واصف علی واصف
بعض اوقات ہم اکثریت کے فیصلے پر سفر اختیار کرتے ہیں۔ یہ سفر بھی مشکوک ہوتا ہے۔ اکثریت متلون ہوسکتی ہے، بے خبر ہوسکتی ہے، بے علم ہوسکتی ہے، غافل ہوسکتی ہے، آرام پرست اور آرام طلب ہوسکتی ہے… جہاں اکثریت کاذب ہو، وہاں صداقت کا سفر کیسے ہوسکتا ہے…! اگر منافقین کی اکثریت کے حوالے کردیا جائے تو بھی فیصلہ غلط ہوگا۔ اللہ نے بیان فرمایا کہ ’’اگر منافقین، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر یہ اعلان کریں کہ ’’ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں‘‘ تو اے حبیب! میں جانتا ہوں کہ تُو رسول ہے… لیکن یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ منافق غلط کہتے ہیں‘‘۔ یعنی جھوٹے لوگ سچ بولیں تو بھی جھوٹ ہے، وہ کوئی صحیح فیصلہ کریں تو بھی غلط ہے، وہ کسی صحیح منزل کی نشاندہی کریں تو بھی نتیجہ غلط ہوگا… سچ وہ جو سچے گروہ کا فیصلہ ہو… سچی اقلیت کاذب اکثریت سے بہتر ہے… محض اکثریت پر مبنی سب فیصلے قابلِ غور ہیں… جب تک سچے لوگوں کی اکثریت نہیں ہوتی، جمہوری فیصلے غلط ہیں… سربراہ، امیرالمومنین ہونا چاہیے… امیر الکاذبین اور امیرالمنافقین ملت پر عذاب کے نزول کا باعث ہوسکتے ہیں… جھوٹے کے مقدر میں آدھا رستہ ہے… جھوٹے راہی کی منزل آدھا رستہ ہے… صداقت کی منزلیں صادقوں کے لیے ہیں۔ بعض اوقات ’’امیر‘‘کی صداقت قوم میں صداقتِ فکر پیدا کردیتی ہے۔
قائداعظم ؒ کی سب سے بڑی خوبی یہی تھی کہ وہ صادق تھے… صداقت ہی ان کی خودی تھی۔ ان کا اپنا کردار قوم میں وحدتِ کردار پیدا کرگیا۔ لوگ ان کے حکم پر مرمٹے۔ وطن سے بے وطن ہوئے… مہاجرین بن گئے… سب کچھ لٹا کے بھی خوش بختی کا احساس رہا… ایک عظیم مقصد کے لیے جان اورآن کی پروا کیے بغیر لوگ آمادۂ سفر ہوئے… بات بہت دور تک نکل جاتی اگر قائد کچھ دیر اور زندہ رہتے… وحدت کا تصور دینے والا مر گیا اور قوم میں انتشار سا پیدا ہوگیا… قائد کی بے وقت رحلت نے سفر کی رفتار کم کردی… سفر کا رخ وہ نہ رہا… ان کی بنائی ہوئی صادق اکثریت بے مقصد ہجوم میں تبدیل ہوکر رہ گئی… اکثریت کو صداقت آشنا کیا جائے، اس میں حق گوئی اور بے باکی پیدا کی جائے… یہ مرحلہ طے ہوجائے تو جمہوریت سے بہتر کیا ہوسکتا ہے…! ورنہ وہی بات کہ بس آدھا سفر…آدھا رستہ…خدانخواستہ…
انسان فطری طور پر انقلاب پسند ہے… اسے یکسانیت پسند نہیں… یہ ورائٹی چاہتا ہے… یہ بدلتا رہتا ہے… انسان لباس بدلتا ہے، لہجے بدلتا ہے، دوست بدلتا ہے، جماعتیں بدلتا ہے، پارٹیاں بدلتا ہے، ہارس ٹریڈنگ کرتا ہے، یہ محسن فراموشیاں کرتا ہے، رشتے بدلتا ہے اور مقصد بھی بدل دیتا ہے… اس کے پاس ہر کام کا جواز ہے… پرانے فیصلے کا اس کے پاس قوی جواز تھا، آج نئے فیصلوں کا جواز ہے، غالباً یہی انقلاب کا باعث ہے…
آدم علیہ السلام کو بہشت میں رہنا اس لیے بھی راس نہ آیا کہ وہاں کوئی ہنگامہ نہیں تھا، کوئی انقلاب نہیں تھا، بولنے کے لیے کوئی فورم نہیں تھا۔ انہوں نے ایک ترکیبی سوچی… شجرِ ممنوعہ کا ذائقہ چکھ لیا… بس انقلاب آگیا… ہنگامہ بپا ہوگیا… اگر اخبار ہوتے تو شہ سرخیاں چھپ جاتیں… بہشت ان کے ہاتھ سے نکل گئی… انقلاب کامیاب ہوگیا اور زندگی ناکام… اللہ نے آدم علیہ السلام کے لیے شیطان کو نکال دیا اور آدم علیہ السلام نے شیطان کے لیے اللہ کے امر کو چھوڑ دیا… بہشت کا سفر آدھے رستے ہی میں ختم ہوگیا۔ پھر زمین کا سفر… زمین کے مقاصد، عزائم اور عمل… سب نامکمل… حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی معراج کے سوا ابھی سب کچھ راستے میں ہی ہے… ابھی آدھا رستہ ہی طے ہوا ہے… ابھی تو ملتِ آدم تفریق ہوئی ہے… یہ سفر مکمل ہوگا وحدتِ آدم پر…ستاروں کی وحدت کہکشاں پیدا کرتی ہے، ننھے چراغوں کی وحدت سے چراغاں پیدا ہوتے ہیں، قطروں کی وحدت سے قلزم اور دریا کے جلوے پیدا ہوتے ہیں…
آدھے رستے کے مسافروں کو جگایا جائے، انہیں پھر سے آمادہ کیا جائے… ان میں باہمی احترام کا جذبہ پیدا کیا جائے تاکہ کارواں پھر سے رواں ہوجائے… منزلیں انتظار کررہی ہیں اور مسافر ہیں کہ آدھے رستے میں سوئے پڑے ہیں…
ذوقِ سفر کا پیدا کرنا قیادت کا فرض ہے… قائد کو چاہیے کہ وہ قوم میں بیداری کی روح پھونک دے…ذوقِ سفر عطائے رحمانی ہے… رحمتِ حق کا دروازہ کھٹکھٹایا جائے کہ اے مہربان اللہ، دے ہمیں کوئی حدی خواں جو زندگی پیدا کردے اس قوم میں… مطلب پرستی جمود پیدا کررہی ہے، وطن پرستی تحریک پیدا کرے گی… یہ قوم… ’’خاص ہے ترکیب میں قوم رسولؐ ہاشمی۔
(کتاب: واصفیات، حرف حرف حقیقت)
بیابہ مجلس اقبال
تُو کبھی اس قوم کی تہذیب کا گہوارہ تھا
حُسنِ عالَم سوز جس کا آتشِ نظارہ تھا
یہ شعر علامہ کے کلام کے اُس حصے کی ترجمانی کرتا ہے جو سرزمینِ اندلس اور قرطبہ و غرناطہ کی یادوں سے وابستہ ہے، جن کے تصور سے علامہ کے دل میں جذبوں کا ایک طوفان برپا ہوتا ہے اور مسلمانوں کے دورِ عروج کی یادیں ان کو تڑپاتی ہیں اور وہ چاہتے ہیں کہ برصغیر کے مسلمان میری ان کیفیات کو سمجھیں اور میرے حال میں شریک ہوجائیں ۔ اس سرزمین کے ایک جزیرے صقلیہ کے اوپر سے جہاز میں گزرتے ہوئے ان پر یہ کیفیات وارد ہوئیں۔ وہ زمین کے اس ٹکڑے سے مخاطب ہوکر کہتے ہیں کہ کبھی یہاں وہ عظیم تہذیب جلوہ افروز تھی جس کے حسن سے دنیا فیض یاب ہورہی تھی۔ آج اُس وقت کی یادیں دلوں کو تڑپاتی ہیں، اور خاص طور پر اقبال کو اس غم کے ماتم کے لیے اس طرح چن لیا گیا ہے کہ خود بھی اس پر تڑپے اور دوسروں کو بھی تڑپائے۔