوجانے پر ایک دلچسپ لفظ نظر سے گزرا جس میں معاملہ الٹ ہے۔ اردو میں ایک لفظ خُرّانٹ ہے۔ ویسے تو اس کا مطلب تجربہ کار اور بوڑھا آدمی ہے لیکن اس کا استعمال منفی معنوں میں ہوتا ہے۔ یہ لفظ اصل میں ہندی کا کُھرّانت ہے مگر اردو میں آکر کھ ’خ‘ سے بدل گئی اور ’ت‘ کی جگہ ’ٹ‘ نے لے لی۔
منگل 3 اپریل کے ایک کثیرالاشتہار اخبار میں ایک جلیل القدر کالم نگار کا کالم شائع ہوا ہے، اس میں ایک بڑا امر جملہ ہے: ’’علاج معالجہ کے لیے بمعہ اپنی آل اولاد کے ساتھ‘‘۔ بمعہ کی جگہ ’مع‘ ہوتا تو اچھا تھا، مگر اس کے بعد ’’کے ساتھ‘‘ تو بالکل ہی غلط ہے‘‘۔ مع کا مطلب ہی ’کے ساتھ‘ ہے۔ ’’بمعہ‘‘ لغت میں ہے ہی نہیں۔ ’مع‘ عربی کا لفظ ہے، اسم جار ہے اور ہمیشہ اضافت کے ساتھ استعمال میں آتا ہے۔ اس کو ’’معہ‘ لکھنا غلط ہے۔ ’مع‘ کا مطلب ہے ساتھ، ہمراہ۔ مع الخیر یعنی خیریت کے ساتھ۔ اب چونکہ مذکورہ کالم کا مستقل عنوان ’’سب جھوٹ‘‘ ہے اس لیے اس پر مزید کیا بات کرنا۔ لیکن مع کی جگہ ’’بمع‘‘ یا ’’بمعہ‘‘ کی غلطی عام ہوگئی ہے۔
اب عزیزم کلیم چغتائی کا محبت نامہ ملاحظہ کریں جو نہ صرف کئی کتابوں کے مصنف ہیں بلکہ اچھے بھلے محقق ہیں۔ وہ لکھتے ہیں ’’فرائیڈے اسپیشل کے تازہ شمارے میں آپ نے ایک معروف ادبی شخصیت کے انٹرویو میں ’’فی البدیہ‘‘ پر گرفت فرمائی ہے۔ آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’بدیہ‘‘ کوئی لفظ نہیں، جبکہ فی البدیہہ کا مطلب ہے: ’’فوراً، بے سوچے سمجھے کہنا، برجستہ۔ اس بحث کو پڑھ کر میں نے دستیاب لغات کو کھنگالا۔ عجب مخمصہ پیدا ہوگیا ہے۔ استاذ المکرم سے رہنمائی کی درخواست ہے۔ (یہ کون ہیں؟)
مولوی نورالحسن نیر اور جناب وارث سرہندی آپس میں متفق ہیں کہ ’’بدیہہ‘‘ لکھنا چاہیے (انہوں نے اپنے لغات میں یہی لکھا ہے۔ ویسے یہ بات حیران کن ہے کہ لغت اپنی واحد شکل میں مونث رہتی ہے اور جمع بن کر مذکر بن جاتی ہے) لیکن مولوی سید احمد دہلوی اپنی فرہنگ آصفیہ میں ’’بدیہ‘‘ لکھتے ہیں۔
اسی وزن پر کچھ اور صفات بھی پائی جاتی ہیں۔ مثلاً کریہ یا کریہہ، وجیہ یا وجیہہ۔
یہاں بھی ’’مسلک‘‘ کا وہی اختلاف ہے۔ نوراللغات اور علمی اردو لغت، کریہہ اور وجیہہ پر متفق ہیں جبکہ فرہنگ آصفیہ کے مرتب ان الفاظ کو کریہ اور وجیہ لکھنا پسند کرتے ہیں۔ البتہ ’’فی البدیہہ‘‘ وہ لکھ گئے ہیں۔ ممکن ہے یہ ’’اصلاح‘‘ ان کے کاتب صاحب نے فرما دی ہو۔
اگر تینوں فاضل مرتبین کو درست مان بھی لیا جائے تو یہ الجھن اپنی جگہ برقرار رہتی ہے کہ بہت سے لوگ اپنی بچی کا نام ’’وجیہہ‘‘ رکھتے ہیں۔ کیا اسے ’’وجیہہہ‘‘ لکھنا درست ہوگا؟ اسی طرح ’’شبیہہ‘‘ لکھنا درست ہوگا یا ’’شبیہ‘‘؟
ہمارے ایک دوست نے اپنی بیٹی کا نام نبیہہ رکھا ہے۔ میں نے Lane کی Lexicon میں تلاش کیا وہاں نبیہ کے معنی درج ہیں:
Eminet, Celebrated or Well-known
بھائی کلیم، آپ تو خود صاحبِ علم ہیں، ہم سے کیا پوچھتے ہیں! ایک صحافی وجیہ جب جسارت میں تھے تو اپنے نام میں ایک ’ہ‘ اور بڑھا کر لکھتے تھے یعنی وجیہہ۔ چنانچہ وجیہہ باجی کے نام خطوط آنے لگے۔ اب اسلام آباد میں ہیں مگر اپنے نام کی تصحیح کرلی ہے۔ شاید یاد ہو کہ ایک عرب سیاستدان نبیہ بیری ہوتے تھے مگر اردو اخبارات میں نبی بیری لکھا جاتا تھا۔ اگر نبیہہ لکھا جائے تو پڑھا بھی ’نبی ہا‘ جائے۔ نوراللغات سے ہم بھی استفادہ کرتے رہتے ہیں مگر اس میں غلطیاں بہت ہیں جو ظاہر ہے کہ کاتب کے سر گئی ہوں گی۔ یہ لغت نیشنل بک فائونڈیشن نے شائع کی ہے لیکن تصحیح کی زحمت گوارہ نہیں کی۔ تاہم نوراللغات میں لغت کو بھی مذکر قرار دیا گیا ہے اور دلیل کے طور پر دو شعر بھی دیے ہیں:
توحید کردگار کی فرہنگ ڈھونڈ دیکھ
ہرگز لغت نہیں ہے عدیل و سہیم کا
………
خورشید میں نے اس کو نہ لکھا تو عجب
میری کتاب میں یہ لغت منتخب نہ تھا
اور لغات کے بارے میں لکھا ہے کہ یہ لغت کی جمع اور مذکر ہے۔ بہت پہلے کسی کالم میں لغت کو مذکر لکھا تھا تو ایک بہت صاحبِ علم شخص نے اعتراض کیا تھا کہ جب اس میں تائے تانیث ہے تو یہ مذکر کیسے ہوئی۔ اب بتائیے، ہم کیا کریں۔