پاکستان پیپلزپارٹی اور صحت و تعلیم سے محروم اہل سندھ

صوبہ سندھ میں گزشتہ ایک عرصے سے سیاسی، سماجی اور معاشرتی حوالے سے صورتِ حال جمود کا شکار ہے۔ صوبے پر پیپلز پارٹی کی حکومت کو برسر اقتدار آئے ایک دہائی سے زائد کا عرصہ گزر جانے کے باوجود عوام کے مسائل، میں کسی نوع کی کوئی کمی آنے کے بجائے ان میں بے پناہ اضافہ ہی دیکھنے میں آیا ہے، اور عوام کی اکثریت بنیادی ضروری سہولیات تک سے یکسر محروم ہے۔ ترقی کے برعکس زوال اور انحطاط کا سامنا کرنے پر لوگوں کی اکثریت پیپلزپارٹی کی حکومت سے بے حد نالاں اور بے زار ہے، تاہم یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ اس کے باوجود 2018ء میں ہونے والے انتخابات میں مقامی عوام حسبِ سابق چاروناچار پیپلزپارٹی ہی کو اپنے ووٹ اور حمایت سے نوازیں گے۔ لگ بھگ سارے سیاسی مبصرین اس بات پر متفق دکھائی دیتے ہیں کہ آئندہ ہونے والے انتخابات میں بیشتر حلقوں سے پیپلزپارٹی کے امیدواران ہی کامیابی حاصل کر پائیں گے۔ اس کے پسِ پردہ بہت سارے عوامل کارفرما ہیں، جن میں سے ایک نمایاں ترین سبب یہ بھی گردانا جاتا ہے کہ پیپلزپارٹی کی مرکزی قیادت ہر انتخاب کی طرح امسال ہونے والے انتخابات میں بھی بدعنوانی کے ذریعے سمیٹی گئی بے پناہ دولت کو ’’سخاوت‘‘ کے ساتھ استعمال کرکے انتخابی معرکہ سر کرنے میں کامیاب ہوجائے گی۔
علی قاضی کی زیر قیادت ’’تبدیلی پسند عناصر‘‘ اور گرینڈ ڈیمو کریٹک الائنس المعروف ’’جی ڈی اے‘‘ کے پلیٹ فارم سے بھی ڈیڑھ درجن کے قریب مختلف چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں اس وقت خود کو پیپلزپارٹی کے متبادل کے طور پر پیش کرتے ہوئے متحرک اور سرگرمِ عمل دکھائی دیتی ہیں۔ لیکن ان کی وجہ سے پیپلزپارٹی کو مستقبل قریب میں ہونے والے متوقع انتخابات میں کسی بڑے چیلنج کا سامنا کرنا پڑسکتا ہے اس کا امکان بھی کم ہی نہیں بلکہ خاصا کم دکھائی دیتا ہے۔ ’’جی ڈی اے‘‘ ماضی میں ہونے والے انتخابات میں بھی خود کو پیپلزپارٹی کی متبادل سیاسی قوت کے طور پر پیش کرنے کی سعی کرتا رہا ہے، لیکن غالباً اس سیاسی اتحاد کی قیادت کی غیر مستقل مزاجی اور غیر سنجیدگی اسے مطلوبہ کامیابی دلانے میں مانع رہی ہے، اور اب بھی اسے بعینہٖ صورتِ حال کا سامنا ہے۔ اب کی بار اس سیاسی اتحاد میں شامل جماعتوں کے قائدین کے منقسم دل کس طرح سے اور کیونکر جڑ پائیں گے، یہ ایک بہت بڑا سوالیہ نشان ہے۔ ہاں البتہ پیر صاحب پگارا کی مسلم لیگ فنکشنل کے امیدواران اپنے مخصوص دیرینہ حلقوں سے جن میں ضلع خیرپور، سانگھڑ وغیرہ شامل ہیں، یا پھر نیشنل پیپلزپارٹی کے غلام مرتضیٰ جتوئی (پارٹی چیئرمین) اپنے آبائی حلقے سے حسبِ سابق و روایت ضرور کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ دوسری جانب تحریک انصاف، جماعت اسلامی اور جے یو آئی بھی اپنے اپنے طور پرمیدان میں فعال ہیں، ان کی یہ سیاسی سرگرمیاں انتخابات میں ان کی کامیابی میں کتنی اور کس قدر معاون ثابت ہوں گی اس بارے میں فی الوقت یہی کہا جاسکتا ہے کہ ’’دیکھو اور انتظار کرو‘‘۔ رہے قوم پرست، تو وہ بے چارے اس وقت ’’نادیدہ قوتوں‘‘ کے دبائو کی وجہ سے عملاً اپنی سرگرمیاں معطل کیے ہوئے اور دم سادھے خاموش بیٹھے دکھائی دیتے ہیں۔ علیحدگی کی علَم بردار اور سندھ میں تخریبی کارروائیوں کی ذمے داری قبول کرنے والی ’’جیے سندھ متحدہ محاذ‘‘ المعروف ’’جسمم‘‘ کے چیئرمین شفیع برفت بھی فرار ہوکر جرمنی جا پہنچے ہیں جہاں وہ بذریعہ سوشل میڈیا اپنی منفی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن ’’اثر اس کا ذرا نہیں ہوتا‘‘ کی سی صورتِ حال کا انہیں سامنا درپیش ہے۔
پیپلزپارٹی کی حکومت نے اپنے سارے عرصۂ اقتدار میں اگر کوئی لائقِ تعریف کام کیا ہے تو وہ ہے کراچی، حیدرآباد سمیت لاڑکانہ، سکھر اور تھرپارکر وغیرہ میں سرکاری سطح پر دل کے امراض کے اسپتالوں کا قیام… جہاں پر آنے والے مریضوں کا علاج اور ٹیسٹ بالکل فری ہونے کا حکومتِ سندھ کی جانب سے دعویٰ کیا جارہا ہے، اس کے ماسوا دیگر تمام شعبوں میں صورتِ حال حد درجہ دگرگوں اور تشویش ناک ہے۔ سگ گزیدہ اور مار گزیدہ افراد کو سرکاری ہسپتالوں میں ویکسین تک دستیاب نہیں ہوتی، اور موجودہ جدید، سائنسی اور ترقی یافتہ دور میں متاثرہ افراد مناسب علاج کی سہولت میسر نہ آنے کے باعث تڑپ تڑپ کر مر جاتے ہیں، تاہم محکمہ صحت سندھ کے بے حس متعلقہ ذمے داران کو اس کی مطلق پروا نہیں ہے۔ سندھ میں صحت کی طرح تعلیم کے شعبے میں ایمرجنسی کے نفاذ کے باوجود تعلیمی ادارے سینکڑوں نہیں بلکہ بلامبالغہ ہزاروں کی تعداد میں بند پڑے ہوئے ہیں۔ تعلیمی عملہ کی حاضری پر نظر رکھنے کے لیے سندھ کے اسکولوں میں سابق سیکرٹری تعلیم ڈاکٹر فضل اللہ پیچوہو کے دور میں بائیو میٹرک کا نظام وضع کیا گیا تھا جو اب بری طرح ناکامی سے دوچار ہوکر آپ اپنا مرثیہ پڑھ رہا ہے۔ بائیو میٹرک کے ذمے داران اب ’’گھوسٹ عملہ‘‘ سے 5 ہزار روپے ماہانہ کے عوض انہیں اپنی ڈیوٹی سے غیر حاضر ہونے کی ایک طرح سے سرکاری اجازت ’’مرحمت‘‘ کیے ہوئے ہیں اور متعلقہ اسکولوں کے ہیڈ ماسٹر کو مخصوص رقم کے بدلے میں اپنی آمد اور ’’اسکول وزٹ‘‘ سے پہلے ہی آگاہ کردیتے ہیں، تاکہ ان کے وزٹ کے روز غیر حاضر عملہ بھی ’’بائیو میٹرک‘‘ کے توسط سے ریکارڈ میں اپنی حاضری کو یقینی بنانے کا باقاعدہ انتظام اور اہتمام کرلے۔ گویا ’’بائیو میٹرک سسٹم‘‘ نے محکمہ تعلیم سندھ میں بجائے اصلاحِ احوال کے، کرپشن اور بدعنوانی کے نئے دروازے وا کردیے ہیں۔ سندھ میں ناقص منصوبہ بندی کے باعث ایل بی او ڈی اور آر بی او ڈی جیسے منصوبے صوبے کی معاشی اور اقتصادی تباہی کا باعث بنے ہوئے ہیں۔ صاف پانی کے ذخائر بتدریج تباہی سے دوچار ہورہے ہیں۔ صوبہ سندھ کے بیشتر علاقوں کے باشندوں کو صاف اور میٹھا پانی میسر نہیں، اور لوگوں کی اکثریت زہریلا پانی پینے پر مجبور ہوچکی ہے۔ عدالت کی جانب سے نوٹس لینے کے باوصف تاحال صورتِ حال میں کسی نوع کی کوئی بہتری رونما نہیں ہوسکی ہے۔ سندھ کا ضلع بدین جہاں ملک بھر میں سب سے زیادہ تیل نکلتا ہے، یو این ڈی پی اور دیگر اداروں کی جانب سے انسانی لحاظ سے کروائے گئے سروے کے مطابق یہ ضلع پاکستان کے تمام اضلاع میں انسانی ترقی کے لحاظ سے آخری نمبر پر واقع ہوا ہے۔ اسے ایک بڑا المیہ گردانا جائے اور ستم ظریفی قرار نہ دیا جائے تو آخر پھر کیا نام دیا جائے؟ اس وقت سندھ کے مختلف اضلاع میں آئے روز خسرہ کی بیماری سے بڑی تعداد میں معصوم بچوں کی ہلاکتوں کی ہولناک اطلاعات سامنے آرہی ہیں لیکن محکمہ صحت سندھ کے ذمہ داران کے کانوں پر جوں تک رینگتی ہوئی محسوس نہیں ہوتی، درآں حال یہ کہ ایسے الم ناک اور دردناک کئی واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں کہ خسرہ کی بیماری سے ایک ہی گھر میں تین تین سگے بھائی اور بہنیں تک جاں بحق ہوچکی ہیں لیکن اس المیے کا تدارک کرنے والا کوئی نہیں ہے۔ زرعی شعبہ بھی بدترین صورتِ حال سے دوچار ہے اور بے چارے ہاری اپنی کاشت کردہ فصلوں کے مناسب نرخ نہ ملنے پر صوبے بھر میں احتجاج کرتے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں لیکن ان کی فریاد سننے والا بھی کوئی نہیں ہے۔ سندھ میں کاغذات اور سرکاری فائلوں میں تو بے تحاشہ ترقیاتی کام دکھائے گئے ہیں لیکن عملاً سندھ کے شہر، قصبات اور دیہات کھنڈرات کا بدنما منظر پیش کررہے ہیں۔ ایک عام فرد حصولِ صحت، انصاف اور روزگار سے محروم ہونے کی وجہ سے مایوس اور دلبرداشتہ ہوچکا ہے لیکن عوام کے دکھوں کا مداوا کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔ اس پر گرمیوں کی آمد اور لوڈشیڈنگ رہی سہی کسر پوری کردے گی۔