سیاسی بحران کے تسلسل کے باوجود پاکستان مسلم لیگ (ن) کی حکومت اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے، اس فرق کے ساتھ کہ بھاری اکثریت سے وزیراعظم بننے والے میاں نوازشریف نہ صرف معزول ہوگئے بلکہ نااہل بھی قرار پاگئے، لیکن اُن کی جماعت کی حکومت برقرار رہے۔ پاناما کیس کے بعد سے پاکستان مسلسل تشنج کا شکار ہے۔ ایک عالمی ادارے کی تفتیشی رپورٹ کے انکشافات نے اس بات کی تصدیق کردی تھی کہ بدعنوانی اور کرپشن پاکستان کے سیاسی و اجتماعی امراض میں سب سے بڑا اور تباہ کن مرض بن چکا ہے۔ بدعنوان حکمرانوں کا احتساب قومی نعرہ بن چکا ہے لیکن ہر حکومت نے، چاہے وہ سیاسی جماعتوں کی ہو یا جرنیلوں کی، احتساب کا راستہ اختیارکرنے سے گریز کیا ہے۔ قومی اور عالمی ذرائع ابلاغ میں پاکستانی حکمراں اشرافیہ کی بدعنوانی اور ان کی غیرملکی بینکوں میں پڑی ہوئی دولت کی ہوش ربا داستانیں مسلسل شائع ہوتی رہی ہیں، لیکن الزامات اور جوابی الزامات لگائے جاتے رہے، جبکہ حقیقی اور شفاف احتساب کے ادارے کو مستحکم کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں تھا، اس دوران بعض عالمی سیاسی وجوہ کی بنا پر پاناما میں قائم آف شور کمپنیوں کی تفصیلات شائع ہوگئیں جس نے کئی ممالک کے دارالحکومتوں میں زلزلہ برپا کردیا تھا۔ برطانوی وزیراعظم سمیت کئی حکمراں اپنے مناصب سے معزول ہوگئے، اس فہرست میں وزیراعظم پاکستان میاں نوازشریف کے بچوں پر مشتمل آف شور کمپنی، اور اس کی ملکیت میں لندن میں واقع فلیٹ کی تفصیلات شائع ہوگئیں۔ پاناما انکشافات کی تفصیلات نے کرپشن اور بدعنوانی کے خلاف پاکستان میں موجود تحریک کو تیز کردیا۔ اصل فرض تو حکومت کا تھا کہ وہ شفاف تحقیق و تفتیش کا بندوبست کرتی، لیکن حکومت بہ وجوہ احتساب کے شفاف نظام پر پارلیمان میں اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں ناکام ہوگئی۔ سیاسی بحران بڑھتا رہا، حالانکہ عدلیہ میں اس حوالے سے درخواستیں موجود تھیں جن کی شنوائی نہیں ہورہی تھی۔ بالآخر یہ مسئلہ عدلیہ میں چلا گیا۔ عدالتِ عظمیٰ نے وزیراعظم میاں نوازشریف کو معزول کردیا۔ میاں نوازشریف کی معزولی کے اس فیصلے نے بدعنوانی، اور اقتدار و طاقت کا ناجائز استعمال کرنے والوں کے خلاف شفاف اور غیر جانب دار احتساب کی ضرورت اور اہمیت کو نمایاں کردیا ہے۔ پاکستان کے سیاسی بحران کی جڑ یہ ہے کہ یا تو ملک پر جبر و استبداد کی حکمرانی رہی ہے، یا انتخابی عمل کے ذریعے حکومت میں آنے والے حکمراں صرف اپنی دولت بڑھانے پر توجہ دیتے رہے۔ سیاسی جماعتوں کے طرزعمل نے یہ ثابت کیا ہے کہ ’’جمہوریت‘‘ کا ترانہ گانے والے خود جمہوریت پر یقین نہیں رکھتے۔ انتخابی عمل میں ملکی اور غیرملکی طاقتوں کی مداخلت بھی ’’کھلا راز‘‘ ہے۔ 2008ء کے انتخابات سے قبل اور بعد امریکی حکومت کے نمائندے مستقل پاکستان کے دورے کرتے رہے اور انتخابی عمل اور حکومت سازی کے عمل کی نگرانی کرتے رہے۔ جو بات کبھی لوگوں کے ذہنوں میں تھی کہ پاکستان میں حکومتوں کے بننے اورمعزول ہونے کے فیصلے امریکہ سے آتے ہیں، این آر او نے اس کی تصدیق کردی۔ معزول وزیراعظم میاں نوازشریف نے بھی پاناما کے ذریعے اپنی معزولی کو غیرملکی سازش قرار دیا تھا۔ 2008ء کے انتخابات کے موقع پر بیرونی مداخلت کھلی تھی، 2013ء کے انتخابات کے موقع پر پسِ پردہ تھی۔ اسی مداخلت کے نتیجے میں رائے عامہ کے جائزوں اور پیش بینی کے اعداد و شمار کے برعکس میاں نوازشریف کو بھاری اکثریت دلائی گئی جس کی وجہ سے ایک فریق پاکستان پیپلز پارٹی کے قائد آصف علی زرداری نے اسے ’’آر او‘‘ الیکشن قرار دیا تھا۔ پاکستان میں تمام انتخابات عالمی کشمکش کے تناظر میں منعقد ہوتے رہے ہیں۔ اس کشمکش کا تقاضا یہ ہے کہ پارلیمان میں عوامی نمائندگی کی طاقت کو مستحکم کیا جائے، اس کے لیے بنیادی شرط دیانت اور اہلیت ہے، لیکن قومی قیادت ایسے لوگوں پر مشتمل ہو جو نہ صرف مفاد پرست اور اقتدار پرست ہوں بلکہ ساتھ ہی بدعنوان بھی ہوں، وہ نظام حکمرانی کو عادلانہ کیسے بنائیں گے! جب اعلیٰ ترین مناصب پر فائز طبقات قانون کی پابندی نہیں کریں گے تو قانون کی حکمرانی کیسے قائم ہوگی! پاکستان دشمنوں کے درمیان گھرا ہوا ہے۔ ان دشمنوں کا مقابلہ کرنے کے لیے دیانت دار سیاسی قیادت ہونا ضروری ہے۔ پاناما کیس کے فیصلے کا منطقی تقاضا یہ تھا کہ ان تمام لوگوں کے خلاف تحقیق کی جاتی جن کے نام پاناما دستاویزات میں تھے۔ قوم کو امید تھی کہ بلاامتیاز احتساب ہوگا، بیرونِ ملک بینکوں سے پاکستان کی لوٹی ہوئی دولت واپس آئے گی۔ لیکن یہ سب بے لاگ اور بلاامتیاز احتساب کے بغیر ممکن نہیں۔