تازہ شمارے میں ’’جرائم… وجوہات اور سدباب‘‘ کے موضوع پر فرائیڈے اسپیشل کے زیراہتمام فورم کی روداد کے مطالعے کے بعد اس تحریر نگار کے ذہن میں سوال آیا کہ ’’جرم‘‘ تو ایک عمومی لفظ ہے۔ اس کی ذیل میں مختلف نوعیت کے جرائم آتے ہیں جیسے اخلاقی جرم، سماجی جرم، قانونی جرم، مالی جرم… ہر ایک کے اسباب مختلف، ظاہر ہونے والے نتائج جُدا، اور ہر جرم کا مداوا بھی الگ الگ ہے۔ فورم کس نوعیت کے جُرم کے حوالے سے تھا؟ فورم کی روداد سے واضح نہیں ہورہا۔
رپورٹ کی ابتدا جس انداز سے ہوئی اس میں اور موضوع میں دُور تک کوئی مناسبت نہیں تھی۔ چُوں کہ موضوع کی نوعیت متعین نہیں تھی اس لیے مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے مہمان حضرات کو دیکھ کر واضح محسوس ہورہا تھا کہ انہیں بس ’’جمع‘‘ کرلیا گیا ہے۔ شرکت کرنے والے مہمانان میں ایک محترم تو غالباً ایسے ہر پروگرام میں شرکت کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے ہیں۔ پروگرام کسی بھی حوالے سے ہو اسے ’’کھینچ‘‘ کر اپنے دائرۂ کار کے موضوع سے جوڑنے میں مہارت رکھتے ہیں۔
ایک اور مہمان جن کے تعارف میں استاد اور ریسرچ اسکالر تحریر تھا، کی جملہ گفتگو پڑھ کر سوال ذہن میں آیا کہ محترم کی ریسرچ کس موضوع پر ہے؟ اور اب تک ان کے کتنے مقالے، یا موضوع سے متعلق مضامین کہاں پر شائع ہوچکے ہیں؟ معزز مہمان کے پیش کردہ خیالات ریسرچ کے بجائے جُرم سے متعلق کسی کتاب میں بیان کی گئی جرم کی تشریح معلوم ہورہے تھے۔ نری کتابی باتیں…
دیگر شرکا کا معاملہ بھی کچھ زیادہ مختلف نہیں تھا۔ زیادہ تر وہی باتیں تھیں جو وہ مختلف پروگراموں اور انٹرویوز میں کرچکے ہیں۔ ہاں یاد آیاایک مہمان ریسرچ اسکالر نے ذکر کیا کہ ’’جرم کا تعلق غربت اور تعلیم کی کمی سے ہے‘‘ تو سوال یہ ہے کہ جہاں وسائل کی فراوانی اور تعلیم یافتہ لوگوں کی کثرت ہے، وہاں جرائم ختم ہوگئے؟ ختم ہونا تو چھوڑئیے کیا جرائم کم ہوگئے؟
آخری بات… اس میں کوئی دورائے نہیں کہ فرائیڈے اسپیشل کا معیار ہمیشہ مسلمہ رہا ہے، لیکن کیا اس فورم میں ہونے والی گفتگو میں اتنی تازہ معلومات تھیں، حقائق اس قدر مؤثر تھے کہ رُوداد کو دس صفحے تک پھیلا دیا جائے؟
اُمید ہے کہ تبصرے پر تلخ ہونے کے بجائے تحمل سے جائزہ لیں گے۔
شکریہ
محمد اسعدالدین… کراچی
اہلِ کراچی جماعت اسلامی کا ساتھ دیں
کراچی میں جماعت اسلامی نے نادرا، اور کے الیکٹرک کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے انتھک جدوجہد کی اور اس میں کامیابی بھی حاصل ہوئی۔ اب جماعت اسلامی پانی کی فراہمی کے مسئلے کو حل کرے گی۔ اہلِ کراچی کو چاہیے کہ کراچی کے مسائل حل کرانے میں جماعت اسلامی کا ساتھ دیں، تاکہ کراچی پھر سے بارونق اور پُرسکون شہر بن سکے۔ جماعت اسلامی کا طریقہ کار نظم و ضبط کی بہترین مثال ہے، حتیٰ کہ جماعت کے امیر کا چنائو بھی انتخاب کے ذریعے ہوتا ہے۔ جماعت اسلامی ایک طرف ملکی سیاست میں اہم اور مثبت کردار ادا کررہی ہے، دوسری طرف پورے ملک میں اس کے رفاہی کاموںکے شعبے اپنا کام کررہے ہیں۔ 3 مارچ کے یوتھ کنونشن میں جماعت اسلامی پاکستان کے امیر سراج الحق نے کراچی کے نوجوانوں کو آگے آنے اور کراچی کے مسائل حل کرنے میں اپنا کردار ادا کرنے کا جو پیغام دیا ہے وہ بہت اہم ہے۔ اس وقت کراچی کی جو صورت حال ہے وہ سب کے سامنے ہے، کراچی مضبوط ہوگا تو پاکستان مضبوط ہوگا۔ کراچی کے عوام کو اس بات کا ادراک ہوجانا چاہیے کہ اپنے شہر کو پُرسکون اور خوشحال بنانے کے لیے انھیں ایک مخلص قیادت کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا ہوگی۔ محترم سراج الحق نے یوتھ کنونشن میں کہا کہ اہلِ کراچی اسلامی اور خوشحال پاکستان کی جدوجہد میں جماعت اسلامی کا ساتھ دیں، ہم ایسا نظام چاہتے ہیں جس میں عوام اور خواص برابر ہوں، حکمران عوام کے خادم ہوں۔ نائب امیر جماعت اسلامی اسد اللہ بھٹو نے اپنے خطاب میں کہا کہ 2018ء کا الیکشن ایک چیلنج ہے اور ہم اس چیلنج کو قبول کرتے ہیں، کراچی کے نوجوان ثابت کریں گے کہ کراچی جماعت اسلامی کا شہر ہے۔ 8 اپریل کو جماعت اسلامی کی طرف سے کراچی یوتھ الیکشن ہوں گے، رکنیت سازی کے لیے شہر کے ہر ضلع میں کیمپ لگائے گئے ہیں، اس کا مقصد لاکھوں نوجوانوں کو ایک منظم پلیٹ فارم مہیا کرکے انھیں ایک متبادل قیادت کے طور پر آگے لانا ہے۔ اس کے علاوہ ایک اور جگہ جلسے سے خطاب کرتے ہوئے جناب سراج الحق نے بتایا کہ پاکستان پر 73 ارب ڈالر کا بیرونی قرضہ ہے اور سوئس بینکوں میں قوم کے لوٹے گئے 300 ارب ڈالر پڑے ہوئے ہیں، یہ لوٹی گئی رقم اگر واپس قومی خزانے میں آجائے تو پاکستان کے مسائل حل ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں پارٹی قیادتیں بہت ہیں، ضرورت قومی قیادت کی ہے۔
محترم سراج الحق ایک دیانت دار اور غیر متنازع شخصیت ہیں، اور پوری قوم کو یکجا کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔ ضرورت ہے کہ ان کا بھرپور ساتھ دیا جائے۔
نوید خان … کراچی