سیکولر ازم مباحث اور مغالطے

تبصرہ کتب
تبصرہ کتب

نام کتاب : سیکولرزم
مباحثے اور مغالطے
مصنف : طارق جان
مترجم : محب الحق صاحبزادہ
صفحات : 660 قیمت 600 روپے
ناشر : منشورات پوسٹ بکس نمبر 9093 علامہ اقبال ٹائون لاہور
فون نمبر : 042-35252210-11
0320-5434909
ای میل : manshurat@gmail.com
جناب طارق جان کی گرانقدر کتاب سیکولرزم مباحث اور مغالطے کا یہ چوتھا ایڈیشن ہے۔ اس کا پہلا ایڈیشن ایمل مطبوعات اسلام آباد اور تین ایڈیشن منشورات لاہور سے شائع ہوئے ہیں جو کتاب کی استناد اور مقبولیت کی نشانی ہے۔
جناب طارق جان ، وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں ایک صاحب مطالعہ فرد، سنجیدہ محقق اور راست فکر و دانش ور کی حیثیت سے وسیع حلقۂ تعارف رکھتے ہیں۔ ماضی قریب میں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز سے وابستہ اور کچھ عرصہ فاطمہ جناح یونیورسٹی راولپنڈی میں تدریسی عمل سے متعلق رہے۔ ان کے مضامین قومی اخبارات The News, The Muslim , The Nation اور نوائے وقت میں شائع ہوتے رہے ہیں۔ سیرت رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر دو جلدوں میں ان کا تحریر کردہ مطالعہ امتیازی شان رکھتا ہے۔ اسی طرح سیکولر ازم سے متعلقہ امور تحریک پاکستان کے مدارج اور تاریخ پاکستان گہری نظر رکھتے ہیں۔
جناب طارق جان کی مطبوعہ اور زیر طبع کتب درج ذیل ہیں۔
The Life and Times of Muhammad Rasul Allah: Universalizing the Abrahamic Tradition
Pakistan Between Secularism and Islam: Ideology, Issues, and Conflict
The Secular Threat to Pakistan’s Security
Engaging secularism Limits of a Promise
تراجم
The Four Key Concepts of the Qur`an
مولانا مودودی کی کتاب ’’قرآن کی چار بنیادی اصطلاحیں‘‘کا انگریزی ترجمہ
Islam and the Secular Mind
(تنقیحات اور تفہیمات کے مقالات کا ترجمہ)
زیر طبع
Muhammad Rasul Allah- Making the Universal Community
The Problem with Early Muslim Historiography
Christianity as Seen through a Muslim Eyes
سیکولرزم مباحث اور مغالطے اپنے طرز کی منفرد کتاب ہے جس بغور مطالعہ ہر پاکستانی کو کرنا چاہیے تاکہ وہ پاکستان میں ہونے والے فساد کی جڑوں تک پہنچ سکے۔ سیکولرزم ایک خدا فراموش نظام حیات کا نام ہے جو مسلمانوں کو اسلام کے اجتماعی نظام سے برگشتہ کرنا چاہتاہے جبکہ اللہ جل شانہ کا فرمان اور فیصلہ ہے
ترجمہ: ’’جس نے اسلام کے سوا کسی اور دین (نظام حیات) کو اختیار کرنا چاہا اس کے دین کو ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور آخرت میں وہ ناکام و نامراد ہوگا۔،، (آل عمران3 :85 )
اس لیے ضروری ہے جو غیراسلامی افکار ہمارے ہاں رائج کرنے کی کوششیں ہورہی ہیں ان کا نوٹس لیا جائے ان کا تجزیہ کیا جائے اور ان خطرناکی کو واضح کیا جائے اسی سلسلے میں زیرنظر کتاب بھی منظر عام پر آئی ہے۔ یہ ایک معلومات افزا عالمانہ تجزیوں پر مبنی کتاب ہے جس کی تحسین اہل علم نے کی ہے ہم ان کی آرا یہاں درج کرتے ہیں جناب سلیم منصور خالد کی رائے ہے۔
’’طارق جان کے یہ تجزیاتی نثر پارے ہمارے فکری لٹریچر میں تازہ ہوا کا جھونکا ہیں ان میں بہ یک وقت: مطالعاتی وسعت ، دانش ورانہ گہرائی، عادلانہ دماغ، ملی حمیت، تہذیبی شعور اور قلندرانہ عزم ، ہم رنگ اور ہم آغوش نظر آتے ہیں۔ ان مقالات میں راست گوئی پر مغربی تہذیب و استعماریت کے دیسی وعدہ معاف گواہ بلبلا اٹھیں گے او رمسلم تہذیب کے وابستگان لذت عمل سے سرشار ہوں گے۔
طارق جان نے مغرب زدگان کی مغالطہ انگیزی، کذب بیانی، موقع پرستانہ نظریہ سازی اور فکری فسطائیت کو بڑی خوبی سے پرکھا ہی نہیں، بے نقاب بھی کیا ہے۔ انہوں نے دو اور دوچار کی طرح ثابت کیا ہے کہ ذرائع ابلاغ کی بے مہار قوت اور اقتدار کے سرچشموں پر قبضے کے بل پر یہ طائفہ درحقیقت ذہنی انتشار ، اباحیت پسندی، تلخ عصبیت اور اندھی لذتیت کے غلاموں پر مبنی ایک اقلیتی گروہ ہے، جس سے خیر کی توقع عبث ہے۔ اس سارے عمل میں انہوں نے جذباتی رستہ اختیار کرنے کے بجائے مغربی فکر و دانش کو پرکھا اور اپنے جواب دعویٰ میں برتا ہے۔،،
مشہور مورخ، محقق اور اہل دانش ور ڈاکٹر صفدر محمود کی وقیع رائے ہے۔
’’طارق جان کی کتاب ’سیکولرزم: مباحث اور مغالطے،، نے مجھے حد متاثر کیا ہے او رمصنف کے لیے دل سے دعا نکلی ہے، جنہوں نے قارئین کو بہت سے مغالطوں اور کنفیوژن کے اندھیروں سے نکالنے کی موثر کوشش کی ہے۔ طارق جان کا اسلوب بیان علمی اور عام فہم ہے۔ ان کی یہ تصنیف اعلیٰ درجے کی تحقیق کے تقاضے پورے کرتی ہے۔ دلیل کے ساتھ حوالے اس کا ثبوت ہیں۔’’ بلاشبہ یہ کتاب جدید نسل کے لیے ایک لازمی مطالعے کی حیثیت رکھتی ہے۔‘‘
پروفیسر ڈاکٹر انیس احمد وائس چانسلر رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی لکھتے ہیں اسلام کے بارے میں لکھی جانے والی کتب چاہے کسی مسلمان نے لکھی ہوں یا غیر مسلم نے ، ان کی تعداد کوئی کم نہیں ہے۔ اگریہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ اسلام کے بارے میں رطب ویابس پر مبنی کتابیں سیلاب کی مانند امڈ چلی آرہی ہیں۔افسوس کہ اس خطرناک صورتحال میں ممتاز گرانقدر اور قابل توجہ کتب کم دکھائی دیتی ہیں۔
اس سارے منظرنامے میں طارق جان کی کتاب Engaging Secularism Limits of a Promiseہرگز روایتی دستاویز نہیں ہے کیونکہ یہ کتاب ایک جداگانہ اور منفرد اسلوب میں لکھی گئی ہے۔ مصنف نے بے خدا مغربی فکر و دانش کی فرسودگی کا بڑی خوبی سے تجزیہ کیا ہے۔
معروف صحافی ‘دانشور، نقاد، تجزیہ کارسجاد میر کی نظر میںطارق جان کی کتاب ’سیکولرزم: مباحث اور مغالطعے، کا میں خوش دلی سے خیرمقدم کرتا ہوں۔ انہوں نے قومی سلامتی کے تناظر میں بحث کو کمال ہنرمندی سے اٹھایا اور پیہم دلیل سے آگے بڑھایا ہے۔
ہارون الرشید… کالم نویس، دانشور ، تجزیہ کار
فکر انگیز تحریر اور مؤثر اسلوب سے بیان نے اس کتاب کو دوآتشہ بنادیا ہے، یہ کاریگری صرف طارق جان ہی کرسکتے تھے۔
پروفیسر اکبر ایس احمد، چیئرمین ابن خلدون چیئر، امریکن یونیورسٹی، واشنگٹن ڈی سی کے مطابق’’اس قدر عراق ریزی اور جانفشانی سے یہ تحقیقی کارنامہ انجام دے کر طارق جان نے حیرت کا ایک جہان کھول دیا ہے۔ اورنگ زیب ، علامہ اقبال اور قائداعظم پر لکھے گئے ابواب تو اس ملک میں کئی عشروں سے بولے جانے والے جھوٹ سے پردہ اٹھاتے ہیں۔ کمال اس تحریر کا یہ ہے کہ کسی افسانے کی طرح دلچسپ ہے اور کسی جاسوسی ناول کی طرح ہر صفحے پر ایک نئی حیرت اور نئے انکشاف سے آپ کا سامنا کراتی ہے۔
درددل اور عقل و ہوش سے لکھے جانے والی اس کتاب کا اجر تو اللہ کے پاس ہے کہ یہ ایسے امور کے دفاع میں لکھی گئی، جس سے اللہ کی غیرت اور حرمت وابستہ ہے۔
اوریامقبول جان… دانشور، کالم نگار
یہ کتاب پاکستان میں سیکولرزم کی تاریخ اور اس کے ماضی و حال پر ایک جان دار تبصرہ اور تجزیہ ہے۔ کتاب کا مطالعہ، تاریخ کے طالب علم کو پاکستان کے فکری اور تاریخی پس منظر سے واقف کرانے کے ساتھ اس فکری کشمکش سے بھی شناسائی دیتا ہے جو آج اسی قدر پیچیدہ اور حل طلب ہے ، جتنی قیام پاکستان کے بعد اولین برسوں میں تھی۔ ضرورت ہے کہ زیر بحث موضوع کو مزید ہمہ جہت اور جامع بنانے کے لیے سیکولرلابی کے ساتھ ساتھ شدت پسند، جامد مذہبی نقطہ نظر کا بھی بے لاک مطالعہ کیا جائے تاکہ پیش منظر زیادہ وضاحت کے ساتھ سامنے آسکے اور طارق جان یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔
ڈاکٹر اسما آفتاب… جی سی یونیورسٹی ، فیصل آباد
طارق جان کی دانش میں اخلاص اور سچائی کی روشنی ہے۔ و تضادات سے پاک تحریر لکھتے ہیں اور اپنے موضوع پر اپنی گرفت مضبوط رکھتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آپ ان سے اختلاف تو کرسکتے ہیں لیکن انہیں نظرانداز نہیں کرسکتے۔ وہ ان لوگوں میں سے ہیں جو ماضی کو بوجھ نہیں سمجھتے، یوں کہہ لیں کہ نہ وہ جدید کاری سے محترز ہیں اور نہ قدامت شناسی سے گریزپا۔ ان کی کتاب بلاشبہ ایک انتہائی موثر تحریر ہے۔
کتاب میں جو مقالات شامل کیے گئے ہیں ان کے عنوانات درج ذیل ہیں۔
٭لادین خطرات؟ ٭ بت پرستی کا نیا روپ سیکولرزم٭ سیکولر الحاد‘ مذہب اور سائنس٭سیکولر زم لادینیت ہے٭ جدیدیت‘ سائنس اور الہامی دانش کا مسئلہ٭ دانشوری یا تخریب کاری؟٭ قرارداد مقاصد اور سیکولر مغالطے٭ سیکولر لابی‘ تاریخ اور اورنگ زیب عالمگیر: ماخذ کا تنقیدی جائزہ٭سیکولر جماعتیں ‘ صحافت اور تخریب٭ سیکولر حلقے اور اقبال٭ قائداعظم محمد علی جناح کی سیکولر صورت گری٭ دریدہ دہن آزاد خیالیاں٭ لادین آزاد روی سے قومی آزادی کو خطرہ٭ قانون توہین رسالت: آزادی اور انارکی میں خظ امتیاز٭ حدود قوانین کے خلاف لادینوں کی صف آرائی٭ قرارداد مقاصد اور ہماری صحافت٭ میڈیا کو کتنا آزاد ہونا چاہیے؟٭ مسلم قیادت کی ناکامی کا سبب٭ قومی خارجہ پالیسی کے تقاضے تزویراتی ‘ ثقافتی صحافتی پس منظر میں٭ پاکستان‘ ہندوستان تعلقات: امن سپرداری میں نہیں٭ سی ٹی بی ٹے: استعمار کا نیا روپ اور اس کے سیکولر حمایتی٭ کشمیر پھر ابل رہا ہے٭ انصاف کا طالب کشمیر او رپتھر دل اقوام متحدہ٭ غیرسرکاری تنظیمیں ‘ فتنہ گری کا نیا سامان٭ دعا اور سجدے سے چڑ٭ مذہب زندگی سے لاتعلق نہیں رہ سکتا: عالیجاہ عزت بیگووچ کا افکار٭ سیکولر زم اور حد کا مسئلہ٭ حوالہ جات٭ اشاریہ۔
کتاب کے آخر میں جناب ہارون الرشید اور جناب اوریا مقبول جان کے دو مضامین بھی لگائے گئے ہیں، جن میں کتاب پر آرا دی گئی ہیں۔
طارق جان روداد تالیف کے تحت لکھتے ہیں۔
میں نے ماضی میں اس موضوع پر جو کچھ لکھا‘ وہی اب اس کتاب میں سموکر پیش کررہا ہوں۔ کہیں نئی شہادت سامنے آئی تو وہ حصے ازسرنو لکھے۔ بعض اجزا کو یوں تقویت دی کہ موضوع کے جدا جدا پہلوئوں سے بحث کرنے والے دو مختلف ٹکڑے آپس میں ملادیے گئے۔ا س کی مثال: ’’خارجہ پالیسی اور اس کے تقاضے‘ والا باب ہے۔ چند مباحث ایسے بھی تھے جنہیں ہمارا ’’مدرپدر آزاد‘ پریس شائع کرنے سے انکاری تھا۔ اس کی نمایاں مثالیں ’’غیرسرکاری تنظیمی: فتنہ گری کا نیا ساماں‘‘ اور ’’حدود قوانین کی لادین مخالفت‘‘ ’’دعا اور سجدے سے چڑ‘‘ اور ’’سیکولرزم لادینیت ہے‘‘ والے ابواب ہیں۔
کم از کم تین تحریریں ایسی ہیں جو علمی مجالس اور سیمیناروں یا خصوصی نشستوں میں پیش کی گئی تھیں۔ ’’سیکولر جماعتیں‘ صحافت اور تخریب‘‘ میرے اس مقالے کی توسیع شکل ہے جو چند برس ہوئے نیشنل ڈیفنس کالج میں پڑھا گیا تھا۔’’حدود قوانین کی لادین مخالفت‘‘ بھی ایک مقالہ تھا جو SDPI کے ایک سیمینار میں ایک مختلف عنوان کے تحت پیش کیا گیا تھا۔ مقالہ کی موجودہ تسوید و ترکیب میں چند تبدیلیاں کردی گئی ہیں’’سی ٹی بی ٹی: استعمار کا نیا روپ‘‘ بھی ایک طویل مقالہ ہے جو 29 اپریل 2000 ء کو کراچی یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات کے زیر اہتمام منعقدہ ایک علمی مجلس میں پڑھا گیا تھا۔ اب ان سب اداروں کے باقاعدہ شکر و امتنان کے ساتھ یہ مقالہ جات کتاب میں شامل کردیے گئے ہیں۔
’’سیکولر لابی‘ تاریخ اور اورنگزیب عالمگیر‘ ان کے ماخذوں کا تنقیدی جائزہ‘‘ ، ’’دانشوری یا تخریب کاری‘‘،’’سیکولر الحاد‘ مذہب اور سائنس‘‘، ’’سیکولر زم لادینیت ہے‘‘، ’’بت پرستی کا نیا روپ سیکولر زم‘‘، ’’سیکولر زم اور وحد کا مسئلہ‘‘، ’’جدیدیت ‘ سائنس اور الہامی دانش کا مسئلہ‘‘، ’’میڈیا کو کتنا آزاد ہونا چاہیے‘‘، ’’قراردادمقاصد اور ہماری صحافت‘‘، ’’قرارداد مقاصد اور سیکولر مغالطے‘‘ نئے مضامین ہیں۔ ان میں سے بعض میری آمدہ انگریزی کتاب Engaging Secularism سے مستعار ہیں۔
ان سب تحریروں کا سررشتہ صرف ایک ہے جس نے انہیں ایک لڑی میں پرودیا ہے‘ یعنی لادینیت او رہماری قومی سلامتی کے لیے اس کے مضمرات ۔ میری اس پیشکش میں ان مضر نتائج و اثرات کی پیش بینی کی گئی ہے جو لادین ذہن کی طرف سے ہمای قومی سلامتی کو پیش آسکتے ہیں۔ اگر اس مسئلے کی سنگینی کا ادراک کرلیا گیا تو میں سمجھوں گا کہ میری کوشش باآور رہی اور میں نے اپنا مقصد پالیا۔ احساس زیاں ہوجائے تو مسئلے کا حل سامنے آتے دیر نہیں لگتی۔
یہ کتاب اشاعت کے مرحلے تک نہ پہنچتی اگر اس میں میرے دیرینہ رفیق صاحبزادہ محب الحق صاحب کا ساتھ نہ ہوتا۔ انہوں نے میرے کہے بغیر انگریزی کتاب کا ترجمہ کر ڈالا۔ کچھ دیگر مضامین کا ترجمہ حسب فرمائش کیا۔ میری خوش قسمتی ہے کہ مجھے ان جیسا مترجم ملا ۔ میں ان کی محبت اور محنت کا صلہ نہیں دے سکتا‘ ان کا خیال ہے کہ میں دے سکتا ہوں۔
اس طرح برادرم سلیم منصور خالد صاحب نے تدوین کا مشکل کام سرانجام دیا۔ بلاشبہ مسودے کی تشکیل نو ان کی مدد اور تعاون کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ میرے لیے ان کا تعاون اس لیے بھی اہم ہے کہ باوجود اپنی تمام تر مصروفیات کے انہوں نیو قت نکالا اور اپنے قیمتی مشوروں سے نوازا۔ سچی بات ہے بغیر اخلاص اور رفاقت کے ایسے کام نہیں ہوتے۔
یہ کتاب میں اپنی والدہ محترمہ کے نام سے مسنوب کرنا چاہتا ہوں جو میری کوتاہیوں او رکمزوریوں کے مجھے اپنی دعائوں میں ہمیشہ یاد رکھتی ہیں۔