ڈاکٹر آفتاب پٹھان
(اے آئی جی سندھ)
پولیس کا کردار اُس وقت شروع ہوتا ہے جب جرم ہوجاتا ہے۔ اس سے پہلے کا مرحلہ کہ جرم ہوتا کیوں ہے؟ اس پر خاصی بات ہوچکی ہے۔ اس وقت جو جرائم ہورہے ہیں وہ مختلف نوعیت کے ہیں۔ میں حل کی بات کروں۔ حل یہ ہے کہ آئینِ پاکستان پر اس کی روح کے مطابق عمل کیا جائے۔ آئینِ پاکستان کی دفعات 227، 228، 229، 230 اور 231 کا خلاصہ یہ ہے کہ اس ملک میں قانون سازی قرآن و سنت کے مطابق ہوگی، اور جو قوانین قرآن و سنت کے مطابق نہیں ہوں گے ان کو نکالا جائے گا۔ اس کام کے لیے اسلامی نظریاتی کونسل ہے، اس پر حقیقی معنوں میں عمل کیا جائے۔ عمل نہ کرنے یا نظرانداز کرنے سے بہت مسائل پیدا ہورہے ہیں۔ دوسرا، آئین میں وفاق اور صوبوں کے درمیان جو بھی تحریر ہے اس پر بھی خلوصِ نیت سے عمل ہوجائے، تیسرا اس ملک کا نظام پارلیمانی نظام جمہوریت ہے، اس پر بھی ہی عمل درآمد ہو اور مسلسل انتخابات ہوں۔ اگر ملک میں مسلسل انتخابات ہورہے ہوتے تو اب تک 16 الیکشن ہوچکے ہوتے۔ یہ میں اس لیے کہہ رہا ہوں کہ یہ اصل بنیاد ہے بیڈ گورننس کی۔ باقاعدگی سے الیکشن نہیں ہوئے، اچھے سیاست دان اوپر نہیں آئے۔ اس وقت جو کچھ نظر آرہا ہے یہ اسی کا شاخسانہ ہے، خرابی کی اصل جڑ یہی ہے ۔16 الیکشن اس وقت تک ہوچکے ہوتے تو آپ کو بہت اچھے سیاست دان مل چکے ہوتے۔ اچھے وزرائے اعلیٰ، اچھے وزیراعظم مل چکے ہوتے۔ کیونکہ ملک میں سیاسی استحکام نہیں ہے، سیاسی استحکام نہ ہونے کی وجہ سے معاشی استحکام نہیں ہے، معاشی استحکام نہیں ہے تو معاشی شرح نمو گری ہوئی ہے۔ اس وقت بے روزگاری کی جو شرح ہے اُس کا اندازہ اس بات سے لگالیں کہ چپڑاسی کی 10اسامیوں کے لیے 3 ہزار لوگوں نے درخواست دی ہے جن میں انٹرمیڈیٹ سے لے کر بی اے اور ایم اے ڈگری کے حامل تک شامل ہیں۔ جب اتنی بڑی تعداد میں بے روزگار ہوں اور آپ کا اکنامک گروتھ 4 فیصد پر ہو تو بے روزگار نوجوانوں کی کھپت کہاں ہوگی! چونکہ سیاسی استحکام اس ملک میں نہیں ہے، سرمایہ کاری نہیں ہوتی، مقامی سرمایہ کار دولت باہر لے کر چلا جاتا ہے تو کہاں سے کارخانے لگیں گے؟ کہاں سے روزگار کے نئے موقع پیدا ہوں گے؟ اتنی بڑی تعداد میں بے روزگاری ہو، تو ان بے روزگاروں کو غلط راہ پر لگانے کے لیے مختلف ممالک کی ایجنسیاں کام کرتی رہتی ہیں۔ یہ وہ چیز ہے جس کو صحیح کرنے کی ضرورت ہے۔ نظام ایسا ہو جو لوگوں کی کم سے کم ضرورت کو پورا کرسکے، بے روزگاری الائونس ملے تاکہ جرم پر کوئی مجبور نہ ہوپائے۔ معاشرے میں سماجی و اقتصادی ظلم موجود ہے۔ یہ ساری چیزیں ہیں بیڈگورننس کی وجہ سے۔ اسی طرح تعلیمی نظام تربیت دے ہی نہیں رہا ہے۔ آج بیکن ہائوس یا سٹی اسکول کے پڑھے لکھے بچے کو پتا ہی نہیں کہ مولانا الطاف حسین حالی کون ہیں؟ پرانے نصاب میں شیخ سعدی، مولانا رومی، گلستان بوستان حکایتیں پڑھائی جاتی تھیں، وہ ساری چیزیں ختم کردی گئیں۔ ان چیزوں سے تربیت ملتی تھی۔ پھر نصاب ایک نہیں ہے، جس کی مرضی، جو نصاب بنا لے۔ پرائیویٹ اسکولوں کا الگ نصاب ہے، سرکاری اسکولوں کا الگ… پنجاب کا الگ ہے اور سندھ کا الگ۔ پورے پاکستان کا یکساں نصاب بنانے کی ضرورت ہے۔ میں نے تین سال اقوام متحدہ میں کام کیا… دوسال بوسنیا میں، ایک سال کوسوو میں۔ وہاں دورانِ تعلیم ہی بچوں کو کہا جاتا ہے کہ کس طرح سڑک پار کرنی ہے، کہاں کہاں زیبرا کراسنگ ہے۔ اساتذہ لے جاتے ہیں اور تربیت کرتے ہیں۔ کمیونٹی بھی بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے۔ ہمارا میڈیا بے لگام ہوگیا ہے۔ میں صرف یہ کہتا ہوں کہ آرٹیکل 37 سب سیکشن Gاٹھائیں، اس میں لکھا ہے کہ الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا میں فحش چیزوں کی پرنٹنگ و پبلی کیشن کو روکا جائے گا، ریاست پاکستان ایکشن لے گی۔ آپ اس پر عمل نہیں کرتے، اسی کی وجہ سے کچھ دوسرے طبقات اس کا غلط استعمال کرتے ہیں۔ میڈیا جرم کرنا سکھا رہا ہے کہ کس طرح کرنا ہے۔ بجائے یہ کہ جرائم پر کنٹرول ہو، آدمی نئے نئے طریقے سیکھتا ہے میڈیا کے ذریعے۔ ابھی میں نے ایک کیس پکڑا جس میں ایک لڑکے نے اپنے دوست کو پیسے کے لیے مار کر دفن کردیا۔ میں نے اُس سے پوچھا کہ گھر کرائے پر لینا، دفن کرنا، یہ آئیڈیا تم نے کہاں سے لیا؟ اس نے کہا کہ میں نے مووی دیکھی تھی۔ میڈیا ضابطۂ اخلاق بنانے کی ضرورت ہے، اس کے بعد پولیس کا کردار شروع ہوتا ہے۔ اس میں تھوڑا سا میں میڈم(بیرسٹرشاہدہ جمیل) سے اختلاف کروںگا کہ 1934ء کا جو پولیس رول ہے وہ پولیس ایکٹ کے ماتحت بنا ہوا ہے، اس میں پروسیجرز رول 1934ء سے زیادہ مختلف نہیں ہیں۔ وہ پروفارمز ہیں کہ ایف آئی آر کا پروفارما کیا ہوگا، انسپکشن کا پروفارما کیا ہوگا، یا مالیاتی حساب کتاب کس طرح رکھیں گے۔ اصل اختلاف ہے پولیس ایکٹ 1861 سے، جس کے اندر انسپکٹر جنرل آف پولیس کو اختیارات نہیں ہیں۔ عدالت نے تشریح کرکے 70 سال بعد فیصلہ دیا۔ اس پر کب تک عمل درآمد ہوتا ہے، دیکھا جائے گا۔ میں آسان الفاظ میں بتائوں کہ مجھے محکمہ پولیس کے لیے بطور آئی جی کلاشنکوف کی ضرورت ہے، ایک ہزار ایس ایم جی کی ضرورت ہے۔ میری سمری براہِ راست شعبہ فنانس میں نہیں جائے گی، وہ ہوم سیکرٹری کے پاس جائے گی، اور وہ میری پروپوزل مسترد کرسکتا ہے۔ ہم ٹریننگ کروا رہے تھے، ہم نے لکھا کہ ہمیں آرمی ٹریننگ کے لیے 50 گولیوں کی ضرورت ہے۔ ایک سپاہی 50 گولیاں فائر کرے گا۔ وہاں ایک سیکشن افسر نے کہا 50 نہیں 10 گولیاں دو۔ ارے بھائی، تمہیں کیا پتا کہ 50 گولیوں کی ضرورت ہے یا کم کی! پولیس ایکٹ 2002 میں کہا گیا ہے کہ آئی جی کی جو سمری ہے وہ براہِ راست فنانس ڈپارٹمنٹ میں جائے، آئی جی کی ایڈوائس کو ایک سیکشن افسر اس طرح مسترد نہ کرے۔ جس کا مداوا کیا گیا پولیس آرڈر 2002 میں، وہ بہت سمجھ بوجھ کر بنایا گیا تھا، جو خاصی کامیابی سے چل رہا تھا، اس سے پبلک سروس اورینٹڈ پولیس بن رہی تھی۔ لیکن معذرت کے ساتھ، جو پالیسی میکر ہیں وہ چاہتے نہیں۔ وہ تو پولیس سروس اورینٹڈ چاہتے ہیں۔ احتساب کا نظام اتھارٹی کے اندر۔ ضلع، صوبے میں پولیس سیفٹی کمیشن تھا، قومی سطح پر پبلک سروس سیفٹی کمیشن تھا، اس کی جو تربیت دی گئی تھی اس کے اندر وکلا تھے، جج تھے، ڈاکٹر تھے اور سول سوسائٹی تھی۔ اس کے سامنے پولیس جوابدہ تھی۔ اگر 1861 پولیس ایکٹ اتنا ہی اچھا تھا تو برطانیہ جس نے بنایا تھا وہ اپنے ہاں نافذ کرلیتا، لیکن اُس نے اپنے ملک کے لیے میٹرو پولیٹن پولیس سسٹم بنایا 1829 میں۔ جبکہ اس نظام سے مکمل الگ نظام غلام ملک کے لیے نافذ کیا۔ وہاں کے عدالتی نظام میں جیوری کا بہت بڑا کردار ہوتا ہے، اور جیوری میں عام شہری ہوتے ہیں۔ برطانیہ نے اپنا پولیس اور عدالتی نظام الگ بنایا ہوا ہے۔ گورا چلا گیا، کالے حکام کو یہ نظام سوٹ کرتا ہے، اس لیے وہ اسے تبدیل کرنا نہیں چاہتے، حالانکہ اسے تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسے تبدیل ہوگا؟ یہ اسی صورت تبدیل ہوگا جب اس کے لیے عوام کا دبائو بڑھے گا، اور اچھے سیاست دان، اچھے حکمران آئیں گے۔ ہمارے پاس اس کے سوا کوئی طریقہ نہیں ہے۔ پولیس قوانین میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ٹرانسفر پوسٹنگ کے لیے نہ صرف پولیس بلکہ سول سروس کو آئینی تحفظ کی ضرورت ہے۔ آپ کسی بھی سول سرونٹ کا چاہے ڈپٹی کمشنر ہو، کمشنر ہو، چیف سیکرٹری ہو، آئی جی ہو، تین سال سے پہلے ٹرانسفر نہ کریں۔ اگر اس کے خلاف کرپشن کا کوئی بڑا کیس آئے، اس کے خلاف کوئی عدالتی تحقیقات ہو تو اس پر اسمبلی میں بحث کروائیں۔ پولیس آرڈر میں لکھا تھا کہ اسمبلی جب اکثریت سے بل پاس کرے گی تب جاکر ہوگا۔ یہاں تو ایک ٹیلی فون کال پر فرد ہٹ جاتا ہے چاہے وہ ڈپٹی کمشنر ہو، ایس ایس پی ہو یا ڈی آئی جی۔ یہ نظام جب تک رہے گا اُس وقت تک پولیس کی کارکردگی میں بہتری نہیں آئے گی، جس کو آسان لفظوں میں پولیس کی Depoliticization (سیاسی دبائو سے آزاد کرنا) کہا جاتا ہے۔ دونوں ادوار یہاں پر آئے ہیں، فوجی دور بھی اور سیاسی دور بھی… دونوں ادوار میں یہ چیزیں نہیں ہوسکی ہیں۔ تھوڑی بہت ریفارم پولیس آرڈر 2002 میں آئی تھیں، وہ آئیڈیل نہیں تھا، لیکن قدرے بہتر تھا۔ اب میں آتا ہوں دوسرے ملکوں کی طرف کہ وہاں پولیس میں بھرتی کیسے ہوتی ہے۔ وہاں پولیس کو بطور پروفیشن اختیار کیا جاتا ہے جیسے یہاں آپ انٹرمیڈیٹ کے بعد میڈیکل یا انجینئرنگ کو بطور پروفیشن اختیار کرتے ہیں۔ آپ کو پانچ سال پولیس یونیورسٹی میں پڑھنا پڑتا ہے۔ وہاں عملی تربیت ہوتی ہے۔ جونیئر افسران کی الگ ہوتی ہے اور سینئر افسران کی الگ۔ برطانیہ کے پولیس نظام میں بھرتی صرف ایک سطح پر ہے، یعنی پولیس کانسٹیبل کی سطح پر۔ وہ اپنے ٹریننگ انسٹی ٹیوٹ لے جاتے ہیں، اس کے بعد اپنی سینیارٹی اور مختلف انٹرنل امتحانات پاس کرکے رکھتے ہیں۔ ہمارے پاس ہر سطح پر بھرتی ہوتی ہے۔ مرضی ہے تو اے ایس آئی کی سطح پر بھرتی کرلیتے ہیں۔ مرضی ہے تو انسپکٹر کی سطح پر بھرتی کرلیتے ہیں۔ اتنی سطحوں پر بھرتیاں دوسرے ملکوں میں نہیں ہوتیں۔ پھر بھرتی کے بعد مناسب تربیت نہیں ہوتی۔ 9 ماہ ٹریننگ ناکافی مدت ہے۔ میں اس بات سے اتفاق کروں گا کہ پولیس میں بھرتی کا معیار بہت پست ہے۔ اس میں ہم نے این ٹی ایس کے ذریعے نسبتاً بہتر لاٹ لی ہے۔ بحیثیتِ مجموعی صوبے کا معیارِ تعلیم بہت پست ہے۔ ایم اے اکنامکس کے باوجود انہیں میکرو اکنامکس اور مائیکرو اکنامکس کا پتا نہیں ہے۔
اب آتے ہیں پولیس کی ٹیکنالوجی سہولت کی طرف۔ پولیس کا کام ہے شہادتوں کو جمع کرنا، اس کے بعد عدالت کے سامنے پیش کرنا۔ اس میں بہت بڑی کمی ہے۔ یہ ٹیکنالوجی کا دور ہے۔ جتنے ٹیکنالوجیکل آلات ہمیں چاہئیں مثلاً 4 جی لوکیٹرز چاہیے تھے، مشکل سے پوری سندھ پولیس کو پانچ چھے ملے وہ بھی بڑی تگ و دو کے بعد جب عدالت ِعظمیٰ نے حکم دیا۔ اس سے پہلے ہمیں 4 جی لوکیٹرز نہیں ملتے تھے۔ کیوں نہیں ملتے تھے، یہ ایک الگ بحث ہے۔ یہ اتنا اہم ہے کہ اگر کسی نے آپ کا موبائل چھین لیا، آپ کو اس مجرم کی متعین جگہ چاہیے کہ وہ کہاں ہے۔ اس لیے4جی لوکیٹر تو ہر تھانے میں ہونا چاہیے۔ اگر ہر تھانے میں نہیں تو کم از کم ہر ضلع میں تو دیں۔ اس سے آپ فوری لوکیٹ کرلیتے ہیں کہ ملزم کس پوزیشن میں ہے، یا اس کو پکڑ لیتے ہیں۔ ابھی4 جی لوکیٹر مطلوبہ تعداد میں نہیں ہیں۔ پنجاب حکومت نے بہت اچھا کام کیا ہے، وہاں کی فارنسک لیبارٹری عالمی معیار کے قریب ہے۔ وہاں انہوں نے سائنس دان رکھے ہیں، کیوں کہ یہ کام سائنس دانوں کا ہے۔ ہمارے پاس کون کام کرتا ہے! یہ بے چارے سپاہی، کانسٹیبل، انسپکٹر کام کرکرکے ٹیکنیشن بن گئے ہیں۔ یہاں آلات کی بڑی کمی ہے۔ اس وقت ٹیکنالوجی ایسی ہے کہ یہاں میں نے ہاتھ لگایا تو ٹچ ڈی این اے کے ذریعے پتا چل جائے گا کہ میں نے یہاں چھوا تھا۔ میں یہاں سے اٹھ گیا تو کچھ گھنٹوں تک میری ہیٹ کے اثرات ہیں۔ اس میں تھرمل آئی ڈینٹٹس کے ذریعے میری شناخت ہوسکتی ہے۔ تھوک کے ذریعے شناخت ہوسکتی ہے۔ شناخت کی مختلف ٹیکنالوجی ہیں جو ہمارے پاس نہیں ہیں۔ اس سلسلے میں حکومتِ سندھ نے تھوڑا سا آگے قدم بڑھایا ہے اور پنجاب کی طرح ایک لیبارٹری بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ لیکن اس کے لیے بڑے فنڈز کی ضرورت ہے۔ نہ صرف فارنسک لیبارٹری بنائی جائے بلکہ جو کم سے کم سہولت ہے وہ ہر تھانے کو دی جائے۔ فنگر پرنٹ اٹھانے، خون اٹھانے کی جو کم سے کم سہولت ہے وہ ہر تھانے میں موجود ہو۔ جب کوئی جرم ہوجاتا ہے اُس کا پہلا گھنٹہ بہت اہم ہوتا ہے۔ اگر پہلے گھنٹے میں پہنچ کر آپ نے نشانات اٹھا لیے تو ٹھیک ہے، ورنہ شہادتیں ختم ہوجاتی ہیں۔ کشمور، گھوٹکی اور دریائے سندھ کے ساتھ جزیروں پر ڈاکو ہیں، ان کے پاس ایل ایم جی ہے، راکٹ لانچر ہے، نائٹ ویژن کیمرا ہے جو پولیس کے پاس نہیں ہے۔ ان کے پاس یہ چیزیں کس طرح آرہی ہیں؟ کیسے پہنچ رہی ہیں؟ یہ الگ کہانی ہے۔ لیکن وہ وہاں بیٹھے ہیں، لوگوں کو اغوا کرکے وہاں رکھتے ہیں۔ اب وہاں پہنچنے کے لیے ہمیں جو سہولتیں چاہئیں وہ پولیس کے پاس نہیں ہیں۔ مثلاً بلٹ پروف کشتیاں چاہئیں، ہم عام کشتیوں میں بیٹھ کر جاتے ہیں‘ وہ فائر کردیتے ہیں۔ گن شپ ہیلی کاپٹر، اسی طرح عارضی پُل بنانے کی سہولت ہمارے پاس نہیں ہے۔ اب اس پر آتے ہیں کہ پولیس نے شہادت جمع کرلی۔ اب آگیا پراسیکیوشن کا مرحلہ۔ اس کا معاملہ یہ ہے کہ سفارش پر لوگ بھرتی ہیں، اُن میں صلاحیت ہی نہیں ہے کہ وہ صحیح تفتیش کرسکیں۔ تھانے کی سطح پر ہمیں پراپر پراسیکیوٹر کی ضرورت ہے، وہ نہیں ہے۔ پھر معاملہ جاتا ہے عدالت میں۔ ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں تو معاملہ ٹھیک ہے، نچلی سطح پر عدلیہ اور اس کے عملے میں اصلاحات کی ضرورت ہے۔
اب مرحلہ ہے سزا کا۔ عدالت مجرم کو شہادتوں کی بنیاد پر سزا دیتی ہے۔ اب قانونِ شہادت میں ترمیم کی ضرورت ہے، کیونکہ عملی مسئلہ یہ ہے کہ اعلیٰ سطح کے مذہبی دہشت گرد ہیں یا نظریاتی دہشت گرد ہیں یا ڈاکو ہیں، وہ اور ان کا نیٹ ورک اتنا مضبوط ہے کہ مقتول کا سگا بھائی بھی گواہی نہیں دیتا، کیونکہ وہ دھمکی دیتے ہیں کہ باقی بھائیوں کو بھی مار دیں گے۔ اب مسئلے کا حل کیا ہے؟ مسئلے کا حل ماورائے عدالت قتل نہیں ہے۔ اس سے ریاست کی دہشت نہیں بنتی، ریاست کی ڈیٹرنس نہیں بنتی… فرد کی ڈیٹرنس بنتی ہے، جس سے وہ دوسرے لوگوں کو اٹھائے گا اور پیسے کمائے گا۔ مسئلے کا حل یہ ہے کہ جوائنٹ انویسٹی گیشن ٹیم جو ایف آئی اے، پولیس، آئی بی، آئی ایس آئی سمیتان اٹھارہ اداروں کی بنائیں، اس میں بے شک عدالت کا نمائندہ رکھیں، اس کی گواہی کو قابل قبول کریں، فوجی عدالت کے ذریعے مہینے دو مہینے میں سزا دیں۔ اسی طرح آپ کو ابنارمل حالات میں ابنارمل قوانین بنانے پڑیں گے۔ جب حالات نارمل ہوجائیں تو ختم کردیں۔ اس کے سوا مسئلے کا حل نہیں ہے۔ کئی مثالیں ہیں جن میں قاتل چھوٹ جاتے ہیں‘ ججز کہتے ہیں کہ ہم تو سزا شہادتوں پر دیتے ہیں، آپ کی شہادتیں ہی کمزور ہیں ہم کیا کریں! اس مسئلے کو بھی حل کرنے کی ضرورت ہے۔ گواہوں کے تحفظ کے لیے ہمارے پاس کچھ نہیں ہے۔ اس کے لیے گواہ کو گھر دینا ہے، اس کی شناخت تبدیل کرنی ہے۔ اس پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ نام ہے وٹنس پروٹیکشن کا۔ اہم مقدمات کے گواہوں کو مجرم طبقہ مار دیتا ہے۔ ساتھ ساتھ وکلا کا جو کردار ہے اس میں بھی خاصی اصلاحات کی ضرورت ہے۔ ایسا نظام بنانا ہوگا کہ عام لوگوں کو سستا انصاف ملے۔ وکلا کی فیسوں میں کوئی توازن ہی نہیں، کوئی ایک لاکھ لیتا ہے تو کوئی دس لاکھ لیتا ہے، کوئی پابندی نہیں کہ آپ کی کم سے کم فیس کیا ہونی چاہیے۔ اس پر بھی کام کی ضرورت ہے تاکہ ایک عام آدمی وکیل کی خدمات حاصل کرسکے۔ وکیل کے بغیر عدالت میں کوئی بات نہیں کرسکتا۔ دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ قتل کے 8 ہزار مجرم بیٹھے ہیں، ان کو سزا دیں۔ آپ صرف اس لیے سزا نہیں دیتے کہ یورپی یونین سے کچھ سہولت مل جائے گی۔ ہمارا اے ایس آئی اپنی اور اپنے گھر والوں کی جان دائو پر لگا کر تحقیق کرتا ہے، کیا اس لیے کہ یہ جیل میں بیٹھ کر کھانا کھائیں؟ آپ جزا اور سزا کے قانون پر عمل درآمد نہیں کریں گے تو مسئلہ کیسے حل ہوگا؟ اس کو بھی ٹھیک کرنے کی ضرورت ہے۔
کیمرے کی بات نکلی، کیمرے بہت ضروری ہیں۔ ہمارے پاس جو کیمرے لگے ہوئے تھے وہ 2 میگا پکسل والے تھے۔ ابھی حکومت نے 10 ہزار کیمرے 12 میگا پکسل کے منظور کیے ہیں۔ اس میں بھی ٹائم لگے گا۔ یہ دس ہزار بھی ناکافی ہیں، ضرورت کم از کم ایک لاکھ کیمروں کی ہے۔ ڈھائی کروڑ لوگوں کا شہر ہے، اس میں ایسی قانون سازی کی ضرورت ہے کہ جتنے بھی ہوٹلوں، بازاروں اور گھروں میں کیمرے لگے ہوئے ہیں ان کو پابند کیا جائے کہ وہ سینٹرل کمانڈ کنٹرول کے ساتھ منسلک کردیں۔ اس طرح سے صلاحیت خاصی بڑھ جائے گی۔ جب بھی پولیس ریفارم آتی ہے اس میں پولیس اسٹیشن رہ جاتا ہے۔ کسی جگہ بھی جائیں گائوں میں، تعلقہ میں… تھرڈ کلاس عمارت پولیس اسٹیشن کی ہوگی۔ یا تو وہ اس کی اپنی عمارت ہوگی یا قبضے کی عمارت ہوگی، یا قبضے کا پلاٹ ہوگا۔ حکومت کو اس کو ترجیح دینی چاہیے۔ اسپتال کے لیے مقامی ایم این اے، ایم پی اے ڈیمانڈ کرتا ہے، اسکول کے لیے ڈیمانڈ کرتا ہے۔ پولیس معاشرے کو کیا دیتی ہے وہ حکومت یا باشعور آدمی ہی سمجھ سکتا ہے۔ پولیس کے لیے عوام مطالبہ نہیں کریں گے۔ پولیس کو دینا ہے تو حکومت دے گی۔ پولیس اسٹیشن اسٹرکچر کے اعتبار سے ٹھیک ہو، فرنیچر مناسب ہو۔ ہم تجویز کرتے ہیں کہ پولیس اسٹیشن میں 18 گریڈ کا افسر ہو، اس کا اپنا ڈی وی ہو، اس کا بجٹ ہو۔ باہر میں نے کام کیا، وہاں سینئر افسر ہوتا ہے، اس کا اپنا بجٹ ہوتا ہے۔ بوسنیا یورپ کا بہت کم ترقی یافتہ مقام ہے مگر وہاں لوکل پولیس چیف 19, 18 گریڈ کا افسر تھا، اس کے پاس 4 سیکشن یعنی یونیفارم پولیس، انٹیلی جنس، انویسٹی گیشن پولیس، فارنسک سیکشن تھے، اور ایک سول ایڈمنسٹریشن تھا جس میں پولیس کے اندر تمام وہ معاملات جو یہاں مختلف ڈپارٹمنٹ کرتے ہیں جن میں برتھ سرٹیفکیٹ ہے، گاڑیوں کی رجسٹریشن ہے، ڈومیسائل ہے، پی آر سی ہے، وہ وہاں ڈیل ہوتی ہیں۔
جب آپ آپ ٹرانسفر پوسٹنگ کی پاور سیاست دانوں سے لے لیںگے، اس کے بعد اصلاح جو میں تجویز کرتا ہوں وہ یہ ہے کہ آئی جی کی پوسٹنگ کے لیے پولیس آرڈیننس میں تبدیلی لائیں، ایف پی ایس سی کے آرڈیننس میں تبدیلی لاکر آئی جی اور چیف سیکرٹری کم از کم اِن دو عہدیداروں کی پوسٹنگ ایف بی ایس سی کا چیئرمین کرے جو پانچ سال اوتھ پوسٹ پر ہوتا ہے۔ پوسٹنگ کا مطلب ہے تین چار افراد کی لسٹ منگاکر اس میں وہ ٹک کرے کہ یہ آدمی جائے گا بطور انسپکٹر جنرل۔ اس کے لیے قانون میں ترمیم کرنا پڑے تو وہ کی جائے۔ جب تک آئی جی اور چیف سیکرٹری کا تقرر میرٹ پر نہیں ہوگا آپ کی حکمرانی ٹھیک نہیں ہوگی۔ 1122 کی یہاں (کراچی) میںبہت ضرورت ہے۔ یہ بات ٹھیک ہے کراچی میں اسٹریٹ کرائم بہت زیادہ ہیں۔ میں نے جو مسائل بتائے ہیں ان کو حل کردیں، یہ مسئلہ بھی حل ہو جائے گا۔ دوسرا طریقہ ماورائے عدالت قتل ہے جو ہم نہیں چاہتے۔ مجرم کو سزا عدالت کے ذریعے ملے، اس سے مسئلہ حل ہوگا۔
ڈاکٹر شاہد حسن صدیقی
(ماہر اقتصادیات)
مجھے سب سے زیادہ خوشی اس بات کی ہے کہ انتہائی مختصر وقت میں اتنی زیادہ قیمتی اور قابلِ عمل باتیں سننے کو ملی ہیں۔ اگر 10 فی صد بھی ان پر عمل ہوجائے تو آنے والے برسوں میں اس قوم کی قسمت بدل سکتی ہے۔ یہ فرائیڈے اسپیشل میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ میری معلومات میں اضافہ ہوا ہے۔ پاکستان میں کرپشن بہت بڑھ رہی ہے، معاشی کرپشن بھی بڑھ رہی ہے اور انٹیلکچوئل (intellectual) کرپشن میں بھی اضافہ ہورہا ہے۔ یہ کرپشن خود ایک جرم ہے۔ یہ دوسرے جرائم کی بھی راہ ہموار کرتی ہے۔ پاکستان میں بدقسمتی سے بیشتر پالیسیاں، بہت سے قوانین، بہت سے اقدامات جو اٹھائے جاتے ہیں، وہ کرپشن کو فروغ دے کر جرائم کی راہ ہموار کرتے ہیں، اور جو اقدامات نہیں اٹھائے جاتے اس کی وجہ سے مجرم بھی چھوٹ جاتا ہے، مجرم پیدا بھی ہوتے ہیں اور مجرم بعد میں معاشرے کا معزز رکن بھی بن جاتا ہے۔ بدقسمتی سے ریاست کے تمام ستونوں نے اس خرابی میں اپنا اپنا کردار ادا کیا ہے۔ بغیر کسی استثنیٰ کے جو ادارے ہیں وہاں بھی کرپشن سرایت کرگئی ہے، اداروں نے بھی اپنی ذمے داریاں پوری کرنے کے بجائے میرے خیال میں کرپشن کو فروغ دے کر جرائم کو فروغ دینے میں، احتساب کو کچلنے میں، ملکی قوانین کا قیمہ بنانے میں کردار ادا کیا ہے۔ ملک کے جو طاقت ور طبقے ہیں، ریاست کے ستون ہیں، ریاست کے ادارے ہیں جن کو ہم اشرافیہ کہتے ہیں، ان سب پر بہت زیادہ ذمے داری عائد ہوتی ہے۔ 5 ہزار ارب روپیہ سالانہ لوگ ٹیکس چوری کرتے ہیں، یا طاقت ور طبقوں پر ٹیکس نہیں لگایا جاتا۔ جو آپ نے تجاویز پیش کی ہیں اس کے لیے وسائل چاہئیں، وہ کہاں سے آئیں گے؟ لیکن کہا جاتا ہے کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہے جو فی کس آمدنی کے لحاظ سے بہت زیادہ چیریٹی دیتا ہے۔ ساڑھے 4 سو ارب روپیہ سالانہ چیریٹی ڈونیشنز آتے ہیں۔ کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کا اصل 70 گنا کیا ہے، 30 ہزار ارب ہوگیا، 5 ہزار ہم نے چوری کرلیا۔ ایک غیر ملکی ایمبیسی کے چوکیدار نے بتایا کہ کھانا وہاں جاکر کھاتا ہوں جہاں غریبوں کو ملتا ہے۔ یہ ایک افسوس ناک صورت حال ہمارے ہاں ڈویلپ ہورہی ہے۔ دوسری چیز آئین پاکستان سے دانستہ انحراف کیا جارہا ہے۔ آج کل جتنا چرچہ ہے آئین کی بالادستی کا، اُس کہیں سے زیادہ آئین سے انحراف آج کیا جارہا ہے۔ ہمارے ہاں ایک اور بھی مسئلہ ہے یعنی اسلامی نظام سے فرار اور سودی نظام پر اصرار… اسلامی مضاربہ کے نام پر 30 ارب روپے کا فراڈ ہوا۔ اس میں بڑے بڑے علما شامل تھے۔ اسلامی نظام بینکاری کے نام پر سودی نظام کا چربہ بناکر ایک نئی راہ بنادی گئی ہے۔ ہماری معاشی پالیسی آج کل کیا ہے؟ یہی کہ طاقت ور طبقوں کو مراعات دی جائیں، ٹیکس چوری کرنے والوں کو مراعات دی جائیں، قومی دولت لوٹنے والوں کو مراعات دی جائیں، اور اس کا بوجھ 21 کروڑ عوام اور پاکستان کی معیشت پر ڈال دیا جائے۔ یہ جو غریب لوگ ہیں ان کی عزتِ نفس بھی مجروح ہورہی ہے، ان کو عدالتوں سے انصاف بھی نہیں ملتا۔ جیسا آپ نے بتایا کہ معیشت 3 یا 3 فی صد پر گرو کرے گی، وہ بھی جھوٹ ہوتا ہے۔ 20 لاکھ افراد ہر سال مارکیٹ میں آتے ہیں۔ جن کو روزگار چاہیے۔ روزگار کہاں سے آئے گا جب آپ کی معیشت ہی گرو نہیں کررہی! دنیا کا واحد ملک پاکستان ہے جہاں رشوت کے لوٹے ہوئے پیسے میں سے ایک پیسہ قومی خزانے میں جمع کرائے بغیر قانونی تحفظ حاصل کرلیتا ہے۔ پیسے کو منظور کون کرتا ہے؟ پارلیمنٹ‘ آپ کی حکومتیں۔ سول حکومتوں نے بھی کیا اور فوجی حکومتوں نے بھی کیا 2 فیصد پر ٹیکس ایمنسٹی حاصل کی جائے۔ کوئی ان سے پوچھے کہ وہ پاگل ہیں کہ 30 فیصد ٹیکس دے۔یہ استیصالی نظام بن گیا ہے اس سے عوام ایک عرصے تک ظلم سہے رہے۔میں نے دیکھا کہ کُل 12 لاکھ افراد ٹیکس ریٹرن دیتے ہیں۔ اللہ کا شکر ادا کریں کہ میں نے جو ریسرچ کی ہے اس کے مطابق ایک کروڑ افراد ایسے ہیں جن کی آمدنی 4۔ 5 لاکھ روپے سے زیادہ ہے۔ تو کم سے کم ایک کروڑ تو کرپٹ ہیں آپ کے ہاں۔ ایک کروڑ کا مطلب یہ ہے کہ 5 کروڑ لوگ تو حرام کھا رہے ہیں۔ رشوت نچلی سطح پر بھی ہے۔ سوال یہ ہے کہ جب حرام کا لقمہ جارہا ہے تو مزاحمت کون کرے گا؟ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب عوام بھی کرپٹ ہوگئے، انہوں نے بھی اپنا حصہ لینا شروع کردیا تو پھر مزاحمت کہاں سے لائیں گے، اور کون حکومت کو مجبور کرے گا، اس پر بھی سوچنے کی ضرورت ہے۔ بنیادی طور پر ہوا یہ ہے کہ احتساب سیاسی جھگڑے نمٹانے کا ذریعہ بن گیا۔ پاکستان کے کرپٹ ترین اداروں میں سے ایک نیب بھی ہے۔ اگر میں ریکارڈ کے مطابق بتائوں 7 یا 8 اس کے چیئرمین آئے ہیں، ان میں جنرل بھی تھے، سپریم کورٹ کے جج بھی تھے، بیوروکریٹ بھی تھے، ان سب نے ریکوری کے جھوٹے دعوے کیے۔ انہوں نے دعوے کیے کہ 274 ارب روپے 15 سال میں وصول ہوسکے۔ میرے خیال میں اس کی آدھی بھی وصولی نہیں ہوئی۔ سارے چیئرمین مل کر جھوٹ بول رہے ہیں۔ کیا یہ احتساب کریں گے جن کا خود احتساب ہونا چاہیے! دوسری بات یہ کہ پاکستان میں اس وقت کرپشن سے، ٹیکس چوری سے، شاہانہ اخراجات سے 8 ہزار ارب روپیہ سالانہ قومی خزانے کو نقصان ہورہا ہے، یعنی 22 ارب روپے روز۔ اس کا بوجھ کس پر پڑ رہا ہے؟ عوام پر، جو ظلم سہتے سہتے خود بھی کرپشن میں ملوث ہوگئے۔ ہماری تعلیم اور صحت کی صورت حال دنیا میں سب سے بدتر ہے۔ آپ اگر لوگوں کو یہ سہولت دے دیں تو اُن کے اخراجات ویسے ہی آدھے رہ جائیں گے۔ پراپرٹی پر ٹیکس ایمنسٹی آگئی ہے۔ صوبوں کی مدد سے ٹیکس ایمنسٹی یعنی رشوت کے پیسے کو، چوری کے پیسے کو آپ پراپرٹی خریدنے میں لگادیں۔ ایف بی آر کاریٹ اور ڈی سی ویسٹ پر 2 فی صد ٹیکس دے دیں تو معاف ہوجائے گا۔ جس ملک میں انکم ٹیکس کا آرڈی نینس 111/4 جو یہ ہے کہ چوری کے، رشوت کے پیسے کو آپ باہر بھیج دیں، اس کے بعد ابوظہبی کا ایک ڈرائیور آپ کو 5 ملین روپے بھیج دے، آپ سے انکم ٹیکس والے سوال نہیں کرتے کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ اس کے حساب سے ڈھائی ہزار ارب روپے سالانہ پاکستان کی معیشت کو نقصان ہورہا ہے۔ 2011ء سے اب تک ہماری ترسیلات بڑھیں 8 ارب ڈالر، اور ہماری برآمدات گریں 5 ارب ڈالر۔ اور روزگار تو برآمدات سے حاصل ہوتا تھا۔ اس شیطانی چکر میں آپ کے تمام ریاستی ادارے شامل ہیں۔ میں آپ کو کھیل بتاتا ہوں، پہلے کہا کہ ٹیکس چوری ہونے دیں، طاقت ور طبقوں پر ٹیکس نہ لگائیں۔ معیشت کا 20 فی صد حصہ زرعی آمدنی سے ہے جو صرف ڈھائی ارب روپے ٹیکس دیتا ہے۔ پہلے آپ نے 5 ہزار ارب کی ٹیکس چوری ہونے دی، اس کا نقصان پورا کرنے کے لیے بجلی اور گیس کے نرخ بڑھائے۔ پیداواری لاگت بڑھ گئی، برآمدات گر گئیں۔ ہمارے پاس ڈالر تو ہے نہیں، پھر کیا کریں۔ یہ کہا کہ چوری کا پیسہ باہر بھیج کر ترسیلات منگالو۔ اس سے ڈھائی ارب روپے کا نقصان ہوگیا۔ ترسیلات بڑھانے سے معیشت بڑھی نہ روزگار بڑھا۔ یہ وہ شیطانی چکر ہے جس پر آپ معیشت کو چلا رہے ہیں۔ سارے لوٹی ہوئی دولت باہر سے واپس لانے کی بات کرتے ہیں، جو ملک میں موجود ہے اس دولت کی بات نہیں کرتے۔ یہ گٹھ جوڑ ہے۔ جس وقت ٹرمپ نے بیان دیا سارے اکٹھے ہوگئے، ایک دوسرے پر الزام تراشی کرنے لگے کہ چور ہے، ڈاکو ہے۔ آپ کی ٹیکس پالیسی، آپ کی بینکاری پالیسی، آپ کی اپائنمنٹ پالیسی ہر چیز ایکسپلایٹ ہے۔ اس کے بعد آرٹیکل 227 کی بات کی۔ نام نہاد شریعت کورٹس کیا کررہی ہیں، ان کو بھی سوموٹو کے اختیارات حاصل ہیں۔ سود کا مقدمہ 1991ء سے پڑا ہوا ہے۔ یہ جو مولوی نکل کر ہنگامے کرتے ہیں، کوئی ان سے یہ تو پوچھے کہ اللہ تعالیٰ نے اعلانِ جنگ تو کیا ہے ربوٰ کا۔ ہماری نام نہاد شریعت کورٹ نے آج تک یہ فیصلہ نہیں دیا کہ سود حرام ہے یا حلال ہے۔ عدالتِ عظمیٰ نے سوموٹو لیا۔ 2007ء میں قرضہ غلط طریقے سے معاف کرانے پر پیسہ باہر چلا گیا، سب کو پتا ہے۔ 2018ء آگیا، اب تک فیصلہ نہیں آیا۔ اسی عدالت عظمیٰ نے سابق جج ہائر کرکے کمیشن بنایا۔ تحقیقات کے لیے کمیشن نے عدالت عظمیٰ کو رپورٹ دے دی قرضوں کی معافی کی۔ یہ 2013ء میں ہوئی تھی۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔ آرٹیکل 25/A یہ ہے کہ 6 سال سے 16 سال کا ہر بچہ اسکول جائے گا۔ 2 کروڑ 20 لاکھ بچے اسکول نہیں جارہے۔ ان کے لیے کتنے اسکول چاہئیں، کتنا بجٹ چاہیے۔ پارلیمنٹ جو بجٹ پاس کررہی ہے اس سے تو بچے اسکول جا ہی نہیں سکتے۔
پروموشن، اپائنمنٹ میرٹ پر نہیں ہوتے۔ فیڈرل سروس کمیشن کے چیئرمین نے کچھ باتیں نہیں مانیں تو سندھ اسمبلی نے قانون منظور کیا کہ اس کو یہ اختیار حاصل ہے کہ اس کو ہٹا کر دوسرے کو لے آئے۔ پولیس ریفارمز کی بہت زیادہ بات کی گئی، جب آپ سارے وسائل رینجرز کو دے رہے ہیں تو پولیس کیا کرے گی! وہ اسمگلنگ تو پہلے روکیں۔ میری ذاتی رائے یہ ہے کہ جب تک رینجرز نہیں ہٹے گی اور پولیس کے وسائل نہیں بڑھیں گے یہ معاملہ ٹھیک نہیں ہوسکتا۔ اسمگلنگ جو پاکستان میں ہورہی ہے کون کرارہا ہے؟ پھر بات کی گئی فوجی عدالت کی، اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ یہ تسلیم کررہے ہیں کہ عدالتی نظام کو ٹھیک کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ انہوں نے کون سا تیر مار لیا؟ فوجی عدالتوں کا مطلب کیا ہے؟ آپ اپنی عدالتوں کو ٹھیک کریں، ان کا ٹائم فریم مقرر کریں۔ فوجی عدالتوں نے کون سے دہشت گردوں کو سزائیں دیں! میرا انتباہ یہ ہے کہ ظلم و ناانصافی، جرائم، اور احتساب کا نہ ہونا، عزتِ نفس کو مجروح کرنا، عام آدمی کو علاج کی سہولت نہ ملنا، روٹی نہ ملنا، یہ چیزیں خانہ جنگی کی طرف لے جارہی ہیں۔ اس سے ملک کے وجود کو خطرہ ہے۔ اس پر سوچنے کی ضرورت ہے۔ آپ بینکنگ سیکٹرکو دیکھیں، 20 کروڑ کی آبادی ہے، 36 ہزار لوگوں کو 5 ہزار ارب روپے کے قرضے دیے گئے ہیں۔ یہ کُل قرضوں کا 83 فی صد بنتا ہے۔ زکوٰۃ کے نظام سے سینیٹرز نے عمرے کیے ہیں۔ میں پوری ذمے داری سے کہہ رہا ہوں کہ پاکستان میں سیاست دان، سابق حکمران و موجودہ حکمران، فوجی حکمران، نگران حکمران، منتخب و غیر منتخب جیسے بھی ہیں ان کے بعد سول و فوجی بیورو کریسی، صنعت کار، تاجر، علما، مفتی، اسلامی نظریاتی کونسل، وڈیرے، جاگیردار، سیمنٹ اور پراپرٹی مافیا… ان سب میں آپس میں گٹھ جوڑ ہے ذاتی مفاد کے لیے۔ اگر آپ یہ سمجھتے ہیں کہ صرف تجاویز سے یہ سب ٹھیک ہوجائے گا تو یہ خام خیالی ہے۔ آج کل جو احتساب ہورہا ہے میں آپ کو یقین دلا رہا ہوں کہ اس سے کرپشن بڑھے گی۔ ہمارا فرض ہے کہ قوم کو یہ بتادیں کہ اس کھیل سے کچھ حاصل ہونے والا نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے دوزخ اور جنت کا جو تصور دیا ہے وہ ہے سزا اور جزا کا، وہ ہے احتساب کا۔ ہمارے ہاں احتساب کا کوئی حقیقی تصور موجود نہیں ہے۔ جو احتساب ہورہا ہے وہ سیاسی مقاصد کے لیے ہورہا ہے یا پیسے کے لیے ہورہا ہے۔ ایک اور چیز جو میں سمجھا ہوں، وہ یہ ہے کہ معاشرے کی اصلاح بنیادی چیز ہے۔ قوانین کو اسلامی سانچے میں ڈھالنا دوسری چیز ہے۔ معاشی نظام کو اسلامی نظام معیشت کے تابع بنانا یہ آپ کے آئین کا بھی مطالبہ ہے، جو ہماری ڈکشنری میں شامل ہی نہیں ہے۔ پاکستان کے ادارے کرپٹ ہیں۔ اسٹیٹ بینک انتہائی کرپٹ ادارہ ہے۔ ایس ای سی پی، ایف بی آر، نیب، بینکس سارے ادارے سیاسی اثر رسوخ پر کام کررہے ہیں یا کرپشن پر کررہے ہیں، ان سے آپ کوئی توقع نہیں کرسکتے کہ یہ حالات ٹھیک کریں گے۔
پروفیسر ڈاکٹرمحمد اقبال آفریدی
سربراہ : شعبہ طب نفسیات و علوم رویہ جات
جناح اسپتال کراچی
ڈین : جناح اسپتال کراچی
منتخب صدر : پاکستان سائیکاٹرک سوسائٹی
سب سے پہلے تو میں آپ کا شکر گزار ہوں کہ آپ نے اس موضوع کو منتخب کیا اور اس پر بات بھی کی گئی۔ یہ موضوع بہت اہم ہے کیوں کہ جرائم کا تناسب اتنا بڑھتا جارہا ہے کہ اس سے سب کا ہی سکون غارت ہوگیا ہے، جس سے ظالم اور مظلوم دونوں کی ذہنی صحت برباد ہورہی ہے۔ میں پہلے اس کے اسباب کا ذکر کروں گا۔
جارج اینجل نے 1977ء میں یہ بتادیا تھا کہ ہر بیماری اور مسئلے کی تین وجوہ ہوتی ہیں۔ با ئیو، سائیکو اور سوشل… یعنی حیاتیاتی، نفسیاتی اور سماجی۔ اس کی مثال میں یہ دوں گا کہ اگر کوئی کہے کہ حادثہ کیوں ہوتا ہے؟ بظاہر اس کی بھی تین وجوہ ہوسکتی ہیں: ڈرائیور میں مسئلہ ہوسکتا ہے، گاڑی یا سڑک میں کوئی کمی یا خرابی ہوسکتی ہے۔ اسی طرح جرائم کی بھی یہی تین بائیولوجیکل، سائیکالوجیکل اور سوشل وجوہات ہوسکتی ہیں۔ بیماریوں اور ہمارے مسائل کی وجوہات بھی ان ہی تین نوعیت کی ہوسکتی ہیں۔ بائیولوجیکل وجہ میں یہ دیکھا گیا ہے کہ اگر ہمارے جین میں خرابی ہو، ہمارے ہارمونز میں بگاڑ آجائے جیسے xy جو مردانہ سیکس کروموسوم کہلاتا ہے، اگر وہ xyy ہوجائے تو اس کا حامل فرد انتہائی کرمنل واقع ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے شدید مجرمانہ رویّے کے فرد کو سپر میل کہتے ہیں۔ اسی طرح کسی کا نیورو ٹرانسمیٹر یعنی ذہنی اور دماغی رطوبتوں کی مقدار بالخصوص ڈوپیمن نامی رطوبت کی سطح بڑھ جائے یا دماغ میں ٹیومر ہو، ایسے افراد بھی عجیب قسم کی مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ غیر سماجی اور مجرمانہ شخصیت کے حامل افراد ہر ایسے کام سے خوشی حاصل کرتے ہیں جس سے دوسروں کو دکھ اور تکلیف پہنچے۔ دوسری جانب ایک انسان وہ بھی ہے جو بہت رحم دل واقع ہوتا ہے، انسان تو انسان، جانور کو بھی تکلیف نہیں دے سکتا، کسی کو تکلیف میں دیکھے تو خود تکلیف میں آجاتا ہے، جیسے ہمارے ایدھی صاحب اور انڈیا کی مدر ٹریسا تھیں۔ لیکن پہلے منفی طرز کے انسان کو دوسروں کے ساتھ بدترین برائی کرکے بھی پچھتاوا نہیں ہوتا، اس کے برعکس وہ خوش ہوتا ہے۔ اس منفی ذہنی حالت کو ڈس سوشل پرسنالٹی ڈس آرڈر کہتے ہیں۔ اب ہم جرائم کی نفسیاتی وجوہ پر آتے ہیں۔ دراصل ہماری شخصیت کے تین پہلو ہیں: اڈ، ایگو اور سپر ایگو۔ اڈ کو ہم نفسِ امارہ کہہ سکتے ہیں۔ یہ ہمیں برائیوں کی طرف کھینچتا ہے، ذاتی لالچ اور خوغرضی پر اکساتا ہے، اپنے مفاد کے لیے سب کچھ کرگزرتا ہے۔ اس ذہنی حالت کو ہم اڈ ایکٹ آف پلیژر پرنسپل کہتے ہیں، یعنی ہر کسی کو ذاتی مفاد اور لالچ کی نظر سے دیکھنا۔ ایسے فرد کا رویہ جارحانہ سوچ سے بھرا ہوتا ہے۔ جارحانہ رویہ اور سوچ رکھنے والے لوگ مار دھاڑ والی فلمیں پسند کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے ’ریڈرز آف دی لوسٹ آرک‘ جیسی فلم ہٹ ہوگئی۔ عام طور پر اس فلم کو پسند نہیں کیا جانا چاہیے، لیکن جب دماغ میں ایگریشن یا نفرت کا شدید جذبہ موجود ہو تو ماردھاڑ سے بھرپور فلمیں ہی ہٹ ہوتی ہیں۔ اس پُرتشدد یا جارحانہ رجحان کی روک تھام کے لیے معاشرہ ہماری تعلیم و تربیت کرتا ہے۔ ماں باپ اور اساتذہ بھی مل کر ہمیں اچھائی برائی کا فرق سکھاتے اور سمجھاتے ہیں۔ سماج کو صحت مند تعلیم وتربیت فراہم کرنا میڈیا کی اہم ترین ذمے داری ہے، اگر میڈیا اپنی اخلاقی و سماجی ذمے داری پوری کرے تو ہم میں برائی کرکے لطف اندوز ہونے کے منفی رویّے جنم نہیں لے سکیں گے، بلکہ معاشرے میں اخلاقی اقدار اور اصولوں کی پاسداری کا رجحان پروان چڑھے گا جس کے باعث ہمارے اندر موجود دوسروں کو نقصان پہنچا کر مسرت پانے کے نفرت انگیز جذبات کمزور پڑ جائیں گے یا دب جائیں گے، لیکن آج آپ دیکھیں عجیب قسم کے چینل کھلے ہوئے ہیں جو آپ کو ’اڈ‘ یعنی نفسانی خواہشات کی طرف کھینچ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ معاشرے اور گھر یا ماں باپ اور اساتذہ سے ملنے والی تعلیم و تربیت اورکام کی جگہ سے ملنے والی اخلاقی تربیت کا نظام خاصہ کمزور پڑ چکا ہے، جس کی وجہ سے ہمارے طرزعمل سے اخلاقیات کا پہلو پسِ پشت چلا جاتا ہے اور ہم پر اڈ یعنی نفسانی اور شیطانی خواہشات کا پہلو حاوی ہوجاتا ہے۔ درمیان میں اڈ اور سپر ایگو میں توازن قائم کرنے والی طاقت ایگو پاور موجود ہوتی ہے جو کہ منطقی اور مثبت سوچ اپنانے کے اصول پر کام کرتی ہے۔ مثال کے طور پر ایک بچے کے اندر اڈ یعنی خودغرضی یا ایگریشن یعنی شدتِ جذبات کا رویہ ہوتا ہے، جب وہ کسی باغیچے میں جاتا ہے تو پھول توڑتا ہے اور چیزیں خراب کرکے خوش ہوتا ہے۔ لیکن ماں باپ، اساتذہ اور معاشرہ اسے اچھے برے کی تمیز سکھاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ مالی نے پیار سے پھول اگائے ہیں، پھول توڑنا یا باغیچے کو خراب کرنا اچھی بات نہیں ہے۔ اس طرح بچے میں خودغرضی کے جذبے کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے۔ اسی منطقی یا اصولی طاقت کو ہم ایگو پاور کہتے ہیں۔ اس سلسلے میں دوسری مثال یہ دوں گا کہ اڈ والی شخصیت کے سامنے اگر گرماگرم پکوڑے یا چٹ پٹی پھلکیاں بن رہی ہوں تو اُس کا دل چاہتا ہے کہ پکوڑوں پر جھپٹے اور سب کھا جائے، کسی کے لیے نہ چھوڑے۔ یہاں درمیان میں ایگو آجاتا ہے جو فرد سے کہتا ہے کہ تم یہ اچھا نہیں کروگے۔ کروگے تو پکڑے جائو گے، تمہاری بدنامی ہوگی۔ مطلب یہ کہ ایگو درمیان میں آکر ہمیں خودغرضی سے باز رکھتا ہے، ہمیں حقیقت پسند بناتا ہے۔ ہمیں ایگو کی طاقت کو پروان چڑھانا ہوگا۔ میری رائے میں ایگو والے لوگوں کو ٹیچنگ کے شعبے میں آنا چاہیے، لیکن ہمارے ہاں سب سے بے کار قسم کا طبقہ ٹیچنگ میں جاتا ہے۔ ہمارے مولوی حضرات اچھائیوں کی طرف رجحان پیدا کریں، اس سے بھی جرائم کا تناسب کم ہوگا۔ اگر ہم اچھائی کو فروغ دیں تو برائی سے بہت دور ہوجائیں گے۔ ہمارا خیال ہے کہ ہمیں خوشحالی، اچھائی، محبت کے رواج کو عام کرنا ہوگا جس سے جرائم کی شرح نیچے آسکتی ہے۔ شخصیت کی تعمیر خاندان سے شروع ہوتی ہے، آج کل ماں باپ بچوں سے یہ کیوں نہیں کہتے کہ صرف ڈگری نہ حاصل کریں، اچھے انسان بھی بنیں۔ ہمارے ہاں لوگ کہتے ہیں: یہ انسان نہیں فرشتہ ہے۔ انسان اشرف المخلوقات ہے۔ انسان بننا فرشتوں سے افضل ہے۔ اسے اچھا انسان بنائیں۔ لہٰذا ہمیں چاہیے کہ اساتذہ کو اسکولوں میں، کالجوں میں اور کمیونٹی کو بنانے پر توجہ دینی ہوگی۔ ہمیں اس پر بڑی سرمایہ کاری کرنا ہوگی۔ اداروں میں ہونے والے ظلم، زیادتیوں کو ختم کرنا ہوگا۔ اچھے اخلاق و کردار کو اجاگر کرنا ہوگا، تبھی جرائم کی شرح میں خودبخود کمی آسکے گی۔ اس میں تیسرا پہلو سائیکالوجیکل کے بعد سوشل تھا، جس کے تحت اگر ہمیں سماجی انصاف مل جائے، ہمارا تعلیمی معیار اور شرح تعلیم بہتر اور بے روزگاری ختم ہوجائے تبھی معاشرے سے جرائم کا سدباب ہوسکے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ انسان کی جو بنیادی ضروریات یعنی کھانا، پینا، ہوا، رہائش اورکپڑا ہے اگر سب کو مل جائے تو ملک میں خودبخود بہت حد تک جرائم ختم ہوجائیں گے۔ میں یہ کہوں گا کہ ہم جتنا خرچہ ہتھیاروں پر کررہے ہیں اُس کا آدھا زراعت پر کریں تو لوگ رزق کی فراوانی کے باعث دنگا فساد ترک کردیں گے۔ سماج کے سدھار کے لیے انسان کی بنیادی ضروریات ضرور پوری ہونی چاہئیں۔ صورتِ حال یہ ہے کہ 20گریڈ کا افسر ڈیفنس میں گھر نہیں خرید سکتا۔ اس کے لیے یا تو وہ رشوت لے گا، چوری کرے گا، یا دوسرے جرائ گا۔ اس قسم کی غیرسماجی سرگرمیوں سے نکلنے کے لیے اچھے انسان، اچھے بچے، اچھے طالب علم، معاشرے کے لیے مہذب شہری بنانے کے لیے منظم انداز میں کام کرنا ہوگا جو نہیں ہورہا ہے۔ میڈیا چینل بے لگام گھوڑے بن چکے ہیں۔ دوسری طرف والدین، ٹیچر، مولوی کردار سازی کے لیے عملی نمونہ نہیں بن رہے ہیں، جس کی وجہ سے لوگ اچھائی کی جانب راغب نہیں ہورہے۔ اگر انھیں اچھائی کی جانب راغب کیا جائے تو جرائم میں کمی ضرور واقع ہوگی۔ آپ تعلیم کو فروغ دیں، اس کے لیے ہمیںبہت سے خرچے کم کرنا پڑیں گے۔ مثلاً تعلیم کی شرح کو 90 فیصد پر لائیں تو خاندانی منصوبہ بندی کے محکمے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ اگر ہم اجتماعی طور پر یہ کہیں کہ ہم سب کی اچھائی، سب کی بھلائی میں ہے تو یقینا کرائم کنٹرول ہوجائے گا۔ اس میں تعلیم کا اہم کردار ہے۔ ہمارے سیاست دان کے ذہنی معیار کو جانچنے کی ضرورت ہے کہ اس کا دماغ مثبت طریقے سے کام کررہا ہے یا نہیں۔ ہمارے ہر ادارے کو اپنا کام بڑی خوبی کے ساتھ کرنا چاہیے اس وژن اور مشن کے ساتھ کہ ہمیں ملک کو یا اس خطے کو صاف ستھرا اور پُرامن بنانا ہے۔ ہمیں آخرت پر نظر رکھنا ہوگی۔ دنیا کا یہ تھوڑا سا کھیل ہے، اس کے بعد ہمیں آخرت کا سامنا ہوگا۔ محبت اگر عام ہوجائے تو نفرتوں اور جرائم کا قصہ تمام ہوجائے۔ میری تجویز یہ ہے کہ والدین اپنا کردار ادا کریں۔ تعلیم کا تناسب بڑھایا جائے۔ اس میں مثالی کردار والے اچھے اساتذہ لائے جائیں جو اخلاق سنوارنے پر زیادہ زور دیں۔ اچھے انسان بنائے جائیں، نہ کہ محض طالبِ ڈگری تیار کیے جائیں۔ اس کے ساتھ عدالتی نظام کی اصلاح کی بھی اشد ضرورت ہے۔ ملکی ترقی اور خوشحالی کے لیے نئی سے نئی ٹیکنالوجی کو بروئے کار لایا جائے۔ اس طرح ہمارا پاک وطن جرائم سے پاک اور امن کا گہوارہ بن سکتا ہے۔ ان شاء اللہ۔
شرف الدین میمن
سابق سربراہ سی پی ایل سی
بحیثیت سابق سربراہ سی پی ایل سی میں کراچی کے حوالے سے بات کرنا چاہوں گا۔ کراچی کے امن وامان کے حوالے سے سب سے بڑا مسئلہ اسٹریٹ کرائم کا ہے۔ یہ ڈھائی کروڑ آبادی کا شہر ہے جس میں صرف 35 ہزار پولیس والے کام کررہے ہیں۔ 7 ہزار پولیس والے انتہائی اہم شخصیات کی حفاظت اور خدمت پر لگا دیئے جاتے ہیں۔ باقی 28 ہزار نفری میں سے8 ہزار تو حساس عمارتوں کی نگرانی پر بھی مامور ہوگی۔ باقی 20 ہزار کی نفری جس کے پاس بہتر ہتھیار ہیں نہ مناسب تعلیم و تربیت، ان کے حالاتِ کار بھی اچھے نہیں ہیں۔ ایسی پولیس کیسے بہترین کارکردگی دکھا سکتی ہے! اس کے باوجود کراچی میں جرائم کی شرح جرائم میں اوّل دس شہروں سے بہت کم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس اپنی سکت اور صلاحیت سے زیادہ کارکردگی دکھا رہی ہے۔ کہا جاتا ہے پولیس کو فنڈز کی شدید کمی کا سامنا ہے، لیکن پولیس کے لیے اربوں کھربوں کے فنڈز مختص کیے جاتے ہیں۔ یہ جاتے کہاں ہیں؟ اس کا پتا لگانا ہوگا۔ ورنہ جتنے فنڈز پولیس کو ملتے ہیں اُن سے پولیس کی صلاحیت، اہلیت اور کارکردگی میں بہت اضافہ کیا جاسکتا ہے۔ جرائم میں اضافے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ پولیس کو سائنسی بنیاد پر کھڑا نہیں کیا جارہا۔ سیاسی لوگ سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے پولیس پر دبائو ڈال کر اسے غیر قانونی اقدامات پر مجبور کرتے ہیں۔ اس سے پولیس بھی کرپٹ ہوتی ہے۔ پولیس کو جب رشوت، سفارش، سیاسی اور گروہی مقاصد کے لیے بھرتی کیا جائے گا تو پولیسں کی توجہ عوام کی حفاظت کے بجائے نوکری دلانے والوں کے مفادات کو پورا کرنے پر لگی ہوگی۔ یہی عناصر کرپٹ پولیس افسروں اور اہلکاروں کو تحفظ فراہم کرتے ہیں۔ اس کلچر کو بھی تبدیل کرنے کی ناگزیر ضرورت ہے، تبھی پولیس کرپشن سے بہت حد تک پاک اور عوام کی خادم ثابت ہوسکتی ہے۔ ایک اور مسئلہ بہت اہم ہے، وہ یہ کہ کراچی میں دہشت گردوں اور سیاسی انتہا پسند گروہوں کی جانب سے پُرتشدد واقعات کی طویل لہر نے کراچی کی معاشی سرگرمیوں کو بری طرح متاثر کیا، جس سے نوجوان نسل کے لیے روزگار کے مواقع نہیں رہے، نتیجتاً نوجوان اور پڑھا لکھا طبقہ بھی اسٹریٹ کرائم اور چوری ڈکیتی میں ملوث ہوگیا، جو ایک قوم کے لیے کسی المیے سے کم نہیں۔ اگر آپ واقعی کراچی کو جرائم کی دلدل سے نکالنا چاہتے ہیں تو نوجوانوں کو روزگار دینا ہوگا۔ اغوا برائے تاوان کو بڑی حد تک کنٹرول کرنے میں سی پی ایل سی نے بہت کام کیا۔ پولیس نے بھی اس میں بھرپور کردار ادا کیا۔ رینجرز کا اغوا برائے تاوان کی وارداتوں کو جڑ سے اکھاڑنے میں بہت منظم اور قابلِ ستائش بلکہ ناقابلِ فراموش کردار ہے۔ سی پی ایل سی نے ابتدا ہی سے اس لعنت پر قابو پانے کے لیے سائنسی بنیادوں پر کام کیا اور سرخرو ہوئی۔ ایک اور پریشان کن صورتِ حال کا کراچی والوں کو سامنا ہے، وہ یہ کہ جس شہر میں مجرمانہ سرگرمیوں کی نگرانی کے لیے ایک لاکھ دس بارہ میگاپکسل کے اسٹریٹ کیمروں کی اشد ضرورت تھی وہاں ہماری حکومت نے دو یا تین میگا پکسل کے پانچ ہزار کی تعداد میں نہایت معمولی کیمرے لگائے، جن میں سے اکثر خراب رہتے ہیں۔ اس انداز سے شہر میں کس طرح مجرموں کو قابو کیا جاسکتا ہے! جہاں تک پولیس اور شہریوں میں اعتماد اور اعتبار قائم ہونے کا مسئلہ ہے پولیس شہریوں کا اعتماد حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے۔ آج بھی شہری شکایت لے کر تھانے جانے سے خوفزدہ رہتے ہیں۔
بیرسٹر ایٹ لا شاہدہ جمیل
سابق وزیر قانون
ہمارا المیہ یہ ہے کہ ملک میں بڑھتے ہوئے جرائم کے اسباب کو سنجیدگی سے نہیں لیا گیا، اور نہ ان کے سدباب کے لیے سنجیدہ کوششیں کی گئیں، بلکہ ہمارے حکمرانوں نے ملک کے قانونی ڈھانچے میں مرضی کی ترامیم کرکے مجرموں کو قانون کی گرفت سے بچ نکلنے کے مواقع فراہم کیے۔ گزشتہ چالیس سال کے دوران ہمارے قانون سازوں نے انگریز کے بنائے ہوئے قوانین کو تبدیل کرنے کی آڑ میں ایسی مایوس کن تبدیلیاں کیں جن سے مجرموں کو قانون کی گرفت میں لانا نہ صرف مشکل ہوگیا ہے بلکہ انھیں سزائیں دلانا بھی آسان نہیں رہا ہے۔ ادھر دہشت گردی کے قوانین کی تعریف کو اس قدر پیچیدہ بنادیا گیا ہے کہ دہشت گردوں پر پولیس کے لیے ہاتھ ڈالنا ممکن نہیں رہا۔ جبکہ ترمیم شدہ قوانین کے تحت دہشت گردوں کو قرار واقعی سزائیں دی ہی نہیں جاسکتیں۔ بحیثیت وزیر قانون چند سیشن ججوں کی نشاندہی پر میں نے دہشت گردی کے قوانین کی تعریف کو آسان تر بنایا، جس سے دہشت گردوں کو سزائیں دلانا ممکن ہوا، لیکن میری وزارت کے بعد ان ترمیمات کو ختم کراکے اور نئی ترامیم کرکے قوانین کو دوبارہ پیچیدہ بنادیا گیا۔ اس کے بعد دہشت گردوں کو قانون کی گرفت میں لانا مزید مشکل ہوگیا۔ میں کہتی ہوں اس پورے ایجنڈے میں ایک شر ہے جو کسی چیز کو صحیح نہیں ہونے دیتا، جس کی وجہ سے معاملات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ پولیس قوانین کے حوالے سے ایک بہت افسوسناک پہلو پر بات کرنا چاہوں گی، وہ یہ کہ پولیس کے زیراستعمال ایک بلیو بک ہوتی ہے، یہ ملکی قوانین سے بالاتر ہے، اس میں آئی جی یا کوئی سینئر افسر اسٹینڈنگ آرڈر یعنی عملدرآمد کا حکم درج کرتا رہتا ہے، جس پر ملکی قانون کی طرح عمل کرنا ہوتا ہے۔ میں قانون سے بالا اس بلیو پولیس آرڈر بک کو ایک مثال سے واضح کرنا چاہوں گی۔ اس بلیو پولیس اسٹینڈنگ آرڈر بک کے تحت اگر شوہر بیوی پر تشدد کرے تو پولیس گھریلو تنازع قرار دے کر شوہر کے خلاف قانونی کارروائی نہیں کرتی، جب کہ ملکی قانون کے مطابق یہ قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے، لیکن پولیس خودساختہ حکم کے بموجب ملکی قانون کو نظرانداز کرکے کارروائی نہیں کرتی۔ جب تک بیوی شوہرکے تشدد سے مر نہ جائے، پولیس حرکت میں نہیں آتی۔ یہ بلیو بک کس نے ایجاد کی، کس قانون کے تحت رائج کی گئی؟ کوئی بتانے کو تیار نہیں ہے۔ جرائم بڑھنے کی ایک اہم وجہ یہ بھی ہے کہ ہماری حکومتوں نے قوانیں تو اچھے خاصے بنالیے ہیں لیکن ان پر سیاسی دبائو یا مذموم مقاصد کی بنا پر عمل نہیں کیا جاتا، پھر ظاہر ہے جرائم تو بڑھنے ہی ہیں۔ ہم نے ان ستّر برسوں میں قوانین میں جو ترامیم کی ہیں اُن سے قانون کی گرفت مضبوط ہونے کے بجائے ڈھیلی پڑی ہے۔ اس سے بھی جرائم میں اضافہ ہورہا ہے۔ مجرموں کے سزاؤں سے بچ جانے کی نظیروں اور مثالوں سے بھی لوگو ں میں جرائم کرنے کی ہمت اور دلیری پیدا ہوتی ہے، جس سے معاشرے میں جرائم کا رجحان بڑھتا ہے۔ ابتدا میں ہمارے نصابِ تعلیم میں کردار سازی کے اسباق شامل تھے۔ پھر قومی نصاب سے کردار سازی اور اخلاقیات کے ابواب نکال دیئے گئے جس سے قوم میں اخلاقی انحطاط آیا۔ اس بنا پر مجرمانہ ذہینت پروان چڑھی جس سے جرائم بڑھے۔ ان تمام عوامل کا سدباب یا حل یہی ہے کہ قوانین بلا سیاسی مداخلت بنانا اور ان پر عملدرآمد ہونا چاہیے۔ آبادی میں اضافے کے حوالے سے ہمیں اپنی قومی ذمے داریوں کا احساس ہونا چاہیے، ورنہ معاشرہ جرائم کا بوجھ برداشت نہیں کرسکے گا۔ ہمارے قانون میں جو غلطیاں ہیں، ہمیں انھیں دیکھنا پڑے گا۔ وہ ایسی غلطیاں ہیں جن سے مجرم کو سزا دلانے کا پورا طریقہ کار خراب ہوگیا ہے۔ ہم قانون پر اُس وقت سمجھوتہ کرتے ہیں جب گواہوں کو یہ اختیار دیتے ہیں کہ وہ قانون پر سمجھوتہ کرسکتے ہیں، باقاعدہ غائب ہوسکتے ہیں۔ یہ جو چیز ہے یہ آہستہ آہستہ ہمارے قانون دیت کے اندر باقاعدہ لائی گئی اور اس کی وجہ سے اسلام بدنام ہوتا ہے۔ اس کا اسلام اور شریعت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قصاص کے قانون میں پہلے ثابت کرنا ہوتا ہے کہ کوئی مجرم ہے، تب یہ مرحلہ آتا ہے کہ اس کے ساتھ کیا کیا جائے۔ ہم ٹرائل سے قبل ہی سمجھوتہ شروع کردیتے ہیں۔ اس طرح ٹرائل شروع ہونے سے پہلے ہی ملزم چھوٹ جاتا ہے۔ اس کا شریعت سے کوئی تعلق نہیں، بلکہ شریعت میں لازم ہے کہ آپ صحیح طریقے سے ٹرائل کو چلائیں، ٹرائل میں کوئی خلل یا سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس پر بہت سی آیات ہیں، یہ کہ ہمیشہ سچ بولو اور مقدمہ چلانے میں تعاون کرو تاکہ انصاف ہو۔ ہم مک مکا کرکے گواہان کو بھگا دیتے ہیں۔ ہم کچھ نہیں کہتے۔ قانون اور انصاف پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس طرح کے سمجھوتوں سے مجرم چھوٹ جاتے ہیں جس سے معاشرے میں جرائم بڑھتے ہیں۔ ایک بات اور ہے، وہ یہ کہ ہم نے دیکھا پولیس کو قانون اور کرمنل پروسیجر کوڈ نہیں پڑھایا جاتا۔ اکثر پولیس والوں کی تعلیم بھی کوئی خاص نہیں۔ ان کا سماجی فہم بھی زیادہ نہیں ہوتا۔ انگریز نے یہ دیکھ کر کرمنل لا بنائے تھے کہ سماج میں جرائم کی نوعیت بدل رہی تھی، تعلیم یافتہ مجرم سامنے آرہے تھے، وہ جرائم کے لیے جدید طریقے اختیار کررہے تھے۔ 1934ء کے پنجاب پولیس رولز کے مطابق تعلیم یافتہ مجرموں سے نمٹنے کے لیے ایک سب انسپکٹر یا انسپکٹر کی تعلیمی قابلیت گریجویٹ یا ایچ ای سن کالج سے ڈپلومہ یافتہ ہونا تھا۔ لیکن ہم نے کیا کیا! ہم نے سات جماعت یا میٹرک پاس بھرتی کیے جو اکثر جعلی اسناد اور رشوت کے ذریعے آتے ہیں۔ جس کے پاس رشوت دینے کے لیے فرض کریں تین لاکھ روپے نہیں ہیں، اسے رشوت کے لیے تین لاکھ فراہم کرنے والا اُس سے کروڑوں روپے کمائے گا۔ آج کل کے زمانے میں فرانزک ثبوتوں کو دنیا بھر میں اولین اہمیت دی جارہی ہے، اس کے لیے لیب ہیں جن میں ڈی این اے ٹیسٹ ہورہے ہیں۔ ہم اب بھی بیانی گواہی پر اٹکے ہوئے ہیں۔ اس کے لیے صوبوں میں جدید فرانزک لیب ہونی چاہئیں، تبھی اصل مجرم سائنسی بنیاد پر اپنے انجام کو پہنچ سکتے ہیں
زاہد حسین
استاد، ریسرچ اسکالر
جرم کی علمی تعریف یہ ہے کہ کوئی بھی چیز قانون کے خلاف ہے اور اس کے ساتھ سزا موجود ہے، اس کو ہم جرم کہتے ہیں۔ لیکن جرم کی بات کی پہلے سوشیالوجی آف لاز یعنی قانون کی سماجیات یا سماجی تعبیر کی بات ہوگی کہ کس معاشرے میں کون سی چیزیں جرم بنیں گی اور کون سی چیزیں جرم نہیں بنیں گی۔ جرم کے مختلف تناظر ہیں۔ ایک ڈاکٹر جب ایک جرم کو دیکھتا ہے تو اس میں بائیولوجیکل ریزن تلاش کرتا ہے۔ ایک ماہر نفسیات جرم کو دیکھتا ہے تو نفسیاتی محرکات اور اسباب تلاش کرتا ہے۔ اور ایک سوشل سائنٹسٹ جرم کے سماجی اسباب تلاش کرتا ہے۔ یہی تین بنیادی تناظر ہیں معاشرے میں جرم کو دیکھنے کے۔ معاشرے میں جرم پیدا ہونے کے کئی طریقے ہیں جو بیک وقت کام کررہے ہوتے ہیں۔ جرم کو جاننا اس لیے ضروری ہے کہ کسی بیماری کی تشخیص اس کے علاج کے لیے بہت ضروری ہے، اور بغیر تشخیص کے ہم علاج نہیں کرسکتے۔ ہر معاشرے میں جرم کے لحاظ سے قانون سازی کے کچھ اُصول ہیں۔ ایک اُصول وہ ہے جو عالمی سطح پر تسلیم شدہ ہے، جو کام پوری دنیا میں جرم مانا جائے اس کو ہم جرم کہتے ہیں۔ دوسری چیز وہ ہے جو کسی بھی ملک، کسی بھی معاشرے اور کسی بھی مذہب کے مطابق ہوتی ہے جس کے اندر سوسائٹی کے پاس اس بات کا اختیار ہوتا ہے کہ اسے جرم قرار دے یا نہ دے۔ امریکہ میں شراب ایک زمانے میں غیر قانونی رہی، آج قانونی ہے۔ اسقاطِ حمل غیر قانونی رہا، آج قانونی ہے۔ اسی طرح کوئی بھی معاشرہ اپنے اُصولوں کے لحاظ سے کسی چیز کو کسی دور میں جرم قرار دے سکتا ہے اور کسی دور میں نہیں۔ آپ ضرورت سمجھیں تو ڈبل سواری جرم ہے۔ اگر ترکی میں ضرورت سمجھی گئی تو نماز پڑھنا بھی جرم بن گیا۔ اس کا مطلب ہے قانون کا تعلق صرف اُن قوانین سے ہے جن کو آپ اپنے حالات و واقعات اور ضرورت کے لحاظ سے طے کرتے ہیں۔ ان قوانین کا بننا اور ان پر عمل درآمد ہونا… یہ بہت ساری ایسی اقدار پیدا کرتا ہے جس کے نتیجے میں معاشرے کا سوشل فیبرک ٹھیک رہے گا یا خراب ہوگا۔ جب میں نے بات کی کہ میں سوشل ایرینا پر بات کروں گا تو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ پاکستانی معاشرے کو جب ہم دیکھتے ہیں تو یہاں بالعموم یہ چیز پائی جاتی ہے کہ ایک تو سائیکالوجیکل اور بائیولوجیکل ریزن کو بیشتر لوگ نظرانداز کردیتے ہیں۔ مثلاً بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ناانصافی ہورہی ہے اس لیے ہم انتقاماً جرم کرتے ہیں، اگر ہم نے ناانصافی کی تو کیا جرم کیا! ایک اور چیز سمجھ لیں کہ جرم تک آدمی براہ راست نہیں پہنچتا، اس سے پہلے ایک چیز ہے جس کو ہم Deviation (گمراہی) کہتے ہیں، جس کے بعد آدمی جرم کی طرف جاتا ہے۔ دنیا بھر کے معاشرے اپنے یہاں Deviation کو کنٹرول کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو جرم بھی کنٹرول ہوجاتا ہے۔ مگر ہماری بدقسمتی یہ ہے کہ ہمارا پورا کرمنل جسٹس سسٹم ہے جس کے اندر پولیس بھی شامل ہے، عدلیہ بھی شامل ہے اور جیل بھی شامل ہے۔ جن جگہوں پر جرم پل رہے ہوتے ہیں ہم اُن جگہوں کو اُس وقت تک ایڈریس نہیں کرپاتے جب تک کوئی کیس رپورٹ نہ ہوجائے۔ پورا کرمنل جسٹس سسٹم اس بات کا محتاج ہے۔ جب تک آپ کوئی کرائم رپورٹ نہیں کرائیں گے اُس وقت تک وہ ایڈریس ایبل اس طرح نہیں ہے۔ لیکن کرائم رپورٹ ہونے سے پہلے کرائم پل رہا ہوتا ہے۔ اس کے پلنے کی مثال دیتا ہوں کراچی کے حالات کے حوالے سے۔ پچھلے دس سال میں کراچی میں تقریباً 15 سے 16 ہزار لوگ مارے گئے۔ دنیا میں اس پر اسٹڈیز ہوئی ہیں کہ جب کسی معاشرے کے اندر کوئی فیملی اپنے سربراہ سے محروم ہوجائے، بچے باپ سے محروم ہوجائیں، یا اس گھر کا کمانے والا نہ رہے تو اس کے نتیجے میں بچوں پر کیا اثر پڑتا ہے اور وہ بچے آگے چل کر کیا بنیں گے۔ یہ 15 ہزار فیملیاں ٹائم بم کی طرح کراچی کے معاشرے میں نصب ہیں جن کے بچے بغیر باپ کے پلیں گے، بغیر تعلیم یا بغیر معاش آگے بڑھیں گے تو یہ ہمارے ہاں مجرم بن کر پھٹنا شروع ہوجائیں گے۔ لیکن یہ چیز سوشیالوجی آف کرائم میں اسٹڈی کروا سکتی ہے۔ کوئی سی آر سی پی، سی پی سی اس پر کنٹرول نہیں کرسکتی، اس کے لیے قانون سازوں کو دیکھنا ہوگا کہ معاشرے میں وہ کون سی چیزیں ہیں جو آگے چل کر جرم کو جنم دے سکتی ہیں۔ دوسری چیز یہ بہت اہم ہے کہ سرمایہ دار معاشرے ہی اچیومنٹ آف گولز تبدیل کردیتے ہیں۔ جھونپڑی میں رہنے والے ایک غریب کے لیے بھی موبائل کا اشتہار سیم ہے، گاڑی کا اشتہار سیم ہے، ہوٹل سیم ہے، ریزورٹ سیم ہے، اچھی لگژریز سیم ہیں، لیکن ایک غریب آدمی کے پاس اس کے وے آف اچیومنٹ نہیں ہیں، گورنمنٹ اسکول بھی نہیں ہیں پڑھنے کے لیے۔ اس کے پاس بنیادی تعلیم نہیں ہے، روزگار نہیں ہے۔ جب معاشرہ گولز سیٹنگ میں چینلائز کرتا ہے اور اچیومنٹ کے اندر لوگوں کو کیٹگرائز کردے تو جو لوگ پیچھے رہ جاتے ہیں اُن میں کئی رویّے جنم لیتے ہیں۔ ایک رویہ یہ ہوتا ہے کہ چھین کر اپنا حق حاصل کرلو، اور دوسرا رویہ یہ ہوتا ہے کہ جن لوگوں کے پاس یہ حق ہے اُن کو اس قابل نہ رہنے دو کہ اس کو استعمال کرسکیں۔ یہ باغی کیٹگری ہے جس کو معاشرے کنٹرول نہیں کرپاتے۔
آپ کسی بائیولوجیکل کرمنل کے بارے میں علاج تشخیص کرسکتے ہیں، کسی سائیکاٹرک پرابلم کے ساتھ آپ علاج تشخیص کرسکتے ہیں۔ ایک آدمی جو اپنے معاشرے کا باغی ہو، یا جو یہ سمجھتا ہو کہ قانون پر عمل کرنا بے وقوفی ہے، جہالت ہے، حماقت ہے کہ میں بجلی کا بل پورا دوں، گاڑی جگہ پر پارک کروں، اپنے حصے کے سارے کام کروں… اُس کو آپ کس طرح ٹھیک کریں گے! آپ نے ایک چیز اور سنی ہوگی کہ دنیا بھر کی جیلوں کے اندر لوگ بہت بڑی تعداد میں مسلمان ہوجاتے ہیں۔ اس لیے کہ جو باغی رویہ ہے اس کو کوئی چیز کیئر کرسکتی ہے وہ Believe System کرسکتی ہے۔ جتنے سیکولر اور لبرل معاشروں نے متوازی ایک نظام دینے کی کوشش کی جس کو وہ کہتے ہیں پینٹازم۔ اپنے معاشرے میں اگر ہم سمجھنا چاہیں تو ہمیں اپنے معاشرے کی ترتیب کو دیکھنا پڑے گا کہ ہمارا معاشرہ بنا کس طرح ہے۔ پاکستانی معاشرے میں لوگوں کی بڑی تعداد مسلمان ہے، اس معاشرے میں ہم جرم کی بات کریں گے تو ہمیں یہ سمجھنا ہوگا کہ ہمارے معاشرے میں ناانصافی بھی ہے، ظلم بھی ہے، غربت بھی ہے، بے روزگاری بھی ہے۔ یہ تمام چیزیں جرم کو پالتی ہیں، لیکن کوئی پولیس والا بے روزگاری پر ایف آئی آر نہیں کاٹ سکتا، پولیس کا آئی جی نہیں کہہ سکتا کہ روزگار فراہم کریں، نہیں تو لوگ جرم کریں گے، آپ غربت ختم نہیں کریں گے تو لوگ جرم کریں گے۔ اس لیے کہ پولیس مجبور ہے اُس وقت تک جب تک آپ جرم رپورٹ نہیں کرتے۔ جب ہم معاشروں کی اصلاح کی بات کرتے ہیں تو معاشرے کے اجزائے ترکیبی کو دیکھنا بہت ضروری ہے۔ اس معاشرے میں کچھ چیزیں مسنگ ہیں۔ مذہب تو موجود ہے لیکن مذہب پر عمل مسنگ ہے۔ بلیو سسٹم (Believe System) کا کنکریٹ ہونا مسنگ ہے۔ اس ملک میں قوم مسنگ ہے۔ پاکستانی معاشرے میں جرم کا سدباب کرنے کے لیے بلیو سسٹم پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسرے جب ہم جرم کے سدباب کی بات تے ہیں تو ایجنسی اور کرائم کنٹرول کی بات کرتے ہیں۔ اس میں فارمل بھی ہیں، ان فارمل بھی۔ ان فارمل ایجنسیز میں ہم تعلیمی اداروں کی بات کرتے ہیں، فیملی کی بات کرتے ہیں، مسجد کی بات کرتے ہیں، یونیورسٹیوں کی بات کرتے ہیں۔ اس طرح کے تمام ادارے ان فارمل ایجنسیز آف کرائم کنٹرول پاکستان میں اپنا کردار ادا کررہے ہیں۔ کیا تعلیمی اداروں سے لوگ دوست بن کر نکل رہے ہیں۔ معاشرہ دوست بن کر نکل رہے ہیں یا معاشرتی دشمن بن کر نکل رہے ہیں؟ میں یونیورسٹی میں اپنے طالب علموں کو لیکچر دیتا ہوں کہ آپ نے چھالیہ کا ریپر نیچے پھینکا ہے اس طرح آپ نے اپنا نصف ایمان پھینک دیا، کیوں کہ حدیث یہ سکھاتی ہے۔ کوڑے کو زمین پر پھینکنے کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ نے اپنا آدھا ایمان نیچے پھینک دیا۔ کیونکہ صفائی ایمان کا حصہ ہے۔ دوسری اہم چیز جس سے پورے معاشرے کو واسطہ پڑتا ہے وہ فارمل ایجنسیز آف کرائم کنٹرول ہے۔ اس میں پہلے نمبر پر پولیس آتی ہے۔ پولیس وہ واحد ادارہ ہے جو کسی بھی ملک میں یہ احساس دلاتا ہے کہ ملک میں کوئی حکومت موجود ہے۔ پولیس کے ساتھ ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ پولیس والے مہارت کی بنیاد پر ہائر نہیں کرتے۔ ہمارے ہاں جتنی پولیسنگ ہورہی ہے وہ جاب ٹریننگ کے نتیجے میں ہے۔ لوگوں نے اپنی نوکریوں کے دوران چیزیں سیکھی ہیں۔ ہم نے ٹیکنیکلی غیر تربیت یافتہ لوگوںکو ہائر کیا ہے جنہوں نے پولیسنگ پر کام کیا ہے، انویسٹی گیشن میں کام کیا۔ وہ ادارہ ہمارے ہاں پولیس ہے جس کو ہم سمجھتے ہیں کہ یہ سب سے اہم ادارہ ہے۔ لیکن اس کی پوری کی پوری ہائرنگ کسی اہلیت کی بنیاد پر نہیں ہوتی۔ پرسنل کمپین کی بات نہیں کررہا، ایجوکیشنل اکیڈمک کمپین کی بات کر رہا ہوں۔ ہم یہاں نان اکیڈمک یا وہ لوگ ہائر کرتے ہیں جن میں کوئی اکیڈمک کمپین نہیں ہوتی۔ اس کے نتیجے میں ہوتا یہ ہے کہ اس شخص کو یہ نہیں پتا ہوتا کہ انویسٹی گیشن کی جدید سائنس کیا ہے۔ وہ الٹا لٹکا کر مارتا ہے، کیوں کہ اس نے یہی طریقہ سیکھا ہے۔ ہم پولیس کو بہت برا بھلا کہتے ہیں لیکن میری اپنی ذاتی ریڈنگ یہ ہے کہ حکمران پولیس کو بدلنا نہیں چاہتے۔ اس لیے کہ پولیس اُن کو ملی ہے برٹش انڈیا سے، جو محکوموں کو دبانے، اپنے مقصد کے لیے استعمال کرنے، اپنی حفاظت کے لیے اور اپنے سے دور رکھنے کے لیے ایجاد ہوئی ہے۔ اگر ہمیں ریفارم کرنا ہے اور فارمل ایجنسیز کی بات کرنی ہے تو پولیسنگ میں مہارت و اہلیت اکیڈمک بیسڈ ہائرنگ کرنی ہوگی۔ دنیا بھر کے معاشروں کو تبدیل کرنے سے پہلے ان کی سوشل انجینئرنگ اینالیسز ہوتی ہے۔ کسی معاشرے کی طاقتیں کیا ہیں اور کمزوریاں کیا ہیں، اس کی اپرچیونٹیز کیا ہیں اور تھریٹ کیا ہیں۔ پاکستانی معاشرے کی سائنس کے لیے ہم ان لوگوں کو استعمال کرتے ہیں جو پولیس والے ہوتے ہیں، آرمی والے ہوتے ہیں یا کسی ایجنسی سے تعلق رکھتے ہیں۔ اگر کسی معاشرے میں پولیسنگ مضبوط کرنی ہے تو اس معاشرے کی پہلے سوشل انگریڈینٹ کو، اس معاشرے کی وائٹل ویلیوز کو سمجھنا، ایکسپلور کرنا اور اس کے مطابق پروگرام تیار کرنا بہت ضروری ہے۔ جب تک ہم اس کو اکیڈمکلی ڈیل نہیں کریں گے تب تک ہم پاکستانی یا کراچی کے معاشرے میں کوئی اصلاح نہیں کرسکتے۔ کرائم کا سدباب کرنے کا بیسک ٹول پولیس ہے۔ پولیس کو حکمران اپنے لیے استعمال نہ کریں بلکہ اس کو کمیونٹی کی طرف لے کر آئیں۔ دنیا کے اندر جو نیا تصور ڈویلپ ہوا ہے وہ کمیونٹی پولیسنگ ہے، جیسے کراچی کی آبادی ایک کروڑ 80 لاکھ ہے، 20 یا 25 ہزار پولیس والے کیسے پولیسنگ کرسکتے ہیں! ہم میں سے ہر فرد اگر یہ سمجھے کہ یہ پولیس کا کام ہے، یہ پولیس کو کرنا ہے، میرا معاشرے میں کوئی کردار نہیں ہے، میں اسٹیک ہولڈر نہیں ہوں، مجھے معاشرے میں کوئی کردار ادا نہیں کرنا، تو آپ 20 ہزار کے بجائے 2 لاکھ پولیس والے بھی بھرتی کرلیں، ایک کروڑ 80 لاکھ کی آبادی کو کنٹرول نہیں کر سکتے۔
معاشرے کے اندر جو ناانصافی ہے، سماجی مسائل ہیں، غربت ہے، بے روزگاری ہے اس کے نتیجے میں ہمارے ہاں سب سے بڑا مجرموں کا گروہ بن رہا ہے۔ یہ میں اس لیے نہیں کہہ رہا کہ یہ میری رائے ہے، دنیا بھر میں معاشرے کو ناپنے کا یہ سائنٹفک طریقہ ہے کہ یہ مسئلہ آ کہاں سے رہا ہے۔ اس وقت بڑا مسئلہ یہ ہے کہ سینٹرل جیل میں چوری کے مجرموں کو جمع کیا جائے تو ہمارے ایک سیاست دان نے اس سے زیادہ پیسے چوری کیے ہوں گے۔ لیکن 10کروڑ روپے چوری کرنے والے آدمی کے پاس اس بات کی گنجائش موجود ہے کہ پانچ سات کروڑ روپے دے کر ڈیل کرلے، لیکن 10 ہزار روپے چوری کرنے والے کو ہم اس بات کا اختیار نہیں دیتے کہ باہر نکل سکے۔ اگر ایک عورت اپنے پیٹ کے لیے اپنا جسم بیچتی ہے تو آپ اس کو ذلیل سمجھ کر اس سے نفرت کرتے ہیں، جب وہ ماڈل بن جائے تو فیس بک پر فالو کر رہے ہوتے ہیں، یعنی جب اس کے ریٹ بڑھ جائیں اور و ہ ماڈل بن جائے اور اس کے فالوور بڑھ جائیںتو آپ اس کے پروگرامات کرنے لگتے ہیں۔ جب تک آپ معاشرے کے ان مسائل پر توجہ نہیں دیں گے اُس وقت تک میرا نہیں خیال کہ آپ کوئی اصلاح لا سکیں گے۔