چیئرمین سینیٹ کے انتخابات اور بلوچستان کی سیاست

پاکستان کی سیاسی تاریخ میں شایدیہ پہلا موقع ہے کہ چیئرمین سینیٹ کے لیے اراکین کی نظر انتخاب ایک گمنام اور غیر سیاسی شخصیت پر پڑی ہے۔ اس انتخاب نے دو متحارب سیاسی پارٹیوں پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف کو ہم آہنگ کردیا اورمسلم لیگ دیکھتی ہی رہ گئی۔ اور اس کا ردعمل ہمیں سینیٹ کے پہلے اجلاس میں اس وقت دیکھنے کو ملا جب سیاسی قائدین کو دعوت خطاب دی گئی۔نیشنل پارٹی کے سربراہ حاصل بزنجو کا خطاب ایک طرح سے ہیجان انگیز ردعمل تھا اور انہیں بار بار پی پی پی کے بعض ارکان روکتے رہے مگر حاصل بزنجو نے اپنی تقریر کو جاری رکھا اور چیئرمین سینیٹ بھی روکتے رہے کہ آپ تقریر نہ کریں صرف مبارکباد دیں‘ اس دوران چیئرمین سینیٹ گیلری میں بیٹھے ہوئے مہمانوں کو باہر جانے کا حکم صادر کرتے رہے۔ یہ ایک دلچسپ منظر تھا جس کو ایک دنیا دیکھتی رہی اور حاصل بزنجو نے کھل کر کہا اور اکثر و بیشتر پارٹیاں کا یہی موقف ہے کہ اس کھیل کے پیچھے بعض نظر نہ آنے والی قوتیں تھیں ۔
چیئرمین سینیٹ حلف اٹھانے کے بعد کوئٹہ پہنچے تو ایئرپورٹ پر صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا مجھے اسٹبلشمنٹ نے منتخب نہیں کرایا اور اس طرح کے الزامات درست نہیں ہیں اور کہا کہ میں وفاق اور صوبے میں پل کا کردار ادا کروں گا۔ میں نے چیئرمین سینیٹ بننے کے لیے تمام قانونی تقاضے پورے کیے۔ حزب اختلاف کا عتراض ان کے قانونی تقاضوں کے حوالے سے نہیں تھا بلکہ ان کا موقف یہ تھا کہ انہیں خفیہ ہاتھوں نے اس مقام پر پہنچایا ہے۔ سینیٹ میں بلوچستان کے اراکین کا جو آزاد گروپ تشکیل پایا ہے اس میں ہم آہنگی نہیں ہے۔ چند دن قبل انوار الحق کاکڑ نے کہا کہ ہم میں سے کوئی پی پی پی میں جائے یا پی ٹی آئی میں شمولیت اختیار کرے تو اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ 18 مارچ کو چیئرمین سینیٹ نے میڈیا سے گفتگوکرتے ہوئے کہا کہ بلوچستان سے نومنتخب چھ سینیٹرآزاد تھے اور آزاد ہی رہیں گے او رکہا کہ میں پھر کہتا ہوں کہ آزاد سینٹروں کا گروپ کسی پارٹی میں شمولیت اختیار نہیں کرے گا۔ ہمارے 6 سینیٹروں نے محنت کی تو ہمیں 56 سینیٹروں کی حمایت حاصل ہوگئی اور ساتھ ہی کہا کہ پی ٹی آئی اور پی پی پی کا مشکور ہوں کہ انہوں نے میری حمایت کی اور کہا کہ میں نواز شریف کا احترام کرتا ہوں‘ وہ بزرگ سیاستدان ہیں۔ ان کے اعتراضات کا جواب نہیں دوں گا۔
اپنے علاقے دالبندین پہنچے تو وہاں گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ میرے خلاف عدم اعتماد کامیاب نہیں ہوسکتی کیونکہ مجھے اکثریت کی حمایت حاصل ہے۔ میرے بارے میں نواز شریف کا پوچھنا کہ میں کہاں سے آیا ہوں‘ ان کو جواب یہ ہے کہ میں عوام میں سے آیا ہوں ۔ حاصل بزنجو کے بارے میں سوال کے حوالے سے کہا ان کو جواب نہیں دوں گا اور کہا کہ پی ٹی آئی‘ پی پی اور فاٹا کے ارکان میرے ساتھ ہیں۔ اس انتخاب پر اے این پی کے قائد اسفندیار نے کہا کہ سینیٹ میں گھوڑے نہیں بلکہ گھوڑوں کے اصطبل بکے ہیں نواز شریف اور زرداری ایک ہی سکے کے دورُخ ہیں۔
بلوچستان اسمبلی کے رکن اور وزیر داخلہ نے نواز شریف کی تنقید کے جواب میں کہا کہ نواز شریف الزامات کی بجائے اپنے مقدمات کا سامنا کریں ہمیں مجبور نہ کریں ورنہ اگر ہماری زبان کھل گئی تو لوگوں کو چھپنے کی جگہ نہیں ملے گی اور کہا کہ بلوچستان سے منتخب ہونے والے چیئرمین صادق سنجرانی انتہائی قابل اور سیاسی شخصیت ہیں‘ سابق وزیراعظم کا تنقید کرنا روایات اور جمہوریت کے خلاف ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان آہستہ آہستہ سیاسی شوخیاں اختیار کرتے چلے جارہے ہیں اب اس انتخاب کے بعد انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اب آئندہ وزیراعظم بلوچستان سے لانے کے لیے فائٹ کریں گے۔سینیٹ کے انتخابات میں ہمیں قوم پرستوں نے مایوس کیا ہے انہوں نے محمود خان اچکزئی پر تنقید کرتے ہوئے کہاکہ انہیں جمہوریت پر بات کرنے سے پہلے اپنی پارٹی میںالیکشن کرانا چاہئیں۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔ سینیٹ کے انتخابات پر محمود خان اچکزئی نے کہا کہ سینیٹ الیکشن میں پاکستان کی بربادی کی بنیاد رکھ دی گئی ہے‘ اس انتخاب میں جمہوری لوگوں نے جمہوریت کا جنازہ نکال دیا ہے اب ایسا قانون بنانا چاہیے کہ جو رکن ووٹ بیچے اس کو مینار پاکستان پر سرعام لٹکادینا چاہیے۔ سینیٹ انتخابات میں اربوں روپے خرچ کیے گئے۔ 9 مارچ کو آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے سینئر اینکر پرسن سے ملاقات میں کہا کہ ’’بلوچستان میں تبدیلی سے ہمارا کوئی تعلق نہیں ہے‘ ہم ملک میں مضبوط جمہوریت چاہتے ہیں اور کہا کہ سیاست دان کیوں ایجنسیوں سے رابطے کرتے ہیں؟ فوج ‘آئین‘ عدلیہ اور قانون کے ساتھ کھڑی ہے۔ فوج سیاست سے الگ ہے ایک مضبوط پاکستان چھوڑ کر جانا چاہتا ہوں۔ ان کا بیان دلچسپ ہے انہیں کہنا چاہیے تھا کہ میں ایک مضبوط فوج چھوڑ کر جانا چاہتا ہوں۔ مضبوط پاکستان تو سیاسی پارٹیوں کا کام ہے فوج کا کام نہیں ہے‘ ایک سوال یہ بھی ان سے پوچھا جانا چاہیے کہ ایجنسیاں کیوں سیاست دانوں سے رابطے کرتی ہے اور کہا کہ اسلام آباد میں دھرنا میں نے ختم کرایاتھا۔‘‘
حاصل بزنجو نے ایک اور بات 9 مارچ کو انٹرویو دیتے ہوئے یہ کہی کہ بلوچستان کے آزاد سینیٹروں کا تعلق بلوچستان سے نہیں بلکہ یہ عسکری گروپ ہے‘ یہ حقیقی نمائندے نہیں ہیں ہم حقیقی نمائندے ہیں بلوچستان کا مسئلہ یہ نہیں ہے کہ چیئرمین سینیٹ بلوچستان سے ہو‘ اس سے بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ چیئرمین سینیٹ نے 18 مارچ کو میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں منحرف گروپ نہیں کہا جائے‘ اب ہم ایک سیاسی جماعت بن چکے ہیں۔32 ارکان صوبائی اسمبلی اور 6 سینیٹروں کا گروپ ہے اورہم نے بلوچستان کی نمائندگی کا حق اد اکیا ہے او رہم پی پی پی میں شامل نہیں ہوں گے۔ بلوچستان نیشنل پارٹی نے اعلامیہ جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ بلوچستان کے مسئلہ کو سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے‘ صرف چیئرمین سینیٹ منتخب ہونے سے بلوچستان کی محرومیوں کا خاتمہ ممکن نہیں ہے۔ صادق سنجرانی کے چیئرمین بننے سے چند لوگوں کو تو فائدہ ہوسکتا ہے لیکن بلوچستان کے عوام کو نہیں ہوسکتا اور نہ ہی اس کی محرومیاں ختم ہوسکتی ہیں ۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ صرف چیئرمین سینیٹ بننے سے بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا ہے‘ ڈپٹی چیئرمین سینیٹ ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ منتخب ہوئے ہیں لیکن بلوچستان کا مسئلہ جوں کا توں ہی رہا ہے۔
مسلم لیگ ن ‘ جمعیت علماء اسلام اور جمہوری وطن پارٹی کے ڈپٹی چیئرمین بنے ہیں اس سے عام لوگوں کو فائدہ پہنچا نہ بلوچستان کا مسئلہ حل ہوا۔
یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ میر ظفر اللہ جمالی بلوچ تھے اور وہ جنرل پرویز مشرف کے دو رمیں وزیراعظم تھے۔ اہل بلوچستان کو اس کا کیا فائدہ ہوا اس کا جواب نہ ظفر اللہ جمالی کے پاس ہے او رنہ موجودہ چیئرمین کے پاس ہے۔ جناب ظفر اللہ خان جمالی اپنے دور وزارت عظمیٰ میں جنرل مشرف کو ’’باس‘‘ کی رٹ لگاتے رہے اس سے قبل بلخ شیریںمزاری بھی نگراں وزیراعظم بنے۔ لیکن بلوچستان کا مسئلہ حل نہیں ہوا۔ بلوچستان اور چھوٹے صوبوں کے مسئلہ کے حل کے لیے آئین میں تبدیلی کی ضرورت پڑے گی۔ صرف لفاظی سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
بلوچستان کے وزیراعلیٰ کے خلاف ہائی کورٹ میں رٹ دائر کی گئی ہے اور ان کے وزارت اعلیٰ کے منصب کو چیلنج کیا گیاہے۔ درخواست میں یہ موقف اختیار کیا گیا ہے کہ ہائوس میں 64ارکان ہیں اور حزب اختلاف کی تعداد 36 ہے یوں وزیراعلیٰ کو ایوان میں اکثریت حاصل نہیں ہے دوسری جانب مولانا عبدالواسع نے عبدالرحیم زیارت وال کے خلاف درخواست دی ہے او ران کے حزب اختلاف کے عہدے کو چیلنج کیا ہے او ریہ موقف اختیار کیاہے کہ وہ ساڑھے چار سال تک حزب اقتدار کا حصہ تھے اب کس طرح وہ قائد حزب اختلاف بن سکتے ہیں۔ ساڑھے چار سال تک جمعیت کے مولانا عبدالواسع قائد حزب اختلاف تھے جب پشتون خواہ ‘ نیشنل پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی حکومت تھی ۔ اب ان کا تعلق حکومتی پارٹی سے ہے ‘ انہوں نے قدوس بزنجو کو ووٹ دیا اور نواب ثناء اللہ زہری کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد پر دستخط کیے تھے۔
جمعیت علماء اسلام کا کردار کچھ عجیب ہے‘ وفاق میں وہ نواز شریف کے ساتھ ہے صوبہ کے پی میں وہ نواز شریف کے ساتھ ہے اور پی ٹی آئی کے مخالف ہے اور بلوچستان میں وہ عین اس موقع پر جب مسلم لیگ کو ان کی ضرورت تھی انہوں نے ق لیگ کے قدوس بزنجو کی حمایت کی اور حکومت میں وزیراعلیٰ کے ساتھ ان کے ممبر مشیر کے عہدے پر فائز ہیں۔اور سینیٹ میں ان کے تین ممبران اسمبلی خاموش سے اس طرف چلے گئے جہاں چمک تھی او ران کے صوبائی امیر ہارتے ہارتے رہ گئے اور نواب ثناء اللہ کے ووٹ نے انہیں سینٹ میں بھیجا یہ مولانا فیض محمد ہیں۔بلوچستان کی سیاست نے سینیٹ میں اہم کردار ادا کیا ہے ‘ اس کی پشت پر کون تھا ابھی تک یہ پردہ راز میں ہے ‘مستقبل اس کو کھول دے گا۔