کراچی سرکلر ریلوے، دیوانے کا خواب

محمد عارف میمن
کراچی سرکلر ریلوے کی بحالی کے حوالے سے شہرِ قائد کے باسیوں کو ہر نئے سال خوش خبری سنائی جاتی ہے۔
پبلک ٹرانسپورٹ کا مسئلہ حل کرنے اور شہر کے اہم مقامات کو ملانے کے لیے اندرون شہر ریل سروس کا منصوبہ جسے’’کراچی سرکلر ریلوے‘‘ کا نام دیاگیا، سب سے پہلے 1976ء میں تجویز کیا گیا تھا۔
مگر اس پر بات کرنے سے پہلے ماضی پر ایک نظر ڈالی جائے تو ہمیں ٹرام نظر آئیں گی۔ ٹرام شہرِ قائد کے لیے سب سے پہلا ٹرانسپورٹ منصوبہ تھا جسے انگریز سرکار نے انتہائی قلیل عرصے میں عملی جامہ پہناکر عوام کے سامنے پیش کیا۔ یہ منصوبہ 1881ء میں کراچی میونسپلٹی کے انجینئر مسٹر جیمزاسٹریچن نے پیش کیا اور اسے منظوری کے لیے لندن بھیجا۔ 1883ء میں بمبئی حکومت کی جانب سے اسے منظور کرلیاگیا اور اسی سال ٹرام وی ایکٹ بھی منظور کیا گیا۔ ہمارے افسران کی دیانت داری دیکھیے کہ ٹرام وی ایکٹ آج بھی برقرار ہے۔ 20 اکتوبر 1884ء کو شہر کراچی میں ٹرام کے لیے پٹڑیاں بچھانے کے کام کا آغاز ہوا۔ 20 اپریل 1885ء کو سندھ کے کمشنر مسٹر ہینری ارسکن نے قلیل عرصے میں مکمل ہونے والے اس منصوبے ٹرام وی نظام کا افتتاح کیا۔ ابتدا میں اسے کوئلے کے انجن سے چلایاجاتا رہا، جس کے شور سے لوگوں کا سکون برباد ہونے لگا، تاہم بعد میںانجن ہٹاکر ٹرام کو گھوڑوں کے ذریعے کھینچا جانے لگا۔ کچھ عرصے بعد1909ء میں گھوڑا سروس بند کرکے پیٹرول انجن لندن سے منگوائے گئے۔ تیزرفتاری کی وجہ سے ایک مرتبہ پھر پٹڑیاں تبدیل کی گئیں۔ پہلے سال ہی ٹرام نے اپنی مقبولیت کے جھنڈے گاڑ دیے اور ایک سال میں 5 ملین کے قریب لوگوں نے اس پر سفر کیا۔ 1913ء میں ٹراموں کی تعداد 37 ہوگئی۔ ہر ٹرام میں 46 مسافروں کے بیٹھنے کی گنجائش تھی۔
تقسیم ہند کے بعد ایسٹ انڈیا کمپنی نے ٹرام کمپنی کی فروخت کے لیے ٹینڈر طلب کیے جس میں سب سے کامیاب بولی محمد علی نامی شخص نے لگائی۔ انہوںنے یہ نظام محض32 لاکھ روپے میں خرید کر کمپنی کا نام محمد علی ٹرام وی کمپنی رکھ دیا۔ فروری 1948ء میں 65 ٹرام اور 65 بسیں محمد علی کمپنی کی ملکیت تھیں، جنہیں چلانے کے لیے 1100 ملازمین تھے۔ جن علاقوں میں ٹرام نظام موجود نہیں تھا وہاں ایسٹ انڈیا کمپنی بسیں چلایا کرتی تھی۔ 1960ء میں محمد علی کمپنی نے بس سروس بند کردی۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد ٹرام کے انجن پیٹرول سے ہٹاکر ڈیزل پر کردیے گئے اور اس میں مسافروں کی گنجائش بھی بڑھاکر 65 کردی گئی، جب کہ ڈرائیوروں اور کنڈیکٹروں کی تربیت کے لیے ایک اسکول بھی بنایا گیا تھا۔
30 اپریل 1975ء کا دن کراچی کی تاریخ کا ایک بدترین دن ثابت ہوا، جب آخری ٹرام نے اپنا سفر بندرروڈ سے بولٹن مارکیٹ تک مکمل کیا۔ 1974ء میں حکومت نے ٹرام ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ حکومت کا مؤقف تھا کہ بندر روڈ پر ٹریفک بڑھنے سے ٹرام سے شدید مشکلات پیش آرہی ہیں۔ جس پر کمپنی نے مکمل نظام کو لپیٹ لیا اور ٹرام کے ساتھ پٹڑیاں بھی اسکریپ کردیں۔ کہتے ہیں آپ کا ماضی آپ کے مستقبل سے جڑا ہے۔ زندہ قومیں ہمیشہ اپنے ماضی کو زندہ رکھتی ہیں، تاہم یہاں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ 1975ء میں ٹرانسپورٹ کی تاریخ کا اہم باب بند ہوگیا۔ اس کے بعد کسی نے بھی ٹرام کی شکل نہیں دیکھی۔
1964ء میں کراچی میں کراچی سرکلر ریلوے کا منصوبہ بنایا گیا، جسے دو حصوں میں مکمل کیا گیا۔ پہلے مرحلے میں ڈرگ روڈ کو لیاری اسٹیشن سے ملایا گیا، اور پھر دوسرے مرحلے میں اسی ٹریک کو لیاری سے کراچی سٹی اسٹیشن تک جوڑ دیاگیا۔ 1969ء میں اس روٹ پر 24 مسافر ریل گاڑیاں چلا کرتی تھیں۔ پھر وہی ہوا جو ٹرام کے ساتھ ہوا تھا، سازش کے تحت اس نظام کو ناکام بنانے کے لیے پہلے ریل گاڑیوںکو لیٹ کرنا شروع کیا گیا، اور بعدازاں بس مالکان نے اس کا بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنی اندھی کمائی میں اضافہ کیا۔ 1980ء کی کامیاب سواری 1990ء میں مسافروں کی عدم دلچسپی اور بس مالکان کی سازشوں کے باعث تباہ ہونا شروع ہوگئی۔ 1994ء میں کئی ریل گاڑیاں یہ کہہ کر بند کردی گئیں کہ خسارہ بڑھ رہا ہے۔ اور 1999ء تک لوپ لائن پر چلنے والی واحد ریل گاڑی کو بھی مکمل طورپر بند کردیاگیا۔
یہ ٹرام اور کراچی سرکلر ریلوے کا شاندار ماضی تھا۔ اب حال دیکھیں تو حکومت کی ٹرانسپورٹ پالیسیاں دیکھ کر افسوس ہی کیا جاسکتا ہے، جس نے پرائیویٹ سیکٹرکو فائدہ پہنچانے کے لیے شہرِ قائد کے باسیوں سے بہترین اور جدید ٹرانسپورٹ نظام چھین کر انہیں مافیا کے سامنے بے بس کردیا۔ اب لکیر پیٹنے سے کیا فائدہ جب چڑیاں چگ گئی کھیت والا معاملہ ہے۔ 19برسوں سے عوام کو کراچی سرکلر ریلوے کا خواب دکھایا جارہا ہے… کبھی منصوبے کی فزیبلٹی اسٹڈی کرکے، تو کبھی مختلف فورمز پر اس کی منظوری لے کر… لیکن نتیجہ آج بھی وہی ہے یعنی ڈھاک کے تین پات۔
اس منصوبے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے میں دو اہم چیزیں رکاوٹ بن رہی ہیں (1) تجاوزات اور قبضہ مافیا، اور (2) پرائیوٹ پبلک ٹرانسپورٹ نظام۔ کینیڈا اور جاپان کی کمپنیوں نے اس پر کام کرنے سے پہلے ہی راہِ فرار اختیار کرنے میں اپنی عافیت جانی۔ شاید انہیں بھی علم ہوگیا تھا کہ کراچی میں یہ دوگروپ انتہائی طاقتور ہیں اور حکومت ان کے سامنے بے بس ہی رہے گی۔ اور شاید حقیقت بھی یہی ہے جس کی وجہ سے آج تک اس منصوبے کو کبھی عملی جامہ پہنانے کی کوشش تک نہیں کی گئی۔
2003ء، 2005ء، 2013ء، 2014ء اور اب اگست 2017ء میں اس منصوبے کی پھر بازگشت سنائی دی۔ تاہم اب عوام کو جدید طریقے سے بے وقوف بنانے کے لیے سی پیک کا راستہ اختیار کیا گیا اور منصوبہ یہ کہہ کر ایک چینی کمپنی کے حوالے کردیا گیا کہ وہ اسے مکمل کرکے سی پیک کا حصہ بنائے گی۔ لیکن آج چینی کمپنی کو بھی تجاوزات کا سامنا ہے اور حکومت اب بھی اس مسئلے پر سنجیدہ دکھائی نہیں دے رہی۔ ستمبر 2017ء میں اس منصوبے پر کام کا آغاز کیا جانا تھا، اور اس کی تکمیل 2020ء تک ہونی تھی، مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ نہ اس منصوبے پر کوئی پیش رفت ہوئی اور نہ ہی اس پر کوئی کام ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ اب کراچی سرکلر ریلوے کراچی کے باسیوں کے لیے کسی دیوانے کے خواب کی طرح ہے، جو کبھی تعبیر نہیں پاتا۔