پاکستان ایک بار پھر انتخابات کی طرف بڑھ رہا ہے۔ پاکستان میں سیاست، سیاسی سرگرمیوں اور گہما گہمی میں اضافہ ہورہا ہے۔ سیاست اور سیاست کے اداروں کے ساتھ دیگر ادارے بھی متحرک ہیں۔ پردے کے سامنے اور پردے کے پیچھے بہت کچھ طے ہوچکا ہے اور بہت کچھ طے ہونے جارہا ہے۔ ایم ایم اے بحال ہوچکی ہے، جس کے یقینا پورے ملک اور خصوصاً خیبر پختون خوا پر بڑے اثرات پڑیں گے، دوسری طرف وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کی چیف جسٹس ثاقب نثار اور اس سے قبل چیف جسٹس کی آرمی چیف سے ملاقات سے عام انتخابات کی تیاریوں کے بارے میں چہ میگوئیوں میں اضافہ ہورہا ہے۔ جہاں ملک کے مختلف حلقے 2018ء کے عام انتخابات میں تاخیر کا اشارہ دے رہے ہیں، وہیں الیکشن کمیشن آف پاکستان کا کہنا ہے کہ عام انتخابات وقتِ مقررہ پر ہی ہوں گے۔ بعض لوگوں کا خیال ہے کہ مردم شماری کے بعد نئی حد بندیوں کے معاملے کو حل نہ کیے جانے کے سبب انتخابات میں تاخیر کے امکانات پائے جاتے ہیں اور اس سلسلے میں چیف جسٹس آف پاکستان نے خدشہ ظاہر کیا کہ ’’اس سے نظریہ ضرورت ایک مرتبہ پھر بحال ہوسکتا ہے، اور یہ ملک کے لیے اچھا شگون نہیں ہوگا‘‘۔ اگرچہ جسٹس ثاقب نثار نے خواہش ظاہر کی کہ حکومت یہ معاملہ اپنی مدت سے پہلے حل کرلے تاکہ انتخابات میں تاخیر نہ ہو۔ اس پس منظر میں آرمی چیف نے حال ہی میں انتخابات بروقت ہونے کی یقین دہانی کروائی تھی اور کہا تھا کہ انتخابات شفاف اور آزادانہ ہوں گے اور تمام سیاسی جماعتوں کو میدان دیا جائے گا۔ تاہم، آرمی چیف نے تکنیکی وجوہات کی بنا پر چند ہفتوں کے لیے انتخابات میں تاخیر کے امکان کو رد نہیں کیا۔ آئین کے مطابق، نگران حکومت 60 یا 90 روز میں عام انتخابات کرانے کی ذمے داری سے آگے نہیں بڑھ سکتی، اور اپنی طاقت اور اختیارات کے باوجود کوئی بھی ادارہ عبوری نظام کو توسیع نہیں دے سکتا۔ پارلیمنٹ اگر اپنی مدت مکمل کرے تو نگران حکومت 60 روز کے لیے قائم رہے گی، اور اگر اسمبلیاں جلد تحلیل ہوگئیں تو نگران حکومت 90 روز کے لیے ہوگی، اور اس کا مینڈیٹ اسی عرصے کے دوران پارلیمانی انتخابات کرانا ہوگا۔ اس پس منظر میں امیر جماعت اسلامی پاکستان سینیٹر سراج الحق کا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں نے جوڈیشل مارشل لا کی تجویز دی ہے، ہم مارشل لا کی ہر شکل کو مسترد کرتے ہیں۔ چیف جسٹس کا شکریہ کہ انہوں نے جوڈیشل مارشل لا کی مخالفت کی۔ ہم جمہوریت کے خواہاں ہیں لیکن ٹرمپ والی جمہوریت کے نہیں۔
ان دنوں امیر جماعت اسلامی روزانہ کی بنیاد پر ملک کے مختلف شہروں کے دورے کررہے ہیں، جہاں وہ نہ صرف سیاسی جماعتوں سے رابطے میں ہیں بلکہ وہاں وہ بڑے جلسوں سے بھی خطاب کررہے ہیں، خاص طور پر ان دوروں میں اُن کے مخاطب نوجوان ہیں اور وہ آئندہ انتخابات میں نوجوان قیادت کو دیکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے پشاور کے جناح پارک میں جے آئی یوتھ کے زیراہتمام دو روزہ پشاور یوتھ فیسٹول کے آخری روز خطاب میں کہا کہ پاکستان چند وڈیروں یا جاگیرداروں کا نہیں، اکیس کروڑ عوام کا ملک ہے۔ پاکستان ایک نظریہ، فلسفہ اور نصب العین ہے۔ پاکستان مدینہ کی اسلامی ریاست کی طرح ایک ریاست قائم کرنے اور دنیا کے سامنے ماڈل پیش کرنے کا نام ہے۔ پاکستان مدینہ کے بعد اس زمین پر مقدس ترین مقام ہے۔ اس کی حفاظت اور اس کے لیے لڑنا جہاد ہے، ہم اس کی حفاظت کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے نوجوان شیر دل ہیں۔ ان نوجوانوں کی موجودگی میں کوئی ہمیں سپرپاور بننے سے نہیں روک سکتا۔ پاکستان ان شاء اللہ اسلامی، خوشحال اور سپرپاور پاکستان بنے گا۔ نوجوانوں نے قائداعظم کا ساتھ دیا اور پاکستان بنایا تھا، ہم 23مارچ کے دن عہد کرتے ہیں کہ نوجوانوں کے ساتھ مل کر پاکستان کو بچائیں گے، آگے بڑھائیں گے اور اسے عظیم سے عظیم تر بنائیں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے لیے جینا مرنا دینِ اسلام کے لیے جینا مرنا ہے، ہمیں لا الہٰ الااللہ کے منشور اور سلوگن کو محفوظ بنانا ہے۔ جو لوگ کہتے ہیں کہ پاکستان کو سیکولر ملک بننا چاہیے، میں ان سے کہتا ہوں کہ قائداعظم، اقبال اور لاکھوں شہید ہونے والوں سے پوچھیں کہ انہوں پاکستان اور اسلام کی خاطر قربانیاں دی ہیں یا سیکولرازم یا لبرل ازم کے لیے؟ ہم سیکولرازم اور لبرل ازم قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کے جمہوریت پسند لوگ آمریت کو پسند نہیں کریں گے۔ ہم کسی قسم کا مارشل لا تسلیم نہیں کریں گے۔ پاکستان میں صرف اور صرف اسلامی نظام چلے گا اور اسلام کے سائے میں جمہوریت چلے گی۔ انہوں نے کہا کہ ہم ایسا پاکستان چاہتے ہیں جس میں ہمارے بچے روزگار سے محروم نہ رہیں۔ ہماری حکومت آئی تو ہر نوجوان کو روزگار دیں گے اور ہر یونین کونسل کی سطح پر کھیلوں کے میدان بنائیں گے۔
سراج الحق متحرک ہیں اور ایم ایم اے متحرک ہونے جارہی ہے، جس کے حوالے سے امیر جماعت اسلامی پاکستان سراج الحق تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ اس ملک کا بگڑا ہوا نظام ایم ایم اے ٹھیک کرے گی۔ تمام ملکی مسائل کا حل اسلامی نظام کے نفاذ میں ہے۔ جب ایم ایم اے کی حکومت آئے گی تو 1973ء کے آئین پر من و عن عمل ہوگا اور تمام مسائل کا حل خودبخود نکل آئے گا۔ ان کا خاص طور پر یہ کہنا ہے کہ ایم ایم اے کی بحالی سے سیکولر طبقات خوفزدہ ہیں، سیاسی برہمنوں اور پنڈتوں کا دور ختم ہونے والا ہے۔