افسانے کے فن پہ زوال کے بعد اب قارئین میں شخصی خاکے پڑھنے کا رجحان بڑھتاجارہاہے۔ ادھر دس پندرہ برسوں میں اردو میں شخصی خاکوں کی نہایت معیاری کتابیں چھپی ہیں۔ ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر ابوالخیر کشفی، حمزہ فاروقی، ڈاکٹر داؤد رہبر، نذرالحسن صدیقی… اسی طرح ہندوستان میں ڈاکٹر گیان چند، شمیم حنفی، جاوید صدیقی اور دیگر خاکہ نگاروں نے اپنے فنِ خاکہ نگاری سے اس صنف کی نت نئی جہتوں کو دریافت کیا ہے۔ ابھی حال ہی میں عصمت چغتائی کے خاکوں کو یکجا کرکے عقیل عباس جعفری نے شائع کیا ہے جس میں اُن کا اپنے بڑے بھائی مرزا عظیم بیگ چغتائی پر معرکہ آرا خاکہ ’’دوزخی‘‘ بھی شامل ہے۔ اس خاکے نے کسی زمانے میں بڑی دھوم مچائی تھی۔ منٹو نے اسے پڑھ کر عصمتؔ سے کہا تھا کہ اگر میرے مرنے پر تم ایسا ہی خاکہ لکھنے کا وعدہ کرو تو ابھی مرنے کے لیے تیار ہوں۔
خود منٹو کے مجموعے ’’گنجے فرشتے‘‘ میں بے مثال خاکے ہیں۔ ان میں پہلا خاکہ قائداعظم پر ’’میرا صاحب‘‘ قائد کی شخصیت اور احوال پر بالکل نئے پہلوؤں کو سامنے لاتا ہے۔ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ شخصی خاکے انسان کو سمجھنے کی ایک کوشش ہے۔ انسان خود قدرت کا ایک راز ہے، اور اس راز کو ایک تخلیق کار، ایک لکھنے والا سمجھنے کی گہرائی میں اتر کر جستجو کرتا ہے۔ باطن کی تاریک دنیا کی جو جیسی اور جتنی خبر لاتا ہے، خاکے کا معیار اسی سے متعین ہوتا ہے۔
فاروق عادل ایک منجھے ہوئے صحافی، سفرنامہ نگار اور ان دنوں صدر مملکت کے میڈیا ایڈوائزر ہیں۔ چند برس پہلے ان کا سفرنامہ ’’ایک آنکھ میں امریکا‘‘ دوست پبلی کیشنز سے چھپ کر پڑھنے والوں کی داد وصول کرچکا ہے۔ اب وہ شخصی خاکوں کا مجموعہ ’’جو صورت نظر آئی‘‘ کے ساتھ بزم ادب میں نمودار ہوئے ہیں۔ کتاب معنوی اور صوری دونوں اعتبار سے نہایت دل چسپ اور لائقِ مطالعہ ہے۔
لکھنا ایک آرٹ یا ہنر ہے تو فاروق عادل کو اس میں بڑی مہارت حاصل ہے۔ تحریر اور اسلوبِ تحریر میں دلچسپی پیدا کرنے کے لیے افسانوی ادب کا مطالعہ مدد بہم پہنچاتا ہے۔ لہٰذا خاکوں کی اس کتاب میں شخصیات کا تعارف جس تخلیقی انداز میں کرایا گیا ہے اُس سے پتا چلتا ہے کہ فاروق نے افسانوی ادب کا مطالبہ بہت جم کر کیا ہے۔ ان کی نثر صحافتی نہیں، ادبی اور تخلیقی انداز کی ہے۔ چنانچہ ان خاکوں کو پڑھتے ہوئے جہاں ہم زیر موضوع شخصیت سے واقف ہوتے ہیں، وہیں زبان و اسلوب سے بھی لطف اندوز ہوتے ہیں۔ فاروق عادل نے جامعہ کراچی کے شعبۂ ابلاغِ عامہ سے ماسٹرز کیا، اور یہ میری خوش نصیبی رہی کہ درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہوتے ہی اُس کلاس کو پڑھانے کا مجھے موقع ملا جس میں فاروق بھی شامل تھے۔ وہ جو کہتے ہیں کہ پوت کے پاؤں پالنے میں نظر آجاتے ہیں، تو اسی زمانے میں فاروق کی لکھنے پڑھنے سے دلچسپی، خصوصاً ادبی کتابوں کے مطالعے کا شوق اور لکھنے لکھانے کا ذوق ایسا تھا کہ پیشۂ صحافت میں ان کا مستقبل بہت روشن نظر آتا تھا۔ یہ معاملہ لکھنے پڑھنے سے زیادہ اس لیے بھی توجہ طلب تھا کہ ان میں انسانی اور اخلاقی اوصاف بدرجۂ اتم تھے۔ اساتذہ کا ادب، دوستوں کی دلداری، معاملات میں وضع داری، احسان مندی اور شکر گزاری، پھر سوزو گداز سے بھرپور دل۔ یہ وہ باتیں تھیں جن کی وجہ سے وہ اسی زمانے سے مجھے بہت عزیز رہے۔ اور آج بھی جب زندگی نے ان پر کامیابی اور فتوحات کے دروازے کھول دیے ہیں، یہ خوبیاں ان کی شخصیت کی اور نکھر کر سامنے آئی ہیں۔ مثلاً جب بھی وہ مجھ سے ملنے سرکاری گاڑی پہ آتے ہیں تو انہیں اپنے ڈرائیور کی فکر رہتی ہے کچھ ایسی کہ خود بے شک بھوکے رہ جائیں لیکن ڈرائیور کی بھوک انہیں برداشت نہیں ہوتی۔ ہمارے درمیان استادی اور شاگردی کے رشتے کا معاملہ اتنا پرانا ہوچکا ہے کہ میں انہیں دوست سمجھتا اور کہتا ہوں لیکن وہ منصبِ شاگردی سے اترنے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے۔ اب اس کا کیا کیا جائے کہ محض یہی ایک دو وصف نہیں۔ کوئی ان کے ساتھ نیکی اور احسان مندی کا سلوک کرتا ہے تو اُسے جی جان سے نہ صرف یاد رکھتے ہیں بلکہ جواباً حسنِ سلوک سے اس احسان کو اپنے طور پر چکانے کی بھی کوشش کرتے ہیں۔ یہ وہ خوبیاں ہیں جو فی زمانہ نایاب نہیں تو کمیاب ضرور ہیں۔ وفا آشنا ہی نہیں، وفا شعار بھی ہیں۔ جس آدمی میں اتنی خوبیاں اور ایسے اوصاف ہوں اُس کی بابت قیاس کیا جاسکتا ہے کہ اس کے پہلو میں دھڑکنے والا دل کیسا چمکتا ہوا اور شفاف ہوگا۔ اور جس کا دل ایسا آئینہ ہو اُس میں دوسروں کا عکس کیسا نتھرا ستھرا جھلکتا ہوگا۔ بس یہی بات ان کے شخصی خاکوں میں بھی ملتی ہے۔ انہوں نے سیاست دانوں، صحافیوں، ادیبوں پر خوب رج کر خاکے لکھے ہیں۔ سیاست دانوں میں ایسے بھی ہیں جن کی بابت میں جانتا ہوں کہ ان کے اندازِ سیاست سے فاروق عادل کبھی مطمئن نہیں رہے۔ لیکن ان کے خاکوں میں بھی فاروق کا قلم کسی بغض وعناد، کسی اشتعال و غصے کا شکار نہیں ہوا، اور نہ ہی ان کی تحریر میں کوئی ایسا فقرہ ہی ملتا ہے جس میں خود اس شخصیت کے لیے دل آزاری کا کوئی پہلو نظر آتا ہو۔ نصرت بھٹو ہوں یا الطاف حسین، غلام مصطفی جتوئی ہوں یا پیر پگارا، بے نظیر بھٹو ہوں یا حسین حقانی… فاروق عادل نے جس کا بھی تذکرہ کیا ہے اُس میں تہذیب و شائستگی کا دامن ہاتھ میں تھامے رکھا۔ یہاں تک کہ جن شخصیات پر کھل کر کڑی تنقید کرنے میں کوئی مضائقہ نہ تھا (مثلاً قائد تحریک الطاف حسین) وہاں بھی فاروق نے ہلکا پھلکا طنزیہ پیرایہ اختیار کیا ہے، لیکن مزے کی بات یہ ہے کہ ان کے طنز میں بھی اتنی متانت اور سنجیدگی ہے کہ طنز کا نشتر بھی حکیم حاذق کا نشتر نظر آتا ہے جس کا مقصد فاسد مواد کا اخراج ہوتا ہے۔
فاروق کے یہ خاکے ہماری قومی زندگی کے ابتدائی اور درمیانی مراحل کے اُن گوشوں کو بھی وا کرتے ہیں جن پر تاحال پردہ پڑا تھا۔ قائداعظم کی شخصیت کے بعض پہلوؤں کو انہوں نے مستند ماخذ سے آشکار کیا ہے۔ اسی طرح مرزا جواد بیگ جن کا اب کہیں تذکرہ بھی سننے میں نہیں آتا، ان کے خاکے سے کئی نئی باتیں ہمارے علم میں آتی ہیں۔ میاں طفیل محمد کی سادگی، عاجزی اور للہیت کے واقعات بھی متاثر کرتے ہیں۔ 259 صفحات کی اس کتاب میں 35 شخصی خاکے ہیں۔ چند ایک کو چھوڑ کر ان میں سبھی شخصیات مشاہیر کا درجہ رکھتی ہیں۔ فاروق نے ان خاکوں میں ایجاز و اختصار سے بھی کام لیاہے، غیر ضروری اور ضروری تفصیلات کے فرق سے وہ خبر نگاری کے فن سے آشنائی کے سبب اچھی طرح واقف ہیں، اس لیے جس شخصیت پر بھی انہوں نے قلم اٹھایا ہے، ان کے حوالے سے اتنا ہی کچھ بتایا ہے جتنا بتانا چاہیے تھا۔ ایک اچھے لکھنے والے کی طرح وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ لکھتے ہوئے سارے خانوں میں رنگ بھرنا ضروری نہیں۔ کچھ خانے خالی بھی چھوڑ دینے چاہئیں جنہیں پڑھنے والے اپنے تخیل یا خیال سے پُر کریں۔ حسن کاری کا تقاضا یہ بھی ہے کہ سب کچھ نہ کہا جائے، اور جہاں کہنا ضروری ہو وہاں چپ نہ رہا جائے۔
شخصی خاکے کو اردو ادب کی ایک صنف سمجھا جاتا ہے۔ اور اب تو ہماری زبان میں خاکوں کی اتنی کتابیں چھپ چکی ہیں کہ شخصیات پر مواد و معلومات کا ایک خزانہ ہے جس تک رسائی اور مطالعہ کسی ایک قاری کے لیے ممکن بھی نہیں رہا۔ یہ تو وقت بتائے گا کہ فاروق عادل کے خاکوں کی یہ کتاب ان سینکڑوں کتابوں میں اپنے لیے کیا جگہ بناتی ہے۔ لیکن یہ بات یقینی ہے کہ جن ادیبوں اور لکھنے والوں نے شخصی خاکوں میں شائستگی اور تہذیب، متانت اور سنجیدگی، نیز تخلیقی انداز و اسلوب کو اختیار کیا ہے، جب بھی ایسے شخصی خاکوں کی کتابوں کی فہرست مرتب کی جائے گی، فاروق عادل کی یہ کتاب اس فہرست میں ضرور شامل ہوگی۔ کہتے ہیں اسلوب لکھنے والے کی شخصیت کا عکس بلکہ خود شخصیت ہوتا ہے۔ فاروق عادل کی کتاب سے اور خود ان کی شخصیت سے واقفیت کی بنا پر اس قول کی تصدیق ہوتی ہے۔ کہیں کہیں تو یہ چبھتا ہوا احساس بھی ہوا کسی بدقماش سیاست دان کا خاکہ پڑھ کر کہ بھئی ایسی بھی کیا تہذیب، ایسی بھی کیا احتیاط۔ کچھ خبر خاکہ نگار صاحب لے لیتے تو کیا مضائقہ تھا! لیکن یہ ضبط اور یہ تحمل نہ ہوتا تو فاروق عادل، فاروق تو ہوتے عادل نہ ہوتے۔