اسلامی ریاست کا قیام قراردادِ پاکستان کی روح ہے چیئرمین قائداعظم اکیڈمی خواجہ رضی حیدرسے گفتگو
23 مارچ 1940ء کو لاہور کے منٹو پارک میں قیام پاکستان کے حوالے سے ایک قرارداد پیش کی گئی جسے ’’قراردادِ لاہور‘‘ کہا گیا، لیکن جب تک چودھری رحمت علی کا تجویز کردہ نام ’’پاکستان‘‘ مسلمانوں میں اس قدر مقبول ہوچکا تھا کہ سب ہی اسے ’’قراردادِ پاکستان‘‘ سے موسوم کرنے لگے۔ مولانا محمد علی جوہر کی بیگم نے جو انڈین مسلم لیگ ورکنگ کمیٹی کی رکن تھیں، لاہور کے جلسے میں اپنی تقریر میں کہا کہ وہ سمجھتی ہیں کہ یہ قراردادِ لاہور نہیں بلکہ قراردادِ پاکستان ہے۔
اگر اس قرارداد کا پس منظر بیان کیا جائے تو بات 1857ء سے شروع کرنا ہوگی۔ اس سے پہلے ہی انگریز برصغیر پر قابض ہوچکا تھا۔ انگریزی قبضے سے قبل ہندو، مسلمانوں کی رعایا تھے کیونکہ انگریزوں سے پہلے ہندوستان پر مسلمانوں ہی کی حکمرانی تھی۔ انگریز کے دور میں ہندوئوں کو خوب پھلنے پھولنے کا موقع فراہم کیا گیا۔ ہندو سمجھتے تھے کہ مسلمانوں نے انہیں غلام بناکر رکھا ہوا تھا۔ اسی مفروضے کی بنیاد پر ہندو، مسلمانوں سے انتقام لینا چاہتے تھے۔ دوسری جانب انگریز سمجھتے تھے کہ انہوں نے اقتدار مسلمانوں سے چھینا ہے اس لیے ہندوستان کے اصل وارث مسلمان ہی ہیں۔ اس لیے انگریز بھی مسلمانوں کو اپنے اقتدار کا دشمن سمجھتے تھے۔ انہیں ہندوستان میں اپنے اقتدار کو قائم رکھنے کے لیے ہندوئوں کی حمایت حاصل کرنا پڑی، اس کے لیے انہیں ہندوئوں کو بے شمار رعایتیں اور مراعات دینا پڑیں۔ ہندو بھی موقع غنیمت جان کر انگریزوں کی کھلم کھلا حمایت پر اتر آئے تھے۔ انگریزوں نے 1885ء میں ہندوئوں کو سیاسی طور پر منظم کرنے کے لیے انڈین نیشنل کانگریس کے نام سے پہلی سیاسی جماعت قائم کی، جس سے صاف ظاہر تھا کہ سیاسی طور پر ہندو اور انگریز علیحدہ قوت نہیں رہے تھے۔ مسلمانوں پر واضح ہوچکا تھا کہ ہندوستان میں مسلمان اقلیت میں رہ کر اکثریت کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔ مسلمانوں کی سمجھ میں آگیا تھا کہ ان کے سیاسی اور انسانی حقوق سلب کیے جاچکے ہیں۔ دوسری جانب انگریز بھی پوری طرح جان چکا تھا کہ ہندوستان ایک وسیع و عریض ملک ہے، اس کو دو حصوں میں تقسیم کرنے میں ہی اس کی عافیت ہے۔ انگریز نے فیصلہ کرلیا کہ ایسے صوبوں میں جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے ان کی اکائی بنا کر وفاق کی صورت دے دینی چاہیے۔ مذکورہ تجویز برطانوی ایوانِ بالا میں ایوان کے ایک رکن جان برائٹ نے پیش کی تھی۔ 1858ء سے 1940ء یعنی قراردادِ پاکستان کی منظوری سے قبل ہی ہندوستان کی تقسیم اور قیام پاکستان کی تجاویز سامنے آچکی تھیں۔ مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کے قیام کا فیصلہ کیا جاچکا تھا۔ یہاں یہ بات بتانا ضروری ہے کہ 1930ء میں آل انڈیا مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس منعقدہ الٰہ آباد میں علامہ اقبال نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ وہ عنقریب آزاد ریاستوں کا علیحدہ وفاق بنتے دیکھ رہے ہیں۔ اسی طرح 1933ء میں علامہ نے Now Or Neverکے عنوان سے جو کتابچہ لکھا، اس میں ان کا کہنا تھا کہ ہندوئوں اور انگریزوں کا تمام تر ظلم وستم مسلمانوں پر تھا۔ مسلمانوں کو تعلیم کے میدان میں دانستہ پس ماندہ رکھا گیا جس کی وجہ سے وہ تعلیم حاصل نہیں کرسکے، جبکہ ہندوئوں نے بہت جلد تعلیم کے حوالے سے ترقی کرلی تھی۔ انگریزوں کے تعاون اور حمایت سے ہندوئوں نے پہلی ہندو یونیورسٹی قائم کرلی تھی۔
اس طرح ثابت ہوگیا تھا کہ مسلمانوں کو پسماندہ رکھنے میں انگریزوں اور ہندوئوں کا مشترکہ ہاتھ ہے۔ معروف مصنف ڈبلیو ڈبلیو ہنٹر نے اپنی کتاب میں انکشاف کیا تھا کہ ہندوستان میں سرکاری دفاتر میں مسلمان دوات میں سیاہی ڈالنے تک محدود کردیے گئے ہیں۔ سرسید احمد خان نے علی گڑھ میں اینگلو اورینٹل کالج کی بنیاد رکھی، اس کے بعد مسلمان تیزی سے تعلیم کی طرف آئے، جس کے نتیجے میں ان میں شعور پیدا ہوا کہ ہندوستان کو دو علیحدہ ریاستوں میں تقسیم کردیا جائے اور مسلمانوں کی ریاست کا نام پاکستان رکھ دیا جائے۔
یاد رہے کہ علامہ اقبال نے 1937ء میں قائداعظم کو خط لکھا تھا کہ اب وقت آگیا ہے کہ ہم مسلمانوں کے لیے علیحدہ ریاست کے قیام کے مطالبے کا باقاعدہ اعلان کردیں۔ لیکن قائداعظم نے وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے ہندوستان کی تقسیم کے مطالبے کا اعلان نہیں کیا اور وقتی طور پر خاموشی اختیار کرلی۔ لیکن قراردادِ پاکستان کی منظوری کے بعد مسلمانوں کے جو جلوس نکل رہے تھے ان میں نعرے بلند ہورہے تھے ’’بٹ کے رہے گا ہندوستان… لے کے رہیں گے پاکستان‘‘۔ پاکستان کے قیام کا مطالبہ اس قدر زور پکڑ گیا کہ قرارداد منظور ہونے کے صرف سات سال بعد 1947ء میں پاکستان وجود میں آگیا۔ اس دوران دنیا نے دیکھا کہ قراردادِ پاکستان منظور ہوئی، دو قومی نظریے پر غیر منقسم ہندوستان تقسیم ہوا اور پاکستان معرضِ وجود میں آگیا۔ قائداعظم نے یوم پاکستان کی تقریب میں درست کہا تھا کہ مسلمان ہندوستان کی اقلیت نہیں ہیں بلکہ وہ ایک علیحدہ قوم ہیں۔ مسلمانوں کے رسوم و رواج، ان کے قومی ہیرو، عبادت، مذہب، نام رکھنے کا انداز سب ہی ہندوئوں سے بالکل مختلف ہیں، اس لیے مسلمان ایک علیحدہ قوم ہیں، یہی دو قومی نظریہ ہے۔
لیکن یہ بات ہندوئوں کی عقل میں نہیں آرہی تھی۔ اور ہندو ہی کیا قوم پرست کہلانے والے ہندوستانی مسلمانوں کا بھی یہی کہنا تھا کہ ہندوستان میں آباد رہتے ہوئے مسلمان اور ہندو دو قومیں کیسے ہوسکتی ہیں! لیکن مسلمانوں کے دو قومی نظریے کے مطابق قوم کی اساس دین ہوتا ہے۔ آج بھی برصغیر میں اس نظریے کو پسِ پشت ڈالا جارہا ہے اور کانگریسی نظریہ کو پروان چڑھایا جارہا ہے۔ ’’ایک قوم ایک ریاست‘‘ کے نظریے کا منفی پروپیگنڈا کیا جارہا ہے۔ میں نے عرض کیا ہے کہ پاکستان میں مخصوص لوگوں کے مقاصد پاکستان دشمنی پر مبنی ہیں۔ پاکستان کے دشمن تو روزِ اول سے ہی اپنا کام کررہے تھے۔ جبکہ قائداعظم نے 11 اگست 1947ء کی تقریر میں واضح کردیا تھا کہ پاکستان دشمنوں کی خواہش ہے کہ پاکستان مستحکم نہ رہے۔ پاکستان دشمنی کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ قائداعظم نے کہا تھا کہ قیام پاکستان کا مقصد مسلم ریاست کو اسلام کی تجربہ گاہ بنانا ہے۔ ظاہر ہے کہ نظریہ پاکستان کی مخالفت کی بنیاد پر پاکستان دشمن قوتیں پاکستان کو ایک ناکام ریاست ثابت کرنے کے لیے آج بھی کوشاں ہیں۔ اب ہونا یہ چاہیے کہ قرارداد پاکستان کو 1946ء میں کی گئی ترمیم سمیت نصاب میں شامل کردیا جائے، تاکہ نئی نسل کو معلوم ہو کہ قیام پاکستان کس طرح عمل میں آیا، اس کے مقاصد کیا تھے اور ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے کیاکچھ کرنا ہوگا۔ اساتذہ کو چاہیے کہ وہ موضوع کی وضاحتیں کچھ اس انداز سے کریں کہ ہمیں اس کے مثبت نتائج حاصل ہوسکیں۔ اگر ہمیں پاکستان کو مستحکم اورمضبوط بنانا ہے تو قراردادِ پاکستان کی روح کے مطابق اس پر عمل درآمد کرنا ہوگا۔
ہمارے نظام تعلیم کو دو قومی نظریے سے دور کی بھی نسبت نہیں ما ہرِ اقبالیات پروفیسر ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی سے گفتگو
برصغیر میں دو قومی نظریے کا احساس اور آغاز بہت پہلے سے ہوگیا تھا۔ ٹیپوسلطان، تحریکِ مجاہدین، 1857ء کی جنگِ آزادی، تقسیمِ بنگال اور سرسید احمد خان کی تحریک۔ یہ سب اس خطے میں دو قومی نظریے کے ارتقاء کی کڑیاں تھیں، لیکن شاعرِ مشرق علامہ اقبال نے 1930ء میں اپنے خطبۂ الٰہ آباد میں جس واضح انداز میں ہندوستان میں مسلمانوں کی ایک الگ مسلمان ریاست کا تصور دیا… دراصل یہ تصور ہی 23 مارچ 1940ء کو پورے ہندوستان کے مسلمانوں کے لاہور میں منعقدہ عظیم الشان نمائندہ اجلاس میں منظور کی گئی قرارداد کی اساس تھا، اور اس تصور کی وجہ سے ہندو اخبارات نے اس قرارداد کو قراردادِ پاکستان کا نام دے کر صورتِ حال کو زیادہ واضح کردیا۔ اس قرارداد کی منظوری کے اثرات یہ ہوئے کہ مسلمانوں پر ان کا آئندہ لائحہ عمل واضح ہوگیا اور وہ یکسو ہوگئے کہ اب ہمیں کس نہج پر جدوجہد کرنا ہے۔ تاریخ کی کتب میں یہ بات میں نے پڑھی ہے کہ وائسرائے ہند نے 23 مارچ 1940ء کے جلسے کی جو خفیہ رپورٹ برطانوی حکومت کو ارسال کی اُس میں لکھا کہ اب ہندوستان میں بسنے والی ہندو اور مسلمان قوموں کے اکٹھا رہنے کا امکان باقی نہیں رہ گیا، اب ہندوستان میں رواداری اور اتحاد کا معاملہ مزید نہیں چل سکتا، اس لیے ہندوستان کو اب دو قوموں میں تقسیم کرنا ناگزیر ہوگیا ہے۔
اس قرارداد نے یہ طے کردیا کہ مسلمان قوم کی ہندو اکثریت سے علیحدگی لازم ہوچکی ہے۔ 23 مارچ 1940ء کی قرارداد کے اثرات تمام طبقات پر نہایت گہرے اور دوررس مرتب ہوئے، اور یہ انہی اثرات کا نتیجہ تھا کہ قیام پاکستان کی تحریک نے زیادہ طول نہیں کھینچا اور مسلمانوں کی علیحدہ ریاست کے وجود میں آنے میں بہت زیادہ وقت نہیں لگا۔
جہاں تک آج کے پاکستان میں اس مملکت کی اساس دو قومی نظریے کے ابلاغ اور تفہیم کا تعلق ہے تو تلخ حقیقت یہی ہے کہ اس کی صورتِ حال بہت ناگفتہ بہ ہے۔ اس کا ذکر اب محض 23 مارچ یا 14 اگست کے دن منانے تک رہ گیا ہے جب اخبارات خصوصی ضمیمے شائع کردیتے ہیں، ٹیلی ویژن اور ریڈیو پر چند تقریریں یا پھر ایک پریڈ ہوجاتی ہے۔ یہ سب چیزیں بہت سطحی نوعیت کی ہیں۔ نظریے کا ابلاغ تو تعلیم کے ذریعے ہوتا ہے مگر ہمارے یہاں بھانت بھانت کے تعلیمی نظام اور بے شمار قسم کے نصاب رائج ہیں، جن کو دو قومی نظریے سے دور کی بھی نسبت نہیں۔ اس نظریے کو قوم کے ذہنوں میں راسخ کرنے میں ذرائع ابلاغ کا بھی مؤثر کردار ہوسکتا ہے، مگر یہ جس آزاد روی کا شکار ہوچکے ہیں اور ان پر مادیت جس قدر غالب آچکی ہے، اسے دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ ان کا قوم کی نظریاتی اساس سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ وہ ایسی چیزیں نشر کرتے ہیں جس سے مالی مفاد حاصل ہو۔ ملّی اور قومی تقاضوں کا احساس ذرائع ابلاغ میں کہیں موجود ہی نہیں، اس لیے ان کے ذریعے دو قومی نظریے کے ابلاغ کی توقع ہی نہیں کی جا سکتی۔ ہمارے بے لگام تعلیمی نظام اور ذرائع ابلاغ کے مالی منفعت پر مبنی طرزعمل کے باعث ہماری نئی نسل اپنی تاریخ اور روایات سے قطعی بے بہرہ ہوچکی ہے اور انہیں کچھ معلوم نہیں کہ دو قومی نظریہ کیا ہے اور پاکستان کیوں وجود میں آیا۔ ضرورت ہے کہ ہمارے اربابِ اقتدار و اختیار اپنی ذمہ داریوں کا احساس کریں اور قوم خصوصاً نئی نسل کو نظریۂ پاکستان سے روشناس کرانے کے لیے مؤثر اور ضروری تدابیر کریں۔
اقتدار میں آنے والوں نے پاکستان بنانے کے مقصد کو فراموش کر دیاجسٹس (ر) آفتاب فرخ سے گفتگو
انگریزوں نے جنگِ عظیم کے موقع پر یہ اعلان کیا تھا کہ ہندوستانی باشندے جنگ میں انگریز فوج میں خدمات انجام دیں تو جنگ کے بعد ہندوستان کو آزادی دے دی جائے گی۔
کانگریس جو نیشنلسٹ جماعت تھی، اس کی ساری تگ و دو اس لیے تھی کہ انگریز اقتدار اس کے سپرد کرکے واپس چلے جائیں تاہم قائد اعظم محمد علی جناح اور دیگر مسلمان قائدین نے ہندوئوں کے طرز عمل سے بروقت یہ بھانپ لیا کہ اگر اقتدار کانگریس کے قبضے میں چلا گیا تو برصغیر کے مسلمان انگریزوں کے بعد متعصب ہندو اکثریت کے زیر تسلط آ جائیں گے اور یہ تاثر اور تصور کوئی نیا یا اجنبی نہیں تھا بلکہ اس سے پہلے بھی سر سرید احمد خان، عبدالحلیم شرر اور کئی دوسرے رہنما اس بات کا برملا اظہار کر چکے تھے کہ ہندوستان میں ایک نہیں دو قومیں ہندو اور مسلمان آباد ہیں۔ اس لیے سر سید نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کی بنیاد رکھی کہ مسلمانوں کی تعلیمی پستی کا علاج کیا جا سکے چنانچہ قائد اعظم کی قیادت میں تحریک پاکستان میں اس علی گڑھ مسلم یونیورسٹی نے تحریک کے مرکز کی حیثیت سے کردار ادا کیا، تاہم 1940ء کی قرار داد لاہور کی اساس علامہ اقبالؒ کا خطبۂ الہ آباد تھا… مجھے اپنے لڑکپن میں موجودہ مینار پاکستان کی جگہ پر منعقد ہونے والے22 اور23 مارچ کے اس جلسہ میں شرکت کا موقع ملا۔ میرے والد بیرسٹر فرخ حسین، جنہوں نے علم دین شہید کا کیس بھی لڑا تھا … وہ اس جلسہ کی پنڈال کمیٹی کے انچارج تھے جب کہ پورے جلسہ کے انتظامات میاں امیر الدین اور میاں بشیر احمد کے ذمہ تھے۔ اس سلسلے میں اجلاس ہماری بیٹھک میں ہوتے تھے… جلسہ میں پورے ملک سے مسلمان شریک تھے۔ میری عمر اس وقت دس گیارہ سال ہو گی سارا لاہور شہر اس جلسہ میں امڈ آیا تھا اور میں بھی اس سیلاب کا حصہ تھا۔ اس سے قبل جب 21 مارچ کو قائد اعظم جلسہ میں شرکت کے لیے بذریعہ ریل، لاہور ریلوے اسٹیشن پہنچے تو بھی پورا لاہور ان کے استقبال کے لیے موجود تھا… جلسہ سے دو تین دن قبل 19 مارچ کو ایک سنگین واقعہ لاہور میں دیش آیا، وزیر اعلیٰ سکندر حیات اور ان کے ساتھیوں کی کوشش تھی کہ جلسہ ملتوی کر دیا جائے انہوں نے گورنر جنرل کو بھی خطوط لکھے… گورنر نے بھی پیغام بھیجا مگر قائد اعظم کی فراست سے جلسہ اپنی مقررہ تاریخ کو ہو گیا… وہ لاہور پہنچنے کے بعد زخمی خاکساروں کی عیادت کو گئے اور شہید ہونے والوں کی بھی تعزیت کی… مجھے یاد ہے کہ جلسہ گاہ میں ہر طرف انسانوں کا ٹھاٹھیں مارتا ہوا، سمندر دکھائی دیتا تھا… اس جلسہ میں میاں بشیر احمد کی نظم ’’ملت کا پاسباں ہے، محمد علی جناح‘‘ انور حجازی نے ترنم سے پڑھی اور سماں باندھ دیا۔ جلسہ میں قرار داد مولوی فضل الحق نے 22 مارچ کو پیش کی اور ہندوستان بھر کے ممتاز مسلمان رہنمائوں نے اس کی تائید میں تقاریر کیں… قرار داد کا پیغام بہت واضح تھا کہ ہندوستان میں ایک نہیں دو قومیں آباد ہیں… ہم اکٹھے نہیں رہ سکتے، مسلمان انگریز کے بعد ہندو اکثریت کی غلامی قبول نہیں کر سکتے۔اس قرار داد کی منظوری کے بعد پورے ہندوستان کے مسلمانوں کو ایک نیا جوش، جذبہ اور ولولہ ملا اور انہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کی قیادت میں ایسی زور دار تحریک چلائی کہ سات سال کی مختصر مدت میں آزاد مملکت کی منزل حاصل کر لی… اس ضمن میں اس تاریخی حقیقت کو بھی فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ مسلمانوں سے کہیں بڑھ کر ہندوئوں کی نفرت نے پاکستان کے قیام میں کردار ادا کیا، پہلے ان کی نفرت کے باعث مسلمانوں نے الگ وطن کا مطالبہ کیا پھر جب یہ طے ہو گیا کہ پاکستان کو اب بننا ہی ہے تو اس مرحلے پر بھی ہندو رہنمائوں نے زور دیا کہ ایک لولہ لنگڑا ملک، فوری طور پر مسلمانوں کے حوالے کر دیا جائے۔ ان کی اسکیم یہ تھی کہ مسلمان چند مہینے بھی نئی مملکت کو چلا نہیں پائیں گے اور پھر ہمارے پائوں پکڑیں گے کہ ہمیں متحدہ ہندوستان میں شامل کر لو…!!!
سچ یہی ہے کہ بھارت کو تو ہر چیز بنی بنائی اور چلتا ہوا ملک ملا تھا… اس کے مقابلے میں آزادی کے وقت ہمارے پاس کچھ بھی نہیں تھا، پیسہ نہ تربیت یافتہ بیورو کریسی اور نہ منظم فوج۔ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ سیکرٹری سطح کے افسر زمین پر بیٹھ کر کام کرتے تھے اور سوکھے کانٹوں سے پنوں کا کام لیا جاتا تھا… نظام حیدر آباد اور نواب بہاولپور کی مالی مدد سے نئی مملکت کا نظام چلایا گیا اور مانگے ہوئے پیسوں سے سرکاری ملازمین کی تنخواہیں ادا کیں… اس لحاظ سے دیکھیں تو قیام پاکستان کے بعد قائدین، افسروں اور ملازمین نے بہت قربانیاں دیں اور بے پناہ محنت سے اس نئی مملکت کو اپنے پائوں پر کھڑا کیا۔ جو لوگ پاکستان کی پسماندگی کی بات کرتے ہیں وہ قطعی غلط کہتے ہیں… ہم نے بھارت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ترقی کی ہے… وہاں تو سب کچھ پہلے سے موجود تھا اور ہم صفر سے موجودہ سطح تک آئے ہیں اور اب بھی بھارت سے کسی طور پیچھے نہیں… یہ الگ بات ہے کہ بعد میں اقتدار میں آنے والوں نے پاکستان بنانے کے مقصد کو فراموش کر دیا اور ان کی اکثریت لوٹ مار اور مال بنانے میں مصروف ہو گئی… اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ قوم اور نئی نسل کو ہندو ذہنیت سے آگاہ کیا جائے اور انہیں بتایا جائے کہ ہندو اور مسلمان دو الگ الگ قومیں ہیں وہ کبھی اکٹھے نہیں رہ سکتے۔
ہندو کو جب بھی موقع ملا اس نے مسلمانوں کو نقصان پہنچایا اور آئندہ بھی وہ ایسا کوئی موقع ضائع نہیں کرے گا، اس سلسلے میں اگر کسی کو شک اور غلط فہمی ہو تو وہ بھارت کے موجودہ وزیر اعظم نریندر مودی کی مسلمان دشمن پالیسیوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر سبق حاصل کر سکتا ہے… !!!