واصف علی واصف
ہم پیمانے بناتے رہتے ہیں لیکن خود کو ناپنے کا وقت نہیں رکھتے۔ شاید حوصلہ ہی نہیں رکھتے… ہم آئینے بناتے ہیں، آئینوں میں خود نہیں جھانکتے۔ ہم توقعات رکھتے ہیں کہ لوگ ہمارے معیار پر پورا اتریں، ہمارے تقاضوں کو پورا کریں، لیکن ہم خود کسی کی خواہش پر پورا نہیں اترتے۔
ہم اپنی خامیوں کو تقدیر بھی کہہ لیتے ہیں اور اپنی قسمت کو تو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ہم بھی عجب ہیں۔ ہمارے متعلق حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ ہم ایک رات شبینے میں گزارتے ہیں۔ درود و سلام کی مجالس بپاکرتے ہیں۔ مراقبے اور سرور میں محویت تلاش کرتے ہیں۔ اللہ ہمارے قریب ہوتا ہے، ہم اللہ کے قریب ہوتے ہیں۔ اور دوسری رات دوسری قسم کی رات ہوتی ہے۔ ہم لوگ لوک رس میں مبتلا ہوتے ہیں۔ ہم پر وجد بھی طاری ہوتا ہے۔ ہمارے پائوں میں طبلے کی تال پر حرکت بھی ہوتی ہے۔ دھمال ہماری فقیری کا نشان ہے۔ ہم تضادات کا مرکب ہیں۔ ہمارے ظاہر اور باطن میں فرق رہتا ہے۔ ہم جن لوگوں کا نام ادب سے لیتے ہیں، اُن کی زندگی کو نہیں اپناتے۔ ہم صداقت کی تبلیغ کرتے ہیں اور عمل اپنی تبلیغ سے باہر ہوتا ہے۔ غالباً نیکی اور اسلام کو صرف تبلیغ کے لیے وقف کررکھا ہے۔ کام کے وقت یعنی عمل کے وقت ہم رشوت لیتے اور دیتے ہیں۔ یہ بجا ہے کہ ہم میں سے کچھ کالی بھیڑیں بھی ہیں۔ رشوت وصول کرکے کام نہ کرنے والا بس کالی بھیڑ ہے۔ سچ پوچھو تو ہم نے ایک اعلیٰ قوم بننے کا خواب دیکھنا چھوڑ دیا ہے۔ آخر کب تک خوابوں کے سہارے جیا جاسکتا ہے! اب ہم حقیقت پسند ہوتے جارہے ہیں۔ اب ہم سمجھ چکے ہیں کہ یہ ملک ہمارے لیے بنا ہے، ہم اس کے لیے نہیں ہیں۔ ہم سب ایک دوسرے کو خدمت کے نام پر دھوکا دیتے ہیں۔ ہم کاریگر ہیں۔ ہم خود کو بھی دھوکا دیتے ہیں۔ آنے والے خطرات کو ہم آناً فاناً آنکھیں بند کرکے ٹال دیتے ہیں۔ ہم شاید اُلٹی گنتی کرنے والے ہیں۔ ہم کیا کرنے والے ہیں…؟
لیکن ایسے نہیں۔ ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں۔ ابھی ٹمٹماتے ہوئے چراغوں میں کچھ تو باقی ہے۔ ابھی امید ختم نہیں ہوئی۔ آواز آرہی ہے کہ مایوس نہ ہونا، انتشار ختم ہوجائے گا، آرزوئوں کا ہنگامہ دور ہوجائے گا۔ ہماری موجودہ حالت یہ ہے کہ جیسے اندھیرے میں دو فوجیں ٹکرا رہی ہوں۔ کسی کو کچھ نہیں معلوم کیا ہورہا ہے۔ کون ہے جو سیاہی گھول رہا ہے۔ کون ہے جو انسان کو انسان سے دور کررہا ہے۔ کون ہے جو استعداد سے زیادہ بوجھ ڈال رہا ہے۔ کون ہے جس نے اس قوم کو خدا کے خوف سے زیادہ غریبی کے خوف میں مبتلا کررکھا ہے۔ صرف غور کرنے کی بات ہے۔ موت سے پہلے انسان مر نہیں سکتا اور وقتِ مقررہ کے بعد زندہ نہیں رہ سکتا۔ جب یہ مان لیا کہ موت کا وقت مقرر ہوچکا ہے تو پھر یہ ہنگامہ کیا ہے! انسان کے ایمان کو کیا ہوگیا! بے مقصد قیام کی تمنا آخر کہاں پہنچائے گی اس قوم کو! مقصد نہ ہو تو زندگی کیا ہے! جب یہ معلوم ہے کہ عزت اور ذلت اللہ کی طرف سے ہے تو یہ ساری سیاست، سارے اخبار، سب پراپیگنڈہ، یہ سب کیا ہے؟ یہ مناظرے، یہ مقابلے، یہ مباہلے اور یہ مجاد لے کیا ہیں؟ ہر چیز کو عزت کے ساتھ رہنے دیا جائے تو اپنی عزت بھی قائم رہتی ہے۔ ساتھ والے مکان میں ہونے والے واقعات ہم کو متاثر نہیں کرتے۔ ہمارے ساتھ ہونے والے واقعات سے کون متاثر ہوگا!
جب یہ معلوم ہوچکا کہ رزق مقرر ہوچکا۔ ہر ذی جان مخلوق کا رزق اللہ نے اپنے ذمے لگارکھا ہے… اب یہ بے چینی کیا ہے؟یہ قرضہ جات کیا ہیں؟ یہ سود اور منافع کیا ہیں؟ اللہ کا واضح ارشاد ہے کہ زمین پر جو بھی مخلوق ہے، اس کا رزق اس کے پاس ہے اور اللہ خزانوں کا خالق ہے، خزانوں کا مالک ہے۔ زمین وآسمان کے لشکر اس کے اختیار میں ہیں۔ وہ جو چاہے، جیسے چاہے، کرے… ہم اور ہماری سوچ بس اپنے بے دست و پا ہونے کے ثبوت ہیں۔
کیا انسان نے غور کرنا چھوڑ دیا کہ سارا ماضی سمٹ کے اتنا رہ گیا، جتنا ہمارے علم میں ہے… اور ہمارے علم میں آنے والا ماضی مختصر ہے اور ہمارے حال کی تمام مصروفیتیں اسی ماضی کے حوالے سے ہیں۔ ہماری عقیدتیں، ہمارا دین، ہماری عبادتیں ماضی میں دیے گئے منشور سے عبارت ہیں۔ ہماری تاریخ پرانی تاریخ سے ماخوذ ہے۔ ہمارا علم پرانے علم سے برآمد ہوا۔ ہمارا حال اور ہمارا ماضی صرف ایک ہی زمانہ ہے۔ ہمارا مستقبل، جب تک وہ مستقبل ہے، ایک واہمہ ہے، ایک خواب ہے۔ جب وہ ہمارے پاس آئے گا، وہ مستقبل نہیں ہوگا۔ وہ حال ہوگا اور ’’مستقبل حال ہوگا‘‘ یہ عجیب بات ہے۔ ماضی حال ہے، مستقبل حال ہے، اور حال بھی حال ہے۔ پھر ماضی کی عقیدت کیا ہے اور مستقبل کا منصوبہ کیا ہے؟ یہی راز ہے کہ آپ کہہ سکتے ہیں کہ حال یادوں کا نام ہے، منصوبوں کا نام ہے۔ لیکن بات بہت قابلِ غور ہے۔
(حرف حرف حقیقت، واصفیات صفحہ 145)
بیابہ مجلسِ اقبال
غم نصیب اقبال کو بخشا گیا ماتم ترا
چُن لیا تقدیر نے وہ دل کہ تھا محرم ترا
سرزمینِ اندلس کی یاد میں علامہ پر جو کیفیات طاری ہوتی ہیں اور وہ مسلمانوں کے عروج کے دور کو تصور میں لاکر ایک جانب غم زدہ ہوتے ہیں تو دوسری جانب وہ امتِ مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھتے ہیں۔ یہاں ان کیفیات کو اس اقرار کے ساتھ بیان کرتے ہیں کہ امت کے اس غم کو واضح کرنے کے لیے اللہ کریم نے میرا انتخاب کرلیا ہے اور میرا دل اس غم کا مرکز ومحور ہے۔ اپنے لیے غم نصیب کی اصطلاح استعمال کرتے ہیں۔ یہی حقیقت اقبال کو محرم راز اور ملت کا غم خوار قرار دیتی ہے۔
ژ ژژ
ہے ترے آثار میں پوشیدہ کس کی داستاں
تیرے ساحل کی خموشی میں ہے اندازِ بیاں
جذبات کا تلاطم اقبال کو صدیوں پہلے کی فضائوں میں لے جاتا ہے اور وہ جزیرہ صقلیہ سے کلام کرکے اسلامی تاریخ کے عروج کے دور کی یاد دلاتے ہیں کہ تیری سرزمین پر آج بھی عظمتوں کے وہ نشان باقی ہیں۔ تیرے ساحل نے ان فاتحینِ عالم کے نظارے دیکھے اور قدم چومے ہیں، اور تیری بظاہر خاموشی اصل میں بہت پُرجوش پیغام دے رہی ہے کہ یہاں اہلِ اسلام کی عظمتوں کی داستانیں پوشیدہ ہیں۔