بعض سیاسی پنڈت یہ پیش گوئی کررہے ہیں کہ بعض قوتیں ملک میں 18ویں ترمیم میں تبدیلی چاہتی ہیں اور اس کو اس طرح سے تبدیل کرنا چاہتی ہیں کہ یہ ترمیم غیر موثر ہوجائے۔ اس خواہش کا پس منظر کیا ہے؟ دراصل پاکستان کی سیاسی تاریخ بڑی عجیب اور تضادات کا مجموعہ ہے۔ عمومی طور پر جب بھی کوئی پالیسی یا قانون سازی کی جاتی ہے تو اس میں سب سے اہم فریق عوام ہوتے ہیں۔ کیونکہ جو بھی پالیسی یا قانون سازی عام اوربالخصوص محروم طبقات کے مفادات کو سامنے رکھ کر کی جاتی ہے وہی اپنی ساکھ بھی بناتی ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ یہاں عوامی مفادات کو پس پشت ڈال کر ہم نئے تجربات کرکے ایک مخصوص گروپ کے مفادات کو تقویت دیتے ہیں۔ ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس ملک میں سول ملٹری تعلقات میں جو بداعتمادی پائی جاتی ہے اُس سے بھی نظام کو آگے بڑھانے میں مشکلات درپیش ہوتی ہیں، اور اس کا نتیجہ مزید بحران کی صورت میں سامنے آتا ہے جو ریاستی نظام کے حق میں نہیں۔
ہمارے نظامِ حکمرانی کا دیانت داری سے تجزیہ کیا جائے تو عمومی طور پر اس میں چار باتوں کو بہت زیادہ اہمیت دی جاتی ہے:
(1) پاکستان کا سیاسی نظام اختیارات کی تقسیم کے مقابلے میں مرکزیت کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ اس سے مراد اختیارات کی منتقلی کے درمیان وفاق اور صوبوں میں عدم شفافیت ہے۔
(2) وفاق اور صوبوں بالخصوص چھوٹے صوبوں کے درمیان اختیارات کی تقسیم کے معاملے پر ناراضی یا بداعتمادی کی فضا پائی جاتی ہے۔
(3) وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم کی وجہ سے چھوٹے صوبوں اور اضلاع میں ترقی اور خوشحالی کا عمل زیادہ مؤثر نہیں ہوتا، اوراس میں تفریق اورتعصب کا پہلو پایا جاتا ہے۔
(4) ہماری فوقیت طبقات یا Interest گروپ ہوتے ہیں جو طاقت ور طبقات کے مفادات سے جڑے ہوتے ہیں۔ اس کا نقصان عمومی طور پر کمزور اور محروم طبقات کو بدحالی کی صورت میں اٹھانا پڑتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ ملک میں حکمرانی کا بحران بھی ہے اور ریاست، حکومت اور عوام میں خلیج میں تواتر سے اضافہ ہورہا ہے۔ ملک میں تمام طبقات کی سطح پر حکمرانی کے نظام پر عدم اعتماد پایا جاتا ہے اور لوگ نظام کی تبدیلی کے خواہش مند ہیں۔
پیپلز پارٹی کے سابقہ دورِ حکومت 2010ء میں اتفاقِ رائے سے 18ویں ترمیم منظور کی گئی۔ 18ویں ترمیم میں پہلی بار وفاق اور صوبوں کے درمیان اعتماد سازی کو فوقیت دے کر آگے بڑھنے کی بات کی گئی۔ اس سے قبل ملک کی سیاسی جماعتوں اور بالخصوص چھوٹے صوبوں سے تعلق رکھنے والی جماعتوں میں صوبائی خودمختاری کی بحث کو اہمیت حاصل تھی۔ 18 ویں ترمیم نے صوبائی خودمختاری کی بحث کو مثبت انداز میں آگے بھی بڑھایا۔ خیال تھا کہ 18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد جس طرح سے وفاق نے صوبوں کو سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات تفویض کیے ہیں، یہی عمل صوبوں میں بھی اضلاع کی سطح پر دیکھنے کو ملے گا۔ کیونکہ صوبائی خودمختاری بھی کسی طور پر مقامی خودمختاری کے بغیر ممکن نہیں تھی۔ 18ویں ترمیم تو منظور کرلی، لیکن اس پر عمل درآمد کے لیے جو ایک مضبوط سیاسی کمٹمنٹ سیاسی نظام، سیاسی جماعتوں اور قیادتوں سمیت معاشرے کے دیگر طبقات میں ہونی چاہیے تھی، اس کا فقدان غالب نظر آیا۔ اس کی ایک مثال مقامی حکومتوں کا نظام ہے۔ اس نظام میں صوبوں نے تمام تر سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات خود رکھ کر مقامی حکومتوں کے نظام کو کمزور، لاچار اور بے بس بناکر حکمرانی کے نظام کو مزید بگاڑ دیا ہے۔ ہماری سیاسی قیادتیں ہر وقت جمہوریت کا درس دیتی ہیں، لیکن اگر ان کی جمہوریت میں جمہوری نظام پر نظر ڈالیں تو جمہوریت کہیں بھی نظر نہیں آئے گی۔ کیونکہ جمہوریت کے نام پر سیاسی جماعتوں نے خود اپنے اندر آمریت پر مبنی نظام قائم کیے ہوئے ہیں جو جمہوری نظام کو کمزور کرنے کا سبب بنتے ہیں۔
18ویں ترمیم کی منظوری کے بعد سب سیاسی جماعتوںکا مؤقف تھا کہ ایک سے دو برس میں اس نظام کو مؤثر اور شفاف بنایا جائے گا۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ہم 18 ویں ترمیم کو بنیاد بناکر اپنے نظامِ حکمرانی کو مزید شفاف اور منصفانہ بناتے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کرتے۔لیکن لگتا ایسا ہے کہ عملی طور پر ہماری سیاسی قیادتوں کی ترجیحات سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات کی نچلی سطح پر تقسیم نہیں۔ ترمیم یا قانون کے باوجود ان کا طرزِعمل مجموعی طور پر اختیارات کو محدود لوگوں تک تقسیم کرنے سے جڑا ہے۔
عمومی طور پر پاکستان کے بعض حلقوں میں 18ویں ترمیم کی منظوری اور اس پر عمل درآمد پر تحفظات بھی پائے جاتے ہیں۔بالخصوص وہ عناصر جو ملک میںمحدود طبقات تک اختیارات کو رکھنا چاہتے ہیں، وہ اسے کمزور کرنے کا سبب بن رہے ہیں۔ اب یہ خبریں بھی سننے کو مل رہی ہیں کہ ہماری اسٹیبلشمنٹ بھی 18ویں ترمیم پر اپنے تحفظات رکھتی ہے۔ پچھلے دنوں فوجی سربراہ نے بھی اہلِ دانش کی ایک میٹنگ میں اس ترمیم پر اپنے تحفظات پیش کیے ہیں، اور ان کے بقول اس کو تبدیل ہونا چاہیے۔ یہ نکتہ بھی اٹھایا گیا کہ 18ویں ترمیم شیخ مجیب کے چھے نکات سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے 18ویں ترمیم کی مخالفت کو بعض لوگوں میں سخت ناپسند کیا جارہا ہے اور اس سے یہ تاثر ابھر رہا ہے کہ شاید بااثر ادارہ اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کا حامی نہیں، یا وہ بھی عدم مرکزیت کے مقابلے میں مرکزیت کے نظام کا حامی ہے۔ سیاسی حلقوں میں آج کل جنرل باجوہ ڈاکٹرن کا بڑا چرچا ہے۔ آرمی چیف نے سینیٹ سمیت ایک سے زیادہ جگہ پر یہ بات کھل کر کہی کہ فوج آئین اور جمہوریت کی حامی ہے اور اس کے ساتھ کھڑی ہے۔ فوج نے اس تاثر کی نفی کی ہے کہ وہ جان بوجھ کر اقتدار میں شامل ہونا چاہتی ہے۔ فوجی سربراہ کے اس مؤقف کی بڑی پذیرائی بھی ہوئی، لیکن اب یہ تاثر ابھرنا کہ فوج 18 ویں ترمیم کی مخالف ہے یا اسے ختم کرنا چاہتی ہے، اس پر غور کیا جانا چاہیے۔ فوج کی یہ ذمے داری بنتی ہے کہ وہ اس مسئلے کی سنگینی کے پیش نظر کھل کر اپنے مؤقف کی وضاحت کرے کہ کیا وہ واقعی 18ویں ترمیم کا خاتمہ چاہتی ہے؟ یا اس کے جو بھی تحفظات ہیں وہ سامنے آنے چاہئیں۔ کیونکہ اس وقت پہلے ہی ایک طبقہ بحران کی وجہ فوج سے جوڑتا ہے، اور 18ویں ترمیم کے الجھائو کو بھی اسی سے جوڑ کر فوج پر تنقید کررہا ہے، جو کسی بھی صورت میں فوج کے حق میں نہیں، اور اس پر خود فوج کو بھی اپنے طرزِعمل پر نظرثانی کرنی چاہیے تاکہ یہ نہ سمجھا جائے کہ فوج صوبائی خودمختاری کے حق میں نہیں۔
بعض سیاسی تجزیہ نگار یہ بھی دلیل دے رہے ہیں کہ چیئرمین سینیٹ کے انتخاب میں پیپلز پارٹی کے رضا ربانی کی حمایت نہ کرنے کی ایک وجہ 18ترمیم پر اُن کا مضبوط مؤقف تھا۔ کیونکہ اب تک اگر 18ویں ترمیم موجود ہے تو اس میں ایک بڑا کردار خود رضا ربانی کا بھی ہے۔ پیپلز پارٹی کے سربراہ آصف زرداری سے پوچھا گیا کہ آپ چیئرمین سینیٹ کے لیے دوبارہ رضا ربانی کی حمایت کیوں نہیں کررہے؟ تو انہوں نے اس کی ایک وجہ 18ویں ترمیم میں رضا ربانی کا کردار بتایا اور کہا کہ اس سے پیپلز پارٹی کو نقصان پہنچا ہے۔ اگر اسٹیبلشمنٹ کو واقعی تعلیم اور صحت کے مسائل پر 18ویں ترمیم کے تناظر میں کچھ تحفظات ہیں تو اس کا راستہ مشاورت کی بنیاد پر اسی ترمیم کے اندر سے نکالا جاسکتا ہے۔ یہ کہنا کہ اب 18ویں ترمیم کو ختم کردیا جائے اور اس کے لیے24 ویں یا 25 ویں ترمیم کا سہارا لے کر دیگر سیاسی جماعتوں کو شامل کرکے اس ترمیم سے نکلا جائے، مناسب حکمت عملی نہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے یہاں بہت سے لوگ 18ویں ترمیم کو سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان ایک جنگ کی علامت کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ حالانکہ مسئلہ ایک دوسرے پر سیاسی سبقت کا نہیں بلکہ تمام فریقین کے ایک دوسرے کے مؤقف کو سمجھنے اور بہتر طور پر آگے بڑھنے کی حکمت عملی سے جڑا ہے۔
ہماری سیاسی قیادت اور اسٹیبلشمنٹ کے حلقوں کو یہ بات سمجھنی چاہیے کہ دنیا نے اپنے نظامِ حکمرانی کو مؤثر، بامعنی اور شفاف بنانے کے لیے مرکزیت کے مقابلے میں عدم مرکزیت کے نظام کو مستحکم کیا ہے۔ حکمرانی کا نظام وہیں مؤثر ہوسکتا ہے جہاں زیادہ سے زیادہ عوامی مفادات کے پیش نظر سیاسی، انتظامی اور مالی اختیارات نچلی سطح پر منتقل کیے جاتے ہیں۔ اس لیے مسئلہ 18ویں ترمیم کے خاتمے کا نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر ایک بڑے مکالمے کو آگے بڑھاکر اس میں موجود مسائل کا بہتر حل تلاش کیا جانا چاہیے۔ کیونکہ سیاسی نظام کی بقا اور عوامی مفادات کا تحفظ اسی 18 ویں ترمیم سے ہی جڑا ہوا ہے۔ اگر ہمیں واقعی اپنے نظام حکمرانی کو مؤثر بنانا ہے تو 18ویں ترمیم کو تبدیل کرنے کے بجائے اس کو اور زیادہ مضبوط کرنے پر توجہ دینی چاہیے۔ اس لیے موجودہ صورتِ حال میں تمام سیاسی قوتوں، اہلِ دانش اور میڈیا کو بھی ایک مضبوط پریشر گروپ کے طور پر یہ آواز اٹھانی چاہیے کہ ہمیں مضبوط مرکز کے بجائے صوبوں اور ضلعوں کی مضبوط حکمرانی کا نظا م درکار ہے جو عوام کی اصل ضرورتوں کو پورا کرسکے۔