چینی کہاوت ہے کہ اگر آپ ایک سال کی منصوبہ بندی کرنا چاہیں تو مکئی اگائیں، اگر دس سال کی منصوبہ بندی کرنی ہو تو درخت لگائیں، اور اگر ہزار سال کی منصوبہ بندی مدنظر ہو تو لوگوں کی ذہن سازی کریں۔
79 سالہ درویش صفت یاور مہدی آج بھی نوجوانوں کی کردار سازی میں مصروفِ عمل ہیں۔ وہ جہاں بھی رہے یہ فریضہ عبادت سمجھ کر ادا کرتے رہے۔ ریڈیو پاکستان اور آرٹس کونسل کراچی کے شب و روز اس کے گواہ ہیں۔ ناسازیٔ طبع کے باوجود وہ ہر ماہ محفل سجاتے ہیں، ادیبوں شاعروں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں، ان کو کتابوں کی اشاعت میں مدد فراہم کرتے ہیں، نوجوانوں کی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے لیے پوری توجہ اور دلچسپی سے ان کے لیے مواقع فراہم کرتے ہیں، اور کسی نام و نمود اور صلے کی تمنا کیے بغیر آج بھی پیرانہ سالی میں اپنی کوششیں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ آپ کے احباب نے ’’بزمِ یاور مہدی‘‘ قائم کی جس کے تحت 126 ویں تقریب کے ڈی اے آفیسرز کلب میں گزشتہ دنوں منعقد ہوئی۔ اس تقریب کی صدارت کراچی کی معروف علمی، ادبی، سماجی، سیاسی شخصیت دوست محمد فیضی نے کی، جبکہ جامعہ کراچی کے اُن طلبہ و طالبات کو خصوصی طور پر مدعو کیا گیا جنہوں نے امسال ساہیوال پنجاب اور ڈیفنس اتھارٹی گرلز کالج کراچی میں ہونے والے کُل پاکستان تقریری مقابلے میں جامعہ کراچی کا نام روشن کیا اور اول، دوئم، سوئم پوزیشنیں حاصل کیں۔ ان طلبہ میں عمار عباسی نے تیسری اور محمد سلیمان آصف نے دوسری پوزیشن حاصل کی۔ پہلی پوزیشن حاصل کرنے والی طالبہ حفصہ طاہر اسلام آباد میں ہونے کی وجہ سے حاضر نہ ہوسکیں۔ جبکہ ان کے اساتذہ جن میں شمائلہ صمد خان قابلِ ذکر ہیں، ان کی حوصلہ افزائی کے لیے شریکِ محفل رہیں۔ کراچی کی معروف علمی و ادبی شخصیت، ساکنانِ شہر قائد مشاعرے کے حوالے سے علمی وادبی حلقوں میں نمایاں مقام رکھنے والے ندیم ہاشمی نے نظامت کے فرائض انجام دیے، اور جابجا برجستہ اشعار سنانے سے ان کی اعلیٰ سخن فہمی کا اندازہ ہوا۔ اس موقع پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے عادل شیخ، جنید ممتاز، شمائلہ صمد خان نے یاور مہدی کی خدمات کی تعریف کی اور کہا کہ اس شہر کے حالات کو بدلنے کے لیے یاور مہدی کی فکر اور کردار کو اپنانا ہوگا۔ اس موقع پر حاضرین نے عمارعباسی اور محمد سلیمان آصف کی تقاریر کے ان اقتباسات کو بھی سراہا جو انہوں نے وہاں پیش کیے۔ شہر کی معروف ادبی شخصیت راشد عالم نے کہا کہ ہم گزشتہ برسوں میں ان سرگرمیوں سے دور ہوتے جارہے تھے مگر چند لوگ ان نامساعد حالات کے باوجود بھی اندھیروں سے برسرپیکار رہے جن میں یاور مہدی کا نام نمایاں ہے۔ میں ان طلبہ و طالبات میں بہت ٹیلنٹ دیکھ رہا ہوں، یہ ہمارے ملک و قوم کا اثاثہ ہیں۔ معروف صحافی ضیاء الاسلام زبیری نے کہا کہ یاور مہدی نے مجھے جس طرح ’’بزم طلبہ‘‘ میں سپورٹ کیا وہ مجھے آج بھی یاد ہے۔ اور نہ صرف مجھے بلکہ خوش بخت شجاعت، اسد اشرف ملک اور دوست محمد فیضی سمیت سینکڑوں نام اس سلسلے میں لیے جاسکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ آج کل تقریری مقابلے میں جو موضوعات دیے جاتے ہیں وہ سنجیدہ نہیں ہوتے، جبکہ ہمارے زمانے میں جو موضوعات ہوتے تھے وہ کردار سازی میں اہم کردار ادا کرتے تھے۔ طلبہ تنظیموں کی وجہ سے کراچی میں بڑے بڑے موضوعات پر نہایت اعلیٰ تقریری مقابلے منعقد ہوئے، مگر طلبہ تنظیموں پر پابندی کی وجہ سے یہ عمل رک گیا، ان تنظیموں کی بحالی بہت ضروری ہے۔ انہوں نے اُن 15 مشقوں کے بارے میں بھی حاضرین کو بتایا جو فنِ مقرری کے لیے لازمی ہیں۔ صدرِ محفل دوست محمد فیضی نے کہا کہ کراچی یونیورسٹی پورے پاکستان کی یونیورسٹیوں کی ماں ہے۔ میں آج جو کچھ بھی ہوں وہ اسی یونیورسٹی کی بدولت ہوں۔ تقریر کرنا بڑا مشکل کام ہے، بڑے بڑے پہلوان بھی یہ کام نہیں کرسکتے، طلبہ و طالبات کو چاہیے کہ وہ مصروفِ عمل رہیں، ہمیں اپنے شہر کو دوبارہ خوشحال کرنا ہے، ہمیں محبت کے راستے اپنی منزل طے کرنی ہے، ہمیں کراچی کو وہ مقام دینا ہے جو ماضی میں اس کی پہچان تھا۔ انہوں نے کہا کہ یاور مہدی جوہر شناس آدمی ہیں، انہیں اللہ نے اسی کام کے لیے پیدا کیا ہے کہ یہ نوجوانوں کے ٹیلنٹ کو اجاگر کریں۔ آپ کی کردار سازی کے نتیجے میں ہمارے شہر میں پیرزادہ قاسم، رضا ربانی، پروین شاکر، قاسم جلالی، منور سعید، کاظم پاشا جیسی شخصیات سامنے آئیں۔ مجھے بزم یاور مہدی کی جانب سے دیا جانے والا یہ ایوارڈ میری زندگی کا بڑا ایوارڈ ہے۔
اس موقع پر بزم یاور مہدی کی جانب سے صدرِ محفل کے علاوہ مہمانِ خصوصی ضیاء الاسلام زبیری کو بھی لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ دیا گیا۔ جبکہ امریکہ سے تشریف لائی ہوئی ملکہ جعفری اور کینیڈا سے آئے ہوئے جمال اظہر کو گلدستے پیش کیے گئے۔ تمام حاضرین کے لیے پُرتکلف عشائیہ کا اہتمام کیا گیا۔ خرم سعید نے تمام مہمانوں کا یاور مہدی کے صاحبزادے نقی مہدی کی جانب سے شکریہ ادا کیا۔