ایک، دو، تین، چار، پانچ… گنتے جایئے… دس، پندرہ، بیس، پچیس … یعنی ربع صدی… جی نہیں، اس سے بھی زیادہ… اس منصوبے کو شروع ہوئے پورے اٹھائیس برس گزر چکے ہیں اور اب یوم پاکستان… 23 مارچ 2018ء سے ایک روز قبل عدالتِ عالیہ لاہور کے محترم جج صاحبان نے منصوبے کے ڈائریکٹر سے جب منصوبے کی تکمیل کی حتمی تاریخ کے بارے میں دریافت کیا تو پروجیکٹ ڈائریکٹر بابِ پاکستان نے منصوبے کی تکمیل کی حتمی تاریخ بتانے سے معذرت کرلی، جس پر جج صاحبان نے بجا طور پر برہمی کا اظہار کیا اور پراجیکٹ ڈائریکٹر صاحب کو باور کرایا کہ آئندہ سماعت پر حتمی تاریخ نہ بتائی گئی تو صوبے کے چیف سیکرٹری کو عدالت میں طلب کیا جائے گا۔ عدالتِ عالیہ کے فاضل جج صاحبان کو اس صورتِ حال کا سامنا پنجاب اسمبلی میں قائد حزبِ اختلاف میاں محمودالرشید کی جانب سے دائر کردہ ایک درخواست کی سماعت کے دوران کرنا پڑا، جس میں 28 برس گزر جانے کے باوجود ’’بابِ پاکستان‘‘ منصوبے کی تکمیل نہ ہونے اور اس تاخیر کے سبب قومی خزانے کو بھاری نقصان کی نشاندہی کی گئی ہے۔
اسے وطنِ عزیز کی بدقسمتی کہا جائے یا قومی سطح کا لاابالی پن کہ یہاں بڑے زور شور سے منصوبے بنائے جاتے ہیں اور نہایت دھوم دھام سے اعلانات کیے جاتے ہیں، مگر ان پر عمل درآمد کی نوبت بہت کم آتی ہے۔ حکومت کی تبدیلی یا کسی بھی دوسرے سبب سے اکثر و بیشتر منصوبے تشنہ تکمیل رہ جاتے ہیں۔ اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوگی کہ خود وطنِ عزیز پاکستان کا قیام جن مقاصد کی تکمیل کی خاطر عمل میں لایا گیا، اور جو خواب اس مملکتِ خداداد کے وجود میں آتے وقت قوم نے دیکھے تھے وہ ہنوز تعبیر کے متلاشی ہیں۔ کالاباغ ڈیم کی ضرورت و اہمیت کا احساس کم و بیش نصف صدی قبل سامنے آیا اور بڑی تندہی سے اس کی فزیبلٹی رپورٹ قومی خزانے سے کثیر سرمایہ خرچ کرکے تیار کرائی گئی، مگر اس کی تعمیر یا عدم تعمیر کے بارے میں فیصلہ آج تک سامنے نہیں آیا۔
ایسی ہی بے شمار چھوٹی بڑی مثالوں میں سے ایک اہم مثال لاہور میں ’’بابِ پاکستان‘‘ کی تعمیر کا منصوبہ بھی ہے۔ اس قومی یادگار کے قیام کی سوچ پہلی بار 1985ء میں سامنے آئی جب صدر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم نے اُس وقت کے گورنر پنجاب لیفٹیننٹ جنرل غلام جیلانی خان کی تجویز سے اتفاق کرتے ہوئے 13 فروری1985ء کو ایک باقاعدہ سرکاری حکم نامہ جاری کیا جس کی عبارت کچھ یوں تھی:
’’والٹن کی اپنی ایک تاریخ ہے جو اس قابل ہے کہ اسے محسوس شکل میں رقم کیا جائے۔ یہ وہ جگہ ہے جو1947ء میں پاکستان آنے والے مہاجرین کا زیرِ آسمان پہلا گھر ثابت ہوئی۔ ان میں سے بہت سے اپنی جانیں بھی وار گئے۔ یہ ضروری ہے کہ ان کی قربانیاں نہ صرف یاد رکھی جائیں بلکہ آنے والی نسلوں کے لیے محفوظ بھی کی جائیں۔ اس کا سب سے موزوں طریقہ یہ ہے کہ والٹن میں ایک یادگار اور قومی پارک کی تعمیر کی جائے جو اس کے متصل شہر لاہور کی اعلیٰ روایات سے ہم آہنگ ہو۔ میں چاہوں گا کہ یہ منصوبہ گورنر جیلانی کی ذاتی نگرانی میں زیر عمل آئے، جسے نہ صرف یہ کہ ان کے ذہن نے تصور پذیر کیا ہے بلکہ دیگر محاسن کے علاوہ انہوں نے لاہور کو خوب صورت پارک دے کر اپنے تعمیری جوہر کو واضح طور پر ثابت بھی کیا ہے۔ یادگار اور قومی پارک کے لیے درکار رقبہ والٹن کنٹونمنٹ میں آرمی مہیا کرے گی اور اسے پنجاب گورنمنٹ کی تحویل میں دے دے گی۔ جب بھی گورنر جیلانی آمادہ ہوں ہم منصوبے کے خاکے اور اس کے مالی پہلوئوں پر گفتگو کریں گے جس کے بعد ضروری رقوم آئندہ بجٹ میں مختص کردی جائیں گی۔‘‘
جیسا کہ جنرل ضیاء الحق کے اس حکم نامے میں لکھا گیا ہے کہ یہ یادگار قیام پاکستان کے وقت ہجرت کرنے والے مہاجرین کی قربانیوں کی یاد تازہ کرنے کے لیے تعمیر کی جانا تھی، ایک اندازے کے مطابق 1947ء میں دنیا کی تاریخ کا سب سے بڑا تبادلۂ آبادی عمل میں آیا تھا اور نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد کم و بیش ایک کروڑ چالیس لاکھ تھی، جن میں اسّی لاکھ مسلمان تھے جو پاکستان آئے تھے، اور ساٹھ لاکھ ہندو اور سکھ تھے جو پاکستان سے ہندوستان گئے تھے۔ جسٹس منیر کی رپورٹ کے مطابق اس موقع پر تین لاکھ مسلم مہاجرین نے جانوں کی قربانی دی، جب کہ ایک لاکھ مسلمان عورتیں اغوا کی گئیں جن میں سے بہت کم تعداد بعد میں بازیاب ہوسکی۔ ان بازیاب ہونے والی خواتین کے بڑے حصے کو والٹن میں قائم ہاسٹل میں رکھا گیا۔ یہاں ان کے ساتھ جو سلوک ہوا وہ ایک الگ اندوہناک داستان ہے جس کی ایک جھلک قدرت اللہ شہاب مرحوم نے ’’یاخدا‘‘ میں دکھانے کی کوشش کی ہے۔
بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے اپنی ہمشیرہ محترمہ فاطمہ جناح، وزیر مہاجرین افتخار الدین، اور کمشنر مہاجرین اے ایم کے انصاری کے ہمراہ اس کیمپ کا معائنہ کیا جہاں میڈیکل کے طالب علم دیکھ بھال کررہے تھے۔ یہاں کھانا پکتے دیکھ کر قائداعظم نے نہایت بلیغ تبصرہ کیا ’’مہاجرین کو کام پر آمادہ کیا جائے، انہیں یہ احساس نہیں ہونا چاہیے کہ وہ یہاں مستقل مہمان ہیں‘‘۔
جنرل ضیاء الحق کے 13 فروری 1985ء کے جس حکم نامے کا ذکر سطورِ بالا میں کیا گیا، اُس پر عمل درآمد کی نوبت اُن کی زندگی میں اور نہ ہی جنرل جیلانی کے دورِ گورنری میں آئی۔ جب نوازشریف کی وزارتِ عظمیٰ کے پہلے دور میں مسلم لیگ کے ایک کارکن غلام حیدر وائیں پنجاب کے وزیراعلیٰ بنے جو خود بھی مہاجر کی حیثیت سے والٹن کیمپ میں مقیم رہے تھے، تو انہوں نے تحریکِ پاکستان سے خصوصی ذاتی وابستگی کے پیش نظر اس منصوبے پر توجہ دی اور فروری 1991ء میں کور کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل اشرف کو منصوبے کی مجوزہ جگہ پر مدعو کیا اور اُن سے استدعا کی کہ فوج کے زیرِتصرف حکومتِ پنجاب کی چار سو ایکڑ اراضی میں سے ایک سو ایکڑ زمین ’’بابِ پاکستان‘‘ کی تعمیر کے لیے حکومتِ پنجاب کو دی جائے۔ جس کے بعد 75 ایکڑ اراضی فراہم کی گئی۔ اس میں بھی ایک بڑی قباحت یہ تھی کہ ساڑھے دس ایکڑ زمین ’بوائے اسکائوٹس ایسوسی ایشن‘ کے زیر استعمال تھی۔ بہرحال غلام حیدر وائیں مرحوم نے حوصلہ نہیں ہارا اور ہر قسم کی مشکلات کے باوجود اپنی نوعیت کے اس منفرد منصوبے کا افتتاح کرایا۔ مگر ابھی منصوبے کے لیے زمین کی فراہمی وغیرہ کے ابتدائی مراحل بھی طے نہ ہو پائے تھے کہ میاں نوازشریف اور ساتھ ہی غلام حیدر وائیں کی حکومت ختم ہوگئی اور یہ منصوبہ طاقِ نسیاں کی زینت بن گیا۔
غلام حیدر وائیں کو انتخابی مہم کے دوران قتل کردیا گیا، اور پھر 1997ء میں میاں نوازشریف کی حکومت دوبارہ قائم ہونے کے باوجود کسی کو اس منصوبے پر توجہ دینے کی توفیق نہ مل سکی۔
’’بابِ پاکستان‘‘ کے نظرانداز ہونے کی اصل وجہ تو یہی تھی کہ اسے غلام حیدر وائیں جیسی دلچسپی رکھنے والا کوئی دوسرا حکمران نہ مل سکا، تاہم کچھ تکنیکی وجوہ بھی اس کے آڑے آئیں جن میں سے اہم ترین تو یہی تھی کہ وائیں مرحوم کے قتل ہوجانے کے بعد پانچ سال یعنی 1993ء سے 1998ء تک یہ منصوبہ بغیر کسی چیئرمین کے پڑا رہا کیونکہ چیئرمین کے عہدے پر غلام حیدر وائیں کی تقرری ان کے نام سے عمل میں لائی گئی تھی جس کے باعث ان کی جگہ پُر کرنے میں قانونی موشگافیاں سامنے آئیں اور سالہاسال تک یہ خلا پُر نہ کیا جا سکا۔
دوسرا سبب یہ تھا کہ نیشنل میموریل کونسل، جس کے حتمی فیصلوں پر ’’بابِ پاکستان‘‘ کے منصوبے کے زیرِ عمل آنے کا انحصار تھا، وہ متحرک نہ رہی۔ اس لیے کہ اس کونسل کے نصف سے زائد ارکان اللہ کو پیارے ہوچکے تھے، جب کہ باقی میں سے بیش تر اپنی پیرانہ سالی اور خرابیٔ صحت کے باعث صاحبِ فراش ہوچکے تھے۔ جب کہ دیگر صحت مند اور تندرست و توانا ارکان اپنی دیگر ’’ضروری مصروفیات‘‘ کے باعث اس کام کے لیے وقت نہ نکال سکے۔ اس صورتِ حال کے باعث اس کونسل کی طرف سے کوئی فیصلہ کیا جاتا تو ایک طرف کورم پورا نہ ہوسکنے کے سبب اس پورے عرصے میں کونسل کا کوئی اجلاس ہی منعقد نہ ہو سکا ۔ 2002ء میں چودھری پرویزالٰہی وزیراعلیٰ بنے اور انہیں اس بھولے بسرے منصوبے کا ایک بار پھر خیال آیا تو انہوں نے عمل درآمد کے سلسلے میں حائل ان رکاوٹوں کو دور کرنے پر توجہ دی اور صوبائی کابینہ کے رکن اور بابِ پاکستان عمل درآمد کمیٹی کے چیئرمین کرنل (ر) شجاع خانزادہ کے ہمراہ گورنر ہائوس میں صدر جنرل پرویزمشرف کو منصوبے کے بارے میں بریفنگ دی، جنہوں نے منصوبے کے لیے 114 ایکڑ رقبہ اور مطلوبہ فنڈز فراہم کرنے کا وعدہ کیا۔
نئی صورتِ حال میں ڈیزائن میں بعض تبدیلیوں کے ساتھ ایک بار پھر منصوبے پر عمل درآمد کا فیصلہ کیا گیا جس پر 35 سے 40 کروڑ روپے لاگت کا تخمینہ لگایا گیا۔ نئے ڈیزائن کے مطابق بابِ پاکستان 110 ایکڑ رقبے پر مشتمل ہوگا، جب کہ یادگار کی بلندی 150 فٹ ہوگی جس میں تقریباً 85 کنال پر مشتمل تاریخی علمی پارک، ایک لائبریری، آڈیٹوریم، پلے لینڈ، جمنازیم، کینٹین، جھیل، واکنگ ٹریک، بائیک ٹریک، سروس اینڈ ایڈمنسٹریشن بلاک، شاپنگ کمپلیکس، ریسٹورنٹ، کمپیوٹر لیب اور ورکشاپ کے علاوہ اوپن ائر تھیٹر ہوگا۔ ہجرت کی یاد تازہ کرنے کے لیے خاص طور پر سنگِ مرمر کے خیمے بنائے جانا ہیں۔ ان خیموں میں مصورِ پاکستان علامہ اقبال اور بانیٔ پاکستان محمد علی جناح کے خطوط اور تحریکِ پاکستان کی جدوجہد پر مبنی تحریری آثار اور نادر تصاویر آویزاں کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔
پندرہ سال بعد اُس وقت کے وزیراعلیٰ چودھری پرویزالٰہی نے 2006ء میں بابِ پاکستان کے لیے فنڈز مختص کیے اور جنرل پرویز مشرف کی ہدایت پر فوج نے منصوبے کی دیکھ بھال اپنے ذمے لے لی۔ دو ارب روپے کے منصوبے کا ٹینڈر کیا گیا، تعمیر کے کام کا باقاعدہ آغاز بھی 2006ء کے اوائل میں ہوگیا۔ بنیادوں اور دیواروں کی تعمیر کے بعد چھتیں ڈالی جانے والی تھیں کہ 2007ء کے عام انتخابات کا مرحلہ آگیا… تعمیراتی کام رک گیا اور ’’بابِ پاکستان‘‘ منصوبہ ایک بار پھر لاوارث قرار پایا۔ 2008ء کے انتخابات کے نتیجے میں پنجاب میں نواز لیگ کی حکومت قائم ہوگئی، شہبازشریف وزیراعلیٰ بنے… اگرچہ ’’بابِ پاکستان‘‘ منصوبے کا آغاز نواز لیگ ہی کے دورِ اقتدار میں ہوا تھا مگر شہبازشریف کی دلچسپیاں مختلف تھیں۔ ان کی ترجیح ’’میٹرو بس‘‘ اور ’’اورنج لائن ٹرین‘‘ جیسے منصوبے تھے، جن کی تکمیل کے لیے انہوں نے رات دن ایک کردیئے اور دیگر تمام شعبوں سے سرمایا نکال کر کھربوں روپے کے فنڈز اپنے ان منصوبوں کے لیے فراہم کردیئے۔ کہنے کو انہیں بھی تحریکِ پاکستان میں بے پناہ دلچسپی ہے، مگر کسی ایسے منصوبے کے لیے ان کے پاس وقت ہے اور نہ سرمایا جس میں کسی طور چودھری پرویزالٰہی کا نام بھی آتا ہو۔ چنانچہ ’’بابِ پاکستان‘‘ کا منصوبہ آج بھی حسرت بھری نظروں سے ملک کے فیصلہ سازوں کی عقل کا ماتم کرتا دکھائی دیتا ہے… اور منصوبے کے ذمے داران 28 برس سے تشنۂ تکمیل اس منصوبے کے مکمل ہونے سے متعلق عدالتِ عالیہ کے استفسار پر کسی حتمی تاریخ کا اظہار کرنے سے قاصر ہیں۔