بلوچستان میں حکومت کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد مسلم لیگ نواز، مسلم لیگ قائداعظم اور نیشنل پارٹی کے باغی ارکان نے سینیٹ میں بھی 6 آزاد ارکان کو کامیاب کرایا۔ تحریک عدم اعتماد میں جمعیت علمائے اسلام (ف)، بلوچستان نیشنل پارٹی، عوامی نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی) نے بھی غیر مرئی قوتوں کے عزائم و مقاصد کو تقویت دی۔ گویا یہ جماعتیں دانستہ طور پر جمہوری مزاج و روایات کے خلاف استعمال ہوئیں، جس کا یقینی طور پر ان جماعتوں کو آئندہ خمیازہ بھگتنا پڑے گا۔
مذکورہ دو کامیابیوں کے بعد اب اس گروپ نے صوبے میں ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کے تانے بانے جوڑ دیئے ہیں، جس میں بڑا کردار وزیراعلیٰ عبدالقدوس بزنجو، جان محمد جمالی اور سرفراز بگٹی کا ہے۔ اس مقصد کے لیے سابق صوبائی وزیر سعید احمد ہاشمی (جن کی اہلیہ رقیہ ہاشمی قاف لیگ کی خواتین کی مخصوص نشست پر رکنِ اسمبلی ہیں) کی رہائش گاہ پر اجلاس ہوئے۔ یہ اجلاس یہاں پر اس لیے منعقد کیے جاتے ہیں کہ ان کی رہائش گاہ کوئٹہ چھائونی میں واقع ہے جہاں اجلاس کی روداد کے اخفا میں رہنے کا اطمینان ہوتا ہے۔ عبدالقدوس بزنجو، سرفراز بگٹی اور ایک دو دوسرے کھلاڑیوں کی رہائش گاہیں بھی چھائونی کے اندر ہیں۔ اس لیے بھی آسانی رہتی ہے۔ دراصل اس نئی جماعت کے پیچھے وہ کھلاڑی ہیں جنہوں نے نواب زہری، نیشنل پارٹی اور پشتون خوا میپ کو اقتدار سے نکال باہر کیا، اور انہی کی بدولت اس گروپ کو سینیٹ الیکشن میں کامیابی ملی۔ اب یقینی طور پر یہی بازیگر بلوچستان میں ایک ایسی حکمت عملی پر کاربند ہیں جس کے نتیجے میں 2018ء کے عام انتخابات میں غالب حصہ بٹورا جائے۔ ان کے پاس پہلے سے منحرفین کی صورت میں اراکین اسمبلی موجود ہیں، اور کئی ایسے ہیں جن کی کامیابی آئندہ بھی یقینی دکھائی دیتی ہے۔ اس طرح بلوچستان میں پارلیمانی قوت حاصل کرنے میں انہیں چنداں مشکلات نہ ہوں گی۔ لیکن ابھی انہیں کچھ مسائل کا سامنا بھی ہے۔ کیونکہ یہ لوگ نام نواب ذوالفقار علی مگسی کا لیتے ہیں، جبکہ وہ سردست لاتعلق ہیں۔ شیخ جعفر خان مندوخیل سینئر پارلیمنٹرین ہیں اور اس طرح کے دائو پیچ کے لیے بھی مشہور ہیں۔ وہ اب تک دور بیٹھ کر حالات کا رخ دیکھ رہے ہیں۔ ویسے بھی شیخ جعفر خان مندوخیل سے کچھ ناراضی موجود ہے، کیونکہ انہوں نے تحریک عدم اعتماد میں واضح کردار ادا نہیں کیا تھا۔ اسی طرح سینیٹ الیکشن میں انہوں نے اپنے کزن کو نون لیگ کے ٹکٹ پر امیدوار بنایا تھا۔ جام کمال اور بھوتانی فیملی بھی جو کہ لسبیلہ میں سیاسی حریف ہیں، اپنے مفاد اور شرائط کے تحت آگے بڑھیں گے۔ ممکن ہے ان سطور کی اشاعت تک اس نئی جماعت کے نام کا اعلان ہوگیا ہو اور اغراض و مقاصد اور منشور بھی پیش کردیا گیا ہو۔ اس طرح کی جماعت مخفی قوتوں کے لیے بہت ضروری ہوچکی ہے۔ چونکہ بلوچستان میں 2013ء کے عام انتخابات کے بعد کنٹرولڈ حکومت کا تجربہ کامیاب رہا ہے، لہٰذا آئندہ بھی تابعدار قسم کا صوبے کا چیف ایگزیکٹو یا حکومت ان کی ضرورت ہے۔ یہ عناصر بلوچستان کے اندر ہمہ پہلو مفادات و ترجیحات نگاہ میں رکھے ہوئے ہیں، اور صوبے کی سیاسی جماعتیں اس منظرنامے سے لاعلم نہیں۔ اس گروہ کی نئی سیاسی صف بندی پر اب تک صرف پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی کی جانب سے ردعمل آیا ہے۔ دیکھا جائے تو سیاسی جماعتوں یعنی جمعیت علمائے اسلام، بی این پی، اے این پی، بی این پی عوامی نے نادیدہ چہروں کا کام آسان کردیا ہے۔ یہ جماعتیں عدم اعتماد کی تحریک میں اپنی سیاسی رقابتوں اور بغض و عناد کے خول سے نکلتیں تو کسی کی حوصلہ افزائی نہ ہوتی۔
3 مارچ 2018ء کے سینیٹ الیکشن میں عجیب منظر یہ بھی دیکھا گیا کہ بلوچستان اسمبلی کی راہ داریوں میں ایف سی کے اہلکار موجود تھے۔ بعض سادہ کپڑوں میں ملبوس اہلکار الیکشن کی رپورٹنگ کرتے رہے۔ ایف سی کے میجر اور کرنل رینک کے باوردی آفیسر اسپیکر کے چیمبر کے سامنے والے دفتر میں بیٹھ کر نتیجہ نوٹ کررہے تھے۔ ان کو کھلم کھلا آزادی تھی۔ شاید ملک کی تاریخ میں یہ انوکھی مثال بلوچستان اسمبلی میں ہی قائم ہوئی ہے۔ اور اس سب کا رواج نواب ثناء اللہ زہری، خاص کر عبدالقدوس بزنجو کی حکومت میں ہوا ہے کہ فورسز کے اہلکار اسمبلی کے اندر جہاں چاہیں جاسکتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں اگر واقعی جمہوریت کی دعویدار ہیں اور ایک شفاف سیاسی ماحول صوبے کے اندر پروان چڑھانے کے لیے جدوجہد کررہی ہیں تو ان پر لازم ہے کہ آئندہ بننے والی صورتِ حال کی پیش بندی کریں۔ سیاسی و علاقائی اختلافات کو بالائے طاق رکھنا ہوگا۔ ایسا نہ کیا تو ان پر غیر سیاسی و غیر جمہوری لوگ مسلط کیے جائیں گے اور بلوچستان پر بادی النظر میں حکمرانی حقیقی سیاسی قیادت کے بجائے کسی اور کی ہوگی۔گویا صوبے کی سیاست میں پنپنے والے اس گھنائونے کھیل کا راستہ روکنا ہوگا۔
جمعیت علمائے اسلام، پشتون خوا ملّی عوامی پارٹی، بلوچستان نیشنل پارٹی، نیشنل پارٹی اور بلوچستان نیشنل پارٹی(عوامی) صوبے کے مفاد اور جمہوری، سیاسی روایات و اقدار کے تحفظ اور بقاء کے لیے کیوں مل جل کر حکومت نہیں بناسکتیں؟ یہ مشکل بالکل نہیں، تاہم ضروری ہے کہ یہ جماعتیں سیاسی نفرتوں، قبائلی و علاقائی اختلافات کو پس پشت رکھیں۔ سیاسی رہنمائوں کو گروہی مفادات سے باہر نکلنا ہوگا۔ ویسے جمعیت علمائے اسلام کے لیے کنگز جماعتوں کے ساتھ شراکتِ اقتدار ہمیشہ سودمند رہی ہے۔ جب بادشاہ گروں کو حکومت بنانے کے لیے اتحادیوں کی ضرورت ہوتی ہے تو جے یو آئی بہترین معاون بن جاتی ہے اور بدلے میں پُرکشش وزارتیں حاصل کرلیتی ہے۔ تعجب ہے کہ اب ہر سیاسی تماشے کے لیے بلوچستان کی محرومیوں کا کارڈ استعمال کیا جانے لگا ہے۔ چیئرمین سینیٹ کے الیکشن میں صادق سنجرانی کو صوبے کی محرومیوں کی دلیل کے تحت کامیاب کرایا گیا، جس میں عمران خان نے بھی اپنا حصہ ڈالا۔ بلوچستان سے 6 آزاد امیدوار بھی صوبے کی محرومیاں ختم کرانے کے لیے کامیاب کرائے گئے، اور اب نئی جماعت بھی اسی خاطر بنائی گئی کہ بلوچستان کو افلاس،غربت اور محرومیوں سے نکال کر شاہراہِ ترقی پر گامزن کیا جائے۔ گویا بلوچستان کی محرومیوں کے نام پر ہر ناجائز کو جائز کا درجہ دینے اور باور کرانے کی مکروہ روایت قائم کی گئی ہے، اور عوام کو اُلّو بنایا جارہا ہے۔ ’’میر بھی کیا سادہ ہیں بیمار ہوئے جس کے سبب… اسی عطار کے لونڈے سے دوا لیتے ہیں‘‘ کے مصداق جن کی وجہ سے خرابیاں ہیں وہی اصلاح اور خیر کی باتیں کر رہے ہیں۔