حیدرآباد، یونیورسٹی سے محروم

حسن راشد
عام تعلیمی ادارے اورجامعہ میں بنیادی فرق تحقیق کاہے۔ درس و تدریس کے ساتھ ساتھ تحقیق جامعات کی بنیادی ذمے داری اور میدانِ خاص ہے۔ تحقیق کا اظہار جدت اور اختراعات لیے ہوتا ہے۔ جامعات اس میں نمایاں کردار ادا کرتی ہیں۔ موجودہ دور میں سائنس، دفاع اور معیشت سمیت ہر میدان علم کی بنیاد پر روزافزوں بڑھتا جارہا ہے۔ نت نئی تبدیلیاں تیزی سے رونما ہورہی ہیں۔ نصاب پر مسلسل نظرثانی ہورہی ہے، کتب شائع ہورہی ہیں، تراجم کے ذریعے علوم وفنون کو اپنے ہاں منتقل کیا جارہا ہے، برقی ذرائع ابلاغ سے مدد لی جارہی ہے۔ ایک طرف طلبہ کی تربیت کی جارہی ہے، دوسری طرف اساتذہ کو نئی جہات سے روشناس کیا جارہا ہے۔ ملک میں یونی ورسٹی گرانٹس کمیشن کو ہائر ایجوکیشن کمیشن میں بدل کر اُس کے فرائض میں اضافہ کردیا گیا ہے۔ صوبائی سطح پر ہائر ایجوکیشن کمیشن تشکیل دیے جارہے ہیں۔ پرائمری تعلیم سے جامعہ تک اعلیٰ تعلیم کے لیے پورے ملک میں تعلیمی اداروں کا جال بچھایا جارہا ہے۔ سندھ میں بھی شہر کیا، دیہات تک کے لیے جامعات کے چارٹر منظور کیے جارہے ہیں۔ معیار سے قطع نظر یہ احسن قدم ہے، مگر ملک کا پانچواں اور سندھ کا دوسرا بڑا شہر حیدرآباد یونی ورسٹی جیسے اعلیٰ تعلیمی ادارے سے محروم ہے۔
اندرونِ سندھ کا مرکز حیدرآباد ایسا بدقسمت شہر ہے جس میں سرکاری و نجی سطح پر کوئی جنرل یونی ورسٹی موجود نہیں ہے۔ قیام پاکستان کے بعد کراچی کو ملک کا دارالحکومت قرار دیے جانے کے بعد سندھ یونی ورسٹی کو حیدرآباد میں اُس جگہ منتقل کیا گیا جہاں آج سندھ یونی ورسٹی کا پراناکیمپس قائم ہے، جہاں صرف ایجوکیشن فیکلٹی کام کررہی ہے۔ بعدازاں جامعہ سندھ بھی یہاں سے جام شورو منتقل کردی گئی۔ لیاقت میڈیکل کالج اور مہران انجینئرنگ کالج بھی حیدرآباد کے لیے منظور ہوئے تھے اور یہیں قائم تھے، انھیں بھی جام شورو ضلع میں منتقل کردیا گیا ہے۔ دونوں پروفیشنل کالج یونی ورسٹی کا درجہ حاصل کرچکے ہیں۔ یعنی پہلے حیدرآبادکے طلبہ وطالبات کو جنرل یونی ورسٹی اور انجینئرنگ اور میڈیکل کالج جیسے پروفیشنل ادارے میسر تھے۔ ماضی کی نسبت اِن اداروں میں گنجائش کم ہے اور حیدرآبادکی ضروریات بھی بڑھ گئی ہیں، مگر اعلیٰ تعلیمی ادارے موجود نہیں ہیں۔ البتہ سرکاری سطح پر حیدرآباد دیہی میں ایک زرعی جامعہ اور نجی سطح پر مہنگی ترین میڈیکل اور ایک آدھ سائنسی شعبے پر مشتمل جامعہ ضرور ہے۔
چھٹی مردم شماری کے مطابق حیدرآباد ضلع کی کُل آبادی 20 لاکھ 20 ہزار 179 ہے۔ تعلیمی بورڈ حیدرآباد سے ہرسال پچاس ہزار سے زائد طلبہ وطالبات انٹرکا امتحان پاس کرتے ہیں جن میں پری انجینئرنگ کے18136، پری میڈیکل کے 27168، اور جنرل سائنس کے 993 طلبہ وطالبات شامل ہیں۔
حیدرآباد میں اعلیٰ تعلیمی ادارے نہ ہونے کے سبب قریب ترین لیاقت میڈیکل اینڈ ہیلتھ سائنسز میں پہلے 47 سیٹیں مختص تھیں، جو اب گھٹاکر37کردی گئی ہیں۔ مہران انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی یونی ورسٹی میں حیدرآباد ڈومیسائل کے حامل طلبہ و طالبات کے لیے صرف 88 نشستیںہیں، جب کہ جامعہ سندھ کے مین کیمپس سمیت لاڑکانہ، نوشہروفیروز، دادو، میرپور، حیدرآباد، ٹھٹہ اور بدین کیمپس میں کُل 18930 گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن داخلوں کی گنجائش ہے۔ قانوناً60 اور 40کا دیہی اور شہری کوٹہ نافذ ہے۔ پروفیشنل کالجز کیا، سندھ یونی ورسٹی میں حیدرآبادکے طلبہ کی غالب اکثریت داخلوں سے محروم ہے۔ چند سو کے سوا، طلبہ وطالبات کے لیے اعلیٰ تعلیم ایک خواب ہی ٹھیرتا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد حیدرآباد شرحِ خواندگی کے لحاظ سے پانچ سرفہرست شہروں میں شامل تھا۔ 70 سال بعد یعنی اکیسویں صدی میں اس کا شمار پہلے دس شہروں میں بھی نہیں ہے۔
کہا جاتا ہے کہ مختلف الخیال عقائد اور رنگ و نسل کی اجتماعیت میں رواداری نسبتاً زیادہ ہوتی ہے۔ یہاں معاملہ اس کے برعکس ہے۔ سرمئی شاموں اور ہوادانوں کے اس شہرکو لسانیت کی راہ دکھائی گئی، اور اپنے کہلائے جانے والے اور پرائے قرار دیے جانے والے دونوں اس عصبیت میں اپنا ہی نقصان کرتے رہے ہیں۔ حیدرآباد ضلع چار تحصیلوں حیدرآباد سٹی، لطیف آباد، قاسم آباد اور حیدرآباد دیہی (ٹنڈوجام) پر مشتمل ہے۔ اردو اور سندھی بولنے والوں کے ساتھ پختون، پنجابی،کشمیری ودیگر اس کے باسی ہیں۔ یہ سب کے سب حیدرآباد کا ڈومیسائل رکھنے کے سبب یونی ورسٹی میں داخلے سے محروم ہیں۔ اونٹ کے منہ میں زیرہ کے مصداق کوٹے کی وجہ سے بیرونی جامعات میں بھی نہ ہونے کے برابر داخلہ مل پاتا ہے۔ بیرونی جامعات میں یہاں کے طلبہ وطالبات جس گریڈ پر داخلے سے محروم رہ جاتے ہیں، اسی گریڈ اور اس سے کمتر گریڈ پر دیگر اضلاع کے طلبہ وطالبات کو بآسانی داخلہ مل جاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیم کے محدود ترین مواقع ہونے کی وجہ سے وفاقی اور صوبائی مقابلے کے امتحانات میں بھی کم تعداد شریک ہوتی ہے۔
مقامی نوجوانوں کے اس مقدمے کے بعد ایک امید افزا خبر ضرور زیرِ گردش ہے۔ خبر اس لیے کہ ابھی تک میڈیا سے ایوانوں تک محدود ہے۔ گزشتہ سال مئی میں سابق وزیراعظم نوازشریف نے اپنی حیدرآباد آمد پر اسے یونی ورسٹی دینے کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل قومی اسمبلی میں یونی ورسٹی کے لیے
قرارداد منظور ہوچکی ہے۔ مسلم لیگ(ن) ہی کے وزیراعظم شاہدخاقان عباسی نے یہی بات کراچی میں دہرائی۔ ہائرایجوکیشن کمیشن نے ہر ضلع میں ایک یونی ورسٹی قائم کرنے کا اُصولی فیصلہ کیا۔ سندھ اسمبلی بھی حیدرآباد کے سوسال قدیم تاریخی گورنمنٹ کالج کو یونی ورسٹی کا درجہ دینے کے لیے ایک قرارداد منظور کرچکی ہے۔ وزیراعلیٰ سندھ سید مرادعلی شاہ نے مزید آگے بڑھ کر وزیر تعلیم جام مہتاب ڈھر کی سربراہی میں کمیٹی قائم کرکے اسے خصوصی ٹاسک دیا۔ کمیٹی کی سفارشات کی روشنی میں صوبائی کابینہ نے اس کی منظوری دی اور 2 مارچ کو سندھ اسمبلی نے گورنمنٹ کالج حیدرآباد کو یونی ورسٹی کا درجہ دینے کا تاریخی بل منظور کیا ہے۔ یونی ورسٹی کا قیام حیدرآباد کے شہریوں خصوصاً طلبہ کا دیرینہ مطالبہ رہا ہے۔ بلاامتیاز حیدرآباد کے شہری سندھ اسمبلی کے اس تاریخی بل کو اسی سال اسمبلی کی مدت ختم ہونے سے پہلے عملی جامہ پہنتے دیکھنے کے شدید خواہش مند ہیں۔ یونی ورسٹی کے قیام سے جہاں معیارِ تعلیم بلند ہوگا، جامعات کے درمیان علمی وتحقیقی مسابقت پیدا ہوگی، وہیں حکومتِ وقت کو بھی اس کا کریڈٹ دیا جائے گا۔ بشرطیکہ صوبائی حکومت اپنی مدت کے اختتام سے پہلے کرگرزے۔