گزشتہ دنوں پاکستان سمیت دنیا بھر میں ’’یوم ذیابیطس‘‘ منایا گیا۔ غرض و غایت یہ تھی کہ دنیا بھر میں اس بڑھتے ہوئے خطرناک مرض کا مقابلہ کرنے کے لیے عوام الناس کو آگاہی اور اس سے بچائو کی تدابیر بتائی جائیں۔ W.H.O (بین الاقوامی ادارۂ صحت) کے سروے کے مطابق اس وقت پوری دنیا میں ساڑھے چار کروڑ سے زائد افراد اس موذی اور پریشان کن مرض میں مبتلا ہیں۔ ایک محتاط سروے کے مطابق ہر سال پوری دنیا میں 5 لاکھ سے زائد افراد اس مرض سے موت سے ہم کنار ہوتے ہیں۔
یہ مرض اگرچہ مہلک تو نہیں البتہ مریض گھل گھل کر موت کی وادی میں گم ہوجاتے ہیں اور ان کی زندگی
شمع ہر رنگ میں جلتی ہے سحر ہونے تک
کے مصداق بسر ہوتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ جو لوگ اس مرض کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر پوری قوت سے اس کا مقابلہ کرتے ہیں، وہ زندگی کے ہر شعبے میں پوری توانائی سے اپنی بھرپور زندگی سے لطف اندوز بھی ہورہے ہیں اور اپنی زندگی کی تمام سرگرمیوں میں اپنا کردار کامیابی سے ادا کررہے ہیں۔ جو لوگ اس مرض کے اسباب اور حفاظتی تدابیر سے آگاہ نہیں وہ بہت جلد ہتھیار ڈال دیتے ہیں اور ان کی زندگی اپنے اور دوسروں کے لیے بوجھ بن جاتی ہے، وہ زندہ درگور انسان کی طرح اس بیماری کی دیوی پر اپنی زندگی، جوانی اور کاروبارِ حیات کا چڑھاوا چڑھا کر چراغِ سحری ثابت ہوتے ہیں۔
ذیابیطس کے اسباب:
جدید و قدیم طب یکساں طور پر اس بات پر متفق ہیں کہ انسان شب و روز محنت سے زائل ہونے والی توانائی کو پورا کرنے کے لیے خوراک استعمال کرتا ہے۔ ہماری خوراک کا اہم اور بنیادی جزو نشاستہ (Carbohydrate)ہے۔ انجذابِ خوراک کے بعد نشاستہ بننے کا عمل شروع ہوجاتا ہے۔ Metabolismکا عمل درست ہو اتوجگر میں غذا کی توڑ پھوڑ اور کسروانکسار کے بعد نشاستہ دار غذائیں گلوکوز کا پیدا کرنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے جس سے جسم کو توانائی اور حرارت ملتی ہے جسے قدیم طب کی اصطلاح میں حرارتِ غریزی (Vital Heat)کہتے ہیں۔
اگر غذا کے ہضم کا عمل Proper Metabolism ہو تو یہ عمل بہ طریق احسن انجام پاتا ہے، اور اگر Indigetion ہو تو کاربوہائیڈریٹس غیر منہضم صورت میں عملِ انجذاب (Assimilation) مکمل نہ ہونے کی وجہ سے یہی گلوکوز براہِ راست خون اور پیشاب میں شامل ہوکر Blood Sugar یا Urine Sugar سے نمایاں ہوتی ہے۔ انتہائی صورت میں بذریعہ پیشاب غیر منجذب شوگر کا اخراج ہوتا ہے۔ جگر جسم کا سب سے بڑا Gland ہے۔ اسے جسم انسانی کا State Bank تصور کیا جائے تو بے جا نہ ہوگا۔ یہ بات پورے وثوق اور تجربے کی بنیاد پر کہی جاسکتی ہے کہ اگر انسانی جگر صحت مند ہے اور جتنے افعال قدرتِ کاملہ نے اس کے ذمے لگارکھے ہیں اگر درست انجام دے رہا ہے تو انسان صحت مند ہے۔ اگر اس کے افعال میں خرابی ہو تو صحتِ انسانی میں بھی بگاڑ آجاتا ہے۔
شوگر کب ہوتی ہے
اللہ تعالیٰ نے جگر کے پڑوس میں ایک چھوٹا سا چوکیدار لبلبہ مقرر کر رکھا ہے جو انسولین کے ہتھیار سے مسلح ہے، جو گلوکوز کی مقدار کو متوازن رکھتا ہے۔ انسولین میں جب گلوکاگون بڑھ جاتا ہے تو شوگرکی مقدار کم ہوجاتی ہے یا کنٹرول رہتی ہے، جب یہ جوہر کم ہوتا ہے تو شوگر کی مقدار بڑھ جاتی ہے۔
دیگر اسباب
لبلبہ کے افعال میں خرابی شوگر کا سبب اور ایک مسلمہ حقیقت ہے، مگر شوگر کے اور عوامل بھی ہیں۔
آج کے دور نے انسان کو زندگی کی دوڑ میں معاشی کامیابی کے لیے انسانیت کے درجے سے گرا کر ’’انسانی مشین‘‘ کے درجے پر فائز کردیا ہے۔ ذہنی کشمکش (Tension)،ڈپریشن (Stress)، غلط وہم و گمان (Anxiety)، ملازمت اور غمِ روزگار، خانگی جھگڑے، بچیوں کی شادی کی عمر میں رشتوں کا نہ ملنا، کاروباری خسارے، بچوں کی نافرمانی… یہ تمام عوامل جگر کی Heptic Artery اور لبلبہ بانقراس کی Pencrtic Artery کو متاثر کرتے ہیں، تمام جسم میں خون کی روانی کو کم کرتے ہیں اور دماغ پر اثرانداز ہوکر شوگر کو کنٹرول کرنے کا عمل متاثر ہوتا ہے۔ غالبؔ موجودہ دور کے امراض کا وہبی علم رکھتے تھے، ہمارے اس مرض کو سمجھنے کے لیے اس شعر کی معنویت کلیدی حیثیت رکھتی ہے ؎
رگوں میں دوڑنے پھرنے کے ہم نہیں قائل
جو آنکھ ہی سے نہ ٹپکا تو پھر لہو کیا ہے!
چند دیگر عوامل
(i) غدہ ورقیہ (Thyroid Gland) کی خرابی جس کے کئی اسباب ہوسکتے ہیں۔
(ii) Pitutarygland پر چوٹ لگنے سے خرابی شوگر کا سبب بن جاتی ہے۔
(iii) نفسیاتی عوامل حاملہ عورتوں میں شوگر کا سبب بنتے ہیں۔ (وضع حمل کے بعد شوگر کا خاتمہ ہوجاتا ہے)
(iv) مسلسل غم
(v)اپنی ذات میں گم ہونا، خاموش رہنا،مراقی کیفیت (Silence Grief)
(vi) بچے کو اوپر پھلانگتے ہوئے، چارپائی سے گرنے، جھولے سے گر کر سر پر چوٹ لگنے سے دماغ کے مؤخر حصے پر چوٹ لگنے کے نتیجے میں، بعض اوقات نمونیہ کے جرثومہ (نیموکوکائی) جو کہ جگر پر قابض ہوجاتا ہے، ماں کی گود کی فطری حرارت جو کہ بچے کے سینے کو ملتی تھی آج کے فیڈر کے دور نے بچے کو ماں کی گود کے بجائے گہوارے کے سپرد کردیا ہے۔
(Vii) بچوں میں ذیابیطس کے موجودہ دور میں Juvline Diabetes Mellitus کا فوری علاج جو کہ انسولین سے ممکن ہے۔
ظاہری عوارض
مہذب ممالک میں تیس سال کی عمر کے بعد سالانہ یا سہ ماہی ٹیسٹ کے ذریعے انسانی صحت کے دشمن کولیسٹرول، شوگر، بلڈپریشر، دمہ یا ایسے امراض کا بروقت پتا چل جاتا ہے اور حفظِ ماتقدم کے تحت احتیاطی تدابیر اور مناسب ادویہ سے تدارک ہوجاتا ہے۔ ہماری قومی بدقسمتی ہے کہ ہمارے ہاں ایسا کوئی انتظام نہیں۔
مریض شکایت کرتا ہے کہ اسے بار بار پیشاب آتا ہے، جسم میں تھکاوٹ رہتی ہے، پنڈلیوں میں درد ہوتا ہے، جسم میں لاغرپن، اور بعض مریض وزن کی فوری کمی کی شکایت کرتے ہیں، منہ خشک ہوتا ہے، پائوں کے تلوے جلتے ہیں۔ لیکن جب مریض کو کہا جاتا ہے کہ ٹیسٹ کروائیں تو وہ فوراً کہتا ہے کہ مجھے کوئی شوگر وغیرہ نہیں… یہ غیر صحت مند رویہ ہے۔
اولاً تو مریض تسلیم ہی نہیں کرتا کہ اسے شوگر کا مرض ہے۔ اگر ٹیسٹ کرانے پر پتا چل جائے تو مردانہ وار مرض کا مقابلہ اور علاج کرنے کے بجائے وہ مرض کو اپنے اوپر سوار کرلیتا ہے، خود کو لاعلاج تصور کرکے موت کے دروازے پر دستک دینے میں آسودگی محسوس کرتا ہے۔
ذیابیطس کے دیگر منفی اثرات
شوگر کے مرض میں دیگر عوارض اور Complications جو لاحق ہوتے ہیں وہ بھی اس مرض کی نشاندہی کرتے ہیں، مثلاً جنسی کمزوری، پھوڑے پھنسی کے زخم کا جلد ٹھیک نہ ہونا، پائوں کا سُن ہونا، سر کے بالوں کا گرنا، بینائی کا تیزی سے کمزور ہونا، موتیا کا حملہ، خون کی سپلائی متاثر ہونا، اور انتہائی صورت میں لبلبہ میں کینسر کا ہونا۔
معاشرتی اسباب
دولت کی ہوس میں دن رات کام کرنا، آرام نہ کرنا، تفکرات، ذہنی پریشانیاں، خوراک میں بے اعتدالی (خوش خوراکی عمدہ ہے لیکن بسیار خوری موت کا سامان ہے)، اچھی خوراک کھا کر ورزش نہ کرنا اور موٹاپا لاحق ہونا، پیدل چلنے سے بچنا، سیر یا ورزش نہ ہونا اس مرض کے عام اسباب ہیں۔
مرض کی آگاہی کے لیے مہم کی ضرورت
حقیقت یہ ہے کہ عوام کی عدم واقفیت اور عدم دلچسپی کی وجہ سے ہمارے ہاں مریض کو اکثر امراض کا علم اُس وقت ہوتا ہے جب مرض اپناکام کرچکا ہوتا ہے۔ بعض اوقات کسی مریض کو خون کا عطیہ دینے کا جذبہ انگڑائی لیتا ہے، ٹیسٹ پر پتا چلتا ہے کہ مریض کو شوگر کا ہیپاٹائٹس ہے۔ ضرورت ہے کہ اخبارات اور ٹی وی چینلز کے ذریعے عوام میں خوف پیدا کرنے کے بجائے آگاہی اور مرض کے مقابلے کے لیے رہنمائی دی جائے۔
مناسب ہوگا کہ وقتاً فوقتاً G.T.T (Glucose Tolrence Test) ،Serum Insoline Test، Serum Glucagine Test،Sugar Level Test کرائے جائیں۔ ٹیسٹ + ہونے کی صورت میں فوری علاج پر توجہ دیں۔
موجودہ دور میں خودڈاکٹر حضرات کے مطابق Sulpha Drug اور دیگر مضرت رساں ادویہ کا بے جا استعمال بھی اس مرض کا سبب ہےجو گردوں کو متاثر کرتی ہیں۔
ایک اہم سوال اور اس کا جواب
لوگ اکثر سوال کرتے ہیں کہ قدیم دور کے انسان کھانا کھانے کے بعد گڑ کا کثرت سے استعمال کرتے، سوئٹ ڈش کے طور پر وافر مقدار میں حلوہ اورجلیبیاں کھاتے تھے، انہیں تو شوگر کا مرض لاحق نہیں ہوتا تھا؟ جواب یہی ہے کہ وہ لوگ ہل چلاتے، دوڑ لگاتے، پیدل میلوں سفر کرتے، تیراکی کرتے، کشتی اور کبڈی کھیلتےتھے۔ اس طرح میٹھا جزوِ بدن بن جاتا تھا۔ شوگر کا مرض نہ بنتا!
ذیابیطس کا علاج
بنیادی علاج… پرہیز: نشاستہ دار غذائوں سے ہاتھ کھینچ لیا جائے، نان، ڈبل روٹی، برگر وغیرہ سے ان امراض میں اضافہ ہورہا ہے، یہ غذائیں ترک کردی جائیں۔ سلاد، بند گوبھی، پیاز، کھیرا استعمال کیا جائے۔ بیسن کی روٹی، جَو کا دلیہ، ستو ، جئی (OAT) کا دلیہ اور بغیر چھنے آٹے کا استعمال کیا جائے۔پرندوں کا گوشت اور مچھلی بھی مفید ہے۔
ذہنی سکون کے لیے ادویہ کے بجائے رجوعِ الی اللہ کیا جائے۔ ذکر، نوافل اور پیدل چلنے سے مرض کا ازالہ ممکن ہے۔
تاہم چند نسخہ جات جو کہ مجرب ہیں، انسانیت کی فلاح کے لیے نذرِ قارئین ہیں:
نسخہ(1) ہوالشافی: اندرجوتلخ، بھنے ہوئے چنے، بادام برابر وزن لے کر سفوف تیار کرلیں۔ صبح و شام نصف چمچی غذا سے پہلے تازہ پانی سے استعمال کریں۔
نسخہ(2) ہوالشافی: تازہ گلولے کاٹ کر خشک کرلیں۔ گڑ ماربوئی، گٹھلی جامن برابر وزن لے کر سفوف تیار کرلیں۔ صبح وشام نصف چمچی پانی سے استعمال کریں۔
نسخہ(3) ہوالشافی:کریلے کے بیج+ مغز کرنجوہ، تخم سرس برابر وزن لے کر سفوف تیار کرلیں۔ انتہائی مفید ہے۔
نسخہ(4) ہوالشافی: نیم کا پھل (نمولی) اچھی طرح باریک کرکے سفوف تیار کرلیں۔ صبح شام 3 ماشہ کھائیں۔
(اس سے بعض مریضوں کو مروڑ پیدا ہوتا ہے۔ عرقِ سونف یا سونف کے قہوہ سے استعمال کریں)
نسخہ(5) ہوالشافی: مفرد حتطل کے بیج ، میتھی کے بیج، کلونجی کے بیج ملالیں۔ پیسنے کی ضرورت نہیں، چٹکی بھر پانی سے پھانک لیں۔
نسخہ(6) ہوالشافی: مغز خستہ جامن 1 تولہ+ افیون خالص2ماشہ۔ مسور کے برابر گولیاں بنالیں، صبح وشام بعد غذا کھلائیں۔
(7) ہوالشافی:ہلیلہ زرد۔ 1 عدد رات کو پانی میں بھگودیں، صبح آہستہ آہستہ چبا کر کھالیں۔ مولانا روم کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ روزانہ ایک ہلیلہ کھاتے تھے۔