جوں جوں عام انتخابات قریب آرہے ہیں، ملک میں سیاسی حدت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ مسلم لیگ(ن)کو یقین ہے کہ اس کا محاصرہ کرنے کی تیاریاں مکمل ہیں۔ نگران حکومت بنتے ہی سیاست کا رنگ بھی بدل جائے گا۔ اس وقت موسم بہار چل رہا ہے اور خزاں کی آمدآمد ہے۔ کیسا اتفاق ہے کہ خزاں کا موسم آرہا ہے اور حکومت اپنی آئینی مدت پوری کرکے رخصت ہونے والی ہے۔ نوازشریف کی نااہلی نے مسلم لیگ(ن) پر خزاں وقت سے پہلے ہی طاری کردی تھی، اب اسے خوف لاحق ہے کہ انتخابات سے قبل اس کی کاٹ چھانٹ بھی کی جا سکتی ہے۔ مسلم لیگ(ن) اِس سوچ کا اس لیے بھی شکار نظرآتی ہے کہ اُس سمیت ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں میں ’’قیادت‘‘ ہی فیصلہ کن سمجھی جاتی ہے،یہ ہر اُس سیاسی جماعت کا المیہ ہے جہاں تنظیم نہیں بلکہ حمایتیوں کا ہجوم سیاسی طاقت کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ مسلم لیگ(ن)، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کے پاس تنظیم نہیں حمایتیوں کا ہجوم ضرور موجود ہے۔ پیپلزپارٹی بلاول بھٹو، تحریک انصاف عمران خان اور مسلم لیگ(ن) نوازشریف کے گرد گھوم رہی ہیں، اور پھر بھی دعویٰ ہے کہ وہ ملک میں جمہوریت کے لیے جدوجہد کررہی ہیں۔
گزشتہ ہفتے تین اہم شخصیات کے بیان سامنے آئے ہیں جن کا تجزیہ ہونا چاہیے۔
(1)چیف جسٹس سپریم کورٹ مسٹر جسٹس میاں ثاقب نثار نے دوٹوک الفاظ میں باور کرایا ہے کہ جوڈیشل مارشل لا کا آئین میں کوئی تصور نہیں، پاکستان میں صرف ایک ہی طرزِ حکومت ہے اور وہ جمہوریت ہے، اور وہ جمہوریت کو ڈی ریل نہیں ہونے دیں گے۔
(2)مسلم لیگ (ن) کے نوازشریف نے کہا ہے کہ ان کا کسی ادارے سے کچھ لینا دینا نہیں، وہ آئین کی بالادستی کے لیے سب کے ساتھ بیٹھنے اور مذاکرات کرنے کو تیار ہیں۔ بات ذاتیات پر نہیں، آئین کی حکمرانی، جمہوریت اور ملکی مفاد پر ہوگی۔ عوام نے ان کی نااہلی کا فیصلہ مانا، نہ مانیں گے۔ انہیں تاحیات نااہل کرنے کا سوچا جارہا ہے۔ سب کو آئین کی حدود میں رہ کر اپنی ذمہ داریاں پوری کرنا ہوں گی۔
(3)وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے کہا کہ ایک متفقہ چیئرمین سینیٹ لایا جائے، ووٹرز کو ہانک کر چیئرمین سینٹ کے لیے ووٹ لیے گئے، یہ سلسلہ اب بند ہونا چاہیے۔
چیف جسٹس میاں ثاقب نثار کی جمہوریت کے لیے یقین دہانی بجا… لیکن یہ منزل انصاف کی عمل داری اور آئین کے تحت رائج نظام کی پاسداری کرکے پائی جاسکتی ہے۔ جو بھی سیاسی جماعتیں ستّر برسوں میں اقتدار میں رہی ہیں وہ سامنے آئیں اور بتائیں کہ جمہوری اقدار کے فروغ کے لیے، آئین و قانون کی حکمرانی کے لیے ان کی جھولی میں کیا ہے؟ سیاست دانوں نے اپنے مفادات کی خاطر اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ گٹھ جوڑ کرکے یہاں آئینی اور جمہوری اقدار کو پنپنے ہی نہیں دیا۔ ماورائے آئین اقتدار کا خناس رکھنے والوں کو خوش آمدید کہنے والے کتنے سیاست دان ہیں جو کبھی عوامی احتساب کے عمل سے گزرے ہوں؟ ہمارے ملک کی سیاست کا یہ ایک عجیب المیہ ہے کہ فردِ واحد کی حکمرانی کے خلاف بات کرنے والی سیاسی قیادت اپنی جماعت میں مشاورت کی روادار نہیں ہوتی۔ سیاسی جماعتوں میں مشاورت کے عمل کی حمایت اور تقاضا کرنے والا خس و خاشاک کی طرح بہہ جاتا ہے۔ مسلم لیگ(ن) میں چودھری نثار علی خان اس کی واضح مثال ہیں۔ جسٹس وجیہ الدین احمد کو یہی تقاضا کرنے پر تحریک انصاف نے زخم دیے۔ پیپلزپارٹی کے کسی رہنما میں دم نہیں کہ وہ آصف زرداری یا بلاول بھٹو کے سامنے کھڑا ہوسکے۔ سیاسی جماعتوں میں بہت سے نو گو ایریاز ہیں، سیاسی میدان کے بڑے بڑے شاہ سوار ان ایریاز کا رخ ہی نہیں کرتے، لیکن ملک میں جمہوریت کے لیے جان قربان کرنے کے دعوے کیے جاتے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتوں میں مشاورت کے عمل کی تاریخ کبھی تابناک نہیں رہی۔ ہر سیاسی جماعت نظریۂ ضرورت کی اسیر نظر آتی ہے۔ ملک کے تمام اداروں کے ساتھ بات چیت کے لیے بیٹھنے پر تیار ہونا نوازشریف کا نظریۂ ضرورت ہی تو ہے۔ یہ قومی ڈائیلاگ کیا ہیں اور یہ کس کے مابین ہوں گے؟ اس کا خود مسلم لیگ(ن) کے بیشتر مرکزی رہنمائوں کو بھی علم نہیں ہوگا، البتہ نوازشریف کی کچن کیبنٹ ضرور آگاہ ہوگی۔ لیکن اس سارے پس منظر میں یہ بات بہت اہم ہے کہ نوازشریف نے قومی مفاد میں سب کے ساتھ بیٹھنے اور مذاکرات کرنے پر آمادگی کا اظہار کیوں کیا؟ کیا یہ ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ کے بیانیہ کی نفی ہے، یا ’’چیخ و پکار‘‘ کا پھل مل جانے کی امید پیدا ہوگئی ہے؟
اس ماحول میں ایک نئی کنگز پارٹی بھی وجود میں لائی جارہی ہے۔ اب کی بار کنگز پارٹی کا سورج بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں سے طلوع ہوگا۔ سینیٹ کا چیئرمین منتخب ہوتے ہی صادق سنجرانی نے کہا تھا کہ وزیراعظم بھی بلوچستان سے ہونا چاہیے۔ ماضی میں میر ظفر اللہ جمالی مسلم لیگ(ق) کی جانب سے وزیراعظم نامزد کیے گئے تھے، اُس وقت کی کنگز پارٹی مسلم لیگ (ق) کو عام انتخابات میں سادہ اکثریت بھی نہیں مل سکی تھی، حکومت بنانے کے لیے پیپلزپارٹی کے دو ٹکڑے کرکے ایک نیا دھڑا بنانا پڑا تھا، تب کہیں میر ظفر اللہ جمالی صرف ایک ووٹ سے وزیراعظم منتخب ہوسکے۔ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد وہ پارلیمنٹ کو بھول گئے اور پہلا بیان یہ دیا کہ جنرل پرویزمشرف ان کے باس ہیں۔ لیکن میر ظفر اللہ جمالی سے ایک سال کے بعد ہی منصب واپس لے لیاگیا اور ضمنی انتخاب کے بعد شوکت عزیز وزیراعظم بنائے گئے۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو کا تعلق بھی مسلم لیگ (ق) سے ہے، لیکن وزیراعلیٰ منتخب ہونے کے بعد وہ اپنی کابینہ سمیت سب سے پہلے ملاقات کے لیے آصف علی زرداری کے پاس گئے۔ سینیٹ کے چیئرمین صادق سنجرانی نے اگلا وزیراعظم بلوچستان سے لانے کی جو بات کی تھی اُس پر عمل کی شروعات ہوچکی ہے، اس مقصد کے لیے بلوچستان میں ایک نئی سیاسی جماعت بنائی جا رہی ہے جس کی قیادت صوبائی وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کریں گے جو متحدہ مسلم لیگ کے نام سے نئی جماعت بنا رہے ہیں۔ اس میں مسلم لیگ(ن) سے باہر بیٹھے غوث علی شاہ، سردار ذوالفقار کھوسہ، ذوالفقار مگسی اور محمد میاں سومرو سمیت تمام مسلم لیگی شامل ہوں گے۔ پرویزمشرف بھی اس نئی جماعت کا حصہ بن جائیں گے۔
نئی کنگز پارٹی کے علاوہ پلان بی تیار ہے، جسے شیخ رشید احمد نے جوڈیشل مارشل لا کا نام دیا ہے۔ وہ عمران خان سے بنی گالہ میں ملاقات کے بعد سیدھے نیشنل پریس کلب پہنچے۔ انہوں نے وہاں پریس کانفرنس میں ملک میں جوڈیشل مارشل لا کا مطالبہ کیا۔ یہ پریس کانفرنس بلاوجہ نہیں تھی، ممکن ہے کہ بات شیخ رشید احمد عمران خان ملاقات کا حصہ ہو، اسی لیے انہوں نے چیف جسٹس آف پاکستان سے نگران حکومت سے قبل ’’جوڈیشل مارشل لا‘‘ کا مطالبہ کرکے فیصلہ کرنے والوں کو پیغام پہنچایا ہے۔ چیف جسٹس نے اس مطالبے کو رد کردیا ہے، کیونکہ اس وقت سب کی نظریں نگران وزیراعظم کے نام پر لگی ہوئی ہیں۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ سے نگران حکومت کے قیام پر مشاورت کررہے ہیں۔ ابھی تک کوئی نام سامنے نہیں آیا۔ سید خورشید شاہ نے اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے ملاقاتیں کی ہیں۔ اپوزیشن جماعتوں کی طرف سے بھی باضابطہ طور پر کوئی نام تجویز نہیں کیا گیا۔ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کا دعویٰ ہے کہ ان کے پاس ایسا نام ہے جس پر تمام جماعتیں اتفاق کرلیں گی۔ لیکن اس کا امکان کم ہی نظر آتاہے۔ نگران وزیراعظم کے نام کے لیے تحریک انصاف ’’ٹف ٹائم‘‘ دینے کی سیاسی حکمت عملی پر چل رہی ہے۔ کسی نام کی منظوری حاصل کرنے تک وہ قدم آگے نہیں بڑھائے گی۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف چیئرمین سینیٹ کے انتخاب کے موقع پر بنائی گئی مفاہمت لے کر چل رہی ہیں۔ سینیٹ میں پیپلزپارٹی کی شیری رحمن کی بطور قائدِ حزبِ اختلاف تقرری بھی اسی کا نتیجہ ہے۔ تحریک انصاف پہلے اس عہدے کے لیے خود امیدوار تھی، تاہم بعد میں اعظم سواتی نے ایسی چپ سادھی کہ اپنے ہامی ارکانِ سینیٹ کی فہرست بھی چیئرمین سینیٹ سیکرٹریٹ میں جمع نہیں کرائی۔
آخر میں وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے اس بیان کی بات کرتے ہیں جو انہوں نے چیئرمین سینیٹ کے بارے میں دیا ہے۔ انہوں نے منتخب چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی جو ’’عزت افزائی‘‘ کی اُسے جرأتِ اظہار کہا گیا، لیکن اس سے اچھا پیغام نہیں گیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جسے ملک میں مارشل لا کی راہ ہموار کرنے کی دانستہ کوشش کا نام دیا جارہا ہے۔ یہ بھی کہا جارہا ہے کہ حلقہ بندیوں یا کسی اور معاملے کا سہارا لے کر نگران حکومت کی مدت بڑھا دی جائے گی۔ عام انتخابات چند ماہ کے لیے ملتوی کیے جا سکتے ہیں۔ وفاق کی علامت سینیٹ کی توہین جس انداز میں کی گئی، کیا یہ وہ انداز ہے جس سے مسلم لیگ (ن) اور اس کا وزیراعظم بلوچستان کی محرومیوں پر مرہم رکھنا چاہ رہا ہے؟ یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ مسلم لیگ (ن) کو فاٹا اور متحدہ کے دونوں دھڑوں نے ووٹ دینے کا وعدہ کیا تھا، لیکن یہ وعدہ ایفاء نہیں ہوا، تاہم مسلم لیگ(ن) جانتی تھی کہ ووٹ دینے کا وعدہ کرنے والے پیچھے ہٹ گئے ہیں، اس کے باوجود راجا ظفرالحق کو امیدوار بنادیا گیا لیکن جنہیں جہاں ووٹ دینا تھا وہیں دیا۔ نوازشریف نے پہلا ٹرمپ کارڈ رضا ربانی کو امیدوار بنا کر کھیلا، مگر آصف زرداری یہ چھاپ نہیں لگانا چاہتے تھے کہ نوازشریف نے جسے امیدوار نامزد کیا وہ چیئرمین سینیٹ بن جائے۔ انہوں نے کوشش کی کہ پیپلزپارٹی کا امیدوار چیئرمین بن جائے، مگر اس سے پہلے عمران خان بلوچستان کارڈ کھیل چکے تھے۔ اگر نوازشریف وہی کارڈ کھیلتے جو انہوں نے رضا ربانی کے حوالے سے کھیلا تھا اور بلوچستان کے امیدوار کو اپنا امیدوار قرار دے دیتے تو صورتِ حال تبدیل ہوسکتی تھی۔ لیکن انہوں نے راجا ظفرالحق کو امیدوار نامزد کردیا۔ یہ گویا اس امر کا اظہار تھا کہ وہ اپنی شکست پہلے ہی تسلیم کرچکے تھے۔ پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کا مل جانا بھی ایک بہت بڑا سیاسی بریک تھرو تھا جس کے بعد کھیل حکومت کے ہاتھ سے نکل گیا تھا۔ اب بہتر یہی ہے کہ نوازشریف اور وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سینیٹ انتخاب کے نتیجے کو کھلے دل سے قبول کریں، ایک منتخب چیئرمین سینیٹ پر ایسے شخصی اعتراضات نہ کریں جو کسی آئین یا قانون کے زمرے میں نہیں آتے۔ پاکستان کے سب سے محروم اور پس ماندہ صوبے کو اگر چیئرمین سینیٹ کا منصب مل گیا ہے تو اس کا خیرمقدم کیا جانا چاہیے۔ صادق سنجرانی پارلیمنٹ کے ایوانِ بالا کے چیئرمین ہیں اور اسی راستے سے آئے ہیں، جو آئین میں درج ہے۔ ایک طرف منتخب عہدوں کی بے توقیری کا رونا رویا جارہا ہے اور دوسری طرف خود بے توقیری کی جارہی ہے۔ ’’ووٹ کو عزت دو‘‘ کا سفر مسلم لیگ (ن) کو یہیں سے شروع کرنا چاہیے۔
وزیراعظم کی چیف جسٹس سے ملاقات
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے چیف جسٹس ثاقب نثار سے ملاقات کی۔ یہ ملاقات وزیر اعلیٰ شہباز شریف کی راوالپنڈی میں ایک اہم شخصیت سے ہونے والی ملاقات کا فالو اپ تھی۔ شہباز شریف اپنے بھائی نواز شریف کے لیے ریلیف مانگ رہے ہیں۔ ان سے کیا گیا کہ جہاں مسئلہ ہے وہاں بات کریں۔ اس ملاقات کی تفصیلات سے اہم بات یہ ہے کہ ملاقات کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ قیاس آرائی کا سہارا لے کر اس ملاقات پر تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔ اس ملاقات کے بارے میں جاننے کے لیے بہترین راستہ مستقبل میں چیف جسٹس کے ریمارکس ہیں۔ ان ریمارکس میں بہت کچھ ہوگا اور اسی سے ملاقات کا مقصد بھی سامنے آجائے گا، تاہم اتنا کہنا ضروری ہے کہ نوازشریف کے احتساب عدالت کے مقدمے کی سماعت اب تقریباً مکمل ہوچکی ہے اور عدالت فیصلہ سنانے والی ہے۔ اس پس منظر میں یہ ملاقات ہوئی اور مسلم لیگ(ن) کو کوئی بڑا ریلیف ملنے کا امکان نہیں ہے۔ یہ ملاقات بلاشبہ اس وقت قومی سطح پر زیربحث ہے، اسی لیے قومی اسمبلی میں قائدِ حزبِ اختلاف سید خورشید شاہ اور تحریک انصاف کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر شاہ محمود قریشی نے بھی اپنے اپنے رنگ میں اس ملاقات پر تبصرہ کیا ہے۔ سید خورشید شاہ کا خیال ہے کہ وزیراعظم اور چیف جسٹس کی اِن حالات میں ملاقات بیک فائر کرے گی جو خطرناک ہے، ملنا ضروری تھا تو ایسی جگہ ملتے جہاں لوگوں کو پتا نہ چلتا، ملک میں اداروں اور عدلیہ کو مضبوط کرنا چاہیے، ادارے مضبوط ہوں گے تو کسی این آر او کی ضرورت پیش نہیں آئے گی، ملاقات کے بعد چیف جسٹس دفاعی انداز اختیار کریں گے، اگر ایسا نہ کیا تو معاملات طے ہوجانے کا الزام آئے گا، اداروں کے سربراہان کو ملتے رہنا چاہیے، ایسی ملاقاتیں ہونی چاہئیں۔ سید خورشید شاہ نے کسی بھی این آر او کے آنے سے متعلق بات کرنے سے گریز کیا، اس کا مطلب ہے کہ وہ خود بھی چاہتے ہیں کہ اپنی جانب سے کوئی تبصرہ نہ کیا جائے، بہتر یہی ہے کہ دونوں فریق ہی ملاقات کی گرہ کھولیں۔ تحریک انصاف کے وائس چیئرمین شاہ محمود قریشی نے ملاقات کی تعریف کی اور کریڈٹ چیف جسٹس کو دیا، اور اس ملاقات کو شاہد خاقان عباسی اور نون لیگ کا بڑا یوٹرن قرار دیا۔