ڈھاکا یونیورسٹی نے بنگلہ دیشی وزیراعظم شیخ حسینہ واجد کے والد شیخ مجیب الرحمن پر تنقید کرنے والے پروفیسر کو معطل کردیا ہے۔ پروفیسر مرشد حسن خان نے ایک مقامی روزنامے میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں لکھا تھا کہ بنگلہ دیش کے اصل ہیرو شیخ مجیب نہیں بلکہ ضیاء الرحمن تھے۔
مرشد حسن خان نے اپنے مضمون میں یہ بھی لکھا کہ جب آزادی کی جنگ جاری تھی تو شیخ مجیب اور اُن کے ساتھی ملک سے فرار ہوگئے تھے، اور یہ ضیاء الرحمن ہی تھے جنہوں نے بنگلہ دیش کے آزاد ہونے کا اعلان کیا۔ واضح رہے کہ پروفیسر مرشد حسن کے اس مضمون کے خلاف عوامی لیگ کی طلبہ تنظیم نے نہ صرف احتجاجی مظاہرے کیے بلکہ یونیورسٹی میں توڑپھوڑ بھی کی۔ ان کا مطالبہ تھا کہ پروفیسر کا یونیورسٹی میں داخلہ بند کیا جائے۔ یونیورسٹی انتظامیہ نے کسی ناخوشگوار واقعے سے بچنے کے لیے فوری طور پر پروفیسر کو معطل کردیا۔ اگرچہ مذکورہ پروفیسر نے سوشل میڈیا پر معذرت بھی کی، لیکن عوامی لیگ کے طلبہ ونگ کا غم وغصہ کم نہیں ہوا۔ شیخ حسینہ کی قیادت میں عوامی لیگ اپنے مخالفین کو دبانے کی ہر ممکن کوشش کررہی ہے۔ گزشتہ ماہ اپوزیشن لیڈر خالدہ ضیاء کو کرپشن کیس میں گرفتار کرلیا گیا تھا، جبکہ کئی اساتذہ کو بھی شیخ مجیب پر تنقید کرنے کے الزام میں سزاسنائی گئی۔
سور کی تجارت
صدر ٹرمپ کی جانب سے چینی درآمدات پر محصول عائد کرنے کے جواب میں چین نے چچا سام کو ترکی بہ ترکی جواب دیا۔ سب سے زیادہ محصولات امریکہ سے آنے والے سور کے گوشت پر عائد کیے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں کچھ دلچسپ اعدادوشمار:
• دنیا میں سب سے زیادہ سور چین میں کھایا جاتا ہے جو ساری دنیا کے نصف کے برابر ہے۔
• چینی قوم ہر سال سور کا6کروڑ ٹن گوشت ڈکار جاتی ہے جو گائے، بکرے، گدھے اور مرغی سمیت کُل گوشت کا 60 فیصد ہے۔
• چین میں شیرخوار بچے سمیت اوسطاً ہر شخص سور کا 36 کلو گرام گوشت سالانہ کھاتا ہے، جبکہ ہانگ کانگ میں یہ مقدار 60 کلو گرام فی فرد ہے۔
• چین میں درآمد کیے جانے والے سور کے گوشت کا 20.4 فیصد امریکہ سے آتاہے، 19.7 فیصد جرمنی سے منگایا جاتا ہے، جبکہ کینیٖڈا 12.7فیصد کے ساتھ چین کو لحم خنزیز فروخت کرنے والا تیسرا بڑا ملک ہے۔
• امریکہ ہر سال 3لاکھ 10 ہزار ٹن سور کا گوشت چین کو برآمد کرتا ہے۔
• سب سے زیادہ لحم الخنزیر امریکی ریاست IOWA سے چین کو بھیجا جاتا ہے، اور ری پبلکن پارٹی کا یہ قلعہ اس فروخت سے 5 ارب ڈالر کماتا ہے۔ دوسرے نمبر پر شمالی کیرولائنا ہے، اور یہاں بھی ری پبلکن پارٹی بہت مضبوط ہے۔
بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ امریکہ اور چین کے درمیان تجارتی جنگ یا Trade Warسے امریکہ میں سور پروری کی صنعت سب سے زیادہ متاثر ہوگی۔ امریکہ میں تقریباً 6 لاکھ افراد لحمِ حرام کی تجارت سے وابستہ ہیں اور اس کاروبار کا مجموعی حجم 22 ارب ڈالر سے زیادہ ہے۔ سور پالنے والی ریاستوں میں ری پبلکن پارٹی بہت مقبول ہے اور صدر ٹرمپ کی پالیسیوں سے ان ریاستوں میں بے چینی پیدا ہونے کا امکان ہے۔
(مسعودابدالی)
کشمیریوں کے قتل ِعام کے خلاف آواز :بھارتی میڈیا آفریدی پر مشتعل
قومی کرکٹ ٹیم کے سابق کپتان شاہد آفریدی کو بے گناہ و مظلوم کشمیریوں کے حق میں آواز اٹھانے پر بھارتی میڈیا مشتعل ہوگیا۔ بھارتی میڈیا نے شاہد آفریدی کو کشمیریوں کے قتلِ عام پر آواز اٹھانے پر شدید تنقید کا نشانہ بنا ڈالا۔ گزشتہ دوروز کے دوران بھارتی فوج نے مقبوضہ کشمیر میں ظلم و سفاکی کی انتہا کرتے ہوئے 20 معصوم و بے گناہ کشمیریوں کو شہید اور دو سو سے زائد افراد کو زخمی کردیا تھا۔
شاہد آفریدی نے کشمیریوں کے حق میں ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’مقبوضہ کشمیر میں صورت حال بہت پریشان کن ہے، ظالم حکومت اپنے حقِ خودارادیت اور آزادی کے لیے آواز بلند کرنے والوں کو شہید کررہی ہے، کشمیر کی صورت حال پر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی تنظیمیں کہاں ہیں، حیرت ہے کہ یہ خونریزی کو بند کروانے کے لیے کردار کیوں ادا نہیں کررہیں؟‘‘
سعودی عرب: اسرائیل کو تسلیم کرنے کا اشارہ
سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے کہا ہے کہ اسرائیل کو اپنی سرزمین پر پُرامن طریقے سے رہنے کا حق حاصل ہے۔ امریکی جریدے اٹلانٹک کو انٹرویو میں ولی عہد سے پوچھا گیا تھا کہ کیا وہ سمجھتے ہیں کہ یہودیوں کو اپنے آبا و اجداد کی سرزمین پر اپنے ملک کے ساتھ رہنے کا حق حاصل ہے؟ اس پر ان کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ فلسطینیوں اور اسرائیلیوں دونوں کو اپنی اپنی سرزمین پر رہنے کا حق حاصل ہے۔ محمد بن سلمان کا کہنا تھا کہ ہمیں اس کے لیے امن معاہدے کی ضرورت ہے تاکہ ہر کسی کی سیکورٹی یقینی بنائی جاسکے اور تعلقات معمول پر لائے جائیں۔ شہزادے کا کہنا تھا کہ ہمیں یروشلم میں مسجد اقصیٰ کے مستقبل اور فلسطینی عوام کے حقوق کے حوالے سے مذہبی تحفظات ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہمیں دوسرے لوگوں کے ساتھ کوئی اعتراضات نہیں ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اگر امن قائم ہوجائے تو اسرائیل کے ساتھ ہمارے بہت سے مشترکہ مفادات ہیں اور اسرائیل کے خلیجی تعاون کونسل ممالک کے ساتھ بہت سے مفادات ہوسکتے ہیں۔ سعودی عرب نے پہلی بار اسرائیل کے لیے اپنی فضائی حدود کھولی ہیں جس پر اسرائیل نے اس کی ستائش کی ہے۔
میں بچہ نہیں ہوں
کچھ خامیاں مجھے کھلتی ہیں۔ مجھے پریشان کردیتی ہیں۔ ایسی باتیں جو بچے بچے کی سمجھ میں آسانی سے آتی ہیں، میری سمجھ میں نہیں آتیں۔ ایسے مسائل، ایسی باتیں مجھے پریشان کرتی ہیں۔ پاکستان کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ بے نظیر بھٹو اور لیاقت علی خان کے قتل کے پیچھے کون لوگ ہیں، مگر میں نہیں جانتا، وہ اس لیے کہ میں بچہ نہیں ہوں۔ کاش میں بچہ ہوتا تاکہ ایسی تمام باتیں میری سمجھ میں آجاتیں۔
کئی ہفتوں تک پاکستان کی پولیس اور جاسوسی ادارے رائو انوار کو تلاش کرتے رہے، مگر بے سود۔ نقیب اللہ محسود کا قاتل کسی کو نہیں ملا۔ وہ خفیہ جگہ سے بذریعہ فون عدالت کو میسج بھیجتا رہا، مگر جاسوسی ادارے فون کے ذریعے اس کا ٹھکانہ معلوم نہ کرسکے۔ عدالت نے اسے پیش ہونے کی پیشکش کی۔ آخرکار رائو انوار نے گرفتاری دی، وہ بھی بیس پچیس گاڑیوں کے جلوس میں آکر۔ ان تمام باتوں میں میری قطعی کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ میں جاننا چاہتا ہوں کہ رائو انوار کہاں اور کس کے پاس چھپا ہوا تھا۔ مگر میں نہیں جانتا۔ میں اس لیے نہیں جانتا کہ میں بچہ نہیں ہوں۔ میں اس بات سے پریشان ہوں کہ میں بچہ کیوں نہیں ہوں۔ اگر میں بچہ ہوتا تو مجھے پتا چل جاتا کہ رائو انوار کہاں اور کس کے پاس چھپا ہوا تھا۔
(امر جلیل۔ جنگ، 3اپریل 2018ء)
’’پارس‘‘ شخصیات
علامہ اقبال پر لکھی گئی کوئی کتاب علی بخش کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی۔ ذکر ہورہا تھا یومِ اقبال کا، جس میں نامور اسکالرز اور عالم و فاضل مصنفین علامہ اقبال پر مقالے پیش کررہے تھے، اسٹیج پر نامور ہستیاں تشریف فرما تھیں اور صدارت کررہا تھا علامہ اقبال کا ناخواندہ گھریلو ملازم علی بخش۔ میں یہ خبر پڑھ کر غور و فکر کے سمندر میں ڈبکیاں کھانے لگا اور دن بھر سوچتا رہا کہ بعض شخصیات ’’پارس‘‘ کی مانند ہوتی ہیں جنہیں پتھر یا لوہا بھی چھُو لے تو وہ سونا بن جاتا ہے، اور بعض شخصیات ناموری، شہرت اور دنیاوی حوالے سے اعلیٰ ترین مقامات پر متمکن ہونے کے باوجود اس گدلے تالاب کی مانند ہوتی ہیں جس کے کنارے بیٹھنے والے اپنے دامن پر کچھ داغ لگا کر ہی لوٹتے ہیں۔ میں نے اپنی آنکھوں سے کچھ ایسے ’’بڑے‘‘ لوگ بھی دیکھے ہیں جن سے تعلق بدنامی اور اکثر اوقات زندگی بھر کی شرمندگی بن جاتا ہے۔ میں نے زندگی کے سفر میں نہایت ایمان دار اور حد درجے کے بے فیض لوگ بھی دیکھے جو اپنی ایمان داری اور ’’بے فیضی‘‘ پر اتراتے اور فخر کرتے تھے، اور ایسے ایمان دار صاحبانِ اقتدار بھی دیکھے جن کے فیض کے دروازے کھلے رہتے تھے۔ غلط نوازیاں ہمیشہ بدنامی کا باعث بنتی ہیں اور خدمت کے جذبے سے مدد کرنے والوں کو مخلوقِ خدا ہمیشہ اچھے لفظوں سے یاد کرتی ہے۔ علی بخش کا تعارف، شہرت، وقار اور احترام صرف اور صرف علامہ اقبال کی خدمت کا فیض اور دین تھا۔ باخبر حضرات بتایا کرتے تھے کہ علامہ اقبال کے عقیدت مند جن میں دنیاوی حوالے سے بڑے بڑے لوگ شامل تھے، علی بخش سے ملنا سعادت سمجھتے تھے، حالانکہ وہ خود نہ صرف ناخواندہ تھا بلکہ ایک نہایت غریب گھرانے سے تعلق رکھتا تھا۔ ذرا اردگرد نگاہ ڈالیے، آپ کو ایک بھی نیم خواندہ اور غریب شخص نظر نہیں آئے گا جسے کوئی پہچانتا اور قابلِ توجہ جانتا ہو۔ کیونکہ دنیا میں جاننے، پہچاننے اور اہمیت دینے کے پیمانے دولت، عہدہ، اقتدار و اختیار، شہرت وغیرہ ہوتے ہیں۔
(ڈاکٹر صفدر محمود۔ جنگ، 3اپریل2018ء)
بڑے شہر اور پانی کا مسئلہ
کیپ ٹائون کا نام تو آپ نے سنا ہوگا۔ اس کا شمار براعظم افریقہ کے متمول ترین شہروں میں ہوتا ہے۔ جنوبی افریقہ کی پارلیمنٹ اسی شہر میں قائم ہے۔ دنیا کے کئی ارب پتیوں نے یہاں املاک خریدی ہوئی ہیں۔ نیلا بحر اوقیانوس مٹیالے بحرِ ہند سے کیپ ٹائون کے کناروں پر ہی گلے ملتا ہے۔
پینتالیس لاکھ آبادی ہر جدید اور خوشحال شہر کی طرح دو طبقات میں بٹی ہوئی ہے… خادم اور مخدوم۔ جو مخدوم ہیں وہ بہت ہی مخدوم ہیں۔ سب کے رنگ صاف اور تمتماتے ہوئے۔ زندگی کا محور بڑے بڑے سوئمنگ پول والے ولاز، سایہ دار گلیاں، تازہ ماڈل کی گاڑیاں، فارم ہائوسز، کارپوریٹ بزنس اور پارٹیاں۔ شہر کے اسّی فیصد آبی وسائل بیس فیصد مخدوموں کے زیرِ استعمال ہیں اور باقی اسّی فیصد خدام کو بیس فیصد پانی میسر ہے۔
دس برس پہلے کچھ پاگل ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ بڑھتی آبادی، اوور ڈویلپمنٹ (اس کا اردو ترجمہ میں نہیں کرسکتا) اور ماحولیاتی تبدیلی جلد ہی کیپ ٹائون کو ناقابلِ رہائش بنا دے گی۔ ظاہر ہے یہ وارننگ سن کر سب ہنس پڑے ہوں گے۔
اب سے تین برس پہلے تک کیپ ٹائون کشل منگل تھا۔ شہر کی آبی ضروریات پوری کرنے کے لیے گرد و نواح میں چھے ڈیموں کے ذخائر میں ہر وقت پچیس ارب گیلن پانی جمع رہتا تھا۔ امرا کو ہر ہفتے سوئمنگ پول میں پانی بدل دینے میں کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ کتوں کو بھی روزانہ دو بار پھواری غسل دینا معمول تھا۔ کار تو ظاہر ہے روزانہ دھلتی ہی ہے، باغ کو مالی پانی نہیں دے گا تو مالی کی ضرورت کیا!
پھر کرنا خدا کا یوں ہوا کہ خشک سالی آگئی، آبی ذخائر بھرنے والے پہاڑی، نیم پہاڑی اور میدانی نالوں کی زبانیں نکل آئیں۔ دھیرے دھیرے پچھلے برس اگست سے آبی قلت کیپ ٹائون کے ہر طبقے کو چبھنے لگی۔ دسمبر تک یہ آبی ایمرجنسی میں بدل گئی اور آج حالت یوں ہے کہ کیپ ٹائون کا حلق تر رکھنے والے چھے بڑے آبی ذخائر میں پانی کی سطح چوبیس فیصد رہ گئی۔ جب یہ دس فیصد پر پہنچ جائے گی تو پانی عملاً کیچڑ کی شکل میں ہی دستیاب ہوگا۔
چنانچہ آبی مارشل لا نافذ کرنا پڑگیا ہے۔ جن آبی ذخائر اور نالوں میں فی الحال رمق بھر پانی موجود ہے وہاں آبی لوٹ مار، ڈکیتی، پانی کی چھینا جھپٹی اور چوری روکنے کے لیے مقامی پولیس کا اینٹی واٹر کرائم پٹرول متحرک ہے۔ غربا کو پانی کی فراہمی کے لیے دو سو ہنگامی آبی مراکز قائم کیے گئے ہیں جہاں سے پچاس لیٹر روزانہ فی کنبہ راشن حاصل کیا جا سکتا ہے (یہ پانی آٹھ منٹ تک باتھ شاور سے گرنے والے پانی کے برابر ہے)۔
سوئمنگ پول، باغبانی اور گاڑیوں کی دھلائی قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے۔ فائیو اسٹار ریسٹورنٹس پیپر کراکری استعمال کررہے ہیں۔ اچھے ہوٹلوں میں دو منٹ بعد شاور خودبخود بند ہوجاتا ہے۔ یہ بحران مزید سنگین جولائی تک ہوگا جب پہلے ہفتے میں ڈے زیرو آجائے گا۔ ڈے زیرو کا مطلب ہے استعمالی پانی کی نایابی۔ حکومت ابھی سے ڈے زیرو سے نمٹنے کی تیاری کررہی ہے۔
کیپ ٹائون دنیا کا پہلا ڈے زیرو شہر بننے والا ہے۔ اس کے پیچھے 119 اور شہر کھڑے ہیں۔ ان میں بھارت کا آئی ٹی کیپٹل بنگلور اور پاکستان کا کراچی، لاہور اور کوئٹہ بھی شامل ہے۔ آج نہیں تو کل، کل نہیں تو پرسوں۔ سنبھلنے کی مہلت تیزی سے کم ہورہی ہے۔
مگر جس ریاست میں میٹھے پانی کی سب سے بڑی جھیل منچھر زہر کا پیالہ بن گئی، جہاں کراچی کو پانی فراہم کرنے والی کلری جھیل کو، ہالیجی سے میٹھا پانی فراہم کرنے والی نال کو آلودہ پانی لے جانے والی نہر (ایل بی او ڈی) نے کاٹ ڈالا، جہاں کوئٹہ کی ہنا جھیل سوکھے پاپڑ میں بدل گئی، جہاں دریائوں اور سمندر کے ساحل کو خام کچرے اور صنعتی فضلے کا کوڑا گھر بنا کر اجتماعی ریپ ہورہا ہے، زہریلے پانی سے سبزیاں اگا کے انھیں فارم فریش سمجھ کے ہم اپنے بچوں کے پیٹ میں اتار رہے ہوں، میرے اپنے شہر رحیم یار خان میں زیرِ زمین پانی میں سنکھیا کی مقدار اتنی بڑھ گئی ہو کہ اب غریب لوگ نہروں سے پینے کے لیے پانی چرا رہے ہوں وہاں کیپ ٹائون کیا بیچتا ہے!
حالات جس طرف جا رہے ہیں اور ان کی سنگینی کا جس قدر احساس ہے، اور اس احساس کو مٹانے کے لیے جس طرح ہر فورم پر بس بتایا جا رہا ہے، اس کے بعد وہ وقت دور نہیں جب کسی عدالت کا ازخود نوٹس تیرانے کے لیے بھی صاف چھوڑ، گدلا پانی بھی
میسر ہو۔
وضو کو مانگ کر پانی خجل نہ کر اے میر
وہ مفلسی ہے تیمم کو گھر میں خاک نہیں
(وسعت اللہ خان۔ ایکسپریس، 24 مارچ 2018ء)