امام کعبہ، مفتی اعظم مصر اور سابق ایرانی وزیرخارجہ کا دورۂ پاکستان

پاکستان عالمِ اسلام کی امیدوں کا مرکز بھی ہے اور عالمی تبدیلیوں کے حوالے سے آزمائش میں بھی گھرا ہوا ہے۔ ہمیں ایک جانب افغانستان کے حالات نے گھیر رکھا ہے اور دوسری جانب مشرقی سرحد پر بھارت مکروہ عزائم لیے بیٹھا ہے۔ نائن الیون سے پہلے ہمارا دشمن سامنے تھا، اس کی پہچان بھی آسان تھی، اور اس کا وار سہنا بھی مشکل نہیں تھا۔ لیکن نائن الیون کے بعد سے پاکستان ایک نئی آزمائش سے گزر رہا ہے۔ ہمیں اندر سے بھی خطرہ ہے اور باہر سے بھی۔ پاکستان کو درپیش خطرات کے مقابلے کے لیے سعودی عرب اور دیگر دوست ممالک کا تعاون حوصلہ افزا پہلو ہے۔ حالیہ چند برسوں میں امام کعبہ جیسی محترم و مکرم شخصیت متعدد بار پاکستان کا دورہ کرچکی ہے۔ ان کے ہر دورے میں یہی نکتہ مرکزِ گفتگو رہا کہ پاکستان کیسے اس خطے میں پیدا ہونے والی صورتِ حال سے باہر نکل سکتا ہے۔ ایک طویل گفتگو اور سوچ بچار کے بعد پاکستان کی قیادت ’’پیغام پاکستان‘‘ جیسی دستاویز تیار کرنے کے قابل ہوئی اور ملک کے تمام جید علمائے کرام نے اس دستاویز پر دستخط کیے جس کا بنیادی نکتہ یہ تھا کہ خودکش حملے خلافِ اسلام ہیں۔ اس دستاویز کی تیاری میں کم و بیش اٹھارہ سو علمائے کرام کی رائے شامل ہے، جس کے بعد ایوانِ صدر میں اٹھارہ سو جید علماء، اسکالر اور مذہبی شخصیات کے دستخطوں سے ’’پیغام پاکستان‘‘ کی دستاویز تیار ہوئی اور اس پر دستخط کیے گئے۔ پاکستان نے اس بارے میں سعودی عرب کو اعتماد میں لیا۔ وزیراعظم اور آرمی چیف نے متعدد بار سعودی عرب کے دورے بھی کیے، مشاورتی ملاقاتیں ہوئیں، باہمی اعتماد سازی ہوئی، تب ایوانِ صدر میں پیغامِ پاکستان کی تاریخی دستاویز پر دستخط ہوئے۔
پیغام پاکستان کے فالو اَپ کے لیے امام کعبہ شیخ صالح بن محمد آل طالب پاکستان تشریف لائے۔ ان کے بعد مصر کے مفتی اعظم جناب ڈاکٹر شوقی ابراہیم عبدالکریم پاکستان تشریف لائے امام کعبہ کے دورۂ پاکستان میں سینیٹر پروفیسر ساجد میر، سینیٹر حافظ عبدالکریم، وزیر مملکت برائے مذہبی امور پیر امین الحسنات ان کے میزبان رہے۔ پاکستان کا دورہ کرنے والی یہ عالمی مذہبی شخصیات بھیرہ شریف گئیں، فیصل مسجد میں نماز جمعہ پڑھائی، کالا شاہ کاکو میں ایک بڑی کانفرنس سے خطاب کیا۔ مفتی اعظم مصر نے یوم پاکستان کی فوجی پریڈ بھی دیکھی۔بلاشبہ ان دونوں شخصیات کا دورۂ پاکستان ہر لحاظ سے اہمیت کا حامل رہا۔ پاکستان میں ملاقاتوں اور کانفرنس کے علاوہ ہر مجلس میں بنیادی طور پر یہی گفتگو ہوئی کہ پیغام پاکستان کو مسلم دنیا میں اجاگر کیا جائے۔
امام کعبہ نے کشمیر کے لیے کام کرنے والے ایک ممتاز تحقیقی ادارے آئی آئی ایس ایس آر کے ڈائریکٹر جاوید الرحمن ترابی سے بھی ملاقات کی۔ سعودی سفیر بھی اس ملاقات میں موجود تھے۔ یہ ادارہ پروفیسر الیف الدین ترابی نے قائم کیا تھا۔ ان کے انتقال کے بعد جاوید الرحمن ترابی نے یہ محاذ سنبھالا ہوا ہے۔ ابھی حال ہی میں اس ادارے نے مقبوضہ کشمیر میں ہونے والی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں اور مظالم کے بارے میں ایک رپورٹ مرتب کرنے کا کام شروع کیا ہے۔ اس بارے میں امام کعبہ کو آگاہ کیا گیا۔ ان شخصیات کے دورۂ پاکستان کے بعد ایران کی کونسل برائے امورِ خارجہ کے سربراہ اور سابق وزیرخارجہ ڈاکٹر کمال خرازی نے پاکستان کا دورہ کیا، وہ پروفیسر خورشید احمد کے ادارے آئی پی ایس بھی تشریف لائے اور سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات قابلِ تحسین ہے کہ پاکستان34ملکی اتحاد کی سربراہی کے باوجود یمن تنازعے میں فریق نہیں بنا۔ وہ انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز اسلام آباد میں ’’عالمی اور خطے کے ابھرتے منظرنامے کے بارے میں ایرانی نقطہ نظر‘‘ کے موضوع پر خطاب کررہے تھے۔ اجلاس کی صدارت سابق سیکرٹری خارجہ حکومتِ پاکستان شمشاد احمد خان نے کی۔ ڈاکٹر خرازی نے کہا کہ بھارت اور ایران کا باہمی تعاون کبھی بھی پاکستان کے خلاف نہیں ہوسکتا، جس طرح پاکستان سعودی اتحاد ایران کے خلاف نہیں ہوسکتا۔ پاکستان اور ایران ثقافتی، مذہبی، جغرافیائی اور تاریخی طور پر صدیوں سے ایک دوسرے کے ساتھ ہیں، پڑوسی ہیں، ان کے مفادات اور روایات مشترک ہیں۔ ان تعلقات کو معاشی مفادات میں بدلنے کی ضرورت ہے جس سے علاقے میں ترقی کی رفتا ر تیز ہوجائے گی۔ دونوں ممالک کی پالیسی میں چھوٹے چھوٹے اختلافات کی اہمیت نہیں ہے۔ ایران اور بھارت کے تعلقات کا پاک ایران تعلقات پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ امریکہ، بھارت اور اسرائیل کے گٹھ جوڑ کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ دنیا میں ہر ملک اپنے مفادات کے مطابق عمل کرتا ہے۔ ہمیں بھی اپنے اختلافات کو دور کرکے مشترکہ مفادات کے لیے تعاون کرنا چاہیے۔ ڈاکٹر خرازی نے کہا کہ چاہ بہار اور سی پیک کے آپس میں ملنے سے خطے میں بہت بڑی معاشی تبدیلی آئے گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ افغانستان کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ اگلی حکومت میں اگر طالبان شامل ہوگئے تو امریکہ کے افغانستان میں قیام کا جواز ختم ہوجائے گا۔ اس سلسلے میں پاکستان اور ایران کو مل کر کام کرنا چاہیے اور افغانستان میں امن کے قیام میں طالبان کی شرکت کی حمایت کرنی چاہیے، کیونکہ پاکستان اور ایران افغانستان کے مسئلے میں سب سے زیادہ اور براہِ راست متاثرہ ممالک ہیں، جبکہ امریکہ افغانستان میں اپنے قیام کو طول دینا چاہتا ہے، کیونکہ افغانستان میں رہ کر وہ چین، پاکستان، روس اور ایران پر نظر رکھ سکتا ہے۔ ایران اور امریکہ کی نیوکلیئر ڈیل کے حوالے سے امریکی صدر ٹرمپ کی دھمکیوں کے بارے میں انہوں نے کہا کہ امریکہ کئی بار اس معاہدے کی خلاف ورزی کرچکا ہے۔ وہ اس سے بھاگنا چاہتا ہے جبکہ ایران اس معاہدے پر قائم ہے۔ اس کے باوجود ہم دوسری صورتِ حال سے نمٹنے کے لیے بھی تیار ہیں، جبکہ یورپی ممالک امریکہ پر دبائو ڈال رہے ہیں کہ ایران امریکہ نیوکلیئر ڈیل کو نہ توڑا جائے۔ ڈاکٹر کمال خرازی نے کہا کہ داعش کو ایرانی انقلاب کو ناکام بنانے کے لیے بنایا گیا تھا مگر وہ اس مقصد میں ناکام رہی۔ داعش نے 80ہزار فوج بھرتی کی ہے جس میں 50ہزار مختلف ممالک سے جنگجو لائے گئے ہیں۔ اگر عراق اور شام میں داعش کامیاب ہوجاتی تو دونوں ممالک کے حصے بخرے ہوجاتے، اور اس کا فائدہ اسرائیل کو ہوتا۔ شام کی موجودہ صورتِ حال اور بشارالاسد حکومت کی ایران کی جانب سے حمایت کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہماری رپورٹ کے مطابق داعش کے ذریعے اسرائیل شام کو توڑ کر دو ملک بنانا چاہتا ہے، ہم سمجھتے ہیں کہ یہ امتِ مسلمہ کے خلاف ہے۔ ہمارا سوال یہ ہے کہ سعودی عرب اور دیگر طاقتیں اس مسئلے میں امریکہ کے ساتھ کیوں ہیں؟ اگر ایسا ہوجائے گا تو اس کا براہِ راست اثر ایران پر ہوگا، اس لیے ہم نے شام کی یک جہتی کے لیے بشارالاسد حکومت کی حمایت کی ہے۔ یہ شیعہ اور سنی کا مسئلہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ ہم فلسطین، عراق، پاکستان میں سنیوں کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں۔
اس موقع پر اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے سابق سیکرٹری خارجہ شمشاد احمد خان نے کہا کہ پاکستان، ترکی، ایران اور سعودی عرب مل کر مسلم امہ کو قیادت فراہم کرسکتے ہیں اور مسلمانوں کو ان کا حقیقی مقام دلا سکتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سعودی قیادت میں فوجی اتحاد میں پاکستان کی شمولیت ایران کے خلاف نہیں ہے، اور پاکستان کی موجودگی اس بات کو یقینی بناتی ہے کہ 34ملکی اتحاد کے ذریعے ایران کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوگی۔ مسلم ممالک کی صورتِ حال پر روشنی ڈالتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت توانائی کا 70فیصد اور قدرتی وسائل کا 60 فیصد مسلم دنیا کے پاس ہے، لیکن یہ افسوس ناک بات ہے کہ پوری دنیا کے جی ڈی پی میں مسلم دنیا کا صرف 5فیصد حصہ ہے۔ اقوام متحدہ کا ادارہ اپنا مقام کھو چکا ہے۔ کشمیر اور فلسطین کے حوالے سے اقوام متحدہ نے کوئی کردار ادا نہیں کیا۔ آج افغانستان اور شام آگ میں جل رہے ہیں لیکن ہمیں اقوام متحدہ کہیں نظر نہیں آتی۔ مسلمانوں کو ترکی، ایران، سعودی عرب اور پاکستان کے اتحاد کی صورت میں آگے بڑھ کر اپنے مسائل خود حل کرنے چاہئیں۔
قبل ازیں انسٹی ٹیوٹ آف پالیسی اسٹڈیز کے ڈائریکٹر جنرل خالد رحمن نے مہمانوں کو خوش آمدید کہتے ہوئے پاک ایران تعلقات اور ڈاکٹر کمال خرازی سے دیرینہ تعلقات پر روشنی ڈالی اور ایرانی رہنمائوں کی آمد پر ان کا شکریہ ادا کیا، اور کہا کہ اس طرح کے پروگراموں سے ایرانی اور پاکستانی پالیسی سازوں کے درمیان مفاہمت میں اضافہ ہوگا۔اس تقریب میں سابق سفراء، یونیورسٹی کے اساتذہ اور حکومتِ پاکستان کے سابق سیکرٹریوں اور پاکستان میں ایران کے سفیر مہدی ہنردوست سمیت ایرانی سفارتی اہل کاروں، میڈیا کے نمائندوں، دانش وروں، محققین اور یونیورسٹیوں کے طلبہ وطالبات نے شرکت کی۔